• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ پر اہل بدعت کے چند سوال ۔

شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
1 آپ وہ دلیل پیش کریں گے جس میں یہ تخصیص ہوں کہ اللہ صرف عرش پر ہے اور کہیں نہیں ۔
2 اللہ جہت سے پاک ہے یا نہیں ۔
3 جب کچھ نہ ہوگا تب اللہ کہاں ہوگا
4 ان نصوص کا کیا جس میں ذکر ہے کہ اللہ مشرق اور مغرب میں کہ اس سے آپ کی تخصیص کے اللہ صرف عرش پر ہے کی نفی نہیں ہوتی ؟



یہ اہل بدعت کے چند سوال ہیں برائے کرم جواب دے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شاید این ہے نا کہ عین. مزید اردو میں عنوان لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے. جیسے عین اللہ کی بجائے اللہ کہاں ہے
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
شاید این ہے نا کہ عین. مزید اردو میں عنوان لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے. جیسے عین اللہ کی بجائے اللہ کہاں ہے
اسلام علیکم
میری اردو تھوڑی کمزور ہے آپ اس غلطی کو صحیح کر دیجئے ۔

Sent from my SM-A910F using Tapatalk
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسلام علیکم
میری اردو تھوڑی کمزور ہے آپ اس غلطی کو صحیح کر دیجئے ۔

Sent from my SM-A910F using Tapatalk
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی درست کر دیا ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
1 آپ وہ دلیل پیش کریں گے جس میں یہ تخصیص ہوں کہ اللہ صرف عرش پر ہے اور کہیں نہیں ۔
اس موضوع پر فورم پر کئی مضامین موجود ہیں ، ایک پیش خدمت ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کہاں ہے؟ ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے؟
1۔ اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54)​
2۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے (سورۃ یونس ،آیت 3)​
3۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:

ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴿٢﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو (سورۃ الرعد،آیت 2)​
4۔ اللہ الرحمن کا فرمان ہے:

ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ ﴿٥﴾
ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے (سورۃ طہ،آیت 5)​
5۔ اللہ ہر ایک چیز کے واحد خالق کا فرمان ہے:

ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا ﴿59﴾
ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (سورۃ الفرقان،آیت 59)​
6۔ اللہ الحکیم کافرمان ہے:

ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٤﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے (سورۃ السجدۃ،آیت 4)​
7۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے:

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)​
اس مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں ہمارے اس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ،جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں،اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی "معیت" یعنی اُس کا ساتھ ہونا۔جس کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے،جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے خود ہی اپنی "معیت" کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)​
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت ،سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ،نہ کہ اس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے۔ان شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔
(1)
(8) اللہ المعز کا فرمان ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿10﴾
ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہو سو الله ہی کے لیے سب عزت ہے اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے اوران کی بری تدبیر ہی برباد ہو گی (سورۃ الفاطر،آیت 10)​
(9) اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے:

سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ﴿٤﴾
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا (اور وہ) اللہ ئے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا (سورۃ المعارج،آیت 1تا4)​
(10) اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے:

يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾
ترجمہ: وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا (سورۃ السجدۃ،آیت 5)​
(11) اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:

يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾
ترجمہ: اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں (سورۃ النحل،آیت 50)​
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ الاعلیٰ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ،اُس سے جدا اور بلند ہے،کسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہ درج ذیل فرامین بھی ذہن میں رکھنے چاہیے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم محمد ﷺ کو مخاطب فرما کر ،اُن کے اُمتیوں کو اُن ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری بتائی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارک کو اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ قولی اور عملی تفسیر شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھنا ہے،نہ کہ اپنی عقل و سوچ،مزاج،پسند و ناپسند اور اپنے خود ساختہ جہالت زدہ فلسفوں کے مطابق:

بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾
ترجمہ: (اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (سورۃ النحل،آیت 44)​
اور مزید تاکید فرمائی کہ:

وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿64﴾
ترجمہ: اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (سورۃ النحل،آیت 64)​
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سےیا اپنی سوچ و فکر کے مطابق ،یا اُس کے ذہن پر مسلط فلسفوں اور شرعا نا مقبول خود ساختہ کسوٹیوں کی بنا پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ کی ایسی تفسیر یا تشریح کرے جو اللہ یا رسول ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کہ مطابق نہ ہوں، اور جب اس کی جہالت زدہ سوچیں اور فلسفے قرآن کریم کی ہی آیات شریفہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو آیات شریفہ کی باطل تاویلات کرنے لگے،اور جب اس کی باطل تاویلات صحیح چابت شدہ سنت مبارکہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو سنت مبارکہ کا ہی انکار کرنے لگے۔

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سعودی عرب کی فتاویٰ کیلئے جیدعلماء کی مستقل کمیٹی (فتاوى اللجنة الدائمة ) کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سوال 1: سأل النبي صلى الله عليه وسلم جارية: "أين الله؟ " فقالت: في السماء.
هل هذا الحديث صحيح أو ضعيف، وما الحكم في السؤال عن مكان الله، وأرجو الإثبات لي بسند من القرآن أو حديث عن هذا السؤال؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب 1: حديث سؤال النبي صلى الله عليه وسلم الجارية: «أين الله؟ " فقالت: في السماء. فقال: "من أنا" قالت: أنت رسول الله. قال: "أعتقها فإنها مؤمنة » حديث صحيح رواه مسلم وأبو داود والنسائي من حديث معاوية بن الحكم رضي الله عنه.
وهذا الحديث وغيره مما هو في معناه من أدلة الكتاب والسنة يدل على إثبات صفة العلو لله تعالى، وأنه سبحانه في السماء، كما قال تعالى: {أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ} (2) الآية. ومعنى في السماء العلو، وأنه سبحانه فوق كل شيء وفوق العرش الذي هو سقف المخلوقات، كما قال الله سبحانه: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} (3) ، وقال سبحانه: {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} (4) .
أما اكتفاؤه صلى الله عليه وسلم من الجارية بذلك للحكم بإيمانها فهو دليل على أن أمر الإيمان والشهادة به يجري على الظاهر، فالنبي صلى الله عليه وسلم إنما أخبر عن تلك الأمة بالإيمان الظاهر الذي علقت به الأحكام الظاهرة، وذلك ما لم يحدث من جرى ظاهره على الإيمان حدثا يوجب خروجه من مسماه.
ولذا فإن النبي صلى الله عليه وسلم أجرى أمر المنافقين على ظاهرهم، فكان يحكم فيهم حكمه في سائر المؤمنين، ولو حضرت جنازة أحدهم صلى عليها ولم يكن منهيا من الصلاة إلا على من علم نفاقه وإلا لزم أن ينقب على قلوب الناس ويعلم سرائرهم، وهذا لا يقدر عليه بشر.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
ــــــــــــــــــــــــــ

ترجمہ :
سوال نمبر: 1 - فتوی نمبر:18362
سوال 1: نبی اكرم صلى الله عليه وسلم نے ایک باندی سے پوچھا " الله کہاں ہے" تو وہ بولی : آسمان میں.
کیا یہ حدیث صحیح ہے يا ضعیف، اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جگہ کے بارے میں سوال کرنے کا حکم کیا ہے؟ اس سوال کے متعلق قرآن مجید اور حدیث پاک کی دلیل کی روشنی میں ثبوت فراہم فرمائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب 1: نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے باندی کو پوچھنے کے بارے میں جو حدیث پاک وارد ہے :
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 354)
اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، تو آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا : اس کو آزاد کردو ، بےشک یہ ایمان والی عورت ہے ۔ یہ ایک صحیح حدیث ہے جسے مسلم اور ابو داود اور نسائي نے معاويہ بن حكم رضي الله عنه سے روایت کی ہے.
یہ حدیث پاک اور اس کے ہم معنی قرآن مجید اور سنت مطہرہ کے دلائل اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے صفت علو (بلندی کی صفت) کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں، اور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ آسمان میں ہے، جيسا كہ الله تعالى نے فرمايا ﻛﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻻ. [آيت] اور آسمان میں ہونے کا معنی ہے بلندی، یعنی الله تبارک و تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے اور اس عرش پر ہے جو تمام مخلوق کی چھت ہے، جيسا كہ الله تعالى نے فرمايا ﺟﻮﺭﺣﻤٰﻦ ﮨﮯ، ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ ۔ اور الله سبحانه وتعالى نے فرمايا هے ﺑﮯ ﺷﻚﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺍﹴ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﻛﻮ ﭼﮫ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﺍ ۔
جہاں تک سوال ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس باندی کے صرف اسی جواب پر اس کے مؤمن ہونے کے حکم لگانے کا، تو اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان اور کلمہ شہادت میں ظاہر پر حکم لگایا جائیگا، کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس باندی کے ایمان کی خبر اسی ظاہری حالت پردی جس سے ظاہری احکام منسلک ہیں ، اورایمان کے سلسلے میں ظاہرکا حکم جاری ہوگا جب تک کوئی ایسی بات کا وہ مرتکب نہ ہوجائے جس سے وہ اس کے مفہوم سے خارج ہوتا ہو۔

اس لئے حضوراكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق ہی معاملہ فرمایا، اور ان پر وہی حکم لگاتے تھے جو تمام مسلمانوں کے حق میں حکم فرماتے تھے ، اور اگر ان میں سے کسی کا جنازہ آتا تو آپ نماز جنازہ بھی ادا فرما لیتے تھے، اور آپ کو صرف ان منافقوں کی نمازِ جنازہ سے منع کیا گیا ہے، جن کا نفاق عیاں ہو، ورنہ یہ بات لازم آئیگی کہ لوگوں کے دل چھانے جائیں، اور ان میں پوشیدہ باتوں کو جانا جائے، اور یہ تو کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر ممبر نائب صدر صدر
بکر ابو زید صالح فوزان عبد اللہ بن غدیان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟
علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر حفظہ اللہ

اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے ، مخلوق سے جدا ہے ، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م ٧٤٨ھ)لکھتے ہیں :
ھذہ الصّفات من الاستواء والاتیان والنّزول قد صحّت بھا النّصوص ، ونقلھا الخلف عن السّلف ، ولم یتعرّضوا لھا بردّ ولا تأویل ، بل أنکروا علی من تأوّلھا مع اصفاقھم بأنّھا لا تشبہ نعوت المخلوقین ، وأنّ اللّٰہ لیس کمثلہ شیء ، ولا تنبغی المناظرۃ ، ولا التّنازع فیھا ، فانّ فی ذلک محاولۃ للرّدّ علی اللّٰہ ورسولہ أو حوما علی التّکییف أو التّعطیل ۔۔۔
”یہ صفات ِ الٰہی ، یعنی استواء (اللہ تعالیٰ کا عرش پر بلند ہونا)، اتیان (قیامت کے دن بندوں کے فیصلے کے لیے آنا)اور نزول(ہر رات آسمانِ دنیا پر اترنا) ، ان کے بارے میں نصوصِ صحیحہ وارد ہو چکی ہیں اور بعد والوں نے ان کو پہلوں سے نقل کیا ہے ، وہ ان کے ردّ یا ان میں کرنے میں مصروف نہیں ہوئے ، بلکہ انہوں نے ان صفات میںتاویل کرنے والوں پر نکیر کی ہے ، نیز ان کا اتفاق ہے کہ صفات ِ الٰہی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ، اس بارے میں مناظرہ و تنازع جائز نہیں ، کیونکہ ایسا کرنا اللہ ورسول کی مخالفت کی کوشش ہے یا صفات ِ الٰہی میں تکییف وتعطیل کی سازش ہے ۔”(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١١/٣٧٦)

دلیل نمبر ! : عن أبی ھریرۃ ، قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( ینزل ربّنا تبارک وتعالیٰ فی کلّ لیلۃ الی السّماء الدّنیا حین یبقیٰ ثلث اللّیل الآخر ، فیقول : من یدعونی ، فأستجیب لہ ؟ من یسألنی ، فأعطیہ ؟ من یستغفرنی ، فأغفر لہ ؟ ))
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہمارا ربّ تبارک وتعالیٰ ہر رات کو ، جب آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمانِ دینا کی طرف نزول فرماتا ہے ، پھر فرماتا ہے ، کون ہے جو مجھے بلائے اور میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے اور میں اسے معاف کروں ؟ ”(صحیح بخاری : ١١٤٥، صحیح مسلم : ٧٥٨)

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ٤٦٣ھ) فرماتے ہیں :
ھذا الحدیث لم یختلف أھل الحدیث فی صحّتہ ، وفیہ دلیل علی أنّ اللّٰہ تعالیٰ فی السّماء علی العرش من فوق سبع سماوات ، کما قالت الجماعۃ ، وھو من حجتھم علی المعتزلۃ ۔۔۔
”محدثین کا اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ، اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت نے کہا ہے ، یہ حدیث معتزلہ کے خلاف اہل سنت والجماعت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔”(التمھید لابن عبد البر : ٧/١٢٩)
نیز لکھتے ہیں : وھذا أشھر وأعرف عند الخاصّۃ والعامّۃ وأعرف من أن یحتاج فیہ الی أکثر من حکایتہ ، لأنّہ اضطرار ، لم یؤنّبھم علیہ أحد ، ولا أنکرہ علیھم مسلم ۔۔۔
”یہ (دعا کے وقت آسمان کے طرف ہاتھ اٹھانا)خواص وعوام کے ہاں مشہور معروف ہے ، اس کی شہرت ومعرفت اس بات کی محتاج نہیں کہ اسے بیان کیا جائے ، کیونکہ اسے ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ، کسی نے بھی مسلمانوں پر اس بات کا اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی مسلمان نے ان پر اس بات کی نکیر کی ہے ۔”
(التمھید لابن عبد البر : ٤/١٣٤)

دلیل نمبر @ : عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ (فی حدیث الاسرائ) : فالتفت النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی جبریل ، کأنّہ یستشیرہ فی ذلک ، فأشار الیہ جبریل أن نعم ان شئت ، فعلا بہ الی الجبّار ، فقال ، وھو مکانہ : (( یا ربّ ! خفّف عنّا ، فانّ أمّتی لا تسطیع ھذا )) ۔۔۔
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے (معراج کی حدیث میں)روایت ہے کہ نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کی طرف مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا تو جبریل علیہ السلام نے اشارہ کیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ، پھر جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی ، اس حال میں اللہ تعالیٰ اپنی جگہ پر تھا ، اے میرے ربّ ! ہم پر تخفیف فرما ، میری امت اس (پچاس نمازوں کے حکم کو بجا لانے کی)طاقت نہیں رکھے گی ۔”(صحیح بخاری : ٧٥١٧)
دلیل نمبر # : عن ابن عبّاس ، قال : بلغ أبا ذرّ مبعث النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال لأخیہ : اعلم لی علم ھذا الرّجل الّذی یزعم أنّہ یأتیہ الخبر من السّماء ۔۔۔
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ذرّ رضی اللہ عنہ کو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا ، تم میرے لیے اس آدمی کی خبر معلوم کرو ، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر (وحی) آتی ہے ۔”(صحیح بخاری : ٣٥٢٢، صحیح مسلم : ٢٤٧٤)

دلیل نمبر $ : عن أبی ھریرۃ عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، قال : (( انّ للّٰہ تبارک وتعالیٰ وملائکۃ سیّارۃ فضلا یبتغون مجالس الذّکر ، فاذا وجدوا مجلسا فیہ ذکر قعدوا معھم ، وحفّ بعضھم بعضا بأجنحتھم ، حتی یملؤوا ما بینھم وبین السّماء الدّنیا ، فاذا تفرّقوا عرجوا وصعدوا الی السّماء ، قال : فیسألھم اللّٰہ عزّوجلّ ، وھو أعلم بھم : من أین جئتم؟)) الحدیث ۔۔۔۔
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے زمین میں چلتے پھرتے اور ذکر کی مجالس تلاش کرتے رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پا لیتے ہیں، جس میں اللہ کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ، (بھیڑ کی وجہ سے) وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ ان سے لے کر آسمانِ دنیا تک تمام خلا بھر جاتا ہے ،جب وہ منتشر ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، اللہ عزوجل باوجود بہتر جاننے کے ان سے سوال کرتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ ”(صحیح مسلم : ٢٦٨٩)

دلیل نمبر % : عن أبی ھریرۃ ، قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( انّ اللّٰہ اذا أحبّ عبدا دعا جبریل ، فقال : انّی أحبّ فلانا فأحبّہ ، قال : فیحبّہ جبریل ، ثمّ ینادی فی السّماء ، فیقول : انّ اللّٰہ یحبّ فلانا فأحبّوہ ، فیحبّہ أھل السّماء ، قال : ثمّ یوضع لہ القبول فی الأرض ، واذا أبغض عبدا دعا جبریل ، فیقول : انّی أبغض فلانا فأبغضہ ، قال : فیبغضہ جبریل ، ثمّ ینادی فی أھل السّماء : انّ اللّٰہ یبغض فلانا فأبغضوہ ، قال : فیبغضونہ ، ثمّ توضع لہ البغضاء فی الأرض )) ”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں ، میںفلاں سے محبت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے محبت کرو ، جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتے ہیں ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی محبت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے نفرت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں ، میں فلاں آدمی سے نفرت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے نفرت کرو ، جبریل علیہ السلام بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے نفرت کرتے ہیں ، تم بھی اس سے نفرت کرو ، چنانچہ وہ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی نفرت رکھ دی جاتی ہے ۔”
(صحیح بخاری : ٣٢٠٩، صحیح مسلم : ٢٦٣٧، واللفظ لہ،)

دلیل نمبر ^ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، مجھے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی نے بتایا کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ، ایک ستارا (شہاب ِ ثاقب) ٹوٹا اور روشن ہوا ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] سے پوچھا ، تم جاہلیت میں اس طرح ستارے کے ٹوٹنے پر کیا کہتے تھے ، انہوں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، ہم تو کہتے تھے ، آج رات کوئی بڑا آدمی پیدا یا فوت ہوا ہے ، اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تارے کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں توڑے جاتے ، بلکہ ہمارا ربّ تبارک وتعالیٰ جب کسی کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، پھر ا ن کے پاس والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں ، یہاں تک کہ آسمانِ دنیا تک یہ تسبیح پہنچ جاتی ہے ، پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے آس پاس والے پوچھتے ہیں ، تمہارے ربّ نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ انہیں فرمانِ الٰہی کی خبر دیتے ہیں ، پھر دوسرے آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ خبر آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتی ہے ، چنانچہ جن کوئی بات چرا کر اپنے دوستوں تک پہنچاتے ہیں ، اس وجہ سے ان کو ستارے مارے جاتے ہیں ، جو بات وہ بعینہٖ لے آئیں ، وہ سچ ہو تی ہے ،لیکن وہ اس میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے باتیں اس میں داخل کر دیتے ہیں ۔”(صحیح مسلم : ١٢٢٩)

حافظ بیہقی رحمہ اللہ (م ٣٨٤۔٤٥٨ھ) لکھتے ہیں : والأخبار فی مثل ھذا کثیرۃ ، وفیما کتبنا من الآیات دلالۃ علی ابطال قوم من زعم من الجھمیّۃ : أنّ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ بذاتہ فی کلّ مکان ۔۔۔ ”اس (اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے کے )بارے میں احادیث بہت سی ہیں ، نیز جو آیات ہم نے لکھی ہیں ، ان میں بھی ان جہمی لوگوں کا ردّ ہے ، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ میں ہے۔”(الاعتقاد للبیہقی : ص ١١٨)
لنک مضمون
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
1 آپ وہ دلیل پیش کریں گے جس میں یہ تخصیص ہوں کہ اللہ صرف عرش پر ہے اور کہیں نہیں ۔
خود عرش پر کہہ دینا بھی ’ حصر ‘ ہے ۔ اس کے حصر کو توڑنے کے دلیل کی ضرورت ہے ، حصر پر باقی رکھنے کی دلیل کی ضرورت نہیں ۔
خیر اللہ عرش پر مستوی ہے ، اس پر قرآن و حدیث کے تو کئی ایک دلائل ہیں ، جو کہ اوپر گزرے ۔
خود ہم انسانوں کو بھی اس بات کا اعتراف ہے ۔
ہم نے جب اللہ ذو الجلال کی طرف اشارہ کرنا ہو ، تو اوپر آسمان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، کبھی کسی نے دائیں بائیں ، آگے پیچھے یا نیچے کی طرف اشارہ کرکے یہ نہیں کہا کہ مجھے ’ اللہ ذو الجلال و الاکرام کی قسم ‘ ۔
میں تو اللہ کی ذات کے بارے میں سوچتا ہوں ، تو ذہن فورا اوپر کی جانب جاتا ہے ، دعا مانگتے ہوئے بھی دل اوپر کی جانب متوجہ ہوتا ہے ۔
 
Top