• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام مالکؒ کے قول :
‏الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب
کا معنی و مطلب جاننے کیلئے مدینہ یونیورسٹی کے مشہور استاد عبدالرزاق بن عبدالمحسن البدر کی کتاب :
الأثر المشهور عن الإمام مالك رحمه الله في صفة الاستواء

یہاں سے پڑھ لیں

اور یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرلیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ یہاں آپ کو تین امور میں سخت غلط فہمی ہوئی ہے،
(1) پہلی غلط فہمی تو یہ ہوئی کہ آپ نے (غلط تاویل ) اور کسی لفظ کے اصلی وحقیقی معنی کو ایک چیز سمجھ لیا،
حالانکہ جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا) مراد ہے جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا )
جب کہ اہل ھویٰ نے اس کا معنی (استیلاء، استولیٰ ) یعنی قبضہ اور قدرت غلبہ )کیا ہے ،
ـــــــــــــــــــ
اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ،
اسی کے مطابق امام مالکؒ کا مشہور فرمان ہے کہ "الاستِواء معْلوم، والكيْف مَجْهول، والإيمان به واجبٌ، والسُّؤال عنْه بدعة" کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "

مشہور محدث اور فقیہ امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول مختلف ائمہ کرام نے نقل کیا ہے کہ :
سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: نعرف ربنا فوق سبع سماوات، على العرش استوى، بائن من خلقه، ولا نقول كما قالت الجهمية بأنه ههنا. وأشار إلى الأرض "
(الأسماء والصفات للبيهقي ، السنۃ لعبداللہ بن الامام احمد ، الرد علی علی الجھمیہ للدارمی )
یعنی جناب عبداللہؒ فرماتے ہیں: ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ ہمارا رب ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہےمخلوق سے جدا علیحدہ ہے اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین میں ہے "
ــــــــــــــــــ
دوسری غلط فہمی آپ کو پہلی غلطی کی بنا پر یہ ہوئی کہ : سلف نے استواء کی تاویل کی ہے "
حالانکہ ایسا بالکل نہیں ،بلکہ انہوں نے استوی کا حقیقی معنی بیان فرمایا ہے ،
اس کی مثال یوں ہے کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی ،
اب ایک طرف اہل حق (معراج ،اور اسراء ) کا حقیقی و شرعی معنی بتاتے ہیں کہ
"معراج ،عروج سے ہے ، اور اسراء رات میں سفر کرنے کروانے کو کہا جاتا ہے،اور نبی کریم ﷺ کو جسم و روح کے ساتھ آسمانوں پر لے جایا گیا "

اور دوسری طرف اہل زیغ "معراج " کو "خواب کی واردات " بتاتے ہیں "
ــــــــــــــــــــــــــــ

اسی طرح سلف صالحین (استوی علی العرش ) کا صحیح معنی (استعلاء و ارتفاع ) کیا ہے
بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
تیسری غلط فہمی
آپ کو یہ لاحق ہوئی (استوی علی العرش ) کو بالکل مشتابہ سمجھ لیا ،حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ،
استوی کا ظاہری معنی تو معلوم ہےکہ استعلاء و ارتفاع ہی ہے ، اسلئے اس لحاظ سے تو یہ بالکل واضح ہے ، اورانسانوں کو اتنا جان لینا کافی بھی ہے ،
ہاں (استوی کی کیفیت ) نامعلوم ہے ،اس کو متشابہ کہہ لیں تو بات ٹھیک ہے ،
مشہور سعودی محقق شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں :
الاحابة
نص السؤال : هل صفات الله عز وجل من قبيل المتشابه أو من قبيل المحكم ‏؟
‏نص الإجابة :
صفات الله سبحانه وتعالى من قبيل المحكم الذي يعلم معناه العلماء ويفسرونه، أما كيفيتها؛ فهي من قبيل المتشابه الذي لا يعلمه إلا الله‏.‏ وهذا ، كما قال الإمام مالك رحمه الله وقال غيره من الأئمة‏:‏ ‏ ‏الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة‏ ‏ ‏.‏ وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله‏:‏ ‏ ‏فإني ما أعلم عن أحد من سلف الأمة ولا من الأئمة؛ لا أحمد بن حنبل ولا غيره؛ أنه جعل ذلك من المتشابه‏ ‏ ‏.‏ ومعنى ذلك أن علماء أهل السنة وأئمتها أجمعوا على أن نصوص الصفات ليست من المتشابه، وإنما ذلك قول المبتدعة والفرق المنحرفة عن منهج السلف‏.‏ ))

https://www.alfawzan.af.org.sa/ar/node/10697
ـــــــــــــــــــــ
خلاصہ اس کا یہ کہ :
اللہ عزوجل کی صفات "محکم " کی قبیل سے ہیں ،جن کے معانی اہل علم جانتے ہیں ،اور ان تفسیر بیان کرتے ہیں ، ہاں ان کی کیفیات " متشابہات " کی قبیل سے ہیں ، ان کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ، جیسا کہ امام مالکؒ اور دیگر ائمہ کرام ؒ مشہورکا قول ہے کہ
"اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے "
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ : امام احمدؒ اور سلف امت ،اور دیگر ائمہ میں سے کسی نے آیات صفات کو متشابہات میں سے نہیں کہا ، جس کا مطلب ہے کہ علماء اہل سنت اور ائمہ کرامؒ کا اجماع ہے کہ صفات کی نصوص متشابہات نہیں ہیں ،
بلکہ ان کو متشابہ کہنے والے اہل بدعت ہیں "
و علیکم ا لسلام ورحمۃ اللہ-

محترم اسحاق صاحب -

میرے خیال میں قرآن کی مذکورہ آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں ایسی کوئی توجیح پیش نہیں کی گئی کہ جس میں کہا گیا ہو کہ "جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ہو ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا ہو ) مراد ہے- جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا ) وغیرہ
جب کہ ہم عموماً کسی بھی لفظ کے حقیقی یا ظاہری معنی لغت سے لیتے ہیں -اور "لغت" اںسانوں
کی بنائی ہوئی ہے (وحی الہی نہیں ہے) - اور انسان الله رب العزت کی ذات و صفات کا ادراک نہیں کر سکتا- زیادہ سے زیادہ ایک الله کا نبی ہی اس کی توجیہ یا صحیح معنی پیش کرسکتا ہے وحی الہی کے تابع ہو کر- اس لئے امّت کو از خود متشابھات سے متعلق ہر طرح کی تفسیر و تاویل سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ الله کی ذات سے متعلق کسی بھی امر کے ظاہری معنی مراد ہوں یا اس امر کی کیفیت مراد ہو - (جب تک قران و احادیث کی نصوص اس کی واضح تشریح و تفسیر پیش نہ کریں) -ورنہ یہ بدعت ہو گی -

اب آپ دیکھ لیں کہ بعض محدثین نے اس استواء علی عرش کا مطلب "استعلاء و ارتفاع ) بلند ہوا - جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر وغیرہ - اور البانی کے نزدیک اہل ھویٰ نے اس کا معنی (استیلاء، استولیٰ ) یعنی قبضہ اور قدرت غلبہ )کیا ہے ،یہ اختلاف کیوں؟؟ - یہ اختلاف اس بنا پر ہے کہ استواء علی عرش کا شرعی مفہوم کسی قرانی آیات یا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں -

علامہ البانی کی یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ "(رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے- حقیقت یہ ہے کہ محدثین میں اس معاملے میں دو گروہ ہوے ہیں - ایک "المشبهة" کا گروہ ہے جن میں احمد بن حنبل، ابن تیمیہ ، ابن أبي يعلى، اور عرب کا علماء صالح بن فوزان وغیرہ ہیں- جو کہتے ہیں کہ الله رب العزت کی ذات صفات کو بلمعنی لینے میں حرج نہیں کہ یہ متشابہات کی قبیل سے نہیں ہیں ان کے معنی معلوم ہیں اور ان پر ایمان لانا بھی واجب ہے وغیرہ - لیکن الله رب العزت کی ذات کی کیفیات پر کلام جائز نہیں اور یہ بدعت ہے-

دوسرا گروہ جن میں امام ابن حزم ، امام الزہری ، امام مالک، امام، ابن جوزی، ابن عقیل، امام النووی ہیں- ان کے نزدیک الله رب العزت کی ذات صفات کو بلمعنی بھی نہیں لیا جا سکتا - جب تک کہ نصوص واضح نہ ہو -یہ گروہ "المفوضہ" کہلاتا ہے- جو کہتا ہے کہ الله رب العزت نے قرآن میں اپنی ذات سے متعلق جو کچھ بھی بیان کردیا ہے - اس کے معنی اور کیفیت دونوں الله کے سپرد کردی جائیں کہ وہی ان کی اصل حقیقت جانتا ہے- کیوں کہ از خود الله کی ذات و صفات کا معنی بیان کرنے سے اس کی کفیت لازم آتی ہے- اور انسان کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے-

میرے نزدیک اس زمن میں دوسرے گروہ "المفوضہ" کی راے صحیح ہے - المشبهة" کی راے صحیح نہیں ہے- الله کی ہر صفت کے حقیقی معنی بھی معلوم نہیں جیسے استواء علی عرش - المشبهة" کی اس راے کو اختیار کرنے سے لوگوں (بشمول محدثین کے) میں غلو نے جنم لیا کہ "الله قیامت کے دن محمّد صل الله علیہ وآ له وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا- اس روایت کو حنابلہ میں سے بھی بعض نے من و عن قبول کیا- اگرچہ کچھ نے رد بھی کیا -

لنک یہاں ہے -
http://forum.mohaddis.com/threads/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو.26864/

مزید یہ کہ ان خود ساختہ توجیہات کی بنا پر پر ہی تصوف جیسی بدعات نے جنم لیا جس
نے بڑے بڑے علماء و اکابرین کا اب تک پیچھا نہ چھوڑا -اللہ رب العزت کو اس کائنات کا حصّہ تک بنا دیا - (العیاز باللہ)

اگر کوئی کہے کہ عرش کا ہلنا ، عرش کو ٨ فرشتوں کا اٹھاے ہوے ہونا، عرش کا ڈگمگانا وغیرہ ثابت ہے - تو اس پر یہی کہا جائے گا کہ یہ سب کچھ احادیث صحیحہ سے ہے - اور اس کو ایسے قبول کیا جائے گا بغیر تعبیر کے جیسے بیان ہوا ہے-

آپ کا یہ کہنا کہ "
اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ، -
اسی کے مطابق امام مالکؒ کا مشہور فرمان ہے کہ "الاستِواء معْلوم، والكيْف مَجْهول، والإيمان به واجبٌ، والسُّؤال عنْه بدعة" کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی تو معلوم ہے ،لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے ، اور استواء کے معلوم معنی پر ایمان لانا واجب ہے ، جبکہ کیفیت کے متعلق سوال بدعت ہے


اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ: شریعت کی نصوص تو قرآن و احادیث صحیحہ ہیں -اور ان نصوص سے "الاستِواء بالمعنی معلوم نہیں - میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ امام مالکؒ نے اس کو بلمعنی لینے سے بھی منع کیا ہے -
(واللہ اعلم)

وما توفیقی الّا باللہ (آمین)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ: شریعت کی نصوص تو قرآن و احادیث صحیحہ ہیں -اور ان نصوص سے "الاستِواء بالمعنی معلوم نہیں - میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ امام مالکؒ نے اس کو بلمعنی لینے سے بھی منع کیا ہے -
ٹھیک ہے ،جیسا آپ صحیح سمجھتے ہیں ،مجھے کوئی اعتراض نہیں ،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے خیال میں قرآن کی مذکورہ آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں ایسی کوئی توجیح پیش نہیں کی گئی کہ جس میں کہا گیا ہو کہ "جس ۔۔ تاویل ۔۔ سے منع کیا گیا ہو ،ااس سے مراد (کسی لفظ کے ظاہری معنی کی بجائے دوسرا معنی کرنا ہو ) مراد ہے- جیسے (استویٰ علی عرش ) کا ظاہری معنی ہے (عرش پر بلند ہوا ) وغیرہ
جب کہ ہم عموماً کسی بھی لفظ کے حقیقی یا ظاہری معنی لغت سے لیتے ہیں -اور "لغت" اںسانوں
کی بنائی ہوئی ہے (وحی الہی نہیں ہے) - اور انسان الله رب العزت کی ذات و صفات کا ادراک نہیں کر سکتا- زیادہ سے زیادہ ایک الله کا نبی ہی اس کی توجیہ یا صحیح معنی پیش کرسکتا ہے وحی الہی کے تابع ہو کر- اس لئے امّت کو از خود متشابھات سے متعلق ہر طرح کی تفسیر و تاویل سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ الله کی ذات سے متعلق کسی بھی امر کے ظاہری معنی مراد ہوں یا اس امر کی کیفیت مراد ہو - (جب تک قران و احادیث کی نصوص اس کی واضح تشریح و تفسیر پیش نہ کریں) -ورنہ یہ بدعت ہو گی -
جواد صاحب ! آپ غلطی در غلطی کر رہے ہیں، یہ کس قدر عجیب و غریب بات ہے کہ لفظ کا ظاہری معنی چونکہ لغت کی مدد سے ہوتا ہے ، اور لغت انسانوں کی ایجاد ہے، لہذا ظاہری معنی مراد لینا بدعت ہوگا۔
وحی الہی بلاشبہ اللہ کا کلام ہے، لیکن اس میں خطاب انسانوں کو ہی کیا گیاہے، اور ان میں اصل یہی ہے کہ وہی معنی مراد ہوں گے، جو انسانوں کو سمجھ میں آتے ہیں۔ الا کہ کسی جگہ اس اصل یا ظاہری معنی مراد نہ ہونے کی دلیل آجائے۔ ورنہ یہ کہہ دینا کہ چونکہ ظاہری معنی سے یہ نکل رہا ہے ، اور یہ اللہ کی مراد نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔ یہ تقول علی اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔
اور استویٰ کا معنی لغت اور شریعت کے نصوص کے مطابق: (استعلاء ۔۔ ارتفاع ) ہے ، -
استوی کا یہ معنی کوئی اضافی معنی نہیں، یا اس میں کوئی تاویل نہیں۔
بلکہ لفظ استوی کا بالکل ظاہری معنی ہے ۔ قرآن وسنت کی دیگر نصوص بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔
جو آپ فرما رہے ہیں کہ لفظ سے معنی کو الگ کردیا جائے، یہ عقیدہ سلف صالحین میں سے کسی کا نہیں رہا۔ انہوں نے استوی یا اللہ کے علو و بلندی کا انکار نہیں کیا، بلکہ اس استوی و ارتفاع اور بلندی کی کیفیت کیا ہوگی، اس کا انکار کیا ہے ۔
عقائد میں تاویل اور اس سے متعلقہ مباحث کے متعلق چند سال پہلے میں نے قدرے تفصیل سے ایک تحریر لکھی تھی، پتہ نہیں وہ فورم پر موجود ہے کہ نہیں، میرے پاس کمپیوٹر میں محفوظ ہے، اس سے ایک اقتباس یہاں نقل کرتا ہوں، امید ہے، بات کو سمجھنےمیں مدد ملے گی، میں نے لکھا ہے:
تفویض کیا ہے ؟
بعض لوگ تعطیل اور تشبیہ کی درمیانی صورت نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مشبہہ کی طرح اللہ کی صفات کو مخلوق سے تشبیہ بھی نہیں دیتے اور معطلہ کی طرح ان کا سرے سے انکار بھی نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ نصوص میں اللہ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور ہم اسکا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا معنی کیا ہے یہ ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ان صفات کا معنی کیا ہے یعنی صفات ہیں لیکن معنی کا پتہ نہیں ۔ اس کو تفویض کہتے ہیں ۔ تفویض کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو کسی کے سپرد کرنا گویا یہ صفات کے معانی اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔
نصوص ِصفات کے بارے میں تفویض کا یہ موقف بھی ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی تعطیل ہے اس وجہ سے سلف صالحین سے یہ منقول نہیں ہے ۔

سلف صالحین کا مذہب تفویض نہیں تھا یہ بات چند نکات میں سمجھی جا سکتی ہے :
تفویض کا مطلب ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایسی باتیں بھی بتاتے رہے ہیں جن کا معنی ہی نہیں جانتےتھے ۔
یعنی ایسے الفاظ یا کلمات جن کا کوئی معنی ہی نہیں ان کی تبلیغ کا معنی ہی کیا رہ جاتا ہے ؟ مطلب اللہ کی قرآن مجید میں بہت ساری صفات بیان ہوئی ہیں مثلا غفور ، رحیم ، علیم ، حکیم ، سمیع ، بصیر ان کا قرآن میں نازل کرنے کا کوئی مقصد ہے جابجا اللہ تعالی آیات کے آخر میں ان کو لاتے ہیں کیا یہ سب کچھ بغیر کسی فائدہ کے ہے ؟
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وأما الصنف الثالث: وهم أهل التجهيل: فهم كثير من المنتسبين إلى السنة وأتباع السلف. يقولون: إن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يكن يعرف معاني ما أنزل الله عليه من آيات الصفات، ولا جبريل يعرف معاني تلك الآيات، ولا السابقون الأولون عرفوا ذلك. وكذلك قولهم في أحاديث الصفات: إن معناها لا يعلمه إلا الله، مع أن الرسول تكلم بهذا ابتداءً، فعلى قولهم تكلم بكلام لا يعرف معناه. ( الحمویۃ ص 286 )
اگر یہاں کوئی حروف مقطعات کو لے کر اعتراض کرے کہ ان کے الفاظ کی تبلیغ کی گئی ہے لیکن معنی کا کسی کو پتہ نہیں ہے ۔
تو عرض ہے کہ یہ اعتراض ٹھیک نہیں ہے اس کی دو وجہیں ہیں :
أولا :نصوص صفات اور حروف مقطعات میں فرق ہے کیونکہ ان کے سرے سے ایسے کوئی معنی ہے ہی نہیں جو مخلوق کے علم میں ہو مثلا الم ، طہ ، یس وغیرہ الفاظ کا کوئی معنی ہی نہیں اور نہ ہی یہ مخلوق کے علم میں کسی معنی کے لیے وضع کیے گئے ہیں بلکہ ان کو اللہ تعالی نے بطور معجزہ کے قرآن میں اتارا ہے کہ کوئی ہے جوان کے معنی جان سکے گویا کوئی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مخلوق سمجھ ہی نہیں سکتی۔
ثانیا :یہ کہ حروف مقطعات کے بارے میں سلف سے منقول ہے کہ ان کے معانی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جبکہ نصوص أسماء و صفات کے بارے میں سلف میں سے کسی سے بھی منقول نہیں کہ ان کے معنی کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جان سکتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسی باتیں ان کے ہاں بالکل واضح تھیں کہ جب سمیع ، بصیر بولا جائے گا تو اس کا معنی کیا ہوگا ۔ اگر معاملہ حروف مقطعات والا ہوتا تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے منقول ہوتا کہ کہ ان نصوص کا کوئی معنی نہیں ۔
اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ قرآن میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا جاننا کسی کے بس کی بات نہیں تو نصوص صفات اس میں شامل نہیں کیونکہ اس سے تعطیل الذات( الخالق) عن الصفات لازم آتی ہے جو کہ محال ہے ۔

اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ سلف صالحین صحابہ کرام و تابعین بعض قرآنی آیات کو بغیر سمجھ بوجھ کے پڑھتے رہے حالانکہ ابو عبد الرحمن سلمی بیان کرتےہیں کہ ہم نے جن أصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پڑھا ہے( جیسا کہ عثمان بن عفان و عبد اللہ بن مسعود) وہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے سبق نہیں پڑھتے تھے جب تک اس میں علم و عمل سے متعلق تما م باتیں سیکھ نہ لیتے۔ ( فضائل القرآن للفریابی رقم 169 )
سلف سے وار د بعض اقوال بھی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ معنی سمجھے بغیر صرف الفاظ پر ایمان رکھتے تھے مثلا امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے :
الاستواء غير مجهول، والكيف غير معقول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة ( الأسماء والصفات للبیہقی رقم 867 )
استواء معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت ہماری سمجھ سے بالا ہے ۔ اس پر ایمان لانا واجب اور اس ( کی کیفیت ) کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ امام مالک استواء کا معنی جانتے تھے البتہ اس استواء کی کیفیت کیا تھی یہ نہیں جانتے تھے ۔ لہذا اس قول سے صفات کی نفی مراد نہیں لی جا سکتی کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ انہوں نے خود الاستواء کو غیر مجہول یعنی معلوم کہا ہےاور اس کا اثبات کیا ہے ۔ دوسری بات کسی چیز کی کیفیت کی بات اس وقت ہوتی ہے جب اس کا اثبات ہو جب کسی چیز کا اثبات ہی نہ ہو یعنی وجود ہی نہ تو اس کی کیفیت کیا ہے کیا نہیں یہ بات کرنا تو ویسے ہی لا یعنی فعل ہے ۔ تو گویا امام مالک صفت استواء کا اثبات کرنا چاہتے ہیں لیکن کیفیت کے بارے میں لا علمی کا اعتراف کر رہے ہیں ۔

اس کی مثال یوں سمجھیں :
آپ کسی کپڑا فروش کے پاس جاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ آپ کے پاس سردیوں کے لیے کپڑے ہیں اگر وہ ہاں میں جوا ب دے گا تو پھر اگلی بات بھی چلے گی کہ ان کا رنگ کیسا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ لیکن اگر وہ پہلے ہی آپ کو کہہ دے کہ میرے پاس کپڑے ہی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کیسے ویسے تک بات آئے گی ہی نہیں ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیفیت کا سوال وجود کے بعد ہے ۔ اور کیفیت کی نفی سے نفی وجود لازم نہیں ۔ واللہ اعلم
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میرے خیال میں یہ محترم بھائی
تین چار اصطلاحات سے بالکل واقف نہیں ؛
(1) تاویل
(2)تفسیر ( شرعی معنی )
(3) قرآن مجید کے متشابہات
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں محدث میگزین میں شائع ( استواء ) کے متلق ایک مضمون
کی درج ذیل اردو عبارت کی اصل عربی عبارت طلب فرمائی ہے :
علامہ الالبانی (مختصر کتاب العلو ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المثال الآخر فقوله تعالى: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وقوله فتأولوه "الله الذي رفع السماوات بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش ". فقد تأول الخلف الاستواء المذكور في هاتين الآيتين ونحوهما بالاستيلاء وشاع عندهم في تبرير ذلك إيرادهم قول الشاعر:
قد استوى بشر على العراق
بغير سيف ودم مهراق!
متجاهلين اتفاق كلمات أئمة التفسير والحديث واللغة على إبطاله, وعلى أن المراد بالاستواء على العرش إنما هو الاستعلاء والارتفاع عليه, كما سترى أقوالهم مروية في الكتاب عنهم بالأسانيد الثابتة قرنا بعد قرن, وفيهم من نقل اتفاق العلماء عليه. مثل الإمام إسحاق بن راهويه "الترجمة 67", والحافظ ابن عبد البر "الترجمة 151" وكفى بهما حجة في هذا الباب.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ترجمہ :
﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف
ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"

نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَ‌فَعَ السَّمـٰو‌ٰتِ بِغَيرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌ونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ ... ٢﴾... سورةالرعد
ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"
ان دونوں آیات میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے (استیلاء اور غلبہ ) سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔

قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق
ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔

لیکن یہ تاویل کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد ۔۔ استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بھائی @Adnani Salafi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی نے مقدمہ میں جو کہا کہ : امام اسحاق بن راھویہ ؒ نے استوی کے معنی استعلاء پر اجماع نقل کیا تو اسی کتاب مختصر العلو میں ان کا یہ قول بالاسناد منقول ہے :

قال أبو بكر الخلال" أنبأنا المروذي حدثنا محمد بن الصباح النيسابوري، حدثنا أبو داود الخفاف سليمان بن داود قال: قال إسحاق بن راهويه:
قال الله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} إجماع أهل العلم أنه فوق العرش استوى، ويعلم كل شيء في أسفل الأرض السابعة.

یعنی امام ابوبکر الخلال ؒ نے بسندہ روایت کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ارشاد ( رحمن عرش پر مستوی ہوا ) کا معنی یہ کہ اللہ عرش سے اوپر ہے ، اور ساتوں زمینوں کے نیچے کی بھی ہر چیز جانتا ہے اور اس معنی پر اہل علم کا اجماع ہے ‘‘
انتہی​
السلام و علیکم و رحمت الله - محترم خضر حیات صاحب -

یہ مسلہ "استواء تفصیل طالب ہے اور وقت نہیں مل رہا کہ اس پر مزید گفتگو کی جا سکے- اگر وقت ہوا تو اس پر مزید بات ہو سکے گی کہ آیات جن میں "سمیع ، بصیر" ہے وہ آیات متشابھات سے متعلق ہیں یا نہیں ؟؟ - جسے آپ میری غلطی در غلطی سمجھ رہے ہیں- یہ درحقیقت بعض محدثین کا منہج ہی تھا (میرے اکیلے کا منہج نہیں ہے) - جن میں امام نووی امام ذہبی ، امام ابن حجر، امام الکرابسی ، امام ابن حزم جیسی قد آور شخصیت کے نام ہیں -اس سے متعلق کس محدث کا موقف صحیح اور کس کا غلط ؟؟- یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے- جو کسی اور وقت کے لئے رکھیں تو بہتر ہے -

البتہ ابھی اتنا ضرور کہوں گا -علامہ البانی جیسے نامور محدث و مفسر پر حیرت ہے- جو استواء علی العرش کے معنی سے متعلق کہتے ہیں "امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے- مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسلے میں اور اس استواء کے ظاہری معنی سے متعلق محدثین میں نزاع ہے (واللہ اعلم)-
 
Last edited:
Top