ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بغیر کسی محبت کا تصور نہیں۔ ہاں! جو محبت ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی وجہ سے ہو، اسے ''حب فی اللہ'' کہتے ہیں (یعنی اللہ کی وجہ سے محبت کرنا) اس محبت کے دو درجے ہیں
(۱)کسی سے اس لیے محبت کرنا کہ اس سے دنیا میں ایسی چیز حاصل ہوسکتی ہے جو محب کو آخرت کی طرف ملا دیتی ہو مثلاً اپنے اساتذہ اور شیوخ سے پیار اور اپنے شاگردوں سے محبت وغیرہ۔
(۲) کسی سے محض اس لیے الفت رکھنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور پیارا ہے اگرچہ دنیاوی اور اخروی کوئی بھی غرض اس سے نہ ہو، یہ اعلیٰ اور کامل محبت کہلاتی ہے۔
جو انسان اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اس کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کے نیک اور پسندیدہ لوگوں سے محبت نہ رکھے۔ یہ محبت کمال ایمان کی نشانی ہے اور ایسا محب اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہوتا ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی الفت انسان کے دل میں گھر کرلیتی ہے تو یہ انس اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کو لازم کردیتا ہے اور جب وہ ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے تو یہ محبت، اللہ کے لیے محبت کہلاتی ہے مثلاً انبیاء، فرشتوں اور اولیاء وغیرہ سے اس لیے محبت ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔
ایسا شخص ان لوگوں کو ناپسند بھی کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پیار نہیں کرتے۔
اس پیار اور بغض کی علامت یہ ہے کہ اللہ کا محبوب اگر اس انسان کو غلطی سے نقصان پہنچائے یا عمداً تکلیف دے مگر بعد میں معافی مانگ لے تو اس کی محبت بغض میں تبدیل نہیں ہوتی اور اگر اللہ کا ناپسندیدہ فرد اس پر احسان اور نیکی کرے تو اس کا بغض محبت میں نہیں بدلتا۔
تمام کا تمام دین چار قواعد کے گرد ہی گھومتا ہے۔ (۱) محبت (۲) بغض اور دو قواعد ان پر مرتب ہوتے ہیں: (۱) فعل اور (۲) ترک۔
چنانچہ جس کی الفت و بغض فعل اور ترک اللہ کے لیے ہے تو اس نے اپنا ایمان کامل کرلیا اور جس نے کسی چیز میں بھی کمی کی تو اس نے ایمان ناقص کرلیا۔ محبت کرنے والے کے ذمہ محبوب کے کئی حقوق ہیں۔ (۱) اپنے محبوب کو بتا دے کہ میں اللہ کے لیے تجھ سے پیار کرتا ہوں (۲) اس کے تمام حالات میں اس کے لیے اپنا مال اور اپنی جان صرف کرتا رہے۔ (۳) اس کی ضروریات اور حاجات اس کے سوال کرنے سے پہلے پوری کرے اور اپنی مخصوص حاجات پر ان حاجات کو مقدم رکھے۔ (۴) جو چیز اسے مشقت میں ڈالتی ہو اس سے اسے تکلیف نہ دی جائے۔ (۵) اس کے عیوب ظاہر کرنے سے رکا رہے۔ (۶) اور نہ ہی اسے جھڑکے۔ (۷) نہ ہی اس کے متعلق بدگمانی کا شکار ہو (۸) اور نہ ہی اس سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے (۹) اس کا راز افشاء نہ کرے (۱۰)اسے اچھے اور عمدہ نام سے پکارے۔ (۱۱) اس کی اچھی خصلتوں پر تعریف کرے۔ (۱۲) ظالم ہو یا مظلوم، اس کی مدد کرتا رہے۔ (۱۳) دین و دنیا میں جو اشیاء اس کے لیے سود مند ہیں، ان کی طرف اس کی رہنمائی اور خیر خواہی کرے۔ (۱۴) اس کی لغزشیں اور بیوقوفیاں چھپائے اور معاف کرے۔ (۱۵) جب بیمار ہو تو تیمار داری کرنے جائے۔ (۱۶) مصیبت اور آفت کے وقت اس کے پہلو میں کھڑا ہو۔ (۱۷) اس کا عذر قبول کرے۔ (۱۸) اس کی محبت میں ثابت قدم رہے۔ (۱۹) اس کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرے۔ (۲۰) اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے لیے ہر اس چیز کی دعا کی جائے جو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی نفوس میں عورتوں، بچوں، سونا چاندی، نشان زدہ عمدہ گھوڑوں، چوپائے، کھیتی وغیرہ کی محبت ڈالی ہے، اسے شہوت کی محبت کہتے ہیں جیسے بھوکا کھانے سے پیار کرتا ہے یا پیاسا پانی سے الفت کرتا ہے۔
اس محبت کی تین اقسام ہیں (۱)... اگر ان اشیاء سے محبت، اللہ کا قرب اور اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہے تو اس کا ثواب ملے گا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کی اکمل تصویر ہے کیونکہ آپ کے دل میں عورتوں اور خوشبو کی محبت ڈالی گئی تھی، نیز یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی محبت میں مددگار اور رسالت کی تبلیغ اور اللہ کے حکم کو کھڑا کرنے کے لیے معاون ثابت ہوئیں۔
اگر ان اشیاء کو اپنی طبیعت، خواہش اور ارادہ کے موافق پیار کرے اور اللہ کی محبوب اشیاء پر ان کو ترجیح نہیں دیتا تو یہ محبت مباح اور جائز قسم میں شامل ہوجائے گی اور کرنے والے کو کسی سزا کا مستحق نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن اللہ کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی وجہ سے محبت کے کمال میں کمی واقع ہوجائے گی اور اگر یہ چیزیں اس کا مقصود اور مراد بن جائیں اور اس کی کوشش ان کے حصول میں صرف ہو اور اللہ تعالیٰ کی پیاری اشیاء پر بھی ان کو مقدم رکھے، تو پھر یہ ظالم اور اپنی خواہش کا تابع بنتا ہے۔ چنانچہ دنیوی اشیاء کی محبت تین طرح کی ہوتی۔ (۱) سابقین کی طرزِ محبت (۲)... میانہ روی والی طرزِ محبت (۳)... ظالمین کی طرزِ محبت۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 الروح لابن قیم، ص: ۳۴۱، ۳۴۳۔ کتاب الاربعین فی اصول الدین للغزالی، ص: ۶۴۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند