- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ تعالیٰ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت
سیّدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''غزوۂ خیبر'' والے دن فرمایا:
((لَأُعْطِیَنَّ ھَذِہِ الرَّأیَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔ قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ: أَیُّھُمْ یُعْطَاھَا؟ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَرْجُوْ أَنْ یُعْطَاھَا، فَقَالَ: أَیْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ؟ فَقِیْلَ ھُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ یَشْتَکِيْ عَیْنَیْہِ۔ قَالَ: فَأَرْسَلُوْا إِلَیْہِ۔ فَأُتِيَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي عَیْنَیْہِ وَدَعَا لَہُ فَبَرأ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ۔ فَقَالَ عَلِيٌّ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَقَاتِلُھُمْ حَتَّی یَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: أُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی الْاِسْلَامِ، وَاخْبِرْھُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْھِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَھْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔))1
''کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔'' راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزرگئی کہ دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں۔ صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، اس امید کے ساتھ کہ جھنڈا اسے ہی ملے گا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ابوطالب کے بیٹے علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ: اے اللہ کے رسول! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انہیں بلا لاؤ۔'' جب وہ لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہوگئیں جیسے پہلے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ اور پھر نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا تھمادیا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھال کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا حتیٰ کہ وہ ہمارے جیسے (مسلمان) ہوجائیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یوں ہی چلے جاؤ حتیٰ کہ ان کے میدان میں اُتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ عزوجل کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔''
یہ تھے سیّدنا علی بن ابوطالب بن عبد المطلب بن ہاشم قریشی ہاشمی رضی اللہ عنہ ابوالحسن و الحسین رضی اللہ عنہما ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی۔ جناب علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پرورش و تربیت بچپن سے ہی نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ اور پھر جب جوان ہوگئے تو ان کی شادی اپنی لخت جگر سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی جناب علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور اپنی وفات حسرت آیات تک کبھی ان کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔ جب دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے تو آپ جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے راضی تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ بالجنہ میں ہوتا ہے۔ آپ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شوریٰ کے چھ ارکان میں سے ایک رکن تھے اور خلفائے راشدین میں سے ساداتنا ابوبکر و عمر اور عثمان بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ برحق تھے۔ رضی اللہ عنہم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري، في کتاب المغازي، باب : غزوۃ خیبر۔ ۴۲۱۰۔