- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
مزید تفصیل کیلئے درج ذیل تھریڈ دیکھئے :
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟
و علیکم ا لسلام ورحمۃ اللہ-السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ یہاں آپ کو تین امور میں سخت غلط فہمی ہوئی ہے،
(1) پہلی غلط فہمی تو یہ ہوئی کہ آپ نے (غلط تاویل ) اور کسی لفظ کے اصلی وحقیقی معنی کو ایک چیز سمجھ لیا،
حالانکہ جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا) مراد ہے جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا )
جب کہ اہل ھویٰ نے اس کا معنی (استیلاء، استولیٰ ) یعنی قبضہ اور قدرت غلبہ )کیا ہے ،
ـــــــــــــــــــ
اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ،
اسی کے مطابق امام مالکؒ کا مشہور فرمان ہے کہ "الاستِواء معْلوم، والكيْف مَجْهول، والإيمان به واجبٌ، والسُّؤال عنْه بدعة" کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "
مشہور محدث اور فقیہ امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول مختلف ائمہ کرام نے نقل کیا ہے کہ :
سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: نعرف ربنا فوق سبع سماوات، على العرش استوى، بائن من خلقه، ولا نقول كما قالت الجهمية بأنه ههنا. وأشار إلى الأرض "
(الأسماء والصفات للبيهقي ، السنۃ لعبداللہ بن الامام احمد ، الرد علی علی الجھمیہ للدارمی )
یعنی جناب عبداللہؒ فرماتے ہیں: ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ ہمارا رب ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہےمخلوق سے جدا علیحدہ ہے اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین میں ہے "
ــــــــــــــــــ
دوسری غلط فہمی آپ کو پہلی غلطی کی بنا پر یہ ہوئی کہ : سلف نے استواء کی تاویل کی ہے "
حالانکہ ایسا بالکل نہیں ،بلکہ انہوں نے استوی کا حقیقی معنی بیان فرمایا ہے ،
اس کی مثال یوں ہے کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی ،
اب ایک طرف اہل حق (معراج ،اور اسراء ) کا حقیقی و شرعی معنی بتاتے ہیں کہ
"معراج ،عروج سے ہے ، اور اسراء رات میں سفر کرنے کروانے کو کہا جاتا ہے،اور نبی کریم ﷺ کو جسم و روح کے ساتھ آسمانوں پر لے جایا گیا "
اور دوسری طرف اہل زیغ "معراج " کو "خواب کی واردات " بتاتے ہیں "
ــــــــــــــــــــــــــــ
اسی طرح سلف صالحین (استوی علی العرش ) کا صحیح معنی (استعلاء و ارتفاع ) کیا ہے
بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
تیسری غلط فہمی
آپ کو یہ لاحق ہوئی (استوی علی العرش ) کو بالکل مشتابہ سمجھ لیا ،حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ،
استوی کا ظاہری معنی تو معلوم ہےکہ استعلاء و ارتفاع ہی ہے ، اسلئے اس لحاظ سے تو یہ بالکل واضح ہے ، اورانسانوں کو اتنا جان لینا کافی بھی ہے ،
ہاں (استوی کی کیفیت ) نامعلوم ہے ،اس کو متشابہ کہہ لیں تو بات ٹھیک ہے ،
مشہور سعودی محقق شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں :
الاحابة
نص السؤال : هل صفات الله عز وجل من قبيل المتشابه أو من قبيل المحكم ؟
نص الإجابة :
صفات الله سبحانه وتعالى من قبيل المحكم الذي يعلم معناه العلماء ويفسرونه، أما كيفيتها؛ فهي من قبيل المتشابه الذي لا يعلمه إلا الله. وهذا ، كما قال الإمام مالك رحمه الله وقال غيره من الأئمة: الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة . وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: فإني ما أعلم عن أحد من سلف الأمة ولا من الأئمة؛ لا أحمد بن حنبل ولا غيره؛ أنه جعل ذلك من المتشابه . ومعنى ذلك أن علماء أهل السنة وأئمتها أجمعوا على أن نصوص الصفات ليست من المتشابه، وإنما ذلك قول المبتدعة والفرق المنحرفة عن منهج السلف. ))
https://www.alfawzan.af.org.sa/ar/node/10697
ـــــــــــــــــــــ
خلاصہ اس کا یہ کہ :
اللہ عزوجل کی صفات "محکم " کی قبیل سے ہیں ،جن کے معانی اہل علم جانتے ہیں ،اور ان تفسیر بیان کرتے ہیں ، ہاں ان کی کیفیات " متشابہات " کی قبیل سے ہیں ، ان کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ، جیسا کہ امام مالکؒ اور دیگر ائمہ کرام ؒ مشہورکا قول ہے کہ
"اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ : امام احمدؒ اور سلف امت ،اور دیگر ائمہ میں سے کسی نے آیات صفات کو متشابہات میں سے نہیں کہا ، جس کا مطلب ہے کہ علماء اہل سنت اور ائمہ کرامؒ کا اجماع ہے کہ صفات کی نصوص متشابہات نہیں ہیں ،
بلکہ ان کو متشابہ کہنے والے اہل بدعت ہیں "
ٹھیک ہے ،جیسا آپ صحیح سمجھتے ہیں ،مجھے کوئی اعتراض نہیں ،اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ: شریعت کی نصوص تو قرآن و احادیث صحیحہ ہیں -اور ان نصوص سے "الاستِواء بالمعنی معلوم نہیں - میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ امام مالکؒ نے اس کو بلمعنی لینے سے بھی منع کیا ہے -
جواد صاحب ! آپ غلطی در غلطی کر رہے ہیں، یہ کس قدر عجیب و غریب بات ہے کہ لفظ کا ظاہری معنی چونکہ لغت کی مدد سے ہوتا ہے ، اور لغت انسانوں کی ایجاد ہے، لہذا ظاہری معنی مراد لینا بدعت ہوگا۔میرے خیال میں قرآن کی مذکورہ آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں ایسی کوئی توجیح پیش نہیں کی گئی کہ جس میں کہا گیا ہو کہ "جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ہو ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا ہو ) مراد ہے- جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا ) وغیرہ
جب کہ ہم عموماً کسی بھی لفظ کے حقیقی یا ظاہری معنی لغت سے لیتے ہیں -اور "لغت" اںسانوں
کی بنائی ہوئی ہے (وحی الہی نہیں ہے) - اور انسان الله رب العزت کی ذات و صفات کا ادراک نہیں کر سکتا- زیادہ سے زیادہ ایک الله کا نبی ہی اس کی توجیہ یا صحیح معنی پیش کرسکتا ہے وحی الہی کے تابع ہو کر- اس لئے امّت کو از خود متشابھات سے متعلق ہر طرح کی تفسیر و تاویل سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ الله کی ذات سے متعلق کسی بھی امر کے ظاہری معنی مراد ہوں یا اس امر کی کیفیت مراد ہو - (جب تک قران و احادیث کی نصوص اس کی واضح تشریح و تفسیر پیش نہ کریں) -ورنہ یہ بدعت ہو گی -
استوی کا یہ معنی کوئی اضافی معنی نہیں، یا اس میں کوئی تاویل نہیں۔اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ، -
السلام و علیکم و رحمت الله - محترم خضر حیات صاحب -ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں محدث میگزین میں شائع ( استواء ) کے متلق ایک مضمون
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"
نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَفَعَ السَّمـٰوٰتِ بِغَيرِ عَمَدٍ تَرَونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔
قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔
لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :
قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.
یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی