• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10714439_472410949563838_267653502063270813_o.jpg



اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں -

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر عطا فرمائے آمین ثم آمین -

آمین یا رب العالمین
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
[QUOTE="محمد عامر یونس, ۔]


اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں -

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر عطا فرمائے آمین ثم آمین -

آمین یا رب العالمین
[/QUOTE]
آمین
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
207
پوائنٹ
82
عامر بھائی میں نے اکثر احناف کو جنازوں پے بیان کرت ہوئے سنا ہے کہ میدان محشر میں لوگ پہلے حضرت ٓدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے کہ ہماری سفارش کریں وہ انکار کر دیں گے پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس ، وہ سب انھیں انکار کر دین گے کہ ٓج ہم ٓپکے کچھ کام نہیں آ سکتے آخر میں وہ نبی اکرم محمد ﷺ کے پاس جائیں گے پھر اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم سجدے مین گر جائیں گے ( یہاں وہ ایک بات یہ بھی کرتے ہیں کے آپ ﷺ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجیں گے ) پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اللہ کے دربار میں جائیں گے تو اللہ کی ذات بھی ابوبکر رضی اللہ سے شرما جائے گی اور اللہ تعالی ابوبکر رضی اللہ کے کہنے پر حساب کتاب شروع گے ۔۔۔۔۔۔میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے کیا یہ صحیح بات ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہنے پے اللہ تعالی حساب شروع کریں گے ۔۔۔۔۔۔
@ اسحاق سلفی بھائی
@ مقبول سلفی بھائی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(15) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْمَازِنِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُنَيْدَةَ الْبَرَاءُ بْنُ نَوْفَلٍ، عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَلَّى الْغَدَاةَ، ثُمَّ جَلَسَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الضُّحَى ضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسَ مَكَانَهُ حَتَّى صَلَّى الْأُولَى وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ، كُلُّ ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ، حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِي بَكْرٍ: أَلا تَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ؟ صَنَعَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ يَصْنَعْهُ قَطُّ، قَالَ: فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: "نَعَمْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا، وَأَمْرِ الْآخِرَةِ، فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ، حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَالْعَرَقُ يَكَادُ يُلْجِمُهُمْ، فَقَالُوا: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، وَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، قَالَ: قَدْ لَقِيتُ مِثْلَ الَّذِي لَقِيتُمْ، انْطَلِقُوا إِلَى أَبِيكُمْ بَعْدَ أَبِيكُمْ، إِلَى نُوحٍ: {إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ} [آل عمران: 33] ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللهُ، وَاسْتَجَابَ لَكَ فِي دُعَائِكَ، وَلَمْ يَدَعْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا، فَيَقُولُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، انْطَلِقُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ خَلِيلًا، فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنِ انْطَلِقُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، فَيَقُولُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنِ انْطَلِقُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَإِنَّهُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُحْيِي الْمَوْتَى، فَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنِ انْطَلِقُوا إِلَى سَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، انْطَلِقُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَشْفَعَ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَيَنْطَلِقُ، فَيَأْتِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ رَبَّهُ، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِ جِبْرِيلُ فَيَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ، وَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَيَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَإِذَا نَظَرَ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَرَّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ أُخْرَى، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَيَذْهَبُ لِيَقَعَ سَاجِدًا، فَيَأْخُذُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ بِضَبْعَيْهِ فَيَفْتَحُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ مِنَ الدُّعَاءِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى بَشَرٍ قَطُّ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، خَلَقْتَنِي سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ، وَلا فَخْرَ، وَأَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا فَخْرَ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ أَكْثَرُ مِمَّا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَأَيْلَةَ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الصِّدِّيقِينَ فَيَشْفَعُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الْأَنْبِيَاءَ، قَالَ: فَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الشُّهَدَاءَ فَيَشْفَعُونَ لِمَنْ أَرَادُوا، قَالَ: فَإِذَا فَعَلَتِ الشُّهَدَاءُ ذَلِكَ، قَالَ: يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، أَدْخِلُوا جَنَّتِي مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، قَالَ: فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ. قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا فِي النَّارِ: هَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ أَحَدٍ عَمِلَ خَيْرًا قَطُّ؟ قَالَ: فَيَجِدُونَ فِي النَّارِ رَجُلًا، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُسَامِحُ النَّاسَ فِي الْبَيْعِ، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَسْمِحُوا لِعَبْدِي كَإِسْمَاحِهِ إِلَى عَبِيدِي. ثُمَّ يُخْرِجُونَ مِنَ النَّارِ رَجُلًا فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، غَيْرَ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُ وَلَدِي: إِذَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ، ثُمَّ اطْحَنُونِي، حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِثْلَ الْكُحْلِ، فَاذْهَبُوا بِي إِلَى الْبَحْرِ، فَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ، فَوَاللهِ لَا يَقْدِرُ عَلَيَّ رَبُّ الْعَالَمِينَ أَبَدًا، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: مِنْ مَخَافَتِكَ، قَالَ: فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرْ إِلَى مُلْكِ أَعْظَمِ مَلِكٍ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَهُ وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهِ، قَالَ: فَيَقُولُ: لِمَ تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟ قَالَ: وَذَاكَ الَّذِي ضَحِكْتُ مِنْهُ مِنَ الضُّحَى". [صححه ابن حبان (6476) نقل عن اسحاق قوله: هذا من اشرف الحديث]
(15) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح فجر کی نماز پڑھائی، اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ ظہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔
لوگوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے؟ آج تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! میں بتاتا ہوں۔
دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ تمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چنانچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آکر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہتے ہیں کہ اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ "ابوالبشر ثانی" حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چنانچہ وہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔
چنانچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کر دیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ خداوندی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گذرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔
یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب منور پر ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا۔
چنانچہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پروردگار! تونے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ جگہ کو پر کئے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد کہا جائے گا کہ صدیقین کو بلاؤ وہ آکر سفارش کریں گے پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو بلاؤ چنانچہ بعض انبیاء علیہم السلام تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہوگی، بعض کے ساتھ پانچ چھ آدمی ہوں گے بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوگا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہوگا چنانچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔
جب شہداء بھی سفارش کر چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الرحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہوجائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چنانچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو! جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو؟ تلاش کرنے پر انہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارگاہ الٰہی میں پیش کردیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تو نے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع وشراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کرلیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چنانچہ اسے بخش دیا جائے گا۔
اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تو نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہے؟ وہ کہے گا کہ نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین مجھ پر قادر نہ ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تونے یہ کام کیوں کیا؟ وہ جواب دے گا تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اور اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطاء کردی، وہ کہے گا کہ پروردگار! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب اہل علم توصیف و تعریف میں کہتے ہیں تو اسکا مطلب یہ لینا چاہیئےکہ یہ انکی محبت کے اظہار کا مظہر هے ۔ اب یہ محبت اپنے اندر بذات خود کئی طلب رکهتی هے ۔ جیسے آپ مزید جستجو کریں حصول علم کی اور صحیح علم کو لوگوں تک پہونچائیں ۔
اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے ۔ حصول علم آپ کے لئیے آسان فرمائے ۔ آزمائشوں میں ثابت قدم رکهے ۔ حق پر قائم رکهے ۔
 
Top