حد ہو گئی ! (قسط :۵)
( ۲ )
پولیس والوں نے اگر کوئی مجرم پکڑنا ہو تو وہ ناکا لگاتے ہیں ۔ اگر گنا ہ گار بڑا ہوتو وہ بہت زیادہ ناکے لگاتے ہیں تاکہ خطا کار ایک جگہ نہ بھی پکڑا گیا تو دوسرے مقام پر قابو آ جائے گا ۔ شیطان نے بھی بد عقیدگی کو عام کرنے کے لیے ایسے ہی جال بچھائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ’’ عبدالرحمٰن صاحب قطع کلامی کی معذرت ، عقیدہ وحدۃ الوجود کیا ہے ؟ ایک نوجوان ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ عقیدہ وحدۃ الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں ہے یعنی ہر چیز اﷲ ہی ہے ، (نعوذ با ﷲ )۔لغت میں وحدت الوجود : اصطلاح صوفیت میں ہرمخلوق کو خالق مطلق کا وجود سمجھنا ، (فیروز اللغات ) ۔ کچھ مسلمانوں نے یہود و نصاری اور ہندوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ان کے عقائد کو اپنانا شروع کر دیا ۔ایسی ہی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ عقیدہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض گروہوں کا بھی ہے ۔ جو صوفیوں ، درباری مجاوروں ، مزاری ملنگوں اور طریقتی پیروں کا گھڑا ہوا عقیدہ ہے ۔ یہ اتنا برا عقیدہ ہے کہ اس کے ماننے والے سور ، بندر ، گندگی اور دنیا کی ہر چیز کو اﷲ مانتے ہیں ، (نعوذ باﷲ ) ۔ وہ صوفی جو ہر مخلوق کو خالق کا وجود قرار دیتا ہے اسے وحدت الوجودی کہتے ہیں ‘‘ ، (فیروز اللغات ) ۔
آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کروا لیتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔ یہ عقیدہ ۔۔۔ ’’ دیکھو بیٹا اس مرتبہ پھر آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ ہر چیز میں اﷲ ہے ، بوڑھے آدمی نے عبدالرحمٰن کی بات کاٹ کر دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ محترم ! کونسی آیت ، عبدالرحمٰن نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’تم غلطیاں نکال دیتے ہو ! ‘‘ ، آیت تو میں نہیں پڑھوں گا لیکن اس کا ترجمہ ہے کہ : ’’ اے انسان ہم تیری شہ رگ میں ہیں یا رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
جناب عالیٰ ! آیت اس طرح ہے : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس قرب سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کے لحاظ سے انسان کے قریب ہے ۔ یعنی اﷲ پاک دلوں میں اٹھنے والے خیالوں سے بھی واقف ہے اور وہ (اﷲ ) انسان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے ، جتنا وہ (انسان ) خود اپنے بارے میں علم نہیں رکھتا ۔
مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں :’’ انٹرنیٹ کے فوائد (Internet Benefits) ‘‘ ، کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی دنیا ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے ‘‘ ۔ کیا سارا جہان ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ؟ ’’جی نہیں !‘‘ ، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ : ’’ ہم جس جگہ بھی ہوں ، اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے جو چاہیں تلاش (Search) کرسکتے اور اپنی پسندیدہ چیزیں دیکھ ، پڑھ ، سن اور دنیا کی سیر کر کے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ اکثر خبر چینل سے وقفہ کے وقت یہ بات سننے میں آتی ہے کہ : ’’ ناظرین یہاں پے لینا ہے ایک چھوٹا سا وقفہ ہمارے ساتھ رہیے گا ‘‘ ۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں ؟ بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ : ’’ ہم ان کا چینل دیکھتے رہیں ‘‘ ، اسی طرح اﷲ اپنے عرش پر مستوی ہے ، لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے کوئی بھی چیز اس سے غائب نہیں ، اور وہ دلوں کے حال تک جانتا ہے ۔
یہود و نصاری کی طرح مسلمانوں نے بھی محکمات آیات کو چھوڑ اور متشابہات آیات کے پیچھے لگ کر بے شمار خود ساختہ عقائد بنائے ۔متشابہات آیات کو اس طرح سمجھو ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے ان آیات میں فکر کیا ۔ متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ۔ ’’ بھائی ! معاف کرنا ، محکمات اور متشابہات آیات سے کیا مراد ہے ؟ ایک نو عمر لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
عوام وافر مقدار میں عبدالرحمٰن کے اردگرد جمع تھی ۔ توجہ کی وجہ سے ہمارے کان ، آنکھیں اور دل بھی سماعت فرما رہے تھے ۔ الفاظ پر اتنا مرکز نگاہ (Focus ) تھا کہ جیسے ذہن میں تصویر کشی کر رہے ہوں ۔ہم عبدالرحمٰن کا احساس ، دل و روح کے راستے سے محسوس کر رہے تھے ۔لوگ دنیا کے ٹی وی کو بند کرکے صرف عبدالرحمٰن کی قرآن و حدیث پر مبنی باتیں سننا پسند کر رہے تھے ۔ عبدالرحمٰن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا :
اس آیت (یعنی ، ق : ۱۶ ) کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو نبی پاک ﷺ نے صحابہ اکرمؓ کو بتایا ۔ رسول اﷲ ﷺ کی احادیث تو عقیدہ وحدۃ الوجود کی تردید میں ہیں اور تائید کرتیں ہیں کہ اﷲ پاک آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جب اﷲ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب میں جو ’’ اس کے پاس عرش پر موجود ہے ‘‘ ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ‘‘ ، (بخاری : ۳۱۹۴ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ’’ آسمان والا‘‘، تم پر رحم کرے گا ‘‘ ، (ترمذی : ۱۷۵۴ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بچھونے کی طرف بلائے اور وہ انکار کرے ، تو وہ پروردگار جو ’’ آسمان کے اوپر ہے ‘‘ ، غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ (یعنی شوہر ) اس عورت سے راضی نہ ہو ‘‘ ، (مسلم : ۳۵۴۰ ) ۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ نے کہا میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں آنکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ جیسے دوسرں کو غصہ آتا ہے میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا تو سیدالمرسلین ﷺ نے میرا یہ فعل بہت برا قرار دیا ۔ میں نے کہا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ ‘‘ ، آپ نے فرمایا : ’’ اس کو میرے پاس لے کر آ ‘‘ ۔ میں آپ ﷺ کے پاس لے کر گیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : ’’ اﷲ کہاں ہے ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آسمان پر ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں کون ہوں ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘، تب آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے‘‘ ، (مسلم : ۱۱۹۹ ) ۔ کثیر تعداد احادیث، اس عقیدے کو مسترد (Reject) کرتیں ہیں ، مثلاََ : ’’ ( بخاری : ۱۱۴۵ ) ، (بخاری : ۵۵۵ ) ، (بخاری : ۴۳۵۱ ) ، (بخاری : ۷۴۳۰ ) ، ( بخاری : ۲۷۹۰ ) ، ( بخاری : ۷۴۲۱ ) اور ( مسلم : ۶۸۳۹ ) ‘‘ ۔
کیوں نہ ! صحابہ کرامؓ کے اقوال کے ترازو سے عقیدہ وحدۃ الوجود کی پیمائش کریں ؟ کون صحابہؓ ! جو حقیقی مومن تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔ وہ صحابہؓ ! جو کامیاب ہو گئے اور جن کے لیے اجر عظیم ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جنہوں نے دین کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جو کفار کے لیے سخت اور آپس میں محبت کرنے والے تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کا کردار نجات کے لیے معیار ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کے بارے میں رسول ﷲ نے فرمایا کہ : ’’ وہ بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘
آؤ ! صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اقوال سماعت فرما ؤ ۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو ! اگر تو محمد ﷺ تمہارے معبود تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے تو پھر جان لو کہ تمہارے (وہ ) معبود (محمد ﷺ ) فوت ہوگئے ہیں اور اگر تم لوگوں کا معبود وہ ہے ’’ جو آسمان پر ہے ‘‘ ، تو پھر تمہارا معبود نہیں مرا ‘‘ ، (التاریخ الکبیر : ۶۲۳ ) ۔ سیدنا انسؓ کا کہنا ہے کہ (ام المومنین ) زینب بنت حجشؓ ، سید المرسلین ﷺ کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ : ’’ تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر والوں نے کی اور میری اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی ‘‘ ، (بخاری : ۷۴۲۰ ) ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی ، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے ، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ حضرت ابن عباسؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ان کے بھتیجے نے جھک کر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو ( مجھ میں ہمت نہیں ہے ) اس نے کہا کہ اماں جان ! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں ، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اندر آ کر کہا : ’’ آپ ( یعنی عائشہؓ ) نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں ، اور سید المرسلین ﷺ اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو ، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گرپڑا تھا نبی ﷺ نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا ، اﷲ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا ، جس میں اس امت کے لئے اﷲ نے رخصت نازل فرما دی ، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں ’’ جو سات آسمانوں کے اوپر سے جبریل لے کر آئے ‘‘ ، (مسند احمد : ۲۴۹۶ ) ۔
تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین ؒ بھی عقیدہ وحدت الوجود کے خلاف تھے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ ، امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ تو اس نے کفر کیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے‘‘ ، اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : ’’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اﷲ کا عرش آسمان پر ہے یا زمین پر (تو پھر اسکا کیا حکم ہے ) ؟ ‘‘ ، تو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اﷲ کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور جو اس بات سے انکار کرے وہ کافر ہے ‘‘ ، (شرح عقیدہ الطحاویہ ، صفحہ : ۲۸۸ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۴ ) اور آپ یوٹیوب ( YouTube) پر بھی اس حوالہ (Reference) کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں ، تلاش (Search )کریں (Wahdatul wajood ka Rad Imam Abu Hanifa se) ۔
عبداﷲ بن نافع ؒ کا کہنا ہے کہ امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں ‘‘ ، (اعتقاد اہل السنۃ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۷ تا ۳۸ ) ۔ امام الشافعی ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان سے اوپر اپنے عرش سے اوپر ہے ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ ) ۔ امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا : ’’ کیا اﷲ عزو جلّ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش سے اوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے اور اسکی قدرت اور علم ہر جگہ ہے ؟ ‘‘ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا : ’’ جی ہاں ! اﷲ عرش پر ہے اور اس (کے علم ) سے کچھ خارج نہیں ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ تا ۳۹ ) ۔ ’’ انکل ! (Uncle) میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ ۱۰ سے ۱۲ سال کے بچے نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ جی ! کیوں نہیں ، عبدالرحمٰن نے جواب دیا ۔ ‘‘
بچہ :
’’ انکل ! مجھے بلال کہتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے افسوس ہے ان پر جو اس (یعنی عقیدہ وحدۃالوجود ) کے قائل ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں : ’’ اگر ہر شے اﷲ ہے تو جنت اور جہنم کس لیے ؟اگرتمام چیزیں اﷲ ہیں توپھر مریم کے پیٹ میں کون تھا ؟ اگر سب جگہ اﷲ تعالیٰ ہے تو نبی پاک ﷺ کو اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اﷲ پاک نے قرآن مجید نازل کیا ، اگر ہر جگہ ہوتا تو دے دیتا ؟ اگر ہر چیز اﷲ ہے تو پھر ہم دعا کے لیے ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ کل من علیھا فان *ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والاکرام : (یعنی) ہر چیز نے ختم ہو جانا ہے ۔ صرف آپ کے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘ ،(الرحمن : ۲۶ تا ۲۷ ) ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ : ’’ سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف اﷲ کی ذات باقی رہے گی ۔ اگر تمام چیزوں میں اﷲ ہے یااﷲ ہیں تو پھر ختم کون ہو گا ؟ ‘‘ ، انکل ! یہ عقیدہ اتنا برا ہے کہ عقل کے بھی خلاف ہے ’’ کیا مسلمانوں نے ا س عقیدے کو تقریری (Oral) طور پر پھیلایا ہے یا تحریری (Written) نشرو اشاعت کی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ بلال بیٹا ! اﷲ آپ کو اجر دے اور استقامت عطا فرمائے ‘‘ ۔ لوگوں نے اس عقیدے کو تقریری اور تحریری طور پر وسعت دی ہے ۔ ایسے ایسے لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مثال کے طور پر ، منصور حلاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرشد ؒ سے سنا تھا کہ ابن المنصور کو نماز پڑھتے کسی نے دیکھ کر پوچھا کہ جب تم خود حق (یعنی اﷲ ) ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے ‘‘ ، (سیرت منصور حلاج ، صفحہ : ۱۴ ) ۔
ایک صاحب نے اپنے بیان (Speech) میں عقیدہ وحدت الوجود کا پرچار اس طریقے سے کیا کہ : ’’ لا کی تلوار عرش کے اوپر سے چلی ہے ، عرش زیرو زبر ، عرش کے فرشتے زیرو زبر ، عرش کے نیچے زیرو زبر۔ ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، دوسرا ، پہلا آسمان لا اور ہوا ، فضا ، خلا لا اور زمین ،آسمان ، چاند ، سورج ، تارے لا ، اور انسان ، جنات ، جن ، پرند ،چرند ، آبی ، خاکی ، ناری ، نوری ، ہوائی ، فضائی ، خلائی سب لا ہیں ، لا ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں ہے ، کوئی کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ، جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ‘‘ ،( یوٹیوب : Wahdat-ul-wajood - Molana Tariq Jameel ) ۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ ایک کتاب میں اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ : ’’ ایک موحد (وحدت الوجودی ) سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ۔ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گُوہ کو کھا لیا ۔ پھر بصورت آدمی ہو کر حلوہ کھا لیا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے ‘‘ ، (شمائم امدادیہ ، حصہ دوم ، ص : ۷۵ ) ، ( الدیوبندیۃ ، صفحہ : ۲۰۰ ) ۔
استغفر اﷲ ، نعوذ باﷲ ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور سبحن اﷲ عما یشرکونکی آوازیں ، چاروں طرف گھونج رہی تھیں اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں ۔ عبدالرحمن کی آنکھوں سے ضبط کی جدوجہد کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ عوام الناس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر عبدالرحمن بول پڑا :
میرے بھائیوں ! میرامقصد باطل کو بے نقاب کرنا اور حق بات سمجھانا تھا ، کسی کو دکھ پہنچانا میرا مشن نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا مفسراس کی زد میں آ گیا تھا ۔عقیدہ وحدت الوجود کو مسلمانوں میں ’’ابن عربی ‘‘ ، نے متعارف کیا جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم ‘‘ ، اسی غلیظ ترین عقیدے سے لبریز ہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی لکھتے ہیں :
’’ میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے ، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت و ماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے ، اس کا عین نہیں ۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے ۔ یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے ‘‘ ، (ام المسبحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح ، صفحہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر لکھتا ہے : ’’ شیخ ابن عربی کے بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ، میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے ‘‘ ، (ام المسبحات ۔۔۔، صفحہ : ۹۱ )۔ یوٹیوب پر آپ ان کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں ، تلاش کریں (Dr. Israr Aur Aqeedah Wahdat ul Wajood) ۔
ایک اور مفسر ، سورۃ المک کی آیت نمبر ۱۶ ، جس میں ہے کہ ’’ اﷲ آسمان پر ہے ‘‘ ، کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آ سمان میں رہتا ہے ‘‘۔لونڈی جس سے نبی پاک ﷺنے دو سوال کیے تھے اور وہ واقعہ جو حضرت خولہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ،یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ، بھی بیان کیا۔پھر کہا اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن ، اﷲ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے ‘‘ ، ( تفہیم القرآن ) ۔
ایک وجودی نے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ایک قصہ بیان کیا ، کہا : ’’ رب عزوجل اس پر قادر نہیں کہ اپنے بندے پر تجلی فرما کر کلام فرمائے جو اس کی زبان سے سننے میں آئے بلا شبہ اﷲ قادر ہے اور معترض کا اعتراض باطل ، اس کا فیصلہ خود حضرت با یزید بسطامیؓ کے زمانے میں ہوچکا ، ظاہر بینوں بے خبروں نے ان سے شکایت کی کہ آپ سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے )کہا کرتے ہیں ، فرمایا : حاشا میں نہیں کہتا ، کہا : آپ ضرور کہتے ہیں ہم سب سنتے ہیں ، فرمایا : جو ایسا کہے واجب القتل ہے میں نجوشی تمھیں اجازت دیتا ہوں جب مجھے ایسا کہتے سنو بے دریغ خنجر ماردو ، وہ سب خنجر لے کر منتظر وقت رہے یہاں تک کہ حضرت پر تجلی وارد ہوئی اور وہی سننے میں آیا سبحانی ما اعظم شانی مجھے سب عیبوں سے پاکی ہے میری شان کیا ہی بڑی ہے ۔ وہ لوگ چار طرف سے خنجر لے کر دوڑے اور حضرت پر وار کئے ، جس نے جس جگہ خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا اور حضرت پر خط بھی نہ آیا ۔ جب افاقہ ( Recovered) ہوا دیکھا لوگ زخمی پڑے ہیں ، فرمایا : ’’ میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرمانا بجا ہے ‘‘ ، (فتاوی رضویہ ، جلد :۱۴، صفحہ : ۶۶۶ ) ۔آپ بتائیے ! سبحانی ما اعظم شانی ، کہنے والا ’’ پکا ولی ہے ‘‘ ، تو پھر فرعون کا کیا گناہ تھا ؟ ‘‘
مشرکین مکہ اور یہود و نصاری نے اﷲ پاک پر بیٹے اور بیٹیوں کا بہتان باندھا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مسلمانو ! تم بھی ؟ آپ نے تو تمام حدیں پار کر دیں کہ کہتے ہو : ’’ لا موجود الا اﷲ : یعنی اﷲ کے سواء کچھ بھی موجود نہیں ہے ‘‘ ۔کیا آپ نے سورۃ المائدۃ کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ لوگ قطعاََ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا ، اﷲ تین میں کا تیسرا ہے ‘‘ ، (المائدۃ : ۷۳ ) ۔ وہ کافر ہیں جو تیں کہیں اور جو ہر چیز کو اﷲ کہہ دے وہ کیا ہے ؟ کیا آپ اﷲ تعالیٰ سے نڈرہو کہ : ’’ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھر برسا دے ‘‘ ، کہ تم ہر چیز کو اس کا جز ثابت کرنے چلے ہو ؟ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا کہ الفرقان میں : ’’ من دون اﷲ ، من دونہ اور غیر اﷲ ‘‘ ، بھی استعمال ہوا ہے ۔ اگر تمام مخلوقات ، خالق کا ہی حصہ تھیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ الفاظ کیوں استعمال کیے ؟
میرے پیارو ! بہت زیادہ تعداد اس باطل عقیدے پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کے قائل لوگوں نے بڑی موٹی موٹی کتابیں اس عقیدے کی نشرو اشاعت کے لیے شائع کیں ہیں ۔ ذات میں شرک کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں آپ نے سنیں ، اب ! ان شاء اﷲ چند گزارشات ’’ صفات میں شرک ‘‘ ، کے بارے آپ کے گوش گزار کروں گا ۔
( جاری ہے )