پیشہ ور بھکاریوں کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اس قبیح بیشے کو مزید استحکام بخش رہے ہیں۔۔۔اس لیے دیگر خارجی دلائل کی رو سے ایسے لوگوں کو اس حکم سے مستثنی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔کیونکہ
ولا تعاونوا علی الثم والعدوان کے تحت ایسا کرکے ہم انکے گناہ پر تعاون کا باعث بنتے ہیں۔۔۔
بھیک مانگنے کے بارے میں آُپﷺ نے فرمایا
ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم)
آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے میں گوشت کا ٹکڑا نہیں ہو گا
اس سلسلے میں آپﷺ کا ایک عمل ہماری بہترین انداز میں رہنمائی کرتا ہے ۔۔۔ایک آدمی نے آپﷺ کے پاس آ کر سوال کیا تو آپﷺ نے اس کی مروجہ انداز میں مدد کرنے کی بجائے اس کا ایک چھوٹا موٹا کام شروع کروا دیا جس سے وہ احسن انداز میں اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتا تھا
(( عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ))
من هنا أُخذت مشروعية المزايدة ، قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي به استنبط العلماء أن الإنسان لا ترتاح نفسه إلا إذا اطمأن على أهله ، أولاً مما عنده لم يعطه شيئاً ، أخذ القعب والمرط وباعهما بدرهمين وكلفه أن يشتري بدرهم طعاماً فينبذه إلى أهله ، وكلفه أن يشتري بدرهم آخر قدوماً وأن يأتي به إليه ، عندما جاءه بالقدوم شد النبي بيد الشريفة عليه عصى ، القدوم حديد فقط يحتاج إلى عصى ، فالنبي الكريم بنفسه وبيده الشريفة شد عليه عصى، وقال:
(( اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا ثُمَّ قَالَ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ ))(سنن ابن ماجہ
لہذا ایسے بھکاریوں کو پیسے دے کر جان چھڑوانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی عادت کو مزید پختہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیشہ ور بھکاری کبھی بھی اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں گے کہ بھیک مانگنے کی بجائے محنت مزدوری کر کے گذر بسر کی جائے ۔۔۔اس صورت میں ان کو منع کر دینا چاہیے لیکن انداز میں درشتی اور کرختگی کی بجائے نرمی کا عنصر غالب ہو ۔۔۔اللہ تعالی فرماتے ہیں
واما السائل فلا تنھر
اور سائل کو نہ جھڑکو
ھذا ما عندی وللہ اعلم بالصواب