السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ترجمہ درست نہیں!
اس میں تین باتیں بیان ہوئیں ہیں۔
01: اللہ تعالی کو کسی مکان نے گھیرانہیں۔
تو اس کے قائل اہل حدیث بھی نہیں کہ کوئی بھی شئء اللہ تعالی کا احاطہ کر سکتی ہے، ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا اور اپنی مخلوق کے اوپرہے!
02: نہ اس پر کوئی زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے۔
تو اہل حدیث بھی اس کے قائل نہیں،
03: بخلاف اس فرقہ شہامیہ اور کرامیہ کے اس قول کے کہ اللہ تعالیٰ (صرف) عرش پر ہے۔
یہاں ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ عربی عبارت یوں ہے:
خلاف قول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه
اس کا ترجمہ درست ہوں ہوگا کہ:
بخلاف شہامیہ اور کرامیہ میں سے ان کے قول کے کہ جو گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے ساتھ مماس کئے ہوئے (چھوئے ہوئے) ہے۔
اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ بھی نہیں! یہ شہامیہ اور کرامیہ میں سے جن کا عقیدہ ہوگا سو ہوگا، مگر اہل حدیث اس سے بری ہیں!
اصل بات یہاں مترجم کی فنکاری ہے! کہ اس نے کس طرح ڈنڈی مار کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
نوٹ: عبد القاھر بن طاھر ویسے بھی خود ایک اشعری تھے، اگر یہ ایسا کوئی اجماع جو اہل حدیث کے عقیدے کے خلاف کہہ بھی دیں ، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اب کسی اشعری ماتریدی کے اجماع کہہ دینے سے اجماع ہو تھوڑا ہی جاتا ہے،اللہ سبحانه تعالیٰ کے بذاتہ اس کی مخلوق سے جدا، اس کی مخلوق کے اوپر، ساتوں آسمانوں سے اوپر ، عرش کے اوپر ہونے پر قرآن و حدیث کے دلائل اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال موجود ہیں!