• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ پر ایمان۔

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ


(سورۃ الاعراف 54 )
ترجمہ:
بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے (١) پھر عرش پر قائم ہوا (٢) وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (٣) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔

۔تفسیر مکہ۔
یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اس کو یوم البست کہا جاتا ہے، کیونکہ سبت کے معنی ہیں قطع (کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔
پھر اس دن سے کیا مراد ہے؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہوجاتا ہے۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے۔ بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان اور زمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے،
اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ تو کُنْ سے سب کچھ پیدا کرسکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ درجہ بدرجہ سلسلہ وار بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج (سلسلہ وار) کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ وَا للّٰہُ اَعْلَم

اللہ تعالیٰ عرش پر :
٥٤۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ( ّٹھہرا) ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے ' جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا ' اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص (قطعی حکم) سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر) ٥٤۔ ٣ حثیثا کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فورا آجاتا ہے یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً غائب ہوجاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہوجاتا ہے اور سب دور و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی
اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہے۔ (شوکانی) دیکھئے سورت حج آیت 47۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں دنوں سے ہمارے دن مراد نہیں ہیں جن کا تعلق سورج اور زمین کی گردش سے ہے کیونکہ ان سے لمبا زمانہ یا چھ ادوار مراد ہیں قرآن کی مخلتف آیات پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں کون سی چیز بنائی گئی دیکھئے سورۃ فٖصلت آیت 10۔۔۔ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم الا حد ( اتوار) سے خلق کی ابتدا ہوتی ہے اور جمعہ کے دن تمام ہوگئی ( ابن کثیر، المار ) ف 9 استویٰ علی العرش قرآن میں ساتھ مقامات پر آّیا ہے اس کے معنی عرش پر بلند ہونے کے ہیں سلف صالح نے بلاتاویل اللہ کو عرش پر تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ استو کے معنی تو معلوم ہیں مگر اس کی کیفیت ہماری عقل سے با لا ہے اس کا اقرار ایمان ہے اور انکار کفر ہے یہی مذہب آئمہ اربعہ کا ہے پس صحیح عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے تاہم اس کا علم وقدرت سب پر حاوی ہے اہل حدیث کا یہی عقیدہ ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمان وزمین پر محیط ہے ( ابن کثیر، شوکانی) ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور راستہ ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ اسی پر چلتے رہتے ہیں اور اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ (کذافی الکبیر )

تفسیر تیسیر القران
یہاں دن سے مراد ہمارا یہ ٢٤ گھنٹے کا دن نہیں جو سورج سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ سورج تو اس وقت موجود ہی نہ تھا۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال کا ذکر آیا ہے (٢٢ : ٤٧) اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا (٧٠ : ٤) لہذا یہاں چھ دن سے چھ ادوار ہی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ حم السجدہ ٤١ کی آیات ٩ تا ١٢) [٥٤] استواء علی العرش کا مفہوم :۔ قرآن میں جہاں بھی استویٰ علی کا لفظ آیا ہے تو اس کے معنی قرار پکڑنا یا جم کر بیٹھنا ہے لیکن بعض عقل پرست فرقے جن میں جہمیہ اور معتزلہ سرفہرست ہیں آیت (اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ 59؀) 25۔ الفرقان :59) کا ترجمہ عرش پر متمکن ہوگیا یا کائنات کے نظام پر غالب آ گیا یا زمام اختیار و اقتدار سنبھالی وغیرہ کرتے ہیں اور استویٰ کے معنی استولیٰ سے کرتے ہیں جن کے متعلق امام ابن قیم نے فرمایا کہ نون الیھود ولام جھمی ھما۔۔ فی وحی رب العرش زائد تان یعنی یہودیوں کا نون ( حطہ کی بجائے حنطہ کہنا) اور جہیمہ کالام (یعنی استویٰ کی بجائے استولیٰ سمجھنا) دونوں باتیں وحی الٰہی سے زائد ہیں۔ فرقہ جہمیہ کا تعارف :۔ جہیمہ فرقہ کا بانی جہم بن صفوان دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک (١٠٥ ھ تا ١٢٥ ھ) کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ یہ شخص ارسطو کے تجریدی نظریہ ذات باری سے متاثر تھا (ارسطو ایک یونانی فلاسفر تھا جو ذات باری کے وجود کا قائل تھا مگر تجریدی نظریہ رکھتا تھا اور آخرت کا منکر تھا) جہم اپنے زعم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مکمل تنزیہہ بیان کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا تھا جو کتاب و سنت میں وارد ہیں اور اس تنزیہہ میں اس نے اس قدر غلو اور مبالغہ سے کام لیا کہ بقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس نے اللہ تعالیٰ کو لاشے اور معدوم بنا دیا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت یا سمت مقرر کرنے کو شرک قرار دیتا تھا اور اس کی طرف ہاتھ، پاؤں، چہرہ، آنکھیں اور پنڈلی کی نسبت کرنے کو، جن کا قرآن میں ثبوت موجود ہے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے عرش پر قرار پکڑنے یا اپنے ہاتھوں، آنکھوں، چہرے اور پنڈلی کا غیر مبہم الفاظ میں قرآن میں ذکر فرمایا ہے تو اس کی تنزیہہ خود اس سے زیادہ بہتر اور کون کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کا عرش کیسا ہے یا اس نے کس طرح عرش پر قرار پکڑا ہے یا اس کا چہرہ، آنکھیں اور ہاتھ وغیرہ کیسے ہیں تو یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں کیونکہ اس نے خود ہی فرمایا ہے کہ آیت (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ 74؀) 16۔ النحل :74) نیز فرمایا (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ 11 ؀) 42۔ الشوری:11) تو بس ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت میں مذکور ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دوراز کار تاویلات و تحریفات پیش کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ قرآن ایسی فلسفیانہ موشگافیوں کا متحمل ہی ہوسکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ امی تھے اور فلسفیانہ موشگافیوں سے قطعاً نابلد تھے۔ صفات الہٰی میں بحثیں کرنے والے ملعون ہیں :۔ قرآن کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور ہوں ان کی کرید کرنا اور ان کی عقلی توجیہات تلاش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور وہ یہ کام کسی فتنہ انگیزی یعنی کسی نئے فرقے کی طرح ڈالنے کی خاطر کرتے ہیں جس کے وہ قائد شمار ہو سکیں اور اس طرح امت کو فرقہ بازی کے فتنے سے دو چار کردیتے ہیں (ملاحظہ ہو سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧ اور ٨) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : آیت (وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ ١٨٠۔) 7۔ الاعراف :180) یعنی جو لوگ اللہ کے اسماء (صفات الہیٰ) میں ٹیڑھی راہیں اختیار کرتے ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو یاد رہے کہ الحاد کا تعلق عموماً ایسے باطل عقائد سے ہوتا ہے جو صفات الٰہی سے متعلق ہوتے ہیں۔

[٥٥] یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کر کے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض دوسرے گمراہ فرقوں کا خیال ہے بلکہ وہ پوری کائنات پر اکیلا کنٹرول کر رہا ہے یہ سورج چاند ستارے اس کی مقرر کردہ چال کے مطابق اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں اور اس کے حکم سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہو سکتے اور کائنات میں جو کچھ تصرفات اور حوادث رونما ہو رہے ہیں سب اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔

[٥٦] حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے ہے :۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہو اور تدبیر امور کائنات میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں کوئی بارش برسانے کا دیوتا ہو تو کوئی فصلیں پیدا کرنے والا اور کوئی دوسرا مال و دولت عطا کرنے والا ہو۔ جو چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے فرمان کے آگے بے بس اور مجبور ہوں وہ دوسری چیزوں پر کیا حکم چلا سکتی ہیں؟ اور انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی مملوکہ چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے اور مملوک اسی کا تابع فرمان ہو۔ اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے یہاں ستارہ پرستی کا رد مقصود ہے تاہم اس جملہ کا حکم عام ہے۔ یعنی اس دنیا میں انسانوں پر اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم چلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں لہذا یہاں نہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے اور نہ عام انسانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم مانیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو ایسے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کرنی چاہیے۔ نیز اس آیت کی رو سے نظام خلافت کے سوا باقی سب نظام ہائے سیاست باطل قرار پاتے ہیں جن میں اللہ کے سوا دوسروں کا قانون نافذ ہوتا ہے۔

[٥٧] برکت کا مفہوم :۔ برکت کا مطلب یہ ہے کہ جن متوقع فوائد اور خیر و بھلائی کے لیے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ پورے کے پورے فوائد اس سے حاصل ہوجائیں یہاں اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی چیز جس مقصد اور خیر و بھلائی کے لیے بنائی تھی اس سے پورے کے پورے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے۔)
 
Last edited by a moderator:
Top