• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے، یا عرش پر مستوی ہے؟ ایک مکالمہ۔ (کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ)

شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
مومنہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ
امۃ اللہ: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، مومنہ بہن! آئیے بیٹھئے، کیسے آنا ہوا؟
مومنہ: آپ نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سات جگہوں پر فرمایا ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے، میں نے مولوی صاحب کا درس سنا اور میرے پاس کچھ سوال ہیں۔
امۃ اللہ: جی بہن ضرور پوچھئے!
مومنہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں۔ سورۃ المجادلہ : 7
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ سورۃ الحدید : 4
جب اللہ تعالی اپنی مخلوق کے ساتھ ہے اسے عرش پر کیسے مانا جائے گا؟

امۃ اللہ: دراصل لفظ "مع" (ساتھ) سے دھوکا کھایا گیا ہے۔ "مع" (ساتھ) صرف ذاتی طور پر اکھٹے ہونے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ اس کے اور بھی معانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصدقین ائے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ سورۃ التوبہ : 119
کیا اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ گھر میں بازار میں غرض ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ پھرو؟
مومنہ: نہیں! اس سے مراد ہے کہ سچوں کا مذہب اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ تعاون کرو۔
امۃ اللہ: اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا: إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
ہاں جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں۔ سورۃ النساء : 146
"مع المومنین" (مومنین کے ساتھ) کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ جسمانی طور پر ہر وقت مومنین کے ساتھ ہیں؟
اور فرمایا: و ان اللہ لمع المحسنین یقینا اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ پھر کیا اللہ تعالیٰ بد کاروں کے ساتھ نہیں؟
اور فرمایا: ان اللہ مع الصبرین اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پھر کیا وہ بے صبروں کے ساتھ نہیں؟
جب "مع" یعنی معیت کے کئی معنی ہیں تو پھر وہی معنی لئے جائیں گے جو سیاق و سباق ' فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور سلف صالحین کی تفسیر کے مطابق ہونگے۔
آپ کی پیش کی گئی آیات کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے علم سے ہوتی ہے اور انتہا بھی اسی کے علم سے ہوتی ہے۔
سورۃ الحدید کی آیت پڑھئے جو آپ نے پیش کی،
"وہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ وہ (خوب) جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو تم کررہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔ سورۃ الحدید : 4
اس میں دو مرتبہ اللہ کے علم کا ذکر "ھو معکم" سے پہلے اور ایک دفعہ بعد میں ہے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے۔ لہٰذا سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہاں علم مراد ہے ، اللہ تعالیٰ کا علم 'قدرت اور غلبہ ہر جگہ ہے مگر وہ خود ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر مستوی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
 
شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
مومنہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (سورۃ ق : 16)
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ (سورۃ البقرۃ : 186)
اس قرب سے کیا مراد ہے؟

امۃ اللہ : یہ قرب بھی قرب مکانی یا زمانی نہیں ہے بلکہ وہ علم و قدرت کے لحاظ سے قریب ہے۔ اور ہر ایک کی سنتا ہے، اسی آیت میں آگے فرمایا گیا:

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ
ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہں مراد سن کر فوری دعا کو قبول کرنے کا ذکر ہے قرب سے مراد مرتبہ میں قریب ہونا بھی ہے،
قرآن حکیم میں : الملئکۃ المقربون (سورۃ النساء : 172)
مقرب فرشتوں کا ذکر ہے۔
فرعون جادوگروں سے کہتا ہے کہ اگر تم موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو: وانکم لمن المقربین۔
اور بے شک تم مقربین میں سے ہوجاؤ گے۔ (الاعراف : 114)
معلوم ہوا قرب بلحاظ رتبہ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین
"بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے قریب ہے۔ (الاعراف : 56)

پس ثابت ہوا کہ اللہ رحمت و قدرت، حفاظت و اجابت کے لحاظ سے قریب ہے نا کہ بالذات۔
رسول اللہ ٖ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے۔ (بخاری : 6501)
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہے کہ یہاں قرب مکانی مراد نہیں۔
بعض مفسرین "ہم شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں" کی تفسیر یوں کرتے ہیں اللہ کے فرشتے انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
یہ بھی فرمایا: و نحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرونہم اس شخص سے بنسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔ (سورۃ الواقعۃ : 85)
جمہور سلف کے نزدیک مراد ملک الموت ہے جو اہل و عیال سے زیادہ میت کے قریب ہوتا ہے اور اس کے اہل و عیال نہ تو فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ میت کی اس تکلیف کو جان سکتے ہیں جو میت برداشت کررہی ہوتی ہے، بعض علمائے سلف نے یہاں علم و قدرت بھی مراد لیا ہے
مگر قرب مکانی کا قائل صحابہ ' تابعین اور ائمہ میں سے کوئی نہ تھا۔
ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہ ے ساتھ تھے جب ہم کسی اونچی جگہ پر چڑھتے تو اللہ اکبر کی اونچی آواز لگاتے، آپ نے فرمایا: لوگو! میانہ روی اختیار کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں بلارہے ہوتم سننے اور دیکھنے والے کو پکارتے ہو جس کو تم بلاتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔ (بخاری : 2992 مسلم : 2704)۔
اگر اس حدیث سے قرب ذاتی مراد لی جائے تو شہ رگ سے قریب ہونے والی آیت سے تعارض ہوگا معلوم ہوا یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سواری کی گردن کے فاصلہ پر جو شخص سن سکتا ہے اللہ اس سے بھی زیادہ سنتا ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مومنہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (سورۃ ق : 16)
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ (سورۃ البقرۃ : 186)
اس قرب سے کیا مراد ہے؟

امۃ اللہ : یہ قرب بھی قرب مکانی یا زمانی نہیں ہے بلکہ وہ علم و قدرت کے لحاظ سے قریب ہے۔ اور ہر ایک کی سنتا ہے، اسی آیت میں آگے فرمایا گیا:

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ
ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہں مراد سن کر فوری دعا کو قبول کرنے کا ذکر ہے قرب سے مراد مرتبہ میں قریب ہونا بھی ہے،
قرآن حکیم میں : الملئکۃ المقربون (سورۃ النساء : 172)
مقرب فرشتوں کا ذکر ہے۔
فرعون جادوگروں سے کہتا ہے کہ اگر تم موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو: وانکم لمن المقربین۔
اور بے شک تم مقربین میں سے ہوجاؤ گے۔ (الاعراف : 114)
معلوم ہوا قرب بلحاظ رتبہ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین
"بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے قریب ہے۔ (الاعراف : 56)

پس ثابت ہوا کہ اللہ رحمت و قدرت، حفاظت و اجابت کے لحاظ سے قریب ہے نا کہ بالذات۔
رسول اللہ ٖ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے۔ (بخاری : 6501)
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہے کہ یہاں قرب مکانی مراد نہیں۔
بعض مفسرین "ہم شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں" کی تفسیر یوں کرتے ہیں اللہ کے فرشتے انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
یہ بھی فرمایا: و نحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرونہم اس شخص سے بنسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔ (سورۃ الواقعۃ : 85)
جمہور سلف کے نزدیک مراد ملک الموت ہے جو اہل و عیال سے زیادہ میت کے قریب ہوتا ہے اور اس کے اہل و عیال نہ تو فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ میت کی اس تکلیف کو جان سکتے ہیں جو میت برداشت کررہی ہوتی ہے، بعض علمائے سلف نے یہاں علم و قدرت بھی مراد لیا ہے مگر قرب مکانی کا قائل صحابہ ' تابعین اور ائمہ میں سے کوئی نہ تھا۔
ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہ ے ساتھ تھے جب ہم کسی اونچی جگہ پر چڑھتے تو اللہ اکبر کی اونچی آواز لگاتے، آپ نے فرمایا: لوگو! میانہ روی اختیار کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں بلارہے ہوتم سننے اور دیکھنے والے کو پکارتے ہو جس کو تم بلاتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔ (بخاری : 2992 مسلم : 2704)۔
اگر اس حدیث سے قرب ذاتی مراد لی جائے تو شہ رگ سے قریب ہونے والی آیت سے تعارض ہوگا معلوم ہوا یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سواری کی گردن کے فاصلہ پر جو شخص سن سکتا ہے اللہ اس سے بھی زیادہ سنتا ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
(حديث قدسي) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ ؟ فَلَمْ تُطْعِمْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ ، فَلَمْ تَسْقِهِ ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب فَضْلِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ ... رقم الحديث: 4667]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالیمن ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا اور حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني قال يا رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجعبد الرحمن بن صخرصحيح مسلم46672572مسلم بن الحجاج261
2
مرضت فلم يعدني ابن آدم ظمئت فلم يسقني ابن آدم فقلت أتمرض يا رب قال يمرض العبد من عبادي ممن في الأرض فلا يعاد فلو عاده كان ما يعوده لي ويظمأ في الأرض فلا يسقى فلو سقي كان ما سقاه ليعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل90338989أحمد بن حنبل241
3
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب وكيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أنك لو سقيته لوجدت ذلك عندي استطعمتك فلم تطعمني فيقول ياعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان271269أبو حاتم بن حبان354
4
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمت أنك لو سقيته لوجدعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان955944أبو حاتم بن حبان354
5
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان752516 : 366أبو حاتم بن حبان354
6
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلعبد الرحمن بن صخرمسند إسحاق بن راهويه2528إسحاق بن راهويه238
7
يقول الله يوم القيامة استطعمك عبدي فلم تطعمه ولو أطعمته أطعمتك واستسقاك عبدي فلم تسقه ولو سقيته سقيتكعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني61285979سليمان بن أحمد الطبراني360
8
مرضت فلم يعدني عبادي ظمئت فلم يسقني عبادي قال أنت يا رب قال نعم يمرض عبدي المؤمن ولو عيد عيد لي ويعطش عبدي في الصحراء فلو سقي سقي ليعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني89518722سليمان بن أحمد الطبراني360
9
مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استسقيتك فلم تسقني فيقول أي رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمتعبد الرحمن بن صخرالأسماء والصفات للبيهقي481473البيهقي458
10
مرضت فلم تعدني قال أي رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته وجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول أي رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال يقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنكعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي85889182البيهقي458
11
مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده ويقول يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني فيقول يا رب كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أعبد الرحمن بن صخرالتوحيد لله عز وجل لعبد الغني بن عبد الواحد المقدسي88---عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي600
12
استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو كنت أطعمته لوجدت ذلك عندي ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرالأدب المفرد للبخاري515517محمد بن إسماعيل البخاري256
13
مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي استسقيتعبد الرحمن بن صخرمكارم الأخلاق للطبراني171170سليمان بن أحمد الطبراني360
 
شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
(حديث قدسي) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ ؟ فَلَمْ تُطْعِمْهُ ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ يَا ابْنَ آدَمَ ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي ، قَالَ يَا رَبِّ : كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ ، فَلَمْ تَسْقِهِ ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب فَضْلِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ ... رقم الحديث: 4667]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالیمن ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا اور حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا. اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني قال يا رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجعبد الرحمن بن صخرصحيح مسلم46672572مسلم بن الحجاج261
2مرضت فلم يعدني ابن آدم ظمئت فلم يسقني ابن آدم فقلت أتمرض يا رب قال يمرض العبد من عبادي ممن في الأرض فلا يعاد فلو عاده كان ما يعوده لي ويظمأ في الأرض فلا يسقى فلو سقي كان ما سقاه ليعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل90338989أحمد بن حنبل241
3مرضت فلم تعدني فيقول يا رب وكيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أنك لو سقيته لوجدت ذلك عندي استطعمتك فلم تطعمني فيقول ياعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان271269أبو حاتم بن حبان354
4مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب كيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمت أنك لو سقيته لوجدعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان955944أبو حاتم بن حبان354
5استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فيقول يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان752516 : 366أبو حاتم بن حبان354
6استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فقال أما علمت أن عبدي فلعبد الرحمن بن صخرمسند إسحاق بن راهويه2528إسحاق بن راهويه238
7يقول الله يوم القيامة استطعمك عبدي فلم تطعمه ولو أطعمته أطعمتك واستسقاك عبدي فلم تسقه ولو سقيته سقيتكعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني61285979سليمان بن أحمد الطبراني360
8مرضت فلم يعدني عبادي ظمئت فلم يسقني عبادي قال أنت يا رب قال نعم يمرض عبدي المؤمن ولو عيد عيد لي ويعطش عبدي في الصحراء فلو سقي سقي ليعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني89518722سليمان بن أحمد الطبراني360
9مرضت فلم تعدني فيقول يا رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده استسقيتك فلم تسقني فيقول أي رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه أما علمتعبد الرحمن بن صخرالأسماء والصفات للبيهقي481473البيهقي458
10مرضت فلم تعدني قال أي رب كيف أعودك وأنت رب العالمين فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده أما علمت أنك لو عدته وجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول أي رب وكيف أطعمك وأنت رب العالمين قال يقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنكعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي85889182البيهقي458
11مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده ويقول يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني فيقول يا رب كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا جاءك يستطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أعبد الرحمن بن صخرالتوحيد لله عز وجل لعبد الغني بن عبد الواحد المقدسي88---عبد الغني بن عبد الواحد المقدسي600
12استطعمتك فلم تطعمني قال فيقول يا رب وكيف استطعمتني ولم أطعمك وأنت رب العالمين قال أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو كنت أطعمته لوجدت ذلك عندي ابن آدم استسقيتك فلم تسقني فقال يا رب وكيف أسقيك وأنت رب العالمين فيقول إن عبدي فلانا استسعبد الرحمن بن صخرالأدب المفرد للبخاري515517محمد بن إسماعيل البخاري256
13مرضت فلم تعدني قال يا رب كيف أعودك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده ولو عدته لوجدتني عنده استطعمتك فلم تطعمني فيقول كيف أطعمك وأنت رب العزة فيقول أما علمت أن عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي استسقيتعبد الرحمن بن صخرمكارم الأخلاق للطبراني171170سليمان بن أحمد الطبراني360
ان شاء اللہ اس کا بھی جواب آئے گا۔ موضوع کو زیر مشاہدہ لے آئیں۔ اللہ ھدایت سے نوازے۔
 
شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
مومنہ: اللہ تعالی فرماتا ہے:
وھو اللہ فی السموت و فی الارض
"وہ اللہ آسمانوں اور زمین میں ہے" (الانعام :3)
اس آیت کا کیا مطلب ہے؟

امۃ اللہ: علماء سلف اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں اور زمین میں الٰہ یعنی معبود ہے۔ ابن کثیر
قرآن حکیم میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وھو الذی فی السماء الہ و فی الارض الہ
"وہی آسمان میں الہ ہے اور زمین میں وہی الہ ہے" الزخرف : 84
یعنی آسمان اور زمین میں عبادت کے لائق صرف اللہ ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
الرحمن علی العرش استوی، لہ ما فی السموت وما فی الارض و ما بینھما و ما تحت الثری، و ان تجھر بالقول فانہ یعلم السر و اخفی۔
"رحمن عرش پر مستوی ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ تحت الثری میں ہے سب اسی کا ہے، اور اگر تم بات اونچی کہو تو وہ ہر چھپے بھید اور خفیہ چیز تک کو جانتا ہے" طہ : 5 تا 7
اہل نظر انصاف کریں کہ کون سا مفہوم اللہ تعالیٰ کی شان کے موافق ہے، کیا ان آیات کا وہ مفہوم نہ مانا جائے جو قرآن حکیم کی دیگر آیات کے موافق ہے اور سلف صالحین سے بھی وہی منقول ہے۔

۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
مومنہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فاینما تولوا فثم وجہ اللہ
"جدھر منہ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے"
کیا اس سے اللہ کا ہر جگہ ہونا ثابت نہیں ہوتا؟؟

امۃ اللہ: پوری آیت اس طرح ہے: و للہ المشرق والمغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ، ان اللہ واسع علیم
"اور اللہ ہی کے لئے مشرق و مغرب ہے ، جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کا "چہرہ " ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے" البقرۃ : 115
اس آیت کی ابتدا میں اللہ کی بادشاہت کی وسعت کی خبر ہے اور آخر میں اس کی وسعت رحمت اور علم کا ذکر ہے، مفہوم یہ ہوا کہ ہر جگہ اللہ کی حکومت ہے اور کوئی چیز اس کے علم و قدرت سے باہر نہیں، تم جہاں بھی جاو اللہ تمہیں جانتا ہے اور تم پر قادر ہے، یہ مفہوم کئی آیات قرآنی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
این ما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا ان اللہ علی کل شیئ قدیر
"جہاں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کرے گا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے" البقرۃ : 148
اکثر ائمہ مفسرین اس کا شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اپنا قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا تو یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق و مغرب سب اللہ کی پیدا کردہ ہے جس کی طرف اللہ منہ کرنے کا حکم دے وہی قبلہ ہے۔​
اگر اس آیت کی بابت صوفیاء کے بیان کردہ معنی قبول کیے جائیں تو عظیم فساد لازم آئے گا، کوئی قبر پرست ہو یا بت پرست یا آگ پرست ، کوئی پانی کو پوجتا ہو یا درخت کو ، تو وہ کہے گا کہ جب اللہ ہر طرف ہے تو میں اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں، پھر تو شرک جائز ہوگا جو قرآنی تعلیم کے صریحا خلاف ہے۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 01، 2014
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
54
مومنہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
و فی انفسکم افلا تبصرون
"اور کیا تم اپنے نفسوں میں نہیں دیکھتے" الذاریات : 21
کیا اللہ ہر نفس کے اندر ہے؟​
امۃ اللہ: یہ صوفیاء کی دلیری ہے جو اس آیت کو بھی دلیل بناتے ہیں، فرمایا:
و فی الارض اٰیٰت للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون
"یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں اور خود تمہاری جانوں میں نشانیاں ہیں پھر تم غور کیوں نہیں کرتے" الذاریات : 21
یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر ہم یقین کر سکتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی توحید کی دعوت برحق ہے آیت قرآنی میں واضح طور پر آیات (نشانیوں) کا ذکر ہے کہ واضح نشانیاں دیکھ کر بھی تم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
حد ہو گئی ! (قسط :۵)

( ۲ )

پولیس والوں نے اگر کوئی مجرم پکڑنا ہو تو وہ ناکا لگاتے ہیں ۔ اگر گنا ہ گار بڑا ہوتو وہ بہت زیادہ ناکے لگاتے ہیں تاکہ خطا کار ایک جگہ نہ بھی پکڑا گیا تو دوسرے مقام پر قابو آ جائے گا ۔ شیطان نے بھی بد عقیدگی کو عام کرنے کے لیے ایسے ہی جال بچھائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ’’ عبدالرحمٰن صاحب قطع کلامی کی معذرت ، عقیدہ وحدۃ الوجود کیا ہے ؟ ایک نوجوان ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ عقیدہ وحدۃ الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں ہے یعنی ہر چیز اﷲ ہی ہے ، (نعوذ با ﷲ )۔لغت میں وحدت الوجود : اصطلاح صوفیت میں ہرمخلوق کو خالق مطلق کا وجود سمجھنا ، (فیروز اللغات ) ۔ کچھ مسلمانوں نے یہود و نصاری اور ہندوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ان کے عقائد کو اپنانا شروع کر دیا ۔ایسی ہی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ عقیدہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض گروہوں کا بھی ہے ۔ جو صوفیوں ، درباری مجاوروں ، مزاری ملنگوں اور طریقتی پیروں کا گھڑا ہوا عقیدہ ہے ۔ یہ اتنا برا عقیدہ ہے کہ اس کے ماننے والے سور ، بندر ، گندگی اور دنیا کی ہر چیز کو اﷲ مانتے ہیں ، (نعوذ باﷲ ) ۔ وہ صوفی جو ہر مخلوق کو خالق کا وجود قرار دیتا ہے اسے وحدت الوجودی کہتے ہیں ‘‘ ، (فیروز اللغات ) ۔
آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کروا لیتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔ یہ عقیدہ ۔۔۔ ’’ دیکھو بیٹا اس مرتبہ پھر آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ ہر چیز میں اﷲ ہے ، بوڑھے آدمی نے عبدالرحمٰن کی بات کاٹ کر دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ محترم ! کونسی آیت ، عبدالرحمٰن نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’تم غلطیاں نکال دیتے ہو ! ‘‘ ، آیت تو میں نہیں پڑھوں گا لیکن اس کا ترجمہ ہے کہ : ’’ اے انسان ہم تیری شہ رگ میں ہیں یا رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
جناب عالیٰ ! آیت اس طرح ہے : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس قرب سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کے لحاظ سے انسان کے قریب ہے ۔ یعنی اﷲ پاک دلوں میں اٹھنے والے خیالوں سے بھی واقف ہے اور وہ (اﷲ ) انسان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے ، جتنا وہ (انسان ) خود اپنے بارے میں علم نہیں رکھتا ۔
مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں :’’ انٹرنیٹ کے فوائد (Internet Benefits) ‘‘ ، کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی دنیا ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے ‘‘ ۔ کیا سارا جہان ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ؟ ’’جی نہیں !‘‘ ، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ : ’’ ہم جس جگہ بھی ہوں ، اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے جو چاہیں تلاش (Search) کرسکتے اور اپنی پسندیدہ چیزیں دیکھ ، پڑھ ، سن اور دنیا کی سیر کر کے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ اکثر خبر چینل سے وقفہ کے وقت یہ بات سننے میں آتی ہے کہ : ’’ ناظرین یہاں پے لینا ہے ایک چھوٹا سا وقفہ ہمارے ساتھ رہیے گا ‘‘ ۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں ؟ بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ : ’’ ہم ان کا چینل دیکھتے رہیں ‘‘ ، اسی طرح اﷲ اپنے عرش پر مستوی ہے ، لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے کوئی بھی چیز اس سے غائب نہیں ، اور وہ دلوں کے حال تک جانتا ہے ۔
یہود و نصاری کی طرح مسلمانوں نے بھی محکمات آیات کو چھوڑ اور متشابہات آیات کے پیچھے لگ کر بے شمار خود ساختہ عقائد بنائے ۔متشابہات آیات کو اس طرح سمجھو ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے ان آیات میں فکر کیا ۔ متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ۔ ’’ بھائی ! معاف کرنا ، محکمات اور متشابہات آیات سے کیا مراد ہے ؟ ایک نو عمر لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
عوام وافر مقدار میں عبدالرحمٰن کے اردگرد جمع تھی ۔ توجہ کی وجہ سے ہمارے کان ، آنکھیں اور دل بھی سماعت فرما رہے تھے ۔ الفاظ پر اتنا مرکز نگاہ (Focus ) تھا کہ جیسے ذہن میں تصویر کشی کر رہے ہوں ۔ہم عبدالرحمٰن کا احساس ، دل و روح کے راستے سے محسوس کر رہے تھے ۔لوگ دنیا کے ٹی وی کو بند کرکے صرف عبدالرحمٰن کی قرآن و حدیث پر مبنی باتیں سننا پسند کر رہے تھے ۔ عبدالرحمٰن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا :
اس آیت (یعنی ، ق : ۱۶ ) کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو نبی پاک ﷺ نے صحابہ اکرمؓ کو بتایا ۔ رسول اﷲ ﷺ کی احادیث تو عقیدہ وحدۃ الوجود کی تردید میں ہیں اور تائید کرتیں ہیں کہ اﷲ پاک آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جب اﷲ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب میں جو ’’ اس کے پاس عرش پر موجود ہے ‘‘ ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ‘‘ ، (بخاری : ۳۱۹۴ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ’’ آسمان والا‘‘، تم پر رحم کرے گا ‘‘ ، (ترمذی : ۱۷۵۴ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بچھونے کی طرف بلائے اور وہ انکار کرے ، تو وہ پروردگار جو ’’ آسمان کے اوپر ہے ‘‘ ، غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ (یعنی شوہر ) اس عورت سے راضی نہ ہو ‘‘ ، (مسلم : ۳۵۴۰ ) ۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ نے کہا میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں آنکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ جیسے دوسرں کو غصہ آتا ہے میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا تو سیدالمرسلین ﷺ نے میرا یہ فعل بہت برا قرار دیا ۔ میں نے کہا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ ‘‘ ، آپ نے فرمایا : ’’ اس کو میرے پاس لے کر آ ‘‘ ۔ میں آپ ﷺ کے پاس لے کر گیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : ’’ اﷲ کہاں ہے ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آسمان پر ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں کون ہوں ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘، تب آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے‘‘ ، (مسلم : ۱۱۹۹ ) ۔ کثیر تعداد احادیث، اس عقیدے کو مسترد (Reject) کرتیں ہیں ، مثلاََ : ’’ ( بخاری : ۱۱۴۵ ) ، (بخاری : ۵۵۵ ) ، (بخاری : ۴۳۵۱ ) ، (بخاری : ۷۴۳۰ ) ، ( بخاری : ۲۷۹۰ ) ، ( بخاری : ۷۴۲۱ ) اور ( مسلم : ۶۸۳۹ ) ‘‘ ۔
کیوں نہ ! صحابہ کرامؓ کے اقوال کے ترازو سے عقیدہ وحدۃ الوجود کی پیمائش کریں ؟ کون صحابہؓ ! جو حقیقی مومن تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔ وہ صحابہؓ ! جو کامیاب ہو گئے اور جن کے لیے اجر عظیم ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جنہوں نے دین کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جو کفار کے لیے سخت اور آپس میں محبت کرنے والے تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کا کردار نجات کے لیے معیار ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کے بارے میں رسول ﷲ نے فرمایا کہ : ’’ وہ بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘
آؤ ! صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اقوال سماعت فرما ؤ ۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو ! اگر تو محمد ﷺ تمہارے معبود تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے تو پھر جان لو کہ تمہارے (وہ ) معبود (محمد ﷺ ) فوت ہوگئے ہیں اور اگر تم لوگوں کا معبود وہ ہے ’’ جو آسمان پر ہے ‘‘ ، تو پھر تمہارا معبود نہیں مرا ‘‘ ، (التاریخ الکبیر : ۶۲۳ ) ۔ سیدنا انسؓ کا کہنا ہے کہ (ام المومنین ) زینب بنت حجشؓ ، سید المرسلین ﷺ کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ : ’’ تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر والوں نے کی اور میری اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی ‘‘ ، (بخاری : ۷۴۲۰ ) ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی ، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے ، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ حضرت ابن عباسؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ان کے بھتیجے نے جھک کر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو ( مجھ میں ہمت نہیں ہے ) اس نے کہا کہ اماں جان ! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں ، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اندر آ کر کہا : ’’ آپ ( یعنی عائشہؓ ) نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں ، اور سید المرسلین ﷺ اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو ، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گرپڑا تھا نبی ﷺ نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا ، اﷲ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا ، جس میں اس امت کے لئے اﷲ نے رخصت نازل فرما دی ، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں ’’ جو سات آسمانوں کے اوپر سے جبریل لے کر آئے ‘‘ ، (مسند احمد : ۲۴۹۶ ) ۔
تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین ؒ بھی عقیدہ وحدت الوجود کے خلاف تھے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ ، امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ تو اس نے کفر کیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے‘‘ ، اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : ’’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اﷲ کا عرش آسمان پر ہے یا زمین پر (تو پھر اسکا کیا حکم ہے ) ؟ ‘‘ ، تو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اﷲ کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور جو اس بات سے انکار کرے وہ کافر ہے ‘‘ ، (شرح عقیدہ الطحاویہ ، صفحہ : ۲۸۸ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۴ ) اور آپ یوٹیوب ( YouTube) پر بھی اس حوالہ (Reference) کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں ، تلاش (Search )کریں (Wahdatul wajood ka Rad Imam Abu Hanifa se) ۔
عبداﷲ بن نافع ؒ کا کہنا ہے کہ امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں ‘‘ ، (اعتقاد اہل السنۃ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۷ تا ۳۸ ) ۔ امام الشافعی ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان سے اوپر اپنے عرش سے اوپر ہے ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ ) ۔ امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا : ’’ کیا اﷲ عزو جلّ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش سے اوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے اور اسکی قدرت اور علم ہر جگہ ہے ؟ ‘‘ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا : ’’ جی ہاں ! اﷲ عرش پر ہے اور اس (کے علم ) سے کچھ خارج نہیں ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ تا ۳۹ ) ۔ ’’ انکل ! (Uncle) میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ ۱۰ سے ۱۲ سال کے بچے نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ جی ! کیوں نہیں ، عبدالرحمٰن نے جواب دیا ۔ ‘‘
بچہ :
’’ انکل ! مجھے بلال کہتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے افسوس ہے ان پر جو اس (یعنی عقیدہ وحدۃالوجود ) کے قائل ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں : ’’ اگر ہر شے اﷲ ہے تو جنت اور جہنم کس لیے ؟اگرتمام چیزیں اﷲ ہیں توپھر مریم کے پیٹ میں کون تھا ؟ اگر سب جگہ اﷲ تعالیٰ ہے تو نبی پاک ﷺ کو اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اﷲ پاک نے قرآن مجید نازل کیا ، اگر ہر جگہ ہوتا تو دے دیتا ؟ اگر ہر چیز اﷲ ہے تو پھر ہم دعا کے لیے ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ کل من علیھا فان *ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والاکرام : (یعنی) ہر چیز نے ختم ہو جانا ہے ۔ صرف آپ کے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘ ،(الرحمن : ۲۶ تا ۲۷ ) ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ : ’’ سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف اﷲ کی ذات باقی رہے گی ۔ اگر تمام چیزوں میں اﷲ ہے یااﷲ ہیں تو پھر ختم کون ہو گا ؟ ‘‘ ، انکل ! یہ عقیدہ اتنا برا ہے کہ عقل کے بھی خلاف ہے ’’ کیا مسلمانوں نے ا س عقیدے کو تقریری (Oral) طور پر پھیلایا ہے یا تحریری (Written) نشرو اشاعت کی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ بلال بیٹا ! اﷲ آپ کو اجر دے اور استقامت عطا فرمائے ‘‘ ۔ لوگوں نے اس عقیدے کو تقریری اور تحریری طور پر وسعت دی ہے ۔ ایسے ایسے لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مثال کے طور پر ، منصور حلاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرشد ؒ سے سنا تھا کہ ابن المنصور کو نماز پڑھتے کسی نے دیکھ کر پوچھا کہ جب تم خود حق (یعنی اﷲ ) ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے ‘‘ ، (سیرت منصور حلاج ، صفحہ : ۱۴ ) ۔
ایک صاحب نے اپنے بیان (Speech) میں عقیدہ وحدت الوجود کا پرچار اس طریقے سے کیا کہ : ’’ لا کی تلوار عرش کے اوپر سے چلی ہے ، عرش زیرو زبر ، عرش کے فرشتے زیرو زبر ، عرش کے نیچے زیرو زبر۔ ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، دوسرا ، پہلا آسمان لا اور ہوا ، فضا ، خلا لا اور زمین ،آسمان ، چاند ، سورج ، تارے لا ، اور انسان ، جنات ، جن ، پرند ،چرند ، آبی ، خاکی ، ناری ، نوری ، ہوائی ، فضائی ، خلائی سب لا ہیں ، لا ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں ہے ، کوئی کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ، جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ‘‘ ،( یوٹیوب : Wahdat-ul-wajood - Molana Tariq Jameel ) ۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ ایک کتاب میں اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ : ’’ ایک موحد (وحدت الوجودی ) سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ۔ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گُوہ کو کھا لیا ۔ پھر بصورت آدمی ہو کر حلوہ کھا لیا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے ‘‘ ، (شمائم امدادیہ ، حصہ دوم ، ص : ۷۵ ) ، ( الدیوبندیۃ ، صفحہ : ۲۰۰ ) ۔
استغفر اﷲ ، نعوذ باﷲ ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور سبحن اﷲ عما یشرکونکی آوازیں ، چاروں طرف گھونج رہی تھیں اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں ۔ عبدالرحمن کی آنکھوں سے ضبط کی جدوجہد کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ عوام الناس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر عبدالرحمن بول پڑا :
میرے بھائیوں ! میرامقصد باطل کو بے نقاب کرنا اور حق بات سمجھانا تھا ، کسی کو دکھ پہنچانا میرا مشن نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا مفسراس کی زد میں آ گیا تھا ۔عقیدہ وحدت الوجود کو مسلمانوں میں ’’ابن عربی ‘‘ ، نے متعارف کیا جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم ‘‘ ، اسی غلیظ ترین عقیدے سے لبریز ہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی لکھتے ہیں :
’’ میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے ، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت و ماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے ، اس کا عین نہیں ۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے ۔ یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے ‘‘ ، (ام المسبحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح ، صفحہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر لکھتا ہے : ’’ شیخ ابن عربی کے بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ، میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے ‘‘ ، (ام المسبحات ۔۔۔، صفحہ : ۹۱ )۔ یوٹیوب پر آپ ان کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں ، تلاش کریں (Dr. Israr Aur Aqeedah Wahdat ul Wajood) ۔
ایک اور مفسر ، سورۃ المک کی آیت نمبر ۱۶ ، جس میں ہے کہ ’’ اﷲ آسمان پر ہے ‘‘ ، کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آ سمان میں رہتا ہے ‘‘۔لونڈی جس سے نبی پاک ﷺنے دو سوال کیے تھے اور وہ واقعہ جو حضرت خولہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ،یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ، بھی بیان کیا۔پھر کہا اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن ، اﷲ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے ‘‘ ، ( تفہیم القرآن ) ۔
ایک وجودی نے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ایک قصہ بیان کیا ، کہا : ’’ رب عزوجل اس پر قادر نہیں کہ اپنے بندے پر تجلی فرما کر کلام فرمائے جو اس کی زبان سے سننے میں آئے بلا شبہ اﷲ قادر ہے اور معترض کا اعتراض باطل ، اس کا فیصلہ خود حضرت با یزید بسطامیؓ کے زمانے میں ہوچکا ، ظاہر بینوں بے خبروں نے ان سے شکایت کی کہ آپ سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے )کہا کرتے ہیں ، فرمایا : حاشا میں نہیں کہتا ، کہا : آپ ضرور کہتے ہیں ہم سب سنتے ہیں ، فرمایا : جو ایسا کہے واجب القتل ہے میں نجوشی تمھیں اجازت دیتا ہوں جب مجھے ایسا کہتے سنو بے دریغ خنجر ماردو ، وہ سب خنجر لے کر منتظر وقت رہے یہاں تک کہ حضرت پر تجلی وارد ہوئی اور وہی سننے میں آیا سبحانی ما اعظم شانی مجھے سب عیبوں سے پاکی ہے میری شان کیا ہی بڑی ہے ۔ وہ لوگ چار طرف سے خنجر لے کر دوڑے اور حضرت پر وار کئے ، جس نے جس جگہ خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا اور حضرت پر خط بھی نہ آیا ۔ جب افاقہ ( Recovered) ہوا دیکھا لوگ زخمی پڑے ہیں ، فرمایا : ’’ میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرمانا بجا ہے ‘‘ ، (فتاوی رضویہ ، جلد :۱۴، صفحہ : ۶۶۶ ) ۔آپ بتائیے ! سبحانی ما اعظم شانی ، کہنے والا ’’ پکا ولی ہے ‘‘ ، تو پھر فرعون کا کیا گناہ تھا ؟ ‘‘
مشرکین مکہ اور یہود و نصاری نے اﷲ پاک پر بیٹے اور بیٹیوں کا بہتان باندھا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مسلمانو ! تم بھی ؟ آپ نے تو تمام حدیں پار کر دیں کہ کہتے ہو : ’’ لا موجود الا اﷲ : یعنی اﷲ کے سواء کچھ بھی موجود نہیں ہے ‘‘ ۔کیا آپ نے سورۃ المائدۃ کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ لوگ قطعاََ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا ، اﷲ تین میں کا تیسرا ہے ‘‘ ، (المائدۃ : ۷۳ ) ۔ وہ کافر ہیں جو تیں کہیں اور جو ہر چیز کو اﷲ کہہ دے وہ کیا ہے ؟ کیا آپ اﷲ تعالیٰ سے نڈرہو کہ : ’’ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھر برسا دے ‘‘ ، کہ تم ہر چیز کو اس کا جز ثابت کرنے چلے ہو ؟ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا کہ الفرقان میں : ’’ من دون اﷲ ، من دونہ اور غیر اﷲ ‘‘ ، بھی استعمال ہوا ہے ۔ اگر تمام مخلوقات ، خالق کا ہی حصہ تھیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ الفاظ کیوں استعمال کیے ؟
میرے پیارو ! بہت زیادہ تعداد اس باطل عقیدے پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کے قائل لوگوں نے بڑی موٹی موٹی کتابیں اس عقیدے کی نشرو اشاعت کے لیے شائع کیں ہیں ۔ ذات میں شرک کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں آپ نے سنیں ، اب ! ان شاء اﷲ چند گزارشات ’’ صفات میں شرک ‘‘ ، کے بارے آپ کے گوش گزار کروں گا ۔
( جاری ہے )
 
Top