Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
اللہ کے ساتھ حسنِ ظن
جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے وصال سے تین روز قبل کہتے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو الاً یہ کہ وہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہو (صحیح مسلم 5145)
حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں (صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان باللہ کی بنیاد ہے اسکی رحمت،جودوسخا،اسکی ہیبت ، اسکے قادر مطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے مذکورہ بالاحدیث میں اللہ تعالی صراحت کیساتھ بیان فرماتے ہیں کہ عبد کو معبود کی با بت ہمیشہ بہترین گمان رکھنا چاہیے کہ اللہ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتاجب بندہ اللہ کو دل کے یقین کیساتھ پکارتا ہے تو اسکا رب اسکی پکار کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا کہ یہ اس ذات ِ باری تعالی کی شان کے بر عکس ہے کہ اسکا بندہ بہت مان سے دستِ ِسوال دراز کرے اور وہ عطا کرنے میں بخل کرےوہ تو غنی اور علی کل شیءقدیر ہے! اسکا بندہ جب بھول چوک کر گزرے اور نفس لوامہ کی تنبیہ پہ پلٹ کر اس غفور الرحیم کیجانب توبتہ النصوح کی نیت سے رجوع کرے تو اسکی شان ِ کریمی جوش میں کیوں نہ آئے؟اسکا بندہ اسکی رضا پانے کی طلب میں اعمالِ صالح کیلئے حریص ہو تو وہ جو ستر ماوؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، کیوں اسکے اجر میں کمی کرے؟بات صرف اس سے آس لگانے کی ہے کہ اس کے خزینے تو بھرے پڑے ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اسکی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں “ (سورۃ یوسف: 87)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سے اچھی امید رکھنا تقوی سے مشروط ہے کہ ایک متقی انسان کو یقینِ کامل ہوتا ہے کہ اللہ سے بڑھ کر سچا قول اور کسی کا نہیں ، لہذا اسکے کہنے کے مطابق اس سے خیر کی توقع رکھنے والا مراد کو پہنچے گا انشاءاللہ اسکے برعکس فاسق اور منا فق انسان کا دل خطاکاری پر تکرار ،ظلم اور نافرمانی کے باعث رحمتِ الہی سے متعلق سوئے ظن کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے،گناہوں کی سیاہی اسکے دل کو سخت کر دیتی ہے اور یہی چیز اسکو اللہ سے دور لیجانے کا سبب بن جاتی ہےاسکی مثال اس بھگوڑے غلام کی سی ہے جو چاہے بھی تو اپنے آقا سے حسنِ سلوک کی توقع نہیں رکھ سکتا۔بیشک اسکے اطاعت گزار بندے ہی اس کی بارگاہِ رحمت سے جھولی بھروانے کے امیدوار ہوتے ہیں ۔
”اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق بر اگمان رکھتے ہیں “ (سورۃ الفتح:6)
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں مومن اپنے رب سے حسنِ ظن رکھتا ہے اس لیے نیکی کی تاک میں لگا رہتا ہے اور فاسق بدگمانی رکھنے کے باعث بداعمالیوں میں گھرا رہتا ہے
اللہ تعالی خو د بد گمانی رکھنے والوں کے رویے کو منافقت کی علامت قرار دیتے ہوئے ملامت کرتے ہیں جب وہ ان منافقین کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ سے غزوہءاحد کے موقع پر عین وقت پر بدعہدی کی
”اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، تو یہ اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے، اللہ اسے آزما لے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے، اسے چھانٹ دے، اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے‘(سورۃ آل عمران: 154)
مختصر یہ کہ اللہ سے اچھا گمان رکھنا ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہماری امیدوں کا مرکز وہی ہستی ہے جو رحمن بھی ہے اور قہار بھی ، لیکن ان صفات پر ایمان ہمارے یقین کو متزلزل نہ کرنے پائے کہ اگر ہم اخلاص کیساتھ اسکی راہوں پر نکل پڑیں گے، گناہوں سے بخشش کے طلبگار ہونگے اور نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے تو اسکی رحمت کو ان شاءاللہ ضرور پا لیں گے کہ ہمارے گناہ آسمانوں اور زمینوں کی حدود تک چھا جائیں تو بھی وہ قادر ہے کہ ہماری گریہ و زاری کو شرف ِ قبولیت سرفرازفرما دے انہ سمیع مجیب الدعوات
اللہ کے ساتھ حسنِ ظن