• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ساتھ کفر وشرک اور دین توحید و انبیاء کی مخالفت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ لفظ ڈیموکریٹ (ہمارے معاشر ے میں ڈیموکریسی عمل کے لئے جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ ڈیموکریسی کا اصطلاحی شرعی میں غلط ترجمہ ہے اور اصطلاح لغت کے اعتبار سے ڈیموکریسی کا اردو ترجمہ عوامیت زیادہ صحیح ہوگا نیز اگر اس کا صحیح ترجمہ جمہوریت بھی فرض کرلیں تب بھی جمہور مطلق حجت نہیں) یونانی ہے نہ کہ عربی اور یہ دو لفظوں ڈیمو یعنی عوام اور کریٹ یعنی حکومت یا قانون یا قانون سازی سے مل کر بنا ہے یعنی لفظ ڈیموکریٹ کا مطلب ہوا کہ عوامی حکومت یا عوامی قانون سازی۔

اور اہل جمہوریت کے ہاں جمہوریت کے یہی بڑی خاصیات ہیں اور اسی لئے وہ ہر وقت اس کی مداح سرائی کرتے ہیں جبکہ اے میرے موحد بھائی اس وقت کفر وشرک اور باطل کی یہی سب سے بڑی خصوصیات ہیں جو دین اسلام اور ملت توحید سے مکمل طور پر متضاد اور معارض ہیں کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ اصل الاصول اور اسلام کا سب سے مضبوط کڑا جس کی خاطر بنی نوع آدم کو پیدا کیا گیا اور کتابوں اور رسولوں کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید عبادت اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے اجتناب ہے جبکہ قانون سازی میں کسی کی اتباع کرنا عبادت ہے جو کہ اکیلے اللہ کا حق ہے اور یہ حق غیر اللہ کو دینے والا مشرک ہے۔

ڈیموکریسی میں یہ خاصیت مکمل طور پر ہوکہ فیصلہ اکثریت یا عوامی اکثریت کے مطابق ہو جیسا کہ بے دین یا دیندار جمہوریت پسندوں کی اکثریت کو جمہوریت کہا جاتا ہے یا پھر عصر حاضر کے طریق پر یہ خاصیت ہو کہ فیصلہ حکام کے ایک مخصوص طبقے یا ان کی مقرب پارٹی جس سے ان کے خاندانی مراسم ہوں یا بڑے بڑے تاجروں زمینداروں اور جاگیرداروں اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کا ہو کہ زیادہ تر اموال اور ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے وہ جسے چاہتے ہیں پارلیمنٹ (جمہوریت کے قلعے) میں پہنچا دیتے ہیں جیسا کہ ان کے آقا اور رب (بادشاہ یا صدر) جب چاہیں اسمبلی تحلیل کر دیں یا اسے مضبوط کردیں ۔ہر دو صورتوں میں ڈیموکریسی اللہ کے ساتھ کفر وشرک اور دین توحید و انبیاء کی صریح مخالفت ہے اس کے چند اسباب ہیں درج ذیل ہیں :

(۱) یہ یا تو اکثریت کی قانون سازی ہے یا طاغوت کی نہ کہ اللہ کی جبکہ اللہ نے اپنے نبی کو اپنے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا اور امت کی خواہش یا امت کی اکثریت یا کسی ایک پارٹی کی اتباع سے روکا اور آپ کو خبردار کیا کہ اللہ کے نازل کردہ کسی قانون کے متعلق وہ آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔ لہٰذا فرمایا:

وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَ لاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اﷲُ اِلَیْکَ۔

"اور یہ کہ آپ ان کے مابین اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات پر نہ چلیں اور ان سے بچ کر رہیں کہ وہ آپ کو اللہ کے آپ کی طرف نازل کردہ کے بعض کے متعلق فتنے میں ڈال دیں۔"


[سورۃ المائدہ، آیت:۴۹]

یہ توحید و اسلام کے متعلق ہے جبکہ ڈیموکریسی اور دین شرک کے متعلق جمہوری کہتا ہے کہ: اور یہ کہ تو ان کے مابین پارٹی کی رضا کے مطابق فیصلہ کر اور ان کی خواہشات پر چل اور بچ کر رہ کہ تو ان کے ارادوں اور خواہشوں اور قانون کے متعلق فتنے میں ڈال دیا جائے۔

جمہوری تو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور جمہوریت بھی ایسے فیصلے کرتی ہے جبکہ یہ کفر بواح اور شرک صریح ہے اگرچہ وہ اسے جائز سمجھیں اور حقیقت اب بھی اس سے زیادہ بھیانک ہے وہ یہ کہ کہنے والا کہتا ہے کہ ان کے مابین طاغوت اور اس کی جماعت کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرتا جا اور کوئی قانون اس کی تصدیق واجازت کے بغیر نہ بنایا جائے۔ یقینا یہ بڑی واضح گمراہی ہے اور معبود حقیقی کے ساتھ شرک ہے۔

(۲) یہ یا تو اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے یا طاغوت کا اور دستور کے مطابق نہ کہ اللہ کے قانون کے مطابق جیسا کہ ان کی دستور کی کتابوں میں لکھا ہے جنہیں وہ قرآن سے مقدس خیال کرتے ہیں اور اس کے فیصلے کو قرآنی فیصلوں پر مقدم اور نگراں قرار دیتے ہیں (کویتی دستور کے آرٹیکل ٦ میں لکھا ہے: عوام تمام قوانین کا سرچشمہ ہے۔ اور آرٹیکل ۵۱ میں ہے کہ: قانون ساز پارلیمنٹ جس کا سربراہ صدر اور قومی اسمبلی ہوتی ہے وہ دستور کے مطابق ہے۔ اور اردنی دستور کے آرٹیکل ۲۴ میں لکھا ہے کہ عوام قوانین کا سرچشمہ ہے۔ امت اپنے فیصلوں کا اس دستور کے مطابق پورا حق رکھتی ہے)

تو دین جمہوریت میں عملی طور پر اکثریت کے فیصلے کو بھی اس وقت قبول کیا جاتا ہے جب وہ دستور اور قانون کی دفعات کے مطابق ہو کیونکہ وہ بنیادی قانون ہے اور اس کی کتاب ان کے قرآن سے بھی مقدس ہے ایسے ہی دین جمہوریت میں قرآنی آیات و احادیث نبویہ کا اعتبار بھی نہیں کیا جاتا نہ ہی ان کے مطابق قانون بنایا جاتا ہے الّا یہ کہ وہ آیات و احادیث ان کی دستور کی مقدس کتاب کے موافق ہوں۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو جاکر کسی قانون دان سے پوچھ لیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً۔

"پس اگر تم کسی شئے میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے۔"


[سورۃ النساء، آیت:۵۹]

جبکہ دین جمہوریت فرماتا ہے کہ اگر تم کسی بات میں اختلاف کرو تو اسے عوام اور قومی اسمبلی اور اس کے سربراہ کی طرف لوٹا دو یہ دستور وضعی اور قانون ارضی کے موافق ہے۔ (افسوس تم پر اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں پر کیا تم عقل نہیں کرتے ) (ابرہیم نے یہ بات اپنی قوم اور ان کے معبودوں کے پول کھولنے کے بعد کہی تھی)

اس بناء اگر اکثریت دین جمہوریت یا اس کی شرکیہ قانون ساز اسمبلیوں کے ذریعے اللہ کی شریعت (قانون) کی حکمرانی چاہے تو اس کے لئے یہ ممکن نہیں اگرچہ طاغوت بھی اس کی اجازت دے دے الّا یہ کہ ان کا دستور اور اس کی دفعات وشقیں اس کی اجازت دیتی ہوں کیونکہ یہی جمہوریت کی مقدس کتاب ہے یا اسے جمہوریت کی ان کی خواہشات و شہوات کے مطابق تحریف شدہ توراۃ وانجیل کہہ لیں۔

(۳) جمہوریت لادینیت یا سیکولرازم کی ناجائز اور غیر قانونی باندی ہے کیونکہ سیکولرازم ایسا کفری مذہب ہے جو زندگی اور ریاست و حکومت سے دین کو نکال باہر کرتا ہے اور جمہوریت عوام یا طاغوت کے فیصلے کو کہتے ہیں اور یہ کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اللہ کے قانون محکم کا بالکل اعتبار نہیں کرتی الّا یہ کہ اللہ کا وہ قانون پہلے دستور کے مطابق ہوجائے یا پھر عوامی خواہشات کے اور ان سب سے پہلے وہ طاغوت یا سربراہ طبقے کی ترجیحات و اغراض کے عین مطابق ہوجائے

یہی وجہ ہے کہ اگر ساری عوام طاغوت یا ارباب جمہوریت سے کہے کہ ہم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکومت یا فیصلہ چاہتے ہیں اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ عوام یا عوامی نمائندوں یا عوامی حکمرانوں کے پاس قانون سازی کا اختیار ہو اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کے حکم کو مرتد، زانی، چور اور شراب خور پر جاری کیا جائے اور عورت کے لئے عفت و حجاب کی پابندی لگائی جائے اور ہر طرح کی بے حیائیوں پر مکمل پابندی عائد ہو تو ان کا جواب فوری طور پر یہی ہوگا کہ

یہ دین جمہوریت اور دین حریت کے منافی ہے کیونکہ یہ جمہوری حریت ہی تو ہے اور اللہ کے دین اور قانون اور اس کی حدود کی تمام حد بندیوں سے مکمل آزاد کر دیتی ہے جبکہ زمینی دستور کا قانون اور وضعی قانون کی حدود ان کی گندی جمہوریت میں مکمل محفوظ و مامون اور معمول بھی ہیں بلکہ جو ان کی خلاف ورزی یا مخالفت کرے اس کے لئے سزا ضروری ہے ۔

لہٰذا اے میرے موحد بھائیوں جمہوریت اللہ کے دین کے مد مقابل ایک مستقل دین ہے جس میں طاغوت کی حکمرانی ہے نہ کہ اللہ کی جو کہ بودے معبودان متفرقہ کی شریعت ہے نہ اللہ واحد قہار کی اور مخلوق میں سے جو بھی اسے اختیار کرے یا اس کی موافقت کرے تو در حقیقت وہ دستور کی دفعات کے مطابق اپنے لئے اللہ واحد قہار کے قانون کے مد مقابل قانون سازی کا حق قبول کر رہا ہے۔

اب وہ اسے قبول کرنے کے بعد قانون سازی میں شریک ہو یا نہ ہو اور ان شرکیہ انتخابات میں جیت یا ہار جائے اس کا دین جمہوریت کے مطابق ان میں حصہ لینا یا حصہ لینے والوں کی موافقت کرنا اور اپنے لئے قانون سازی کو قبول کرنا اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو اللہ کی کتاب و قانون پر مقدم کئے جانے کو قبول کر لینا ہی عین کفر ہے واضح گمراہی ہے بلکہ معبود حقیقی سے ٹکر لے کر اس کے ساتھ شرک کرنا ہے۔

لہٰذا عوام کا اپنے لئے عوامی نمائندے مقرر کرنا ایسا ہی جیسے ہر قبیلے اور جماعت نے ان میں سے اپنا ایک رب مقرر کرلیا تاکہ وہ ان کی خواہشات وآراء کے مطابق ان کے لئے قوانین بنائے لیکن جیسا کہ دستور کی دفعات اور شقوں اورحدود وغیرہ کے ذریعے یہ بات طے شدہ ہے کہ ان میں سے بعض تو اپنے قانون ساز معبود کو کمیونسٹ آئیڈیالوجی فکر کے تحت اختیارات (ووٹ) دیتے ہیں

پھر یا تو وہ موافق پارٹی کا رب بن جاتا ہے یا دوسروں کے لئے مخالف پارٹی کا اور بعض اپنی قبائلی عصبیت میں اسے یہ اختیاردیتے ہیں تو وہ فلاں علاقائی پارٹی کا معبود بن جاتا ہے یا دوسروں کے لئے مخالف پارٹی کا رب و معبود اور کچھ لوگ اسے اپنے گمان میں سلفی معبود ہونے کی بناء پر ووٹ دیتے ہیں جبکہ دوسرے اسے اخوانیوں کا رب قرار دیتے ہیں (جیسا کہ کویت اور اکثر اسلامی ملکوں میں ہے) یا کچھ داڑھی والا رب یا کچھ دیگر داڑھی منڈا رب قرار دیتے ہیں۔

اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اﷲُ وَ لَوْ لاَ کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔

"کیا ان کے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین سے وہ کچھ قانون قرار دیا جس کی اللہ نے اجازت نہ دی اور اگر کلمہ فصل نہ ہوتا تو ان کے مابین فیصلہ کر دیا جاتا اور بے شک ظالموں کے دردناک عذاب ہے۔"


[سورۃ الشوریٰ، آیت: ۲۱]

تو یہ نمائندے درحقیقت اپنے اپنے بت کدوں (پارلیمنٹ) میں معبود جھوٹے معبود ہیں جو کہ دین جمہوریت اور دستور کے قانون کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں اور اس سے بھی پہلے وہ اپنے رب اور معبود یعنی بادشاہ یا صدر یا سربراہ کا حکم مانتے ہیں جو ان کے قوانین کا فیصلہ کرتا ہے ان کی تصدیق یا تردید کرتا ہے۔

میرے موحدین بھائیوں یہ دین جمہوریت نہ کہ دین الٰہی اور دین مشرکین نہ کہ دین انبیاء و مرسلین اور مختلف ارباب و معبودان کا دین نہ کہ اللہ واحد و قہار کا دین۔

ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۔

"کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا اکیلا اللہ قہار نہیں تم عبادت کرتے اللہ کے سوا مگر ناموں کی جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔"


[سورۃ یوسف، آیت: ۳۹-۴۰]

ءَ اِٰلہٌ مَّعَ اﷲِ تَعٰلَی اﷲُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔

"کیا اللہ کے ساتھ کوئی اوربھی معبود ہے؟ اللہ ان کے شریکوں سے بہت بلند ہے۔ "


[سورۃ نمل، آیت:٦۳]


سو آپ اے موحد بھائی اللہ کا دین اس کا پاک قانون اس کا روشن چراغ اور اس کی سیدھی راہ اختیار کر لیں یا پھر دین جمہوریت اور دین شرک و کفر اور ٹیڑھی مسدود راہ یا تو اللہ اکیلے قہار کا حکم مان لیں یا طاغوت کا؟

قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَ اﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔

"تحقیق ہدایت گمراہی سے واضح ہے تو جو طاغوت کے ساتھ کفر کرے اور اللہ پر ایمان رکھے اسی نے مضبوط کڑے کو پکڑرکھا ہے جو ٹوٹتا نہیں۔"


[سورۃ البقرہ، آیت: ۲٦۵]

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۔

"اور کہہ دیجئے حق تمہارے رب کی طرف سے ہی ہے اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے یقینا ہم نے ظالموں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔"


[سورۃ کہف، آیت: ۲۹]

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اﷲِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْہًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْن، قُلْ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ، وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔

"کیا پھر اللہ کے دین کے سوا وہ متلاشی ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین والے طوعاً و کرھاً اسی کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے کہہ دیجئے ہم اللہ پر اور جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو ابراہیم و اسماعیل و اسحاق و یعقوب اور ان کی اولادوں پر اتارا گیا اور جو موسیٰ و عیسیٰ اور انبیاء اپنے رب کی جانب سے دیئے گئے اس پر ایمان لائے ہم ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں اور جو اسلام کے سوا دین چاہے تو اسے اس سے کبھی قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔"


[سورۃ آل عمران، آیت: ۸۳- ۸۵]

تحریر: فضیلۃ الشیخ ابو محمد
ترجمہ: ابو دجانہ الکراتشی
 
Top