- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ کی پسند … تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر
أَحَبُّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا یَضُّرُّکَ بِأَیِّھِنَّ بَدَأْتَ (أخرجہ مسلم في کتاب الآداب، باب: بیان ما یستحب من الأسماء، رقم: ۵۶۰۱)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چار کلمات بہت پسند ہیں: (۱) سبحان اللہ (۲) الحمد للہ (۳) لا الہ الا اللہ (۴) اللہ اکبر، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ابتداء میں کوئی حرج نہیں۔"
مزید فرمایا:
لَأَنْ أَقُوْلَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُلِلّٰہِ، وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ؛ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ (أخرجہ مسلم في کتاب الذکر والدعا والتوبہ والإستغفار، باب: فضل التہلیل والتسبیح والدعاء، رقم: ۲۶۹۵)
"میں سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، اللّٰہ اکبر کہوں یہ مجھے ہر اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس پر سورج طلوع ہوا ہے۔" اس سے مراد یہ ہے کہ ذکر الٰہی کائنات کی ہر چیز سے زیادہ پسند ہے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ: یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے کیونکہ تسبیح کے ضمن میں ہر قسم کے عیوب اور شرکیہ باتوں، اولاد، بیوی سے منزہ اور پاک ہونا آتا ہے اور اسی طرح اللہ کی ذات میں تغییر و تبدل سے پاکی بھی مراد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم ذکر ہے، اس لیے یہ غیر اللہ کے لیے جائز نہیں۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ: حمد کا معنی کامل ثناء و تعریف ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حمد کا مستحق ہے کیونکہ اسماء حسنیٰ اور بلند صفات کا مالک وہی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
مَا أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلیٰ عَبْدٍ نِعْمَۃً فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، إِلاَّ کَانَ الَّذِيْ أَعْطَاہٗ أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذَ (صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۳۰۶۷)
"اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے پر نعمت اتارے اور وہ الحمد للہ کہے تو جو چیز اس بندے نے اللہ تعالیٰ کو دی (یعنی الحمد للہ نتائج و ثمرات اور رضائے الٰہی کے لحاظ سے) وہ اس چیز سے افضل ہے جو اس نے لی (یعنی نعمت)۔ "
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی نعمت و ہدایت کا اقرار ہے۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
أَفْضَلُ الذِّکْرِ: لَا إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَأَفْضَلُ الدُّعَائِ: أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ (صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۹۴)
"سب سے زیادہ فضیلت والا ذکر لا إلہ إلا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے"
نیز فرمایا:
أَلطَّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَآنِ أَوْ تَمْلَأَ مَا بَیْنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالصَّلَاۃُ نُوْرٌ، وَالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِیَائٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ أَوْ عَلَیْکَ، کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْا فَبَایِِعٌ نَفْسَہٗ، فَمُعْتِقُھَا أَوْ مُوْبِقُھَا (أخرجہ مسلم في کتاب الطہارۃ، باب: فضل الضوء، رقم: ۵۳۴)
"پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ الحمد للّٰہ ترازو کو بھر دے گا اور سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ کے کلمات آسمانوں اور زمین کے درمیان خلا کو بھر دیں گے اور صلوٰۃ (نماز) نور ہے۔ صدقہ دلیل برہان ہے۔ صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے لیے یا تُم پر حجت ہے۔ ہر شخص صبح کرتا ہے پس وہ اپنے نفس کو بیچنے والا ہوتا ہے، پس یا تو وہ اسے آزاد کروانے والا ہوتا ہے اور یا پھر ہلاکت میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔"
اس کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر سبحان اللہ والحمد للہ کے ثواب کو جسم عطاء کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کے درمیانی خلا کو پُر کر دیں۔
ان دونوں کلموں کی اتنی زیادہ فضیلت اس بناء پر ہے کہ سبحان اللہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے پاکیزگی کا بیان ہے اور الحمد للہ میں ہر کام اسی کے سپرد کیا گیا ہے اور اسی کی طرف محتاجی کا اظہار ہے۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ: یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی معبود حقیقی نہیں۔ یہ توحید کا کلمہ، اسلام کا پہلا رکن اور افضل الذکر ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أَفْضَلُ الذِّکْرِ: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہِ وَأَفْضَلُ الدُّعَائِ: أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ (صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۹۴)
"کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔"
(۱) …اس کلمہ کی دو خصوصیات حسب ذیل بیان کی گئی ہیں:
اس کلمہ کے تمام کے تمام حروف جوفی ہیں یعنی ان کا مخرج پیٹ ہے، کوئی بھی حرف شفوی نہیں (یعنی جن کا مخرج ہونٹ ہوں) مثلاً باء، فاء، میم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے، یہ الفاظ خالصتاً پیٹ یعنی دل سے ادا ہوں گے تو فائدہ مند ہوں گے وگرنہ محض ہونٹوں سے ادائیگی سود مند نہیں ہو گی۔
(۲)…اس کلمہ کے کسی حرف پر نقطہ بھی نہیں یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر معبود سے الگ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
اس کلمہ میں نفی اور اثبات دونوں چیزیں موجود ہیں (لَا اِلٰہَ) اس میں اللہ کے علاوہ ہر معبود کی نفی ہے اور (اِلَّا اللّٰہُ) میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے، اس لیے اس کے قائل پر لازم ہے کہ جس چیز کی قول سے نفی کی اس کی فعل سے بھی نفی کرے اور جس کا قول سے اثبات کیا اس کا فعل سے بھی اثبات کرے۔ محض زبانی بات تو مقصود نہیں بلکہ جس معنی و مفہوم پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے اس کا بھی پایا جانا ضروری ہے۔
یہ کلمہ مسلمانوں کا شعار اور کھلم کھلا عنوان ہے، لہٰذا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کے سامنے انکساری کرتے ہوئے بندہ اپنی بندگی کا اثبات کرتا ہے۔ اسی کلمہ کی وجہ سے نفوس کو جلا اور بلندی ملتی ہے اور خالق کے ساتھ رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ انسان اپنے مسلمان ہونے کا اعلان اور اللہ کے فرمانبرداروں کے ساتھ ملنے کا اظہار کرتا ہے جو کہ اس کی مضبوط رَسی کو پکڑنے والے، اس پر اعتماد کرنے والے اور اپنے معاملات میں اسی پر اعتماد کرنے والے ہیں۔ (اللہ اکبر) یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بڑا ہے۔
کہا گیا ہے کہ تعظیم اور بزرگی کا عرب میں سب سے بلیغ لفظ یہی ہے۔
رایتُ اللّٰہَ اَکْبَرَ کُلِّ شَیْئٍ
مُحَاوَلَۃً وَّاَکْثَرَھُمْ جُنُوْدًا
"میں نے اللہ کو جان لیا کہ وہ ہر چیز سے بڑا ہے اپنے اراد ے کے لحاظ سے اور وہ ہر چیز سے زیادہ ہے اپنے لشکروں کے لحاظ سے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کی ابتدا کرتے تو اللہ اکبر کہتے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انسان کا اللہ اکبر کہنا، دنیا اور اس کی تمام اشیاء سے بہتر اور افضل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ص ۲۴، ۱/ شرح مسلم للنووی ص ۱۰۱، ۳/ تفسیر قرطبی ۲۲۳، ۱۰/ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ مصنفہ حمدان الھجادی ص ۲۲۔۳۰/ معنی لا الہ الا اللہ مصنفہ بدر الدین زرکشی، تحقیق: علی القرہ داغی ص ۸۲۔۸۳۔)