• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کو پیارے ہوگئے

شمولیت
جنوری 23، 2018
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
52
’’اللہ کو پیارے ہوگئے‘‘

?تحریر :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

(میسان ۔طائف‘سعودی عرب)

الحمد للہ رب العالمین ،و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین و بعد

بہت ساری ایسی تحریریں آپ کو مل جائیں گی (خاص کر تعزیتی تحاریر )جن میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مقالہ نگاران بکثرت لکھتے ہیں کہ‘‘فلاں صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے,, ‘قطع نظر اس سے کہ اس کا کیا معنی ہے ؟اسلامی عقائد پر اس کا کیا اثر ہوگایا ہوتا ہے؟اس کے مدلولات کیا ہیں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شرعی نقطہ ٔ نگاہ سے ایسا لکھنا ‘کہنایاعقیدہ رکھنا جائز و درست ہے ؟

کیا ہم کسی کے لئے اللہ کے پیارے ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں؟

پھر یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے کہ اللہ کے پیارے ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

نیز اس پر بھی تأمل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جملہ کے شرعی مدلولات کیا ہیں؟

انہیں حقائق کا جائزہ لینے کے لئے یہ تحریر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کی ایک طالب علمانہ کوشش کی جارہی ہے ‘اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مدعا کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ان شاء اللہ۔

قارئین ِ گرامی قدر !اسلامی عقائد کا یہ بھی ایک جزہے کہ کسی شخص ِ معین کے بارے میں ایسی گواہی دینا قطعی جائز نہیں ہے جس سے اس کے بخشے بخشائے ہونے‘اس کی مغفرت ‘نجات ‘یااللہ کاپیارا ہونے کا اشارہ ملتا ہو یا اس کی صراحت و وضاحت ہو‘کیوں کہ اگر کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو تو کسی کو بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ کون بخشا بخشایا ہے ؟کس کی مغفرت ہوئی ؟کس پر اللہ نے اپنا رحم و کرم فرمایاہے ؟کون اللہ کا پیارا و دلارا اور حبیب ہے ؟(ہاں کسی کی بخشش و مغفرت ‘رحمت و کرم کی دعا کرنا دوسرا مسئلہ ہے‘اور یہ بالاتفاق جائز اور درست ہے ‘بلکہ محمود و مطلوب بھی ہے)

زیر ِ بحث فقرہ(اللہ کو پیارے ہوگئے) سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ (وہ اللہ کو پیارے ہوگئے)اس کے بارے میں یہ گواہی دی جارہی ہے کہ وہ اللہ کے حبیب ہیں ‘ان کی بخشش ہوگئی ‘ان کو نجات مل جائے گی ‘بلفظِ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ گواہی دی جا رہی ہے کہ اللہ اس سے خوش ہوگیا‘اللہ نے اس سے اپنی رضامندی ظاہر فرمائی‘اور اس پر اپنی رحمت و برکت کی برکھا برسا دی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعتا وہ اللہ کا پیارا تھا ‘کیا دنیا میں وہ ایسے اعمال انجام دیا کرتا تھا ‘جس کی بنیاد پر اسے یہ سرٹیفیکیٹ دیا جا سکے‘اور اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ نیک اعمال کیا کرتا تھا تو کیا اس کے اعمال کی قبولیت کی ضمانت دی جا سکتی ہے‘کیا یہ ضروری ہے کہ اللہ نے اس کے اعمال قبول ہی کر لئے ہوں ‘نیز یہ بھی ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ اگر اعمال صالحہ ‘نیک اعمال ‘خیر و بر کے کاموں میں میں شریک تھا اورانجام دیا کرتا تھا تو کیا معین شخص کے لئے ایسی گواہی دی جا سکتی ہے ؟

نصوص ِ کتاب و سنت کا بنظر ِ غائر مطالعہ کر جائیے‘ بہ تعیین صرف( ۴۱)صحابہ کے ہی نام مل سکیں گے ‘جن کے جنتی ہونے کی شہادت اسی دنیا میں نبی ٔکریمﷺ کی زبان ِ فیض ترجمان سے دی گئی ہے (دیکھئے:الکواشف الجلیۃ عن معانی الواسطیۃ للشیخ عبد العزیز السلمان ص ۶۸۹۔۶۹۴‘نیز دیکھئے: حقوق الصحابۃ لشیخنا الشیخ صالح سندی ص ۳۴۔۳۵)بقیہ جملہ صحابہ ٔ کرام کے لئے عمومی طور پر جنتی ہونے کی بشارت موجود ہے (دیکھئے:مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۳؍۱۵۳‘عقیدۃ السلف و أصحاب الحدیث للصابونی ص ۲۸۷)حالانکہ جملہ صحابہ ٔ کرام خیر و نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ‘خیر کے کاموں میں سبقت کی عظیم اور لا زوال مثالیں انہوں نے قائم فرمائیں ‘اور رہتی دنیا تک کے لئے مثال بن گئے ‘نیکی کا کوئی بھی ایسا باب نہیں ‘جس پر انہوں نے ۔معاذ اللہ۔کوئی کوتاہی کی ہو

اللہ کو پیارے ہونے کا صاف مطلب ہے کہ وہ جنتی ہے ‘کیوں کہ جو اللہ کا پیارا ہوگا ‘اللہ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شخص ِ معین کے لئے جنت کی گواہی دی جا سکتی ہے ؟

کیا کسی شخص ِ معین کو جنتی قرار دیا جا سکتا ہے ؟

کسی شخص ِ معین کے لئے مغفرت و رحمت کی گواہی دی جا سکتی ہے ؟

اہل سنت والجماعت کا صحابہ کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ جن صحابہ ٔ کرام کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ‘مثلا :عشرہ مبشرہ جن میں حضرات خلفائے راشدین سب سے سر ِ فہرست آتے ہیں(جن کی کل تعداد ۴۱ بنتی ہے‘جیسا کہ اوپر گزرا‘جن کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے)انہی کے لئے جنت کی گواہی دی جا سکتی ہے ‘بقیہ عام صحابہ کے لئے عمومی جنت ملنے کی گواہی دی جائے گی (دیکھئے:الشرح و الإبانۃ علی أصول السنۃ و الدیانۃ از : ابن بطۃ :ص ۲۶۲۔۲۶۴‘عقیدۃ السلف و أصحاب الحدیث از : الصابونی :۱ ۱۲۸‘لمعۃ الإعتقاد از ابن قدامہ :۲۸‘العقیدہ الواسطیہ مع شرح الشیخ خلیل ہراس ص ۱۶۹‘قطف الثمر فی بیان عقیدۃ أھل الأثر از صدیق حسن بھوپالی ص ۹۸)اور عمومی طور پر عام صحابہ کے لئے جنت کی گواہی بھی دی جائے گی ‘جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :( وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ)(الحدید:۱۰)اور بھلائی کا وعدہ تو اللہ نے ان تمام سے کیا ہے۔یہاں پر بلاشبہ (الْحُسْنَىٰ)سے مراد جنت ہے

اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ کسی کو بھی ۔اگر نص موجود نہیں ہے تو۔جنت یا جہنم کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا ہے

امام ابو عثمان صابونی فرماتے ہیں:,,فأما الذین شھد لھم رسول اللہ ﷺ من أصحابہ بأعیانھم فإن أصحاب الحدیث يشھدون لھم بذلك تصدیقا منھم لرسول اللہ ﷺفیما ذکرہ و وعدہ لھم فإنہ ﷺ لم یشھد لھم بذلك إلا بعد أن عرف ذلك ‘و اللہ أطلع رسولہ علی ما شاء من غیبہ,,(عقیدۃ السلف و أصحاب الحدیث للصابونی ص۲۸۷)رسول اللہﷺنے بہ تعیین جن صحابہ کرام کے جنتی ہونے کی شہادت دی ‘اہل حدیث رسول اللہﷺکی ذکر کردہ باتوں اور وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئےان کے لئے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں‘کیوں کہ رسول اللہﷺنے ان کے جنتی ہونے کے جاننے کے بعد ہی ان کے لئے گواہی دی ہے ‘اور اللہ جن غیبی امور پر چاہتا ہے اپنے نبیﷺ کو مطلع فرمادیتا ہے

مشہور محدث امام علی بن مدینی فرماتے ہیں : ولا يشهد على أحد من أهل القبلة بعمل عمله بجنة ولا نار، نرجو للصالح ، ونخاف على الطالح المذنب، ونرجو له رحمة الله عز وجل. (شرح أصول أہل السنۃ ۱؍۳۱۳)

ترجمہ:اہل قبلہ میں سے کسی کے عمل کی بنیاد پر کسی بھی شخص کے لئے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دی جائے گی ‘نیکو کار کے لئے ہم پر امید ہوتے ہیں اور گنہگار کے لئے خوف بھی لگا رہتا ہے ‘مگر اس کے لئے رحمت ِ الہی کے امید وار(ضرور) ہوتے ہیں

نیز امام احمد بن حنبل ۔رحمہ اللہ۔ نے فرمایا: (ولا نشهد على أحدٍ من أهل القبلةِ بعملٍ يعملُهُ بجنةٍ ولا نار ، نرجو للصالحِ ونخافُ عليه ، ونخافُ على المسيء المذنبِ ، ونرجو له رحمة الله) (اصول السنۃ ص؍ ۲۲) ترجمہ :اہل قبلہ(مسلمانوں) میں سے کسی شخص کے عمل کی بنیاد پر جنت یا جہنم کی گواہی ہم نہیں دے سکتے ‘نیک آدمی کے لئے پر امید رہتے ہیں ‘مگر ڈر بھی رہتا ہے ‘گنہگار پر ڈر بھی رہتا ہے ‘اور اس کے لئے رحمت ِ الہی کے امیدوار رہتے ہیں

نیز ابو بکر اسماعیلی فرماتے ہیں: ,,ولا يقطعون على أحد من أهل الملة أنه من أهل الجنة أو من أهل النار؛ لأن علم ذلك يغيب عنهم، لا يدرون على ماذا الموت، أعلى الإسلام، أم على الكفر؟ ولكن يقولون: إن من مات على الإسلام مجتنباً للكبائر والأهواء والآثام، فهو من أهل الجنة، لقوله تعالى: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [البينة : 7] ولم يذكر عنهم ذنباً {أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ - جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ} [البينة : 7 - 8] ومن شهد له النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعينه وصح له ذلك عنه ، فإنهم يشهدون له بذلك ، اتباعاً لرسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وتصديقاً لقوله ،، )(اعتقاد أئمۃ الحدیث ص ۶۸) ترجمہ: اہل اسلام میں سے کسی کے لئے بھی جنت یا جہنم کی قطعی گواہی ہم نہیں دے سکتے ہیں ‘کیوں کہ اس کاتعلق غیبی امور سے ہے‘کیوں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام پر موت ہوئی ہے یا کفر پر؟ہاں اتنا تو ضرور کہتے ہیں کہ جس کی موت گناہوں‘غلطیوں اور برائیوں سے بچتے ہوئے اسلام پر ہوئی ہو وہ جنتی ہوگا ‘کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ((ترجمۂ آیت:بیشک جن لوگوں نے ایمان لایا اور عمل صالح کیا))اور کسی بھی گناہ کا ذکر نہیں فرمایا ہے((ترجمۂ آیت:یہ لوگ بہترین خلائق ہیں‘ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیں))اور جن لوگوں کے لئے نبی ﷺنے بعینہ شہادت دی ہے ‘تو ‘نبی کریمﷺ کی پیروی اور آپﷺ کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے لئے شہادت دی جائے گی بشرطیکہ آپ سے صحیح طور پر ثابت ہو(یعنی صحیح سندوں سے ثابت ہو)

مفتی ٔ اعظم مملکت ِ سعودی عرب سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن باز۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں: (لا تجوز الشهادة لمعين بجنة أو نار أو نحو ذلك، إلا لمن شهد الله له بذلك في كتابه الكريم أو شهد له رسوله عليه الصلاة والسلام، وهذا هو الذي ذكره أهل العلم من أهل السنة، فمن شهد الله له في كتابه العزيز بالنار كأبي لهب وزوجته، وهكذا من شهد له الرسول صلى الله عليه وسلم بالجنة كأبي بكر الصديق وعمر بن الخطاب وعثمان وعلي وبقية العشرة رضي الله عنهم، وغيرهم ممن شهد له الرسول عليه الصلاة والسلام بالجنة؛ كعبد الله بن سلام وعكاشة بن محصن رضي الله عنهما، أو بالنار كعمه أبي طالب وعمرو بن لحي الخزاعي وغيرهما ممن شهد له الرسول صلى الله عليه وسلم بالنار - نعوذ بالله من ذلك - نشهد له بذلك.أما من لم يشهد له الله سبحانه ولا رسوله بجنة ولا نار فإنا لا نشهد له بذلك على التعيين، وهكذا لا نشهد لأحد معين بمغفرة أو رحمة إلا بنص من كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم ، ولكن أهل السنة يرجون للمحسن ، ويخافون على المسيء، ويشهدون لأهل الإيمان عموما بالجنة ، وللكفار عموما بالنار، كما أوضح ذلك سبحانه في كتابه المبين، قال تعالى : {وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا} الآية، من سورة التوبة، وقال تعالى فيها أيضا: {وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ} الآية، (مجموع فتاوی ابن باز ۵؍۳۶۵)

ترجمہ :کسی بھی فرد ِ معین کے لئے جنت یا جہنم وغیرہ کی گواہی دینا جائز نہیں ‘ہاں جس کے بارے میں قرآن میں یا رسول اللہﷺکی زبان سے شہادت ثابت ہے ‘اسے ہم بھی ثابت مانتے ہیں‘یہی علمائے اہل سنت و الجماعت نے ذکر فرمایا ہے‘چنانچہ جس کے بارے میں قرآن نے جہنمی ہونے کی گواہی دی ہے ‘جیسے:ابو لہب اور اس کی بیوی(ان کے جہنمی ہونے کی گواہی دیتے ہیں)اسی طرح جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے جنتی ہونے کی گواہی ثبت فرمائی ہے ‘جیسے :ابو بکر ‘عمر ‘عثمان ‘علی(رضی اللہ عنہم)‘بقیہ عشرہ مبشرہ (جن کے جنتی ہونے کی گواہی دنیا ہی میں دی گئی ہے)(ان کے لئے جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہی عقیدہ رکھتے ہیں)‘اسی طرح سے وہ دیگربعض صحابہ کرام ‘جن کے جنتی ہونے کی گواہی رسول ِ گرامیﷺنے دی ہے ‘جیسے عبد اللہ بن سلام ‘عکاشہ بن محصن (رضی اللہ عنہما)یا جن کے بارے میں جہنمی ہونے کی گواہی دی ہے ‘جیسے:آپ کے چچا ابو طالب اورعمرو بن لحی خزاعی وغیرہ جن کے بارے میں رسول اللہﷺنے جہنمی ہونے کی گواہی دی ہے‘ہم بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔

جہاں تک بات رہی ان لوگوں کی ‘جن کے بارے میں نہ اللہ نے نہ رسول اللہﷺ نے جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی دی ہے ‘بالتعین ہم گواہی نہیں دے سکتے ہیں‘اسی طرح کسی بھی فرد ِ معین کے لئے مغفرت یا رحمت کی گواہی نہیں دے سکتے ہیں ‘الا یہ کہ قرآن و حدیث کی نص سے اگر ثابت ہو تو (ہم گواہی دیں گے) ہاں اہل السنہ و الجماعہ نیکوکاروں کے لئے پر امید ہوتے ہیں‘اور گنہگاروں کے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں‘اہل ایمان کے لئے عمومی طور پر جنت کی گواہی دیتے ہیں ‘اور کافروں کے لئے جہنمی ہونے کی ‘جیسا کہ اللہ تعالی نے اسے واضح فرمادیا ہے (ترجمہ ٔ آیت :اللہ تعالی نے مومنوں کے لئے جنت تیار کر کھا ہے ‘جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی(سورہ ٔ التوبہ) نیز اللہ تعالی نے فرمایا :(ترجمہ ٔ آیت:اللہ نے منافق مرد اور منافق عورتوں کے لئے جہنم کا وعدہ فرمایا ہے ‘جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘یہی ان کے لئے کافی ہے)

اسی طرح سعودی عرب کی دائمی فتوی کمیٹی نے اپنے ایک سوال کے جواب میں یوں عرض کیا :( مذهب أهل السنة: أنه لا يحكم على معين بأنه من أهل النار أو من أهل الجنة ، إلا من شهد له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكننا نرجو للمحسن ونخاف على المسيء)( فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء فتوی نمبر :۱۸۱۵۲)

ترجمہ:,,اہل السنہ و الجماعہ کا عقیدہ (مذہب)یہ ہے کہ کسی بھی فرد ِ معین کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے ‘إلا یہ کہ رسول اللہﷺنے جن کی گواہی دی ہو‘ہاں یہ ضرور ہے کہ جو لوگ اچھا کام کرتے ہیں ‘ان کے تعلق سے امید کرتے ہیں(کہ جنت میں ضرور جائیں گے)اور برا کام کرنے والے کے بارے میں ڈر تے ہیں‘‘(فتاوی اللہجنۃ الدائمہ فتوی نمبر :۱۸۱۵۲)

مذکورہ ان نقولات سے بالکل صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ کسی فردِ معین کے لئے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دی جا سکتی ہے‘عمومی طور پر تو ہر مؤمن کے لئے جنت کی گواہی دی جا سکتی ہے ‘کیوں کہ فحوائے قرآن یہی ہے

پھر کسی کے لئے کیوں کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے‘کیا ہمیں معلوم ہے کہ وہ اللہ کے پیارے ہیں یا نہیں ہیں ؟

حسن ِ ظن بلاشبہ رکھا جا سکتا ہے ‘لیکن اس طرح کی شہادت تو قطعی نہیں دی جا سکتی ہے

اب کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تعبیر اردو ادب کی ہے ‘اور کہنے والا درحقیقت مراد یہ لیتا ہے کہ اس کا انتقال ہوگیا ‘یا اس کی وفات ہوگئی

سو اس سلسلہ میں جوابا عرض ہے کہ شریعت میں الفاظ کی قید و بند بھی ہے ایسے الفاظ ‘تعبیرات ‘جملے ‘یا فقرے جن سے عقیدے پر ضرب پڑتی ہو ‘یا کوئی ایسا شبہ ہو جس سے غلط معنی نکلے تو اس کا ترک کرنا ہی اولی و افضل ہے ‘اسے سمجھنے کے لئے درج ذیل امور پر غور فرمائیں :۔

• عہد ِ نبوت میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں‘جن میں الفاظ کی بنیاد پر ٹوکا گیا ‘تعبیروں کی بنیاد پر سرزنش کی گئی ‘بلکہ بعض تعبیریں بھی سکھائی گئیں ‘یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:

أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ، وَتَقُولُونَ وَالْكَعْبَةِ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادُوا أَنْ يَحْلِفُوا أَنْ يَقُولُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ وَأَنْ يَقُولُوا مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ شِئْتَ ) ( نسائي(۳۷۷۳)، وصححه الألباني في «صحيح النسائي».) ترجمہ:ایک یہودی نبی ٔ کریمﷺ کی خدمت عالیہ میں آیا اور عرض کیا کہ آپ لوگ تو شرک کرتے ہیں ‘آپ کہتے ہیں :جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں‘اور آپ لوگ(قسم کھاتے وقت ) کعبہ کی قسم بھی کھاتے ہیں‘چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب قسم کھائیں تو رب کعبہ کی قسم کھائیں اور ((جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں)) کہا کریں

اس حدیث پر آپ غور فرمائیں کہ نبی ٔکریمﷺ نے یہودی کے اعتراض کو نہ صرف یہ کہ قبول فرمایا ‘اور اسے درست ٹھہرایا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ یہ نہ کہہ کر اس کے بدلے ان الفاظ کا استعمال کریں ‘(یعنی جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں کہا کریں) جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت ِ مطہرہ میں الفاظ کے انتخاب کا مسئلہ انتہائی حساس ہے ‘جو قابل ِ اعتنا ہے

• ایک اور حدیث میں کچھ یوں آیا ہے:( أنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ، فَقَالَ: «أَجَعَلْتَنِي للهِ نِدًّا؟ بَلْ! مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ»)(مسند أحمد برقم:۱۸۳۹‘نسائی:فی عمل الیوم و اللیلۃ برقم:۹۸۸‘صحیح الأدب المفردبرقم:۶۰۱) ترجمہ:ایک شخص نبی ٔ کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور فرمایا :جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ‘چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:کیا تونے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرالیا ‘(یہ نہ کہو )بلکہ (یہ کہو)صرف اللہ نے جو چاہا

• غور فرمائیں کہ نبی ٔکریمﷺ نے کس قدر جھڑکا‘ڈانٹ پلائی ‘اور توحید کی کتنی واضح تعلیم دی

• آپ مندرجہ بالا حدیثِ نبوی پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں ‘فنی ‘لغوی طور پر کوئی غلطی نظر نہیں آئے گی ‘عربی قواعد(گرامر) کے اعتبار سے بھی کوئی خرابی نہیں ہے ‘مگر چونکہ خالق و مخلوق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا تھا‘بلکہ دونوں کو اس مشیت میں شریک کر لیا گیا تھا‘اور عقیدہ کی بہت بڑی غلطی ہے‘اس لئے عقدی طور پر خرابی موجود ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ نے ٹوکا ‘اور فرمایا کہ ایسا نہیں بلکہ یوں کہو‘تاکہ اللہ تعالی کی مشیت کے ساتھ کسی کی مشیت کی شراکت نہ لازم آئے ‘چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے یوں فرمایا(لا تقولوا ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا ما شاء الله ثم شاء فلان)(سنن ابو داؤد برقم:۴۹۸۰‘مسند أحمد برقم:۲۳۳۱۳‘سنن نسائی برقم:۲۱۶‘امام نووی نے الأذکار(۴۴۴)میں علامہ البانی نے صحیح ابو داؤد(۴۹۸۰)میں اسے صحیح قرار دیا ہے)جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تعبیریں کبھی شرعی طور پر غلط ہوسکتی ہیں‘اور ہوتی ہیں‘جن کی وجہ سے بندہ ٔ مؤمن کے ایمان کے خطرہ میں پڑنے کا کبھی کبھار خدشہ رہتا ہے‘ کبھی ان تعبیرات سے انسان شرک میں واقع ہوجاتا ہے ‘جیسا کہ اوپر مذکور احادیث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہودی نے اعتراض کیا کہ آپ لوگ تو ایسا اور ایسا کہہ کر شرک کرتے ہیں ‘تو آپ ﷺ نے اسے برقرار رکھا اور اس کے بدلے دوسرے متبادل الفاظ اور تعبیریں سکھلائیں ‘لہذا ایسی تعبیروں سے اجتناب از بس ضروری ہے

(ایک وضاحت :توحید باری تعالی کی حفاظت و صیانت کا تقاضا تو یہی ہے کہ کسی بھی کام کے ہونے میں کسی بھی شخص کی مشیت کا عمل دخل نہیں ہے ‘ اور نہ ہی اللہ کی مشیت میں کوئی شریک و سہیم ہے‘لیکن اگر از حد ضروری ہو‘اور کوئی ایسا عمل ہو جس میں اللہ کے بعد کوئی دوسرا بھی کرسکتا ہو یا کسی دوسرے نے کیا ہو تو سب سے پہلے اللہ کی مشیت اور لفظ ((پھر))سے دوسرے کی مشیت کو شامل کیا جائے‘جیسے یوں کہا جائے :اللہ نے چاہا پھر فلاں نے چاہا تو یہ کام ہوگاوغیرہ‘جیسا کہ بنی اسرائیل کے ان تین اشخاص(نابینا ‘کوڑھی اور گنجا) کے واقعہ سے بھی مترشح ہوتا ہے ‘جنوےں نے کہا تھا :(.... فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ.....)(آج اللہ کی ذات پھر تمہاری ذات کی مدد کی بنیاد پر ہی میں اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہوں)(پوری حدیث کے لئے دیکھئے:بخاری برقم:۳۲۷۷‘مسلم برقم:۲۹۶۴‘من حدیث أبی ہریرۃ ۔رضی اللہ عنہ۔)‘اس حدیث پر تأمل فرمائیں کہ انہوں نے لفظ (پھر ) کا استعمال کرکے خالق اور مخلوق کے درمیان تفریق فرمایا ‘جس سے یہ مسئلہ کشید کیا جا سکتا ہے کہ کسی مخلوق کو خالق (اللہ)کے ساتھ تو قطعی شریک نہیں کیا جا سکتا ہے ‘اگر کہنا ہی ہو تو لفظ ِ,,پھر‘‘کا استعمال ضروری ہے ‘ورنہ خالق و مخلوق کے درمیان برابری لازم آئے گی‘جو قطعی درست و جائز نہیں ہے

• نیزاللہ تعالی کے فرمان ِ عالی (مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد)(ق:18)پر بھی غور فرمائیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے کلمات ‘الفاظ کے انتخاب ‘اور عبارات کے استعمال میں مکمل احتیاط برتے‘اور شیطان کے مزین کردہ تلبیسات سے احتراز کرے ‘اور جو چاہے ‘بولنے ‘کہنے اور لکھنے سے بچنے کی کوشش کرے گوکہ اس کی نیت درست ہی کیوں نہ ہو‘شیخ محمد بن صالح العثیمین ۔رحمہ اللہ ۔سے پوچھا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دل سلیم ہوتو الفاظ کی تصحیح کوئی اہم نہیں ہے تو شیخ نے فرمایا :( إذا أراد بتصحيح الألفاظ ترك الألفاظ التي تدلُّ على الكفر والشرك فكلامه غير صحيح, بل تصحيحها مهم, ولا يمكن أن نقول للإنسان: أطلق لسانك في قول كل شيءٍ ما دامت النّية صحيحة, بل نقول: الكلمات مقيدة بما جاءت به الشريعة الإسلامية) (دیکھئے:مجموع فتاوی شیخ محمد بن عثیمین ۳؍۶۷)

اگر الفاظ کی تصحیح سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ الفاظ چھوڑ دئے جائیں جو کفر و شرک پر دلالت کرتے ہوں تو اس کی بات درست نہیں ہے ‘بلکہ الفاظ کی تصحیح انتہائی اہم ہے ‘اور یہ ہو نہیں سکتا ہے کہ ہم کسی سے یہ کہیں کہ نیت درست ہےتو جو چاہیں ‘کہیں ‘بلکہ ہم کہیں گے کہ کلمات کو شریعت اسلامیہ کے موافق کرنا چاہئے اور اسی اعتبار سے اس کااستعمال کرنا چاہئے۔

لہذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں پوری رعایت برتے اوریہ بھی ضروری ہے کہ بہترین الفاظ کا انتخاب کرے اور ایسے الفاظ سے قطعی بچنا چاہئے جو موجب وہم یا ممنوع ہوں

شیخ بکر ابو زید۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:اسی لئے علماء نے ان تمام الفاظ کا استعمال حرام قرار دیا ہے جو حرام‘مکروہ یا فضول کلام (بکواس) کے قبیل سے ہوں)(دیکھئے:معجم المناھی اللفظیۃ:ص؍۳۴)

علمائے عرب بالخصوص مملکت ِ سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے افتاء سے مختلف مواقع پر پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں یہ جواب دیا ہے کہ اس طرح کی تعبیریں استعمال نہیں کی جانی چاہئیں ‘کبھی فرمایا :اس طرح کی عبارتوں سے شرک کی بو آتی ہے ‘ان سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے وغیرہ وغیرہ

تفصیل کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ فرماسکتے ہیں

(https://www.alukah.net/aweys/11622/124559)

گزشتہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کو پیارے ہوگئے جیسے الفاظ سے بچنا چاہئے‘خاص کر ایسے میں کہ اس کے متبادل ڈھیر سارے الفاظ ‘تراکیب‘جملے ‘اور تعبیریں موجود و مستعمل ہیں

رب کریم ہمیں صحیح کلمات و عبارات کے استعمال کی توفیق بخشے ‘شرکیہ ‘کفریہ اور بدعیہ جملوں سے بچائے ‘آمین یا رب العالمین
 

اٹیچمنٹس

Top