• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ عرش پر ہے۔

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
اللہ تعالیٰ عرش پر ہے!
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طہ : ٥)
''رحمن عرش پر مستوی ہے۔''
نیز فرمایا :
(ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ)
(الاعراف : ٥٤، یونس : ٣، الرعد : ٢، الفرقان : ٥٩، السجدۃ : ٤، الحدید : ٤)
سلف صالحین اورائمہ دین نے ان آیات ِ بینات کا معنی بیان کیا ہے کہ ''وہ عرش پر بلند ہوا'' جیسا کہ سنی امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
الرَّحْمٰنُ عَلٰی عَرْشِہِ ارْتَفَعَ وَعَلَا .
''اللہ تعالیٰ عرش پر بلند ہوا ۔''
(تفسیر الطَّبري : ١٨/٢٧٠، ٢٣/١٦٩)
علامہ ابنِ بطال (م ٤٤٩ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ قَالَ : عَلَا، فَہُوَ صَحِیحٌ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَقِّ .
''جن لوگوں نے کہا ہے کہ (استوا علی العرش کا معنی یہ ہے کہ ) اللہ تعالیٰ بلند ہوا، ان کی بات صحیح ہے۔ اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہی ہے۔''
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ٢٠/٩٢)
ثابت ہوا کہ جواللہ تعالیٰ کو عرش پر نہ مانے، وہ اہل سنت اوراہل حق کے مذہب کا مخالف ہے۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) لکھتے ہیں :

''رہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : (ثم استوی علی العرش) (پھر وہ عرش پر مستوی ہوا) تو اس (کی تفسیر) کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال ہیں۔ یہ جگہ ان کی تفصیل کی نہیں۔ اس مسئلے میں ان سلف صالحین کی راہ پرچلا جائے گا۔ امام مالک، امام اوزاعی، امام سفیان ثوری، امام لیث بن سعد، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہم رحمہم اللہ ، جو کہ قدیم اور جدید دَور کے مسلمانوں کے امام ہیں۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کو اسی طرح تسلیم کیا جائے، جس طرح وہ بیان ہوئی ہیں۔ نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے، نہ ان میں تعطیل کی جائے اور نہ ہی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دی جائے۔ تشبیہ دینے والے لوگوں کے ذہن میں جو متبادر بات آتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے، کیوں کہ مخلوق میں سے کوئی چیز اس کے مثل نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( لیس کمثلہ شئی فی الارض والا فی السما) (الشوری : ١١) (اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع وبصیر ہے) بل کہ یہ معاملہ ایسے ہے، جیسے ائمہ دین نے فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ، امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ بھی ہیں، انہوں نے فرمایا ہے کہ جواللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دے ، وہ بھی کافر اور جو اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ صفات میں سے کسی کاانکار کرے، وہ بھی کافر (کتاب العرش للذہبی : ٢٠٩، وسندہ، حسن) جو صفت ِ باری تعالیٰ خود اللہ نے بیان کی ہے یا اس کے رسول نے بیان کی ہے ، اس میں کوئی تشبیہ نہیں۔لہٰذا جوشخص آیات ِ بینات اوراحادیث ِ صحیحہ میں بیان کی گئی صفات ِ باری تعالیٰ کو اس طرح ثابت کرتا ہے ، جیسے اللہ کی شان کولائق ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تمام نقائص کی نفی کرتا ہے ، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن ہے۔''
(تفسیر ابن کثیر : ٣/١٦٦، سورۃ الأعراف، تحت آیت : ٥٤)
امام ابنِ عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) حدیث نزولِ باری تعالیٰ کے تحت فرماتے ہیں:
''اس حدیث میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر، عرش پر ہے، جیسا کہ جماعت (اہل سنت) کا عقیدہ ہے ۔ یہ حدیث معتزلہ اور جہمیہ کے خلاف اہل سنت کی دلیل ہے۔ جہمیہ اورمعتزلہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ میں ہے، (صرف) عرش پر نہیں ہے۔ اس بارے میں جو بات اہل حق نے کی دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طہ : ٥) (رحمن عرش پر مستوی ہوا)''
(التّمہید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : ٧/١٢٩)
''امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ائمہ کرام کا اسلام اورسنت سے ماخوذ قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے، جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٥) (رحمن عرش پرمستوی ہوا)۔''
(شِعار أصحاب الحدیث لأبي أحمد الحاکم : ١٢، وسندہ، صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ تمام ائمہ اہل سنت کا یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ۔ وہ اس پر مذکورہ آیت کریمہ پیش کرتے تھے۔ اس کے برخلاف اہل باطل کہتے ہیں کہ استوٰی کا معنی استولیٰ (وہ عرش پر غالب ہوا) ہے۔
جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (م ١٣٤٦ھ) لکھتے ہیں :
''ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جوصحیح اورلغت وشرع کے اعتبارسے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں ، مثلاً یہ کہ ممکن ہے کہ استوا سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔''
(المہنَّد علی المفنّد، ص ٤٨)
یہ اہل سنت کی مخالفت ہے۔ اہل سنت ''ان جائز تاویلوں'' کو باطل تاویلیں کہتے ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (مجموع الفتاویٰ : ١٧/٣٧٤۔٣٧٩) نے بارہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ (مختصر الصواعق المرسلہ : ١/١٥٢۔٢٢٦) نے بیالیس طریقوں سے ان تاویلات کو باطلہ قرار دیا ہے۔
نیز شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
''اہل سنت اورسلف امت کا اتفاق ہے کہ جوشخص استوی کی تاویل استولیٰ یا کسی اورمعنی سے کرتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کی نفی کرتا ہے، وہ گمراہ جہمی ہے۔''
(التّسعینیّۃ : ٢/٥٤٥)
مزید فرماتے ہیں :
''مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا اقرار کیاجائے گا۔ ان چیزوں پر غالب ہونے کا معنی نہیں کیا جائے گا۔''
(مجموع الفتاویٰ : ٥/١٤٥)
نیز فرماتے ہیں :
فَسَّرُوا الْاِسْتِوَاءَ بِمَا یَتَضَمَّنُ الْإِرْتِفَاعَ فَوْقَ سَمَاوَاتِہٖ .
''اہل سنت والجماعت نے استوا کا معنی آسمانوں کے اوپر بلند ہونے کا کیا ہے۔''
(مجموع الفتاویٰ : ١٦/٣٥٩)
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ِ ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّ ظَاہِرَ الْاِسْتِوَاءِ وَحَقِیقَتَہ، ہُوَ الْعُلُوُّ وَالْاِرْتِفَاعُ کَمَا نَصَّ عَلَیْہِ جَمِیعُ أَہْلُ اللُّغَۃِ وَالتَّفْسِیرِ الْمَقْبُولِ .
''استوا کا ظاہری اورحقیقی معنی بلند ہونا ہی ہے، جیسا کہ تمام اہل لغت اور اہل تفسیر مقبول نے صراحتاً بیان کیا ہے۔''
(مختصر الصَّواعق المرسلۃ : ٢/١٤٥)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) مؤوّلین کاردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''بعض لوگ استویٰ کا معنی استولیٰ کرتے ہیں اور دلیل شاعر کے اس قول سے لیتے ہیں : حتی استوی بشر علی العراق من غیر سیف ودم مہراق (یہاں تک کہ بشر عراق پربغیر تلوار چلائے اور خون بہائے غالب ہوگیا ) نیز شاعر کے اس قول کے ساتھ بھی :
ہما استویا بفضلہما جمیعا علی عرش الملوک بغیر زور (وہ دونوں اپنی فضیلت ومنقبت کی وجہ سے بغیر غلط طریقہ استعمال کیے بادشاہوں کے تخت پرغالب ہوگئے) حالاں کہ یہ معنی لغویوں کے ہاں منکر ہے۔ ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ عرب لوگ استویٰ کا استولیٰ کے معنی میں ہونا نہیں جانتے۔ جو ایسا کہے گا، بڑی سخت بات کہے گا۔ پھر استولیٰ کا لفظ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے، جب کوئی چیز کسی سے دُور ہو اور وہ اس پر قادر نہ ہو، بعد میں قادر ہوگیاہو، جب کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیا پر ازل سے قادر ہے۔ ان دونوں شعروں کا قائل بھی معلوم نہیں ہو سکا، جیسا کہ ابن الفارس لغوی نے کہا ہے۔ اگر یہ دونوں شعر ثابت ہو بھی جائیں، تو ان میں کوئی دلیل نہیں، کیوں کہ استولیٰ کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب کوئی پہلے قادر وغالب نہ ہو، بعد میں ہوا ہو۔ ہم ملحدین کی تعطیل اور مجسمہ فرقہ والوں کی تشبیہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔''
(زاد المسیر : ٣/٢١٣)
فائدہ :
یہ دونوں شعر لسان العرب (١٤/٤١٤، سوی) اور الصحاح للجوہری (٦/٢٣٨) میں مذکورہیں، لیکن شاعر کانام ذکرنہیں کیاگیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
''اس شعر کے عربی ہونے کے بارے میں کوئی صحیح نقل ثابت نہیں ہو سکی۔ بہت سے ائمہ لغت نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ خود ساختہ شعر ہے، لغت ِ عرب میں نہیں ملتا۔''
(مجموع الفتاویٰ : ٥/١٤٦، الصَّواعق المرسلۃ لابن القیم، ص ٣٨٨)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''میں امام ربیعہ بن عبدالرحمن کے پاس تھا کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ رحمن عرش پر مستوی ہے تو کیسے؟ انہوں نے فرمایا: استوا عین معلوم ہے، لیکن اس کی کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں۔ پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ رسولوں کے ذمہ پہنچانا اور ہمارا فرض تصدیق کرنا ہے۔''
(العلوُّ للعلي الغفار للذہبي، ص ٩٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابوعمر احمد بن محمد بن عبداللہ طلمنکی رحمہ اللہ (٤٢٩ھ) اپنی کتاب الوصول إلی علم الأصول میں لکھتے ہیں :
''اہل سنت والجماعت نے فرمانِ باری تعالیٰ : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتوٰی) (طہ : ٥) (رحمن عرش پرمستوی ہوا) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر استوا حقیقی ہے، مجازی نہیں، جب کہ معتزلہ اور جہمیہ میں سے ایک گروہ نے کہا ہے کہ مخلوق کے نام ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسما کا اطلاق جائز نہیں۔ انہوں نے ان اسما کی حقیقت کواللہ تعالیٰ سے نفی کردیا اورمخلوق کے لیے ثابت کردیا۔ جب ان لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہیں اس گمراہی پرکس چیز نے آمادہ کیا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ نام ایک ہونے سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جس لغت میں ہمیں (قرآنِ کریم میں) خطاب کیا گیا ہے۔ یہ بات اس لغت کوچھوڑنے کے مترادف ہے، کیوں کہ لغت میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ناموں کے ساتھ مشابہت نہیں ہوتی، بل کہ چیزوں کی آپس میں تشبیہ خود ان چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے یا ان کی شکل وصورت کی وجہ سے ہوتی ہے، مثلاً سفیدی کی سفیدی کے ساتھ، سیاہی کی سیاہی کے ساتھ ، لمبی کی لمبی کے ساتھ اورچھوٹی کی چھوٹی کے ساتھ تشبیہ ہوتی ہے۔ اگر ناموں کی وجہ سے چیزوں میں مشابہت ہونے لگے، تو پھر تمام چیزوں میں مشابہت پیدا ہوجائے، کیوں کہ سب کو 'چیز' کا نام دیا جاتا ہے اور عمومی طور پر سب اشیا کو اسی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیاتم اللہ تعالیٰ کے وجود کے اقراری ہو؟ اگر وہ ہاں میں جواب دیں تو ہم انہیں کہیں گے کہ تمہارے کہنے کے مطابق تو اللہ تعالیٰ کی سب موجودات سے تشبیہ ہو گئی ہے۔ اگر وہ کہیں کہ اللہ موجود تو ہے، لیکن اس کے موجود ہونے سے دوسری موجودات سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو ہم کہیں گے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ حيّ، عالم، قادر، مرید، سمیع، بصیر، متکلم ہے، یعنی ان صفات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے موصوف مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔''
(العلوّ للذّہبي، ص ٢٦٤)
امام حمیدی رحمہ اللہ (م ٢١٩ھ) اہل سنت کا عقیدہ ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''موت کے بعد (روز قیامت) رؤیت باری تعالیٰ کا اقرار، نیز ان تمام صفات کا اثبات جو قرآن وسنت میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً : (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ أَیْدِیْہِمْ) (یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہواہے ۔ ان کے اپنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں) اور جیسا کہ (وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ) (اور آسمان اس کے ہاتھ پر لپیٹے ہوئے ہیں)، نیز اس طرح کی دوسری قرآنی وحدیثی نصوص۔ کوئی مسلمان ان میں زیادت نہیں کرے گا، نہ ہی اس کی (اپنی طرف سے) تفسیر کرے گا، بل کہ جہاں قرآن وسنت ٹھہر گئے ہیں، وہیں ٹھہر جائے گااور کہے گا کہ رحمن عرش پرمستوی ہے۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والا گمراہ جہمی ہے۔''
(أصول السّنّۃ في آخر مسندہ : ٢/٥٤٧)
امام ابنِ ابی شیبہ رحمہ اللہ (م ٢٩٧ھ)لکھتے ہیں :
''فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (رحمن عرش پرمستوی ہوا۔) اللہ تعالیٰ عرش پرمستوی ہے اور زمین وآسمان کی ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ وہ عرش پرمستوی ہوتے ہوئے ہر چیز کوجانتا اور اس کی آواز کو بعینہ سنتا ہے۔ کوئی ایسے پردے نہیں، جو سب سے نچلی زمین میں موجود چیز کو دیکھنے سے اسے رکاوٹ بنیں۔ اسی نے پردے پیدا کیے ہیں اور اسی نے عرش پیدا کیا ہے، جیسا کہ اسی نے جب چاہا اور جیسے چاہا مخلوق کو پیدا کیا۔''
(العَرش وما روی فیہ لابن أبي شیبۃ، ص ٢)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں :
''یہ تمام آیات معتزلہ کے ردّ میں بہت واضح ہیں۔ رہا ان کا استوا کے معنی میں مجاز کا دعویٰ اور استویٰ میں استولیٰ کی تاویل کرنا، تو یہ بے معنی بات ہے، کیوں کہ یہ چیز لغت میں معروف نہیں۔ پھر استیلا کا لغوی معنی مغالبہ (دوسرے سے غلبہ حاصل کرنا) ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غلبہ میں مقابلہ نہیں کرسکتا، نہ ہی کوئی اس سے بلند ہو سکتا ہے۔ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے۔''
(التّمہید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : ٧/١٣٢)
امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (٣٢٤ھ) فرماتے ہیں :
''معتزلہ، جہمیہ اور حروریہ حضرات نے کہا ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طہ : ٥) (رحمن عرش پر مستوی ہوا) کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غالب ہوا، مالک بنا اور اس نے تسلط حاصل کیا، نیز ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کر دیا ہے، جیسا کہ اہل حق اس کے قائل ہیں۔ یہ (اہل باطل) لوگ استوا کی تاویل میں قدرت کی طرف گئے ہیں۔''
(الإبانۃ عن أصول الدّیانۃ : ١٤)
امام الائمہ ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں :
''ہمارے بلند واعلیٰ خالق، ہر چیز پر قادر کے عرش پر مستوی ہونے کا بیان۔ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر اور ہر چیز کے اوپر ہے، جیسا کہ اس نے خود خبر دی ہے : (الرحمن علی العرش استوی) (رحمن عرش پر مستوی ہوا)، نیز فرمایا : (إنّ ربّکم اللّٰہ الذي خلق السماوات والأرض في ستّۃ أیّام ثمّ استوی علی العرش) (بے شک تمہارا رب وہ ہے، جس نے زمین وآسمان کو چھے دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔) سورہئ حم السجدہ میں فرمایا : (اللّٰہ الذي خلق السماوات والأرض وما بینہما في ستّۃ أیّام ثمّ استوی علی العرش) (اللہ وہ ذات ہے، جس نے آسمان وزمین اور اس کے درمیان جو ہے، سب کو چھے دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا)، نیز فرمایا : (وہو الذي خلق السماوات والأرض في ستّۃ أیّام وکان عرشہ علی المائ) (اور اللہ وہ ذات ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دنوں میں پیدا کیا، تب اس کا عرش پانی پر تھا۔) ہم اللہ تعالیٰ کی اس خبر کے مطابق ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خالق اپنے عرش پرمستوی ہے۔ ہم کلامِ الٰہی میں تبدیلی نہیں کرتے، نہ ہم ایسی بات کہتے ہیں، جو ہمیں نہیں کہی گئی، جیسا کہ معطِّلہ اور جہمیہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مسلط وغالب ہوا ہے، مستوی نہیں ہوا۔ جو ان سے کہا گیا تھا، اس کے خلاف انہوں نے کہہ دیا ہے، اس طرح تو یہودیوں نے کیا تھا کہ جب ان کو حطّۃ کہنے کا حکم دیا گیا، تو انہوں نے حکم الٰہی کی مخالفت کرتے ہوئے حنطۃ کہا۔ یہی کام جہمیہ نے کیا ہے۔''
(کتاب التَّوحید : ١/٢٣١۔٢٣٣)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''کلامِ عرب، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں مخاطب کیا ہے اور جس میں اپنی کلام نازل فرمائی ہے، اس میں لفظِ استوا کی دو قسمیں ہیں : مطلق اور مقید ۔۔۔۔۔۔۔۔ استوا کے یہ معانی کلامِ عرب میں معقول ہیں۔''
(مختصر الصَّواعق المُرسلۃ : ٢/١٢٦۔١٢٧)
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) فرماتے ہیں :
''بلندی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ عرش پرمستوی ہے، بادشاہت پر حاوی ہے، اس کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ،) (اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور عمل صالح کو بلند کرتا ہے)، نیز فرمایا : ( یُدَبِّرُ الْ
ـأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الْـأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْہِ فِي یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ، أَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ) (وہ معاملات کی تدبیر آسمان سے زمین تک کرتا ہے، پھر اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال ہے) اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ قرار دینا جائز نہیں، بل کہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (رحمن عرش پر مستوی ہے) صفت استوا کا اطلاق بغیر تاویل کے کرنا ضروری ہے۔ عرش پر یہ استوا ذات کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا بغیر کیفیت بیان کیے انبیا پر نازل ہونے والی ہر کتاب میں مذکور ہے۔''
(غنیۃ الطّالبین : ١/٥٤۔٥٧، طبع الحلبي)
تنبیہ :
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''رہا اس شخص کا اعتراض، جس نے (استوا علی العرش پر) اس روایت کے ذریعے اعتراض کیا ہے کہ سیدنا ابن عباسw فرمانِ باری تعالیٰ : (الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : 'وہ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ہے۔ اس سے کوئی جگہ خالی نہیں۔' اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ ابن عباسw سے منکر روایت ہے۔ اس روایت کے راوی ضعیف اورمجہول ہیں۔ عبداللہ بن داؤد واسطی اور عبدالوہاب بن مجاہد دونوں ضعیف ہیں، جب کہ ابراہیم بن عبدالصمد مجہول ہے۔ اس کی شناخت نہیں ہو سکی۔ یہ لوگ تو عادل راویوں کی اخبارِ آحاد قبول نہیں کرتے۔ اگر یہ لوگ عقل اور انصاف سے کام لیں، تو سوچیں کہ ان کے لیے اس روایت سے حجت لینا کیسے جائز ہے؟ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا : (وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا ہَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَلِّي أَبْلُغُ الْ
ـأَسْبَابَ ٭ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلٰی إِلٰہِ مُوسٰی وَإِنِّي لَـأَظُنُّہ، کَاذِبًا) (فرعون نے کہا : اے ہامان! تومیرے لیے ایک ایسا محل بنا کہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے الٰہ کو جھانک کر دیکھوں اور میں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰu یہ کہتے تھے کہ میرا الٰہ آسمانوں پر ہے، جب کہ فرعون، موسیٰ u کو جھوٹا سمجھتا تھا۔''
(التَّمہید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : ٧/١٣٢)
امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ (٢٢٨ھ) فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ کو کسی مخلوق سے تشبیہ دینے والا کافر ہے۔ جو ہر اس وصف کا انکار کرے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیان کیا، وہ کافر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ وصف میں کوئی تشبیہ جائز نہیں۔''
(تاریخ ابن عساکر : ٦٢/١٦٣، وسندہ، حسنٌ)
اس قول کو ذکر کرنے کے بعد حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٧٤٨ھ) لکھتے ہیں :
''یہ بات حق ہے۔ تشبیہ اور احادیث صفات کے انکار سے ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ کسی سمجھدار نے ثابت صفت کا انکار نہیں کیا۔ ان پر ایمان لانے کے بعد دو مذموم مقام اور ہیں۔ 1ان کی تاویل کرنا اور حقیقی معنی سے پھیر دینا۔ سلف صالحین نے نہ ان کی تاویل کی اور نہ ہی لفظی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں، بل کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور جیسے وارد ہوئی ہیں، ایسے ہی گزار دیتے ہیں۔ 2ان کے اثبات میں حد سے بڑھ جانا، انہیں بشر کی صفات کی قبیل سے خیال کرنا اور ذہن میں تصور بنانا۔ یہ نری جہالت وضلالت ہے۔ بلاشبہ صفات موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔ جب ہم نے موصوف باری تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھنے کا دعویٰ کیا، علاوہ ازیں فرمان باری تعالیٰ بھی ہے : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) (اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔) تو ہمارے ذہنوں کی کیا مجال کہ ہم باری تعالیٰ کی کیفیت بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے۔ یہی معاملہ صفات مقدسہ کا ہے۔ ہم ان کا اقرار کرتے ہیں اور انہیں حق سمجھتے ہیں، کوئی مثال بیان نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی تصور پیش کرتے ہیں۔''
(سیر أعلام النبلاء : ١٠/٦١١،٦١٢)
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} [آل عمران: 7]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} [آل عمران: 7]
اور اس کے مصداق متاخرین حنفیہ یعنی ماتریدی عقائد کے حامل قرار پاتے ہیں:
السوال الثالث عشر والرابع عشر
ما قولكم في امثال قوله تعالیٰ الرحمن علی العش استوی هل تجوزون اثبات جهة ومكان للباري تعالیٰ ام كيف رأيكم فيه؟

تیرھواں اور چودھواں سوال
"کیا کہتے ہو حق تعالیٰ کے اس قسم کے قول میں کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا، کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالیٰ کے لیے جہت ومکان کا ثابت کرنا یا کیا رائے ہے؟


الجواب
قولنا في امثال تلك الآيات انا نؤمن بها ولا يقال كيف ونؤمن بالله سبحانه وتعالیٰ متعال ومنزه عن صفات المخلوقين وعن سمات النقص والحدوث كما رای قد مائنا. واما ما قال المتاخرون من ائمتنا في تلك الآيات یاولونها بتاويلات صحيحة سائغة في اللغة والشرع بانه يمكن ان يكون المراد من الاستواء الاستيلاء ومن اليد القدرة الی غير ذلك تقريباً الی الفهام القاصرين فحق ايضا عندنا واما الجهة المكان فلا تجوز اثبتهما له تعالیٰ ونقول انه منزه ومتال عنهما وعن جميع سمات الحدوث.

جواب
اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے، یقینا جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ مخلوق کے اوصاف سے منزّہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبّرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہےاور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت و شرع کے اعتبار سے جائز سے تاویلیں فرمائی ہیں تا کہ کم فہم سمجھ لیں مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت، تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وُہ جہت و مکانیت اور جملہ علاماتِ حدوث سے منزہ و عالی ہے۔"
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 47 – 48 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند (عربی مع ترجمہ اردو) – خلیل احمد سہارنپوری –ادارہ اسلامیات، لاہور

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 43 – 44 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند – خلیل احمد سہارنپوری (عربی مع ترجمہ اردو) – نفیس منزل، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 38 – 39 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند – خلیل احمد سہارنپوری (عربی مع ترجمہ اردو) – الميزان، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 07 – 08 المهند علی المفند (صرف عربی) – خلیل احمد سہارنپوری
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 16 – 17 عقائد علماء اہل سنت دیوبند (صرف اردو) – خلیل احمد سہارنپوری – دار الکتاب، دیوبند

المہند علی المفند مندرجہ بالا عبارت میں اپنے متقدمین علماء احناف ( یعنی قدیم دور کے علماء جیسے امام طحاوی وغیرہ) کا عقیدہ بیان کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی قسم کی تاویل کے قائل نہیں اوراس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت پر بحث نہ کرتے ہوئے بلاکیفیت اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل صحیح ہے اور یہ ہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔
مگر بعد میں آنے والے متاخرین صوفی علماء احناف جہمیہ اور معتزلہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویل کرتے ہیں کہ "ممکن ہے کہ استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت۔" اب یہ دیکھیں کہ ممکن ہے ، ہو سکتا ہے، شاید، ان کو خود یقین نہیں ۔ ان کا تو عقیدہ ہی شش و پنج میں مبتلا ہے اور ان کے متقدمین علماء کے خلاف ہے۔ اب یا تو علماء دیوبند اور متاخرین علماء احناف کا عقیدہ صحیح ہے یا متقدمین علماء احناف کا۔ یقیناً علماء دیوبند اور متاخرین علماء احناف کا صوفی ، جہمی ، معتزلی عقیدہ باطل اور گمراہی ہے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں اللہ تعالیٰ کے مخلوق کے قرب کو بلا کیف کہ کر ذاتی کہا گیا ہے! اس میں مخلوق میں موجود ہونے کا اثبات نہیں!
دوم کہ اس عبارت میں بھی اللہ کے عرش کے اوپر ہونے کا اثبات کیا گیا ہے نہ کہ انکار!
عبارت یوں ہے:
''مثلاً یوم عرفہ کی شام کو اہل عرفات سے قرب الہٰی سجدہ اور تلاوت کے اوقات میں ساجد اور داعی سے قرب الٰہی ھجرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلامی کے وقت قرب تاہم یہ قرب عرش سے اس کی ذات مقدس سے خالی ہونے کو مستلزم نہیں کیونکہ اس کا عرش کے اوپر مستوی ہونا اور اپنی مخلوق کے قریب ہونا دونوں بلا کیف ہیں بنابریں یہ قرب ذاتی ہے کیون کہ اس کے امتناع پر کوئی دلیل نہیں۔''
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہاں اللہ تعالیٰ کے مخلوق کے قرب کو بلا کیف کہ کر ذاتی کہا گیا ہے! اس میں مخلوق میں موجود ہونے کا اثبات نہیں!
دوم کہ اس عبارت میں بھی اللہ کے عرش کے اوپر ہونے کا اثبات کیا گیا ہے نہ کہ انکار!
پھر بھی محتاط موقف یہی ہے کہ لفظ ’ ذاتی ‘ استعمال نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے ، دوسرا یہ لفظ قرآن و سنت اور سلف کی عبارات میں مستعمل نہیں ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پہلے پہل اسے استعمال کیا تھا ، بعد میں اہل علم کے توجہ دلانے پر اس سے رجوع کرلیا۔
 
Top