- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سورة النحل 73
اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انھیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ قدرت رکھتے ہیں (١)
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 74
پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بنابنا کر بتاو، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس کے تحت لکھتے ہیں :
٧٤۔ جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو ۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہو جائے جب کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہرچیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟
(احسن البیان )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
[٧٣] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ :۔ چونکہ مشرکوں کا اللہ کی ذات کے متعلق تصور ہی غلط ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق جو مثال بھی چسپاں کرتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
وہ اللہ کو بھی دنیا کے بادشاہوں یا راجوں، مہاراجوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق ٹھیک مثال بیان کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کو اپنے وزیروں اور امیروں کی بات سننا پڑتی ہے۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرے خلاف نہ ہوجائیں اور بغاوت یا کوئی دوسرا فتنہ نہ کھڑا کردیں ۔
اسی طرح انبیاء ، اولیاء ، بزرگ، اوتار اور ٹھاکر اور ہمارے یہ معبود اللہ کی درگاہ میں ایسے دخیل ہیں کہ اللہ کریم کو ان کی سفارش ضرور سننا پڑتی ہے اور اگر قیامت ہوئی بھی تو یہ ہمیں اللہ سے بچا لیں گے۔ انکا دوسرا تصور یا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بادشاہ اپنے سارے کام خود نہیں کرسکتے اور نہ سب لوگوں کی فریادیں سن سکتے ہیں ۔ لہذا انھیں امیروں، وزیروں اور دوسرے بےشمار کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کو اپنے مقربین کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کی فریادیں اس کے حضور پہنچا دیں اور پھر انہی کی وساطت سے فریادی کو کوئی جواب ملے۔ اسی طرح اگر اللہ سے مال و دولت یا اولاد یا کوئی دوسری بھلائی مانگنا ہو تو ان مقربین کا واسطہ ضروری ہے۔ یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں جو مشرکوں نے اپنی دنیوی اغراض کی بنا پر گھڑ رکھے ہیں ۔ یہی عقائد شرک کی اکثر اقسام کی بنیاد ہیں ۔ اور قرآن میں جابجا ان کی تردید مذکور ہے۔ اور انتباہ یہ کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی حقیقت کو جان ہی نہیں سکتے تو اس کے متعلق غلط تصورات مت قائم کیا کرو اور نہ ہی اس کی مثالیں دیاکرو ۔ (تیسیر القرآن )
اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انھیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ قدرت رکھتے ہیں (١)
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 74
پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بنابنا کر بتاو، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس کے تحت لکھتے ہیں :
٧٤۔ جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو ۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہو جائے جب کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہرچیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟
(احسن البیان )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
[٧٣] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ :۔ چونکہ مشرکوں کا اللہ کی ذات کے متعلق تصور ہی غلط ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق جو مثال بھی چسپاں کرتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
وہ اللہ کو بھی دنیا کے بادشاہوں یا راجوں، مہاراجوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق ٹھیک مثال بیان کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کو اپنے وزیروں اور امیروں کی بات سننا پڑتی ہے۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرے خلاف نہ ہوجائیں اور بغاوت یا کوئی دوسرا فتنہ نہ کھڑا کردیں ۔
اسی طرح انبیاء ، اولیاء ، بزرگ، اوتار اور ٹھاکر اور ہمارے یہ معبود اللہ کی درگاہ میں ایسے دخیل ہیں کہ اللہ کریم کو ان کی سفارش ضرور سننا پڑتی ہے اور اگر قیامت ہوئی بھی تو یہ ہمیں اللہ سے بچا لیں گے۔ انکا دوسرا تصور یا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بادشاہ اپنے سارے کام خود نہیں کرسکتے اور نہ سب لوگوں کی فریادیں سن سکتے ہیں ۔ لہذا انھیں امیروں، وزیروں اور دوسرے بےشمار کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کو اپنے مقربین کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کی فریادیں اس کے حضور پہنچا دیں اور پھر انہی کی وساطت سے فریادی کو کوئی جواب ملے۔ اسی طرح اگر اللہ سے مال و دولت یا اولاد یا کوئی دوسری بھلائی مانگنا ہو تو ان مقربین کا واسطہ ضروری ہے۔ یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں جو مشرکوں نے اپنی دنیوی اغراض کی بنا پر گھڑ رکھے ہیں ۔ یہی عقائد شرک کی اکثر اقسام کی بنیاد ہیں ۔ اور قرآن میں جابجا ان کی تردید مذکور ہے۔ اور انتباہ یہ کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی حقیقت کو جان ہی نہیں سکتے تو اس کے متعلق غلط تصورات مت قائم کیا کرو اور نہ ہی اس کی مثالیں دیاکرو ۔ (تیسیر القرآن )