• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم


اللہ تعالی کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں :

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ لِلَّہِ مِاءَۃَ رَحْمَۃٍ أَنْزَلَ مِنْہَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْبَہَاءِمِ وَالْہَوَامِّ، فَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ، وَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ، وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِہَا، وَأَخَّرَ اللہُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً، یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ

اللہ تعالی کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں اللہ نے اس میں ایک حصہ جنوں ،انسانوں ، کیڑوں مکوڑوں میں اتارا اسی وجہ سے وہ آپس میں ایک دوسرے سے نرمی اور رحم کا معاملہ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے جانور اپنے بچے پر پیار کھتا ہے ننانوے حصہ اللہ نے بچا رکھا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے بند وں پر رحم فرمائے گا

(صحیح مسلم حدیث نمبر۔۲۷۵۲ )

اللہ نے انسانوں میں ایک ایسی صفت پیدا کی ہے جس سے ایک انسان دوسرے انسان سے نرمی وشفقت سے پیش آتا ہے اور وہ رحم کی صفت ہے اگر انسان دوسرے انسان پر رحم کرے تو اللہ نے اس سے رحمت و مغفرت کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ ارشاد فرمایا :

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا أَہْلَ الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ ۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرمائے گا۔ تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

[سنن ابی داود حدیث نمبر ۴۹۴۱]

یعنی اس کائنات میں اگرہم انسانوں پر رحم کریں گے تو وہ جو پو ری کا ئنا ت کا مالک ہے اورآسمان میں ہے ہم پر رحم وکرم فرمائے گا،کیا ہی بہترین ذریعہ ہے اللہ کی رحمت کو پانے کا، لیکن پھر بھی بہت سارے لوگ شرک وبد عات کے ذریعہ اللہ کی رحمت کی توقع کرتے ہیں ،جوکہ رحمت کے بجا ئے عذاب میں ملوث ہونے کا ذریعہ ہے۔

اور اگر رحم کی صفت انسان میں نہ ہو تی تو ایک ماں جونو ماہ تک حمل کو اٹھائے رکھتی ہے پھر ولادت کی تکلیف کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیا رہو تی ہے ،کیونکہ جیسے ہی ایک ماں اپنے آنکھوں سے بچے کو دیکھتی ہے رحم کا کمال تویہ ہے کہ وہ تما م گزری ہو ئی تکلیفیں بھول جا تی ہے محبت و شفقت میں اسے چومنے لگتی ہے اسی لئے خاص طورپر رب العالمین نے انسانوں کو یہ رہنمائی کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لئے رحم کی دعاء کریں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا ۔

اے ہمارے رب تو ان دونوں پر رحم کر جس طرح انہوں نے رحمت شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا ۔

(سورۃ الاسراء آیت ۲۴)

اوراس طرح کی رحمت و شفقت اللہ نے جانوروں اور حشرات الارض میں بھی رکھی ہے ،اور رحم جو دنیا میں عطا ء کی گئی ہے انسانوں اورجانوروں کو وہ ایک حصہ ہے بقیہ ننانوے حصہ اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے دنیا میں بھی بندوں پرہمیشہ رحم کرتا رہتا ہے اور خاص قیا مت کے دن بھی وہ رحم و کرم فرمائے گا ۔

مذکورہ حدیث میں رحم کے کتنے حصے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی وضاحت کی ہے ۔

*إِنَّ لِلَّہِ مِاءَۃَ رَحْمَۃٍ أَنْزَلَ مِنْہَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ*

رحم کا پہلا حصہ اللہ رب العزت نے انسانوں او ر جناتوں میں اتارا ہے

جنات ایک دوسرے پر کیسے رحم کرتے اس بارے تو ہمیں کو ئی بات قرآن و صحیح حدیث سے واضح طورپر نہیں ملتی ہے البتہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ رحمت وشفقت سے پیش آتا ہے ،کس طرح ایک انسان دوسرے انسان کو ظلم سے بچانے کے لئے تیار ہو تا ہے ۔

اور بعض دفعہ کچھ لوگ غضب میں آکر اللہ کے حدود کو پار بھی کر جاتے ہیں اورجو رحم اللہ نے انسان کی فطرت میں ڈالی ہے اس فطر ت سے بغاوت کرتے ہو ئے انسانوں کی اکثریت انسانوں کے ساتھ بے رحمی سے پیش آنے لگتی ہے جیسے کبھی کسی کا قتل کرنا ، کسی پر ظلم و بربریت کاپہاڑ توڑنا،معاشرے میں کمزور لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرناان کا عام شیوہ ہو تا ہے جبکہ شریعت نے اس طرح کی باتوں سے منع کیا ہے

ایک انسان میں اللہ نے کس قدر رحم رکھا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگاسکتے ہیں ۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّہُ قَالَ: قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَبْیٍ فَإِذَا امْرَأَۃٌ مِنَ السَّبْیِ، تَبْتَغِی، إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبْیِ، أَخَذَتْہُ فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِہَا وَأَرْضَعَتْہُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَتَرَوْنَ ہَذِہِ الْمَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَہَا فِی النَّارِ؟ قُلْنَا: لَا، وَاللہِ وَہِیَ تَقْدِرُ عَلَی أَنْ لَا تَطْرَحَہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَلَّہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہِ مِنْ ہَذِہِ بِوَلَدِہَا۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ قیدی لائے گئے اور قیدیوں میں سے ایک عورت کسی کو تلاش کر رہی تھی اس نے قید یوں میں اپنے بچے کو پایا اس نے اسے اٹھا کر اپنے پیٹ سے لگایا اور اسے دودھ پلانا شروع کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے عرض کیااللہ کی قسم جہاں تک اس کی قدرت ہوئی ہے اسے نہیں پھینکے گی تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا اس عورت کے اپنے بچہ پر رحم کرنے سے زیادہ اللہ اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے۔

[صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۴]

یہ ایک انسان کے رحم کی مثال ہے اوردنیا کی تمام مخلوق سے زیادہ اللہ اپنے بند وں سے محبت اور رحم کرتا ہے لیکن یہ بند وں کی بد بختی ہے وہ اللہ سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے حکموں کی تابعداری کرتے ہیں پھر بھی اللہ اپنے رحم و کرم سے بندوں کو نوازتا ہے۔

*وَالْبَہَاءِمِ وَالْہَوَامِّ، فَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ، وَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ، وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِہَا*

اسی رحم کا ایک حصہ جانوروں کو اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی عطاء کیا گیا ہے ،جس رحم کی بنا پر شکار کرنے والا جانور خود دوسرے جانوروں کا شکار کر کے کھا تو لیتا ہے لیکن اپنے پیدا کئے ہوئے بچے کو کبھی چیر پھاڑ نہیں کر تا ہے اور اگر کبھی کوئی انسان یا جانور کسی جانور کے بچے کو تکلیف دیتا ہے تو تمام پرندے چہچہا نا شروع کر دیتے ہیں اور جانور ہر ممکن کوشش کرتا ہے اپنے بچے کو بچانے کی ،یہ جانوروں اور پرندوں کے رحم کی سب سے بڑی دلیل ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے زمانے ایک واقعہ میں پیش آیا :

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِہِ، فَرَأَیْنَا حُمَّرَۃً مَعَہَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَیْہَا، فَجَاءَ تِ الْحُمَرَۃُ، فَجَعَلَتْ تُفَرِّشُ، فَجَاءَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ مَنْ فَجَعَ ہَذِہِ بِوَلَدِہَا؟ رُدُّوا وَلَدَہَا إِلَیْہَا وَرَأَی قَرْیَۃَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاہَا، فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ ہَذِہِ؟ قُلْنَا: نَحْنُ، قَالَ: إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ۔

حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ ﷺ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی ، جس کے دو بچے تھے ہم نے ان کے بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا زَمیں پر گر کر پر بچھانے لگی اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو بے قرار کیا ہے ؟ اس کا بچہ اس کو دیدو، اور آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا ایک سوراخ دیکھا جس کو ہم نے جلادیا تھا آپﷺنے پوچھا کہ یہ کس نے جلایا؟ ہم نے کہا ہم نے جلایا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا کسی کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔

[سنن ابی داودحدیث نمبر ۲۶۷۵وصححہ الالبانی]

اس حدیث میں اس پر ندے کی رحمت وشفقت کا اندازہ لگا ئیں کہ کس قدر وہ اپنے بچوں کے لئے پر بچھادئیے تھے جب اس کے بچوں کو پکڑا گیاتھا ۔یہ پرندوں کی رحم کی دلیل ہے

*وَأَخَّرَ اللہُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً، یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ*

رحم کی یہ کامل صفت اللہ رب العز ت نے بندوں کے لئے آخرت میں بچا کے رکھا ہے اور اس کی تعداد اللہ کے رسول ﷺ نے ننانوے بتلائی ہے جو اللہ نے بندوں کے ساتھ قیامت کے دن کے لئے خاص کیا ہے ۔ کیا عالم ہو گی اس رحمت کا جو اللہ نے اپنے بند وں پر قیامت کے دن کرے گا او ر بغیر اللہ کی رحمت کے کو ئی بھی انسان جنت میں نہیں جا سکے گا چاہے وہ انبیا ء ہوں ،یا اولیا ء، صدیقین ہوں ،یا شہدااور صالحین سب کے سب اللہ کی رحمت محتاج ہو نگے ۔جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لَا یُدْخِلُ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ وَلَا یُجِیرُہُ مِنْ النَّارِ وَلَا أَنَا إِلَّا بِرَحْمَۃٍ مِنْ اللَّہِ۔

تم میں سے کوئی بھی شخص اپنی نیکیوں سے جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ آگ سے بچ سکتا ہے اور میں بھی سواء اللہ کی رحمت کے ۔ ( میں خود محتاج ہوں )

[صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۸۱۷]

ٓٓآج انسانوں کی اکثریت اللہ کی رحمت سے ناامید ہو چکی ہے بہت سارے لوگوں سے جب گناہ سرزد ہو جا تا ہے تو ان کا ایسا خیا ل ہوتا ہے کہ اب اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا حالانکہ اللہ تعالی کی صفات میں ایک صفت رحیم بھی ہے جیسے کہ اللہ رب العز ت کاارشاد ہے :

وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ ۔

تمہارا معبود تو ایک ہی معبود ہے اس کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔ [البقرۃ ۱۶۳]

اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت ہی زیا دہ وسیع ہے اگر ایک انسان کو اللہ کی رحمت کے بارے میں علم ہو جا ئے تو بھی انسان جنت سے ناامید نہیں ہو گا۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لَوْ یَعْلَمُ المُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللہ مِنَ الْعُقُوبَۃِ مَا طَمِعَ فی الجَنَّۃِ أَحَدٌ وَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ مَا عِنْدَ اللہ مِنَ الرَّحْمَۃِ مَا قَنِطَ مِنَ الجَنَّۃِ أَحَدٌ۔

اگر مؤمن کواللہ کی تیارکردہ سزاؤں کاعلم ہوجائے تو کوئی بھی جنت کی امید ہی نہ کرے اور اگر کافر کوعلم ہوجائے کہ اللہ کی رحمت کتنی کشادہ ہے تو کوئی بھی جنت سے مایوس ہی نہ ہو۔

[صحیح مسلم ۲۷۵۵]۔

اللہ کی رحمت اتنا وسیع اورکشادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام زمین والوں کو ان کے گناہوں کے باوجود معاف کردے تو وہ رحیم ہے لیکن وہ کسی بھی بند ے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرے گا ۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر ما یا:

لَوْ أَنَّ اللہ عَذَّبَ أَہْلَ سَموَاتِہِ وَأَہْلَ أَرْضِہِ لَعَذَّبَہُمْ وَہُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَہُمْ وَلَوْ رَحِمَہُمْ لَکَانَتْ رَحْمَتُہُ لَہُمْ خَیْراً مِنْ أَعْمَالِہِمْ۔[ مسنداحمد ۲۱۶۱۱]

اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان والوں کو اور تمام زمین والوں کو عذاب دیدے تو اللہ کا عذاب دینا اپنے بندوں پر ظلم نہیں ہوگا اور اگر رحم کردے تو اس کی رحمت انکے اعمال سے بہتر ہوگی۔

ایک اور روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرما یا ہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو غضب پر غالب کیا ہے

رسول ﷺ نے فرمایا:لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہِ فَہُوَ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی

(ترجمہ) جب اﷲ نے مخلوق کے پیدا کرنے کا ارادہ کیاتو اپنی کتاب میں اس نے لکھا جوعرش پر اس کے پاس ہے ۔ (اسنے لکھا) کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھکر ہے.

[ صحیح بخاری ۳۱۹۴]

قرآن و حدیث میں کئی ایسی مثالیں ذکر ہیں کہ اللہ نے اپنے رحم و کر م سے گناہ گار بندوں کو معاف کردیا اور جنت کی خوشخبری دے دی اور قیامت کے دن بھی کئی ایسے لوگوں کو جو جہنم میں جاچکے ہونگے لیکن جب اللہ کی رحمت ان تک پہنچے کی تو وہ نکال لئے جا ئیں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

یُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ التَّوْحِیدِ فِی النَّارِ حَتَّی یَکُونُوا فِیہَا حُمَمًا ثُمَّ تُدْرِکُہُمُ الرَّحْمَۃُ فَیُخْرَجُونَ ۔

اہل توحید کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ ہو جائیں گے پھر ان پر (اللہ کی )رحمت ہو گی اور وہ اس سے نکال دیئے جائیں گے ۔

[مسنداحمد۱۵۱۹۸، سنن الترمذی۲۵۹۷ صحیح الجامع :۸۱۰۳]

اور اللہ نے خود اپنی صفت بیان کی ہے کی میں بندوں کو معاف کر دیتا ہوں اور ان پر رحم کر تا ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَرَبُّکَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَۃِ لَوْ یُؤَاخِذُہُمْ بِمَا کَسَبُوا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَہُمْ مَوْعِدٌ لَنْ یَجِدُوا مِنْ دُونِہِ مَوْءِلًا۔

اور تمہارا بخشنے والا رب رحمت والا ہے اگر وہ انکی انکے اعمال کی بنا پر پکڑ کرے تو پہر انکو جلد ہی عذاب میں گرفتار کر لے ۔ بلکہ ان کے لئے ایک متعینہ وقت ہے جس سے بچنے کے لئے ان کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ۔

[الکہف۔۱۸۔ آیت ۵۸]

اللہ نے ایک اپنے رحم وکرم سے ایک بدکار عورت کی مغفرت کر دی اس کے ایک نیکی کی وجہ سے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

غُفِرَ لامْرَأَۃٍ مُومِسَۃٍ مَرَّتْ بِکَلْبٍ عَلَی رَأْسِ رَکِیّ یَلْہَثُ کادَ یَقْتُلُہُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّہَا فَأَوثَقَتْہُ بِخِمَارِہَا فَنَزَعَتْ لَہُ مِنَ المَاءِ فَغُفِرَ لَہَا بِذلِکَ.

ایک بد کار عورت کی مغفرت کی گئی جس کا گزر ایک کتے کے پاس سے ہوا جو زمین چاٹ رہا تھا اور پیاس کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا اس نے اپنا موزہ نکالا اور اپنے دوپٹے سے باندھا اور اس کیلئے پانی نکالا تو اس کی اسی وجہ سے مغفرت کردی گئی ۔

[ صحیح بخاری حدیث نمبر ۳۳۲۱]

دنیا میں اللہ نے بند وں پر رحم کرتے ہو ئے کہا کہ اگر بند ہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے گا تو اللہ اسکے صغیر ہ گناہوں کو یوں ہی معاف کرد ے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَاءِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّءَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا۔

اگر بچو گے بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سئیات کو مٹا دیگا اور تم کو عزت والی جگہ میں داخل کریگا۔

[النساء/۳۱]

اور اللہ کے رسول ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ نماز،روزہ اور جمعہ کی پاپندی اپنے درمیان کی خطاؤ ں کو مٹادیتی ہیں او ر یہ اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الصَّلَوَاتُ الخَمْسُ وَالجُمُعَۃُ إلی الجُمُعَۃِ وَرَمَضَانُ إلَی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ لِمَا بَیْنَہُنَّ إِذَا اجْتُنِبَتِ الْکَبَاءِرُ ۔

پانچ نمازیں اور جمعۃ سے جمعۃ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہیں اگر وہ بڑے بڑے گناہوں سے بچتا ہو۔

[صحیح مسلم حدیث ۲۳۳]

اسی طرح قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جس کے ننانوے رجسٹر گناہوں کے ہونگے لیکن پھر بھی اللہ اپنے رحم وکرم سے معاف کردیگا اور جنت میں داخل کر دیگا،اس طرح کی بے شمار مثالیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں لیکن مضمون کے طوالت کے ڈر سے مزید تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اسی پراکتفاء کرتے ہیں۔

اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ ہمیں دنیا میں ایک دوسرے پر رحم کرنے کی توفیق دے اور آخرت میں تو ہمیں اپنے رحم وکر م نواز دے ۔

آمین یا رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
جزاک اللہ خیرا محمد عامر یونس بہائی الله تعالى آپ کے علم میں اضافہ کرے آمین
 
Top