عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
اللہ کی قسم! ہمشیرہ کا دانت نہیں ٹوٹے گا
اقتباس: سنہری کرنیں
از: عبدالمالک مجاھد
نبی کریم ۖ کے عہد مبارک میں دو عورتوں میں جھگڑا ہوگیا- ان میں سے ایک حضرت انس بن نضر رض کی ہمشیرہ ربیع بنت نضر رص تھیں جنہوں نے دوسری عورت کا دانت توڑدیا تھا- جب مقدمہ بارگاہ نبوت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا:حضرت انس بن نضر رض ایک جلیل القدر صحابی تھے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے اور بعد میں انھوں نے حیمیت اسلامی سے سرشار ہوکر رسول اکرم ۖ سے عرض کیا تھا:"القصاص القصاص"
"کتاب اللہ کے فیصلہ کے مطابق دانت کے بدلہ دانت ہی توڑا جائے گا"
چنانچہ غزوہ احد میں بڑی جواں مردی سے کافروں کا مقابلہ کیا اور شہید ہوگئے- شہادت کے دیکھا گیا تو اس کے جسم پر تلواروں، نیزوں اور تیروں کے 80 سے زائد زحم لگے ہوئے تھے اور کافروں نے ان کا اس قدر برے طریقہ سے مثلہ کیا تھا کہ ان کی بہن ربیع بنت نضر رض انہیں پہچان نہ سکیں، بلکہ ان کی انگلیوں کے پوروں کی مدد سے انہیں پہچانا-" اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے مشرکیں سے جنگ کا موقع دیا تو اللہ تعالی خود دیکھے گا کہ میں کیسے کارنامہ انجام دیتا ہوں-"
غرض یہ صحابی رسول اکرم ۖ کی حدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:" اے اللہ کے رسول ۖ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میری بہن ربیع بنت نضر رض کا دانت توڑ دیا جائے؟"
حصرت انس بن نضر رض نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میری ہمشیرہ کا دانت نہیں ٹوٹے گا!{ نعم، کتاب اللہ}
" ہاں کتاب اللہ کا یہی فیصلہ ہے"
آخر یہ قسم کیسی تھی؟ کیا حضرت انس نے شرعی حکم پر اعتراض کیا تھا؟ کیا نبی کریمۖ کا فیصلہ قبول نہ تھا؟
ہرگز نہیں، بلکہ انہوں نے یہ قسم اس لیے کھائی کہ انہیں اللہ کی ذات سے امید تھی کہ اللہ تعالی ان کی قسم کو رائیگان نہیں جانے دے گا بلکہ ضرور دوسری صورت پیدا فرمائے گا- وہ اپنے رب العالمین سے دعا کررہے تھے-
چنانچہ جب انس بن نضر رض نے قسم کھالی تو رسول کریم ۖ نے فرمایا
لوگ اس زخمی عورت کے گھروالوں کے پاس گئے- ان لوگوں نے تاوان پر رضامندی ظاہر کردی، حالانکہ اس سے پہلے وہ راضی نہیں ہورہے تھے بلکہ ربیع بنت نضر رض کا دانت توڑنے پر مصر تھے-" اس (زخمی) عورت کے گھروالوں کے پاس جاؤ- اگر وہ لوگ تاوان پر راضی ہوجائيں تو پھر کوئی حرج نہیں-"
رسول اللہ ۖ کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ چھاگئی اور آپ نے انس بن نضر رض کے پھٹے ہوئے کپڑے اور ان کے دبلے پتلے جسم کی طرف دیکھنے لگے، پھر فرمایا:
{ ان من عباداللہ من لو اقسم علی اللہ لآبرّہ}
" اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالی (کے بھروسہ) پر قسم کھا بیٹھیں ت واللہ تعالی ان کی قسم پوری کردیتے ہیں-"(بخاری 2703، مسند احمد: 3/128)