بسم اللہ الرحمن الرحیم
عید میلاد النبی- اصلیت اور حقیقت
ازقلم : شیخ ندیم اختر سلفی مدنی حفظہ اللہ
{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط:
www.islamidawah.com }
اللہ رب العالمین نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا،قرآن جیسی مقدس مبارک اور رشد وہدایت والی کتاب کو آپ پر نازل فرمایا،تاکہ لوگوں کی اصلاح کی جائے،انہیں سیدھا راستہ دکھایا جائے،جس پر چل کر لوگ اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ارشاد الہی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُوراً مُبِيناً، فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطاً مُسْتَقِيماً (النساء:174،175)
(اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے،پس جو لوگ اللہ تعالی پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا،انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لےگا اور انہیں اپنی طرف کی راہ ِراست دکھادے گا)
لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس نور سے روشنی حاصل نہ کی اور صراط ِ مستقیم پر جمے رہنے کے بجائے بدعتیوں کے طریقے اپنانے لگےجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دنیا میں ذلیل وخوار ہوئے،ان کا شیرازہ بکھر گیا،یہ سزا ہے ان لوگوں کی جنہوں نے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کو ناکافی سمجھتے ہوئے دین میں عبادت وریاضت،فرح وخوشی کے نئے طریقے نکالے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (الشورى:21)
(کیا ان لوگوں نے ایسے(اللہ کے)شریک(مقرر کر رکھے)ہیں جنہوں نے ایسے احکام ِ دین مقرر کردئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں،اگر فیصلے کے دن کا وعدہ یہ ہوتاتو(ابھی ہی)ان میں فیصلہ کردیا جاتا،یقیناً (ان)ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے)۔
اور اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:(من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد)(بخاری:2697 بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا)”
جس نے ہمارے اس معاملہ (دین)میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے” اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے(من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)(مسلم:17)”جس نے وہ کام کیا جو ہمارے طریقہ پر نہیں تو وہ مردود ہے”،
مسلمانوں نے غیر قوموں کی مشابہت اور دین کے نام پر جن بہت ساری بدعتوں کو ایجاد کیا انہیں میں سے ایک میلاد النبی کی بدعت ہے،اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ساری دنیا کے لئے باعث ِ رحمت او روجہ ِ رشد وہدایت ہے،لیکن اس ماہ(ربیع الاول)میں ایک خاص تاریخ کو خوشی کے لئے متعین کرنے کے سلسلے میں دو باتیں قابل ِ غور ہیں:
[1] تاریخ میلاد کا تعین۔
[2] اس کے متعلق قرآن وحدیث کا حکم۔
اولاً تو تاریخی اعتبار سے تاریخ میلاد کے متعلق تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں کے درمیان کافی اختلاف ہے،کسی نے آپ کی پیدائش 4/ربیع الاول،کسی نے 8/ربیع الاول اور کسی نے 12/ربیع الاول بتلایا ہے،لیکن اکثر مؤرخین اور سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ آپ کی پیدائش 9/ربیع الاول پیر کے دن ہوئی اور 12/ربیع الاول تاریخ وفات ہے، اب ایسی صورت میں جزم کے ساتھ 12/ربیع الاول کو خوشی منانااور میلاد کی محفلیں قائم کرنابے معنی ہے،ثانیاً اگر مان بھی لیا جائےکہ آپ کی تاریخ پیدائش بارہ ربیع الاول ہی ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن وحدیث، آثار ِ صحابہ اور ائمہ کرام کی مقدس تعلیمات سے اس دن کو عید کا دن ماننا اور اس میں جشن منانے کا کیا حکم معلوم ہوتا ہے۔
عید میلاد النبی کی ایجاد:۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے جانے کے بعد اسلام کی تین بہترین صدیاں گذر گئیں صحابہ،ان کے ساتھیوں کا دور اور ان کے بعد فقہا٫ اور محدثین کا دور،باوجود کہ انہیں اپنے نبی سے شدید محبت تھی لیکن کسی ایک سے بھی ثابت نہیں کہ انہوں نے نبی کی پیدائش کا جشن منایا ہوجب کہ وہ حضرات اتباع ِ سنت کےہم سے کہیں زیادہ حریص تھے۔
چوتھی صدی ہجری کے وسط میں فاطمیوں نے مصر پر قبضے کے بعد جہاں اور بہت ساری بدعتیں ایجاد کیں وہیں عید میلاد النبی کے بھی موجد بنے،یہ فاطمی کون تھے ان کے بارے میں علما٫ امت کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ منافق اور زندیق تھے، اسلام کا اظہار کرتے اور کفر کو چھُپاتے تھے ،جن اہل ِ علم نے ان کے ایمان وتقوی اور صحت ِ نسب کی گواہی دی انہوں نے ان کے ظاہر پر نظر رکھا، علامہ قاضی باقلانی نے اپنی کتاب(کشف الاسرار وہتک الاستار)میں ان کی اسلام دشمنی کو واضح کیا،ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ سب کے سب روافض ہیں ، کفر کو چھُپاتے اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں۔
جشن ِ میلاد کے اسباب اور ان کارد:۔
جو لوگ میلاد النبی کا جشن مناتے ہیں ان کے پاس کئی علتیں ہیں:
1) ہر سال جشن میلاد سے نبی کی محبت اور تعظیم میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس جشن کے لئے یہ وجہ کافی نہیں ہے،اس لئے کہ نبی کے ذکر سے کوئی بھی نماز خالی نہیں،آذان واقامت میں نبی کا ذکر ہے،جس کو بھولنے کا خوف ہو اس کو یاد کیا جاتا ہے،لیکن جس کا برابر ذکر کیا جائے،دن ورات اس کو یاد کیا جائےسال میں کسی ایک دن خاص طور سے اس کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو تحصیل ِ حاصل ہے۔
2) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صفات سننے اور آپ کا نسب جاننے کا موقع ملتا ہے۔
جشن ِ میلاد کے لئے یہ سبب بھی ناکافی ہے،اس لئے کہ آپ کے صفات اور نسب کو جاننا عقیدے کا ایک جز٫(حصہ)ہےجسے سال میں ایک مرتبہ سن لینا کافی نہیں،بلکہ ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے کہ جس طرح وہ اللہ کو ان کے اسما٫ وصفات کے ساتھ پہچانتے ہیں نبی کو بھی ایسے ہی پہچانیں۔
3)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنامحبت ِ رسول اور کمال ِ ایمان کی علامت ہے۔
جشن ِ میلاد کے لئے یہ علت اور بھی کمزور ہے،اس لئے کہ خوشی کا تعلق یا تو آپ کی ذات سے ہوگا یا آپ کے پیدائش کے دن سے،اگر خوشی کا تعلق آپ کی ذات سے ہےتو یہ ہمیشہ ہونی چاہئیے اس کے لئے کسی خاص دن اور وقت کی ضرورت نہیں،اور اگر اس کا تعلق ولادت کے دن سے ہے تو اسی دن آپ کا انتقال بھی ہوا، اور کوئی ایسا عاقل بھی ہے جو اپنے محبوب کے یوم ِ وفات پر خوشی منائے ؟ رسول کی وفات تو مسلمانوں کے لئے ایک بڑی مصیبت ہے،یہاں تک کہ صحابہ کرام کہتے تھے کہ جسے کوئی مصیبت پہنچی ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو یاد کرلے،یوم ِ وفات کو خوشی منانا انسانی طبیعت کے خلاف ہے۔
4) اس دن شکرانے کے طور پر کھانا کھلانے کا موقع ملتا ہے جس میں بڑا اجر ہے۔
جشن ِ میلاد کے لئے یہ سبب پہلے اسباب سے بھی زیادہ کمزور ہے،اس لئے کہ ایک مسلمان کو یہ کام سال بھر کرناچاہئیے،مہمان نوازی کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا یقیناً ایک مستحب عمل ہےجس کے لئے کسی ایک دن کو خاص کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
5) اس سے اللہ کا ذکر کرنے ،تلاوت ِ قرآن اور نبی پر درود بھیجنے کا موقع ملتا ہے۔
جشن ِ میلاد کے لئے یہ ایک فاسد اور باطل سبب ہے اس لئے کہ اجتماعی طور پر اللہ کا ذکر کرنا صحابہ کرام سے ثابت نہیں، یہ بذات ِ خود ایک بدعت ہے نیز اس طرح کی مجلس میں سازو سارنگی وغیرہ کے ساتھ قصیدے پڑھنا،مدحیہ اشعار پڑھنا مزید اس کی قباحت میں اضافہ کرتا ہے،یہ کام تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں دین کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی،پھر یہ کہ اللہ کا ذکر ،قرآن کی تلاوت اور نبی پر درود بھیجنے کا سلسلہ تو ہمیشہ قائم رہنا چاہئے، اس کے لئے کسی ایک دن کو خاص کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
میلاد النبی کو جائز کہنے والوں کے چند کمزور شبہات اور ان کا رد:۔
جش میلاد النبی منانے والےچند مشتبہ اور غیر واضح دلائل سے عید میلاد کو جائز قرار دیتے ہیں،آئیے ان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
1) مذکور ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب نے ابو لہب کو خواب میں دیکھا،اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے،اس نے جواب دیا کہ جہنم میں عذاب دیا جارہا ہے،مگر ہر پیر کو عذاب میں قدرےتخفیف ہوتی ہے،وہ اس طرح کہ دو انگلیوں کے دونوں سِروں کے بقدر پانی چوستا ہے،ایسا اس وجہ سےہوتا تھا کہ اس نے اپنی لونڈی ثوبیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولادت کی بشارت دینے اور آپ کو دودھ پلانے کی خوشی میں آزاد کردیا تھا،تو جب ایک کافر کو جس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا آپ کی ولادت پر خوشی کا فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ایک مسلم موحد کا کیا حال ہوگا جو اپنے نبی کی ولادت کا جشن مناتا ہے،آپ کی محبت میں حتی المقدور سخاوت اور فیاضی سے کام لیتا ہے،رب کریم کی طرف سے ایسے شخص کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔([1])
اس شبہے کا رد: (1) ا ہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خواب سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوسکتا گرچہ صاحب ِ رؤیا ایمان وعلم کی کتنی بلندی پر کیوں نہ ہوچہ جائیکہ ایک کافر کا خواب ، وہ شرعی دلیل کیسے بن سکتا ہے ؟ اس لئے کہ یہ خواب دیکھنے والے حضرت ابن عباس ہیں اور اس وقت حالت ِ کفر میں تھے، ہاں انبیا٫ کا خواب اس سے مستثنی ہے کیونکہ وہ وحی ہوتا ہے۔
(2) یہ قصہ ایک مرسل روایت میں بیان ہوا ہے جس سے کوئی عقیدہ یا عبادت ثابت نہیں ہوسکتا،کیونکہ مرسل روایت حقیقت میں ضعیف روایت ہے۔
(3) سلف اور خلف میں سےاکثر اہل ِ علم کے صحیح قول کے مطابق کافر جب حالت ِ کفر میں مرجائے تو اس کو اس کی نیکی کا فائدہ نہیں پہنچتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُوراً(الفرقان:23) (اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا)،نیز ارشاد ہے: أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآياتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْناً (الكهف:105) (یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا،اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے)۔
(4) اپنے بھتیجے کی ولادت پر ابولہب کی یہ خوشی فطری اور طبیعی تھی اور یہ سب کے ساتھ ہے،اور خوشی اگر اللہ کے لئے نہ ہو تو خوش ہونے والے کواس کا ثواب نہ ملے گا۔
(5) ابو لہب کا نبی کی ولادت کی خوشی پر اپنی لونڈی کا آزاد کرنا یہ بھی محل ِ نظر ہے،اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے، اور جو اس کا دعوی کرتا ہے اسے ثبوت دینا چاہئیے،بلکہ حافظ ابن عبد البر نے (الاستیعاب)میں نبی کے ترجمہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ ابو لہب نے ہجرت سے پہلے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا۔([2])
2) روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے عقیقہ کیا تھا([3])جب کہ آپ کے دادا عبد المطلب کی طرف سے آپ کی ولادت کے ساتویں دن آپ کا عقیقہ ہوچکا تھا،اور چونکہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیا جاتا لہذا آپ کا دوبارہ عقیقہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے ولادت کی نعمت پربطور شکر آپ نے یہ عمل کیا،جس طرح آپ اپنی ذات پر درود بھیجتے تھے،لہذا ہمارے لئے بھی مستحب ہے کہ ایک جگہ جمع ہوکر آپ کی ولادت کا جشن منائیں،کھانا کھلائیں اور نیکی کے دوسرے کام کریں۔([4])
اس شبہے کا رد: (1) عقیقہ والی یہ روایت اہل ِ علم سے ثابت نہیں،امام نووی اس حدیث کو باطل کہتے ہیں۔([5])
(2) کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ؟ تاکہ یہ کہ سکیں کہ عبد المطلب نے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا،کیا جاہلیت کے اعمال اسلام میں معتبر ہیں ؟ کیا اس بات کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے اپنی پیدائش پر بطور ِ شکرانہ بکری ذبح کیا ؟ اور جب نبی نے امت کو ساری باتیں بتلادیں تو پھر یہ کیوں نہ بتایا، جس طرح آپ نے عید الاضحی اور عید الفطر کے احکام بتلائے یہ کیوں نہ بتلایا ؟
3) صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے عاشورا٫ کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا،اور جب آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکہ اس دن اللہ نے موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات دیا تھا(اسی شکرانے میں روزہ رکھتے ہیں)اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ حصول ِ نعمت پر شکر ِ الہی کے لئے کسی دن کو متعین کیا جاسکتا ہے،اور اللہ کا شکر کئی قسم کی عبادتوں سے حاصل ہوتا ہے،جیسے نماز پڑھنا،روزہ رکھنا،صدقہ اور تلاوت کرنا،اور نبی کی ولادت سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہے؟
اس شبہے کا رد: اللہ کے نبی نےخود بھی عاشورا کا روزہ رکھا ہے اور صحابہ کرام کو بھی اس پر ابھارا ہے،اس کے بر خلاف آپ نے اپنے ولادت کے دن کا نہ احتفال کیا اور نہ اسے عید بنایا اور نہ ہی صحابہ کرام کو اس کی ترغیب دی،اگر یہ کوئی فضیلت کی چیز ہوتی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ضرور بتاتے کیونکہ اللہ کے رسول نے اپنی امت کو ساری بھلائیاں بتلادیں اور ہر برائی سے روک دیا،نیز یہ کہ عاشورا کے روزے کا بدعت ِ مولد سے کیا تعلق ہے ؟ کیونکہ عبادت کی اساس تو شریعت ہے، کسی رائے یا استحسان سے کسی عبادت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام!جشن ِ میلاد النبی منانے والوں کے پاس ان کے علاوہ اور بھی شبہات ہیں جنہیں اس مختصر مضمون میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہاں صرف اشارہ کرنا مقصود ہے،یہ حقیقت تو آپ نے جان ہی لیا کہ جشن ِ میلاد النبی کے جواز پر ان میں کوئی بھی دلیل فٹ نہیں ہوتی۔
(اے اللہ ہمیں حق کو حق سمجھ کر اس پر عمل کرنے ، اور باطل کو باطل سمجھ کر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما)