مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
اللہ کی صفت رحمن ورحیم میں فرق
مقبول احمد سلفی
اللہ کے اسمائے حسنی میں سے دوصفاتی نام رحمن اور رحیم ہیں ۔ یہ دونوں کلمے عربی مادہ "رحم" سے مشتق اور مبالغہ کے صیغے ہیں اس لئے دونوں کے معنی میں کثرت ووحدت پایا جاتاہے، وہ ہے بہت مہربان یا نہایت رحم کرنے والا۔ عربی قواعد کے اعتبار سے رحمن فعلان کے وزن پر وسعت رحمت پر دلالت کرتا ہے اور رحیم فعیل کے زون پر ایصال رحمت یعنی مخلوق تک رحم پہنچانےپر دلالت کرتا ہے ۔
قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح ہے کہ اللہ تعالی جس طرح دنیا میں مومنوں پر مہربان ہے اسی طرح کافروں اور عاضی ونافرن پر بھی مہربان ہے بلکہ وہ تو کائنات کی ساری مخلوقات پر از حدمہربان ہے ۔ یہ بات تجربات ومشاہدات سے بھی واضح ہے ۔اگر اللہ کی مہربانی عام نہیں ہوتی تو کافروں، ملحدوں، مشرکوں، نافرمانوں، عاصیوں اور ظالموں کو کبھی رزق نہیں ملتا ، انہیں کبھی دنیاوی سکون میسر نہیں ہوتا، انہیں اللہ کی نعمتوں مثلا سورج، چاند،ستارے، زمین،پانی ،ہواوغیرہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہوتابلکہ یہ کہہ لیں انہیں سانس لینے کا بھی حق نہیں پہنچتا لیکن چونکہ یہ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں اس وجہ سے اللہ کی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اللہ کی مہربانی عام ہونے کی دلیل ہے ۔
بعض علماء کے نام سے یہ قول مشہور ہے کہ رحمن کی صفت عام ہے جس میں مومن وکافر دونوں شامل ہیں جبکہ رحیم کی صفت خاص ہے جو آخرت میں مومنوں کے لئے ہےاس لئے بعض لوگ اس طرح اللہ سے دعا کرتے ہیں :"یارحمن الدنیا ویارحیم الآخرۃ "۔ (اے دنیا کے رحمن اور اے آخرت کے رحیم)
بعض علماء کا یہ قول دلیل کی روشنی میں کمزور معلوم ہوتا ہے کیونکہ رحمن ورحیم دونوں ایک ہی مادے سے بنے،بہت مہربان کے معنی میں ہیں اور یہ دونوں صفتیں عام ہیں جن میں مومن وکافر شامل ہیں ۔
قرآن میں رحمن ورحیم متعدد بار آیا ہے ، بعض مقامات پر رحمن مومنوں کے لئے استعمال ہوا ہے تو بعض مقامات پر رحیم مومنوں کے لئے آیا ہے اور بعض مقامات پر یہ الفاظ عام ہیں جن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ رحمن ورحیم دونوں کلمے مہربانی کے معنی میں سارے بندوں (مومن وکافر)کے لئے عام ہیں جیساکہ اوپر تجربات ومشاہدات کا بھی ذکر کیا گیا۔
چونکہ رحیم کے متعلق یہ قول ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ مومنوں کے لئے آخرت میں خاص ہے اس لئے رحیم کے تعلق سے بعض دلائل ذکر کئے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کافروں پر بھی رحیم (مہربان) ہے ۔
(1) ایک بات تو یہ ہے کہ رحمن رحمت سے بھرا ہوا اسم یعنی نام ہے اور رحیم ایصال رحمت یعنی بندوں تک رحمت پہنچانا فعل (کام) ہے تو بندوں تک اللہ کی مہربانی کا فیض رحمن ورحیم دونوں صفت سے جاری ہوتا ہے ۔
(2) مشاہدات اپنی جگہ کہ اللہ کافروں کو بھی اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور یہ نوازنا فعل ہے جو صفت رحیمی سے صدور ہوتا ہے۔
(3) نبی ﷺ نے ہرقل ،بادشاہ روم کو خط لکھا تھا اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی لکھا جو اللہ کی مہربانی ہرخاص وعام کے لئے شامل ہونے پر دال ہے ۔ (دلیل کے لئے بخاری میں ہرقل کے نام خط دیکھیں)۔
(4) صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اولا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا حکم دیا تھا مگر صلح کرنے والے کے انکار کی وجہ سے نہیں لکھا گیا۔
(5) اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو خط لکھا تو شروع میں لکھا " إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل:30) "
(6) قرآن میں بعض مقامات پر رحیم کا لفظ آیا ہے جو عام ہے۔ مثلا
اللہ کا فرمان ہے : وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ (البقرة:163)
ترجمہ: تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الحجر:49)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبر دیدو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں۔
اللہ کا فرمان ہے : قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (الفرقان:6)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان وزمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اس آیت میں اللہ نے نبی ﷺ کو خطاب کیا کہ کافروں کو بتلادیں کہ یہ قرآن زمین وآسمان کا بھید جاننے والے کی طرف سے ہے جو بہت معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (البقرة:143)
ترجمہ : اللہ تعالی لوگوں کے ساتھ شفقت اوربہت مہربانی کرنے والا ہے ۔
یہ آیت تو کھلی دلیل ہے کہ اللہ تمام لوگوں کے لئے رحیم (مہربان) ہے کیونکہ یہاں انسان کا لفظ آیا ہے جو سارے لوگوں کے لئے عام ہے ، اس طرح یہ آیت فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی صفت رحیمی مومن وکافر سارے لوگوں کے لئے عام ہے ۔
(7) احادیث سے بھی بہت سارے دلائل ملتے ہیں کہ صفت رحیمی ،رحمن کی طرح ہی عام ہونے کا ثبوت ملتاہے۔
بخاری ومسلم میں ہے ایک عورت اپنے بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے دودھ پلارہی تھی ،اسے دیکھ کر نبی ﷺ نے فرمایا:
لَلّهُ أرحَمُ بعبادِه من هذه بولَدِها .(صحيح البخاري:5999، صحيح مسلم:2754)
ترجمہ: اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے ۔
یہ لفظ ارحم اسم تفضیل کا ضیعہ ہے جس میں زیادتی کا معنی پایا جاتا ہے اور اسے مادہ سے بناہے جس سے رحمن ورحیم بناہے ،نیز عباد کا لفظ عام ہے جس میں مومن وکافر دونوں شامل ہیں۔ اس معنی کی اور بھی روایت ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے رحمن و رحیم کے فرق سے متعلق لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے رحمن کو رحمت عامہ اور رحیم کو رحمت خاصہ مومنوں کے ساتھ کہا ہے مگر جو معنی میں نے پہلے بیان کیا ہے وہی بہتر واولی ہے ۔ (شرح عقیدہ الواسطیۃ: 1/ 22 )
یہاں ایک بات اور بھی جان لینے کی ہے کہ مومنوں پر اللہ تعالی دنیا وآخرت دونوں جہاں میں خاص مہربان ہے یعنی کافر اللہ کے خاص فضل وکرم سے محروم ہے ۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت اس پر دال ہے ۔
اللہ تعالی مجاہد کا مرتبہ واجر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء:96)
ترجمہ: اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
اللہ تعالی آخرت میں مومن کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (فصلت:32)
ترجمہ: غفورورحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے ۔
اللہ تعالی جس طرح دنیا میں رحمن ورحیم ہے ویسے ہی آخرت میں بھی رحمن ورحیم ہے ، کفار کوعذاب دینا ان کے اپنے ظلم وکفر کے سبب ہےجس کا انہوں نے حق آنے کے بعد جان بوجھ کر ارتکاب کیا اور کفروعصیان پر عذاب دینا اللہ کی صفت رحمانی ورحیمی کے خلاف نہیں ہے بلکہ عدل وانصاف کے عین مطابق ہے ۔
اللہ کے اسمائے حسنی میں سے دوصفاتی نام رحمن اور رحیم ہیں ۔ یہ دونوں کلمے عربی مادہ "رحم" سے مشتق اور مبالغہ کے صیغے ہیں اس لئے دونوں کے معنی میں کثرت ووحدت پایا جاتاہے، وہ ہے بہت مہربان یا نہایت رحم کرنے والا۔ عربی قواعد کے اعتبار سے رحمن فعلان کے وزن پر وسعت رحمت پر دلالت کرتا ہے اور رحیم فعیل کے زون پر ایصال رحمت یعنی مخلوق تک رحم پہنچانےپر دلالت کرتا ہے ۔
قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح ہے کہ اللہ تعالی جس طرح دنیا میں مومنوں پر مہربان ہے اسی طرح کافروں اور عاضی ونافرن پر بھی مہربان ہے بلکہ وہ تو کائنات کی ساری مخلوقات پر از حدمہربان ہے ۔ یہ بات تجربات ومشاہدات سے بھی واضح ہے ۔اگر اللہ کی مہربانی عام نہیں ہوتی تو کافروں، ملحدوں، مشرکوں، نافرمانوں، عاصیوں اور ظالموں کو کبھی رزق نہیں ملتا ، انہیں کبھی دنیاوی سکون میسر نہیں ہوتا، انہیں اللہ کی نعمتوں مثلا سورج، چاند،ستارے، زمین،پانی ،ہواوغیرہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہوتابلکہ یہ کہہ لیں انہیں سانس لینے کا بھی حق نہیں پہنچتا لیکن چونکہ یہ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں اس وجہ سے اللہ کی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اللہ کی مہربانی عام ہونے کی دلیل ہے ۔
بعض علماء کے نام سے یہ قول مشہور ہے کہ رحمن کی صفت عام ہے جس میں مومن وکافر دونوں شامل ہیں جبکہ رحیم کی صفت خاص ہے جو آخرت میں مومنوں کے لئے ہےاس لئے بعض لوگ اس طرح اللہ سے دعا کرتے ہیں :"یارحمن الدنیا ویارحیم الآخرۃ "۔ (اے دنیا کے رحمن اور اے آخرت کے رحیم)
بعض علماء کا یہ قول دلیل کی روشنی میں کمزور معلوم ہوتا ہے کیونکہ رحمن ورحیم دونوں ایک ہی مادے سے بنے،بہت مہربان کے معنی میں ہیں اور یہ دونوں صفتیں عام ہیں جن میں مومن وکافر شامل ہیں ۔
قرآن میں رحمن ورحیم متعدد بار آیا ہے ، بعض مقامات پر رحمن مومنوں کے لئے استعمال ہوا ہے تو بعض مقامات پر رحیم مومنوں کے لئے آیا ہے اور بعض مقامات پر یہ الفاظ عام ہیں جن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ رحمن ورحیم دونوں کلمے مہربانی کے معنی میں سارے بندوں (مومن وکافر)کے لئے عام ہیں جیساکہ اوپر تجربات ومشاہدات کا بھی ذکر کیا گیا۔
چونکہ رحیم کے متعلق یہ قول ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ مومنوں کے لئے آخرت میں خاص ہے اس لئے رحیم کے تعلق سے بعض دلائل ذکر کئے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کافروں پر بھی رحیم (مہربان) ہے ۔
(1) ایک بات تو یہ ہے کہ رحمن رحمت سے بھرا ہوا اسم یعنی نام ہے اور رحیم ایصال رحمت یعنی بندوں تک رحمت پہنچانا فعل (کام) ہے تو بندوں تک اللہ کی مہربانی کا فیض رحمن ورحیم دونوں صفت سے جاری ہوتا ہے ۔
(2) مشاہدات اپنی جگہ کہ اللہ کافروں کو بھی اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور یہ نوازنا فعل ہے جو صفت رحیمی سے صدور ہوتا ہے۔
(3) نبی ﷺ نے ہرقل ،بادشاہ روم کو خط لکھا تھا اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی لکھا جو اللہ کی مہربانی ہرخاص وعام کے لئے شامل ہونے پر دال ہے ۔ (دلیل کے لئے بخاری میں ہرقل کے نام خط دیکھیں)۔
(4) صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اولا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا حکم دیا تھا مگر صلح کرنے والے کے انکار کی وجہ سے نہیں لکھا گیا۔
(5) اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو خط لکھا تو شروع میں لکھا " إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل:30) "
(6) قرآن میں بعض مقامات پر رحیم کا لفظ آیا ہے جو عام ہے۔ مثلا
اللہ کا فرمان ہے : وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ (البقرة:163)
ترجمہ: تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الحجر:49)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبر دیدو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں۔
اللہ کا فرمان ہے : قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (الفرقان:6)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان وزمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اس آیت میں اللہ نے نبی ﷺ کو خطاب کیا کہ کافروں کو بتلادیں کہ یہ قرآن زمین وآسمان کا بھید جاننے والے کی طرف سے ہے جو بہت معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (البقرة:143)
ترجمہ : اللہ تعالی لوگوں کے ساتھ شفقت اوربہت مہربانی کرنے والا ہے ۔
یہ آیت تو کھلی دلیل ہے کہ اللہ تمام لوگوں کے لئے رحیم (مہربان) ہے کیونکہ یہاں انسان کا لفظ آیا ہے جو سارے لوگوں کے لئے عام ہے ، اس طرح یہ آیت فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی صفت رحیمی مومن وکافر سارے لوگوں کے لئے عام ہے ۔
(7) احادیث سے بھی بہت سارے دلائل ملتے ہیں کہ صفت رحیمی ،رحمن کی طرح ہی عام ہونے کا ثبوت ملتاہے۔
بخاری ومسلم میں ہے ایک عورت اپنے بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے دودھ پلارہی تھی ،اسے دیکھ کر نبی ﷺ نے فرمایا:
لَلّهُ أرحَمُ بعبادِه من هذه بولَدِها .(صحيح البخاري:5999، صحيح مسلم:2754)
ترجمہ: اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے ۔
یہ لفظ ارحم اسم تفضیل کا ضیعہ ہے جس میں زیادتی کا معنی پایا جاتا ہے اور اسے مادہ سے بناہے جس سے رحمن ورحیم بناہے ،نیز عباد کا لفظ عام ہے جس میں مومن وکافر دونوں شامل ہیں۔ اس معنی کی اور بھی روایت ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے رحمن و رحیم کے فرق سے متعلق لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے رحمن کو رحمت عامہ اور رحیم کو رحمت خاصہ مومنوں کے ساتھ کہا ہے مگر جو معنی میں نے پہلے بیان کیا ہے وہی بہتر واولی ہے ۔ (شرح عقیدہ الواسطیۃ: 1/ 22 )
یہاں ایک بات اور بھی جان لینے کی ہے کہ مومنوں پر اللہ تعالی دنیا وآخرت دونوں جہاں میں خاص مہربان ہے یعنی کافر اللہ کے خاص فضل وکرم سے محروم ہے ۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت اس پر دال ہے ۔
اللہ تعالی مجاہد کا مرتبہ واجر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء:96)
ترجمہ: اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
اللہ تعالی آخرت میں مومن کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (فصلت:32)
ترجمہ: غفورورحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے ۔
اللہ تعالی جس طرح دنیا میں رحمن ورحیم ہے ویسے ہی آخرت میں بھی رحمن ورحیم ہے ، کفار کوعذاب دینا ان کے اپنے ظلم وکفر کے سبب ہےجس کا انہوں نے حق آنے کے بعد جان بوجھ کر ارتکاب کیا اور کفروعصیان پر عذاب دینا اللہ کی صفت رحمانی ورحیمی کے خلاف نہیں ہے بلکہ عدل وانصاف کے عین مطابق ہے ۔