اللہ ذوالجلال کی بے عمل سے ناراضگی
اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo} [الصف:۲،۳]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسا کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔ ''
اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں ہے جو بیان کیا گیا ہے ، اس آیت کا درست ترجمہ یوں ہے :
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسا کیوں کہتے ہو جو تم کر نہیں سکتے ۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرنہیں سکتے۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ اس مسلمان یہ کہتے تھے اگر ہم لیے اچھے اچھے اعمال فرض کیے جائین تو ہم ان کو بجا لائین گے لیکن جب ان اعمال کو فرض کیا گیا تو وہ لوگ ان پر عمل کرنے میں قاصر رہے تو اللہ تعالی نے یہ آیا ت نازل فرما دیں کہ جس کام کو تم کر نہیں سکتے وہ اس خواہش کیوں کرتے ہو؟ مفسرین کرام نے بھی اس آیت کا یہی معنی مراد لیا ہے ،چناں چہ مفسر شہیر جناب ابن جریر طبری رقم طراز ہیں :
واختلف أهل التأويل في الس
بب الذي من أجله أُنـزلت هذه الآية، فقال بعضهم: أُنـزلت توبيخًا من الله لقوم من المؤمنين، تمنوا معرفة أفضل الأعمال، فعرّفهم الله إياه، فلما عرفوا قصروا، فعوتبوا بهذه الآية.
* ذكر من قال ذلك :
حدثني عليّ، قال: ثنا أبو صالح، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، في قوله: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ ) قال: كان ناس من المؤمنين قبل أن يفرض الجهاد يقولون: لوددنا أن الله دلنا على أحبّ الأعمال إليه، فنعمل به، فأخبر الله نبيه أن أحب الأعمال إليه إيمان بالله لا شكّ فيه، وجهاد أهل معصيته الذين خالفوا الإيمان ولم يقرّوا به؛ فلما نـزل الجهاد، كره ذلك أُناس من المؤمنين، وشقّ عليهم أمره، فقال الله: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ )
یہ ایک حقیقت ہے کہ غلط کو غلط سمجھ کر اسکی تبلیغ و اشاعت کے بعد۔۔اگر وہی عمل تبلیغ کرنے والے سے ہوجاتا ہے۔۔اسکے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔۔لیکن اس ڈر سے کہ۔۔کہیںبھی اس کا مرتکب نہ ہوجاوں سوچ کر۔۔۔فرض منصبی سے ہی رک جانا۔۔۔نادانی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔!
مثال کے طور پر کبیرہ گناہ کبیرہ گناہ ہے۔۔وہ کرنے والے کے لئے بھی اور جسکو کہ علم ہے کہ ۔۔۔یہ کبیرہ گناہ ہے۔۔۔! اب اگر کبیرہ گناہ کسی سے سرزد ہوجاتا ہے۔۔تب وہ کیا کبھی بھی کبیرہ گناہوںکے بارے میںکسی کو نصیحت نہیںکرسکتا کہ۔۔۔یہ غلط ہے، اور گناہ کبیرہ ہے۔۔!
اسی طرح اگر باپ اگر پڑھا لکھا نہ بھی ہو تو بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹے پڑھ لکھ لو۔۔۔کہ ہم نہیںپڑھ سکے تھے۔۔لیکن پڑھائی کے یہ اور یہ فائدے ہیں۔۔وغیرہ۔۔!
ایسے ہی نیکی کی نصیحت ایک مسلم حقیقت اور فرض منصبی ہے! البتہ لم تقولون مالاتفعلون کا مفہوم سوچ سمجھ کر ذہن میںبھی رکھ لینا چاہئےیک اور بھونڈی اور موٹی سے مثال۔۔۔! باپ اگر پڑھا لکھا نہ بھی ہو تو بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹے پڑھ لکھ لو۔۔۔کہ ہم نہیںپڑھ سکے تھے۔۔لیکن پڑھائی کے یہ اور یہ فائدے ہیں۔۔وغیرہ۔۔!
ایسے ہی نیکی کی نصیحت ایک مسلم حقیقت اور فرض منصبی ہے، البتہ لم تقولون مالاتفعلون کا مفہوم سوچ سمجھ کر ذہن میںبھی رکھ لینا چاہئے۔