اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟
علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر حفظہ اللہ
اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے ، مخلوق سے جدا ہے ، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م ٧٤٨ھ)لکھتے ہیں :
ھذہ الصّفات من الاستواء والاتیان والنّزول قد صحّت بھا النّصوص ، ونقلھا الخلف عن السّلف ، ولم یتعرّضوا لھا بردّ ولا تأویل ، بل أنکروا علی من تأوّلھا مع اصفاقھم بأنّھا لا تشبہ نعوت المخلوقین ، وأنّ اللّٰہ لیس کمثلہ شیء ، ولا تنبغی المناظرۃ ، ولا التّنازع فیھا ، فانّ فی ذلک محاولۃ للرّدّ علی اللّٰہ ورسولہ أو حوما علی التّکییف أو التّعطیل ۔۔۔
”یہ صفات ِ الٰہی ، یعنی استواء (اللہ تعالیٰ کا عرش پر بلند ہونا)، اتیان (قیامت کے دن بندوں کے فیصلے کے لیے آنا)اور نزول(ہر رات آسمانِ دنیا پر اترنا) ، ان کے بارے میں نصوصِ صحیحہ وارد ہو چکی ہیں اور بعد والوں نے ان کو پہلوں سے نقل کیا ہے ، وہ ان کے ردّ یا ان میں کرنے میں مصروف نہیں ہوئے ، بلکہ انہوں نے ان صفات میںتاویل کرنے والوں پر نکیر کی ہے ، نیز ان کا اتفاق ہے کہ صفات ِ الٰہی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ، اس بارے میں مناظرہ و تنازع جائز نہیں ، کیونکہ ایسا کرنا اللہ ورسول کی مخالفت کی کوشش ہے یا صفات ِ الٰہی میں تکییف وتعطیل کی سازش ہے ۔”(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١١/٣٧٦)
دلیل نمبر ! :
عن أبی ھریرۃ ، قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( ینزل ربّنا تبارک وتعالیٰ فی کلّ لیلۃ الی السّماء الدّنیا حین یبقیٰ ثلث اللّیل الآخر ، فیقول : من یدعونی ، فأستجیب لہ ؟ من یسألنی ، فأعطیہ ؟ من یستغفرنی ، فأغفر لہ ؟ ))
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہمارا ربّ تبارک وتعالیٰ ہر رات کو ، جب آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمانِ دینا کی طرف نزول فرماتا ہے ، پھر فرماتا ہے ، کون ہے جو مجھے بلائے اور میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے اور میں اسے معاف کروں ؟ ”(صحیح بخاری : ١١٤٥، صحیح مسلم : ٧٥٨)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ٤٦٣ھ) فرماتے ہیں :
ھذا الحدیث لم یختلف أھل الحدیث فی صحّتہ ، وفیہ دلیل علی أنّ اللّٰہ تعالیٰ فی السّماء علی العرش من فوق سبع سماوات ، کما قالت الجماعۃ ، وھو من حجتھم علی المعتزلۃ ۔۔۔
”محدثین کا اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ، اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت نے کہا ہے ، یہ حدیث معتزلہ کے خلاف اہل سنت والجماعت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔”(التمھید لابن عبد البر : ٧/١٢٩)
نیز لکھتے ہیں :
وھذا أشھر وأعرف عند الخاصّۃ والعامّۃ وأعرف من أن یحتاج فیہ الی أکثر من حکایتہ ، لأنّہ اضطرار ، لم یؤنّبھم علیہ أحد ، ولا أنکرہ علیھم مسلم ۔۔۔
”یہ (دعا کے وقت آسمان کے طرف ہاتھ اٹھانا)خواص وعوام کے ہاں مشہور معروف ہے ، اس کی شہرت ومعرفت اس بات کی محتاج نہیں کہ اسے بیان کیا جائے ، کیونکہ اسے ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ، کسی نے بھی مسلمانوں پر اس بات کا اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی مسلمان نے ان پر اس بات کی نکیر کی ہے ۔”
(التمھید لابن عبد البر : ٤/١٣٤)
دلیل نمبر @ :
عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ (فی حدیث الاسرائ) : فالتفت النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی جبریل ، کأنّہ یستشیرہ فی ذلک ، فأشار الیہ جبریل أن نعم ان شئت ، فعلا بہ الی الجبّار ، فقال ، وھو مکانہ : (( یا ربّ ! خفّف عنّا ، فانّ أمّتی لا تسطیع ھذا )) ۔۔۔
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے (معراج کی حدیث میں)روایت ہے کہ نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کی طرف مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا تو جبریل علیہ السلام نے اشارہ کیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ، پھر جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی ، اس حال میں اللہ تعالیٰ اپنی جگہ پر تھا ، اے میرے ربّ ! ہم پر تخفیف فرما ، میری امت اس (پچاس نمازوں کے حکم کو بجا لانے کی)طاقت نہیں رکھے گی ۔”(صحیح بخاری : ٧٥١٧)
دلیل نمبر # : عن ابن عبّاس ، قال : بلغ أبا ذرّ مبعث النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال لأخیہ : اعلم لی علم ھذا الرّجل الّذی یزعم أنّہ یأتیہ الخبر من السّماء ۔۔۔
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ذرّ رضی اللہ عنہ کو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا ، تم میرے لیے اس آدمی کی خبر معلوم کرو ، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر (وحی) آتی ہے ۔”(صحیح بخاری : ٣٥٢٢، صحیح مسلم : ٢٤٧٤)
دلیل نمبر $ :
عن أبی ھریرۃ عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، قال : (( انّ للّٰہ تبارک وتعالیٰ وملائکۃ سیّارۃ فضلا یبتغون مجالس الذّکر ، فاذا وجدوا مجلسا فیہ ذکر قعدوا معھم ، وحفّ بعضھم بعضا بأجنحتھم ، حتی یملؤوا ما بینھم وبین السّماء الدّنیا ، فاذا تفرّقوا عرجوا وصعدوا الی السّماء ، قال : فیسألھم اللّٰہ عزّوجلّ ، وھو أعلم بھم : من أین جئتم؟)) الحدیث ۔۔۔۔
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے زمین میں چلتے پھرتے اور ذکر کی مجالس تلاش کرتے رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پا لیتے ہیں، جس میں اللہ کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ، (بھیڑ کی وجہ سے) وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ ان سے لے کر آسمانِ دنیا تک تمام خلا بھر جاتا ہے ،جب وہ منتشر ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، اللہ عزوجل باوجود بہتر جاننے کے ان سے سوال کرتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ ”(صحیح مسلم : ٢٦٨٩)
دلیل نمبر % :
عن أبی ھریرۃ ، قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( انّ اللّٰہ اذا أحبّ عبدا دعا جبریل ، فقال : انّی أحبّ فلانا فأحبّہ ، قال : فیحبّہ جبریل ، ثمّ ینادی فی السّماء ، فیقول : انّ اللّٰہ یحبّ فلانا فأحبّوہ ، فیحبّہ أھل السّماء ، قال : ثمّ یوضع لہ القبول فی الأرض ، واذا أبغض عبدا دعا جبریل ، فیقول : انّی أبغض فلانا فأبغضہ ، قال : فیبغضہ جبریل ، ثمّ ینادی فی أھل السّماء : انّ اللّٰہ یبغض فلانا فأبغضوہ ، قال : فیبغضونہ ، ثمّ توضع لہ البغضاء فی الأرض )) ”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں ، میںفلاں سے محبت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے محبت کرو ، جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتے ہیں ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی محبت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے نفرت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں ، میں فلاں آدمی سے نفرت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے نفرت کرو ، جبریل علیہ السلام بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے نفرت کرتے ہیں ، تم بھی اس سے نفرت کرو ، چنانچہ وہ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی نفرت رکھ دی جاتی ہے ۔”
(صحیح بخاری : ٣٢٠٩، صحیح مسلم : ٢٦٣٧، واللفظ لہ،)
دلیل نمبر ^ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ، مجھے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی نے بتایا کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ، ایک ستارا (شہاب ِ ثاقب) ٹوٹا اور روشن ہوا ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] سے پوچھا ، تم جاہلیت میں اس طرح ستارے کے ٹوٹنے پر کیا کہتے تھے ، انہوں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ، ہم تو کہتے تھے ، آج رات کوئی بڑا آدمی پیدا یا فوت ہوا ہے ، اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تارے کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں توڑے جاتے ، بلکہ ہمارا ربّ تبارک وتعالیٰ جب کسی کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، پھر ا ن کے پاس والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں ، یہاں تک کہ آسمانِ دنیا تک یہ تسبیح پہنچ جاتی ہے ، پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے آس پاس والے پوچھتے ہیں ، تمہارے ربّ نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ انہیں فرمانِ الٰہی کی خبر دیتے ہیں ، پھر دوسرے آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ خبر آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتی ہے ، چنانچہ جن کوئی بات چرا کر اپنے دوستوں تک پہنچاتے ہیں ، اس وجہ سے ان کو ستارے مارے جاتے ہیں ، جو بات وہ بعینہٖ لے آئیں ، وہ سچ ہو تی ہے ،لیکن وہ اس میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے باتیں اس میں داخل کر دیتے ہیں ۔”(صحیح مسلم : ١٢٢٩)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (م ٣٨٤۔٤٥٨ھ) لکھتے ہیں :
والأخبار فی مثل ھذا کثیرۃ ، وفیما کتبنا من الآیات دلالۃ علی ابطال قوم من زعم من الجھمیّۃ : أنّ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ بذاتہ فی کلّ مکان ۔۔۔ ”اس (اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے کے )بارے میں احادیث بہت سی ہیں ، نیز جو آیات ہم نے لکھی ہیں ، ان میں بھی ان جہمی لوگوں کا ردّ ہے ، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ میں ہے۔”(الاعتقاد للبیہقی : ص ١١٨)
لنک مضمون