• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے نام پر کیا گیا سوال رد نہ کیا جائے

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

باب البر والصلۃ کی چودہویں حدیث یہ ہے
وعن ابن عمر رضی اللہ عنھما عن النبی ﷺ قال:
من استعاذکم باللہ فاعیذوہ ومن سالکم باللہ فاعطوہ ومن اتی الیکم معروفا فکافئوہ فان لم تجدوا فادعوا لہ
(اخرجہ البیہقی)

ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جو شخص تم سے اللہ کے نام کے ساتھ پناہ مانگےاسے پناہ دو اور جو شخص تم سے اللہ کے نام کے ساتھ سوال کرے اسے دو اور جو شخص تم سے اچھا سلوک کرے اسے بدلہ دو اور اگر تم ( بدلہ دینے کے لیے ) کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے لیے دعا کر دو
اسے بیہقی نے روایت کیا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
جزاکم اللہ خیرا سسٹر۔
لیکن کیا اس حدیث کی مد میں پیشہ ور بھکاری حضرات بھی آتے ہیں؟
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
پیشہ ور بھکاریوں کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اس قبیح بیشے کو مزید استحکام بخش رہے ہیں۔۔۔اس لیے دیگر خارجی دلائل کی رو سے ایسے لوگوں کو اس حکم سے مستثنی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔کیونکہ ولا تعاونوا علی الثم والعدوان کے تحت ایسا کرکے ہم انکے گناہ پر تعاون کا باعث بنتے ہیں۔۔۔

بھیک مانگنے کے بارے میں آُپﷺ نے فرمایا
ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم)
آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے میں گوشت کا ٹکڑا نہیں ہو گا

اس سلسلے میں آپﷺ کا ایک عمل ہماری بہترین انداز میں رہنمائی کرتا ہے ۔۔۔ایک آدمی نے آپﷺ کے پاس آ کر سوال کیا تو آپﷺ نے اس کی مروجہ انداز میں مدد کرنے کی بجائے اس کا ایک چھوٹا موٹا کام شروع کروا دیا جس سے وہ احسن انداز میں اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتا تھا
(( عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ))
من هنا أُخذت مشروعية المزايدة ، قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي به استنبط العلماء أن الإنسان لا ترتاح نفسه إلا إذا اطمأن على أهله ، أولاً مما عنده لم يعطه شيئاً ، أخذ القعب والمرط وباعهما بدرهمين وكلفه أن يشتري بدرهم طعاماً فينبذه إلى أهله ، وكلفه أن يشتري بدرهم آخر قدوماً وأن يأتي به إليه ، عندما جاءه بالقدوم شد النبي بيد الشريفة عليه عصى ، القدوم حديد فقط يحتاج إلى عصى ، فالنبي الكريم بنفسه وبيده الشريفة شد عليه عصى، وقال:
(( اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا ثُمَّ قَالَ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ ))(سنن ابن ماجہ


لہذا ایسے بھکاریوں کو پیسے دے کر جان چھڑوانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی عادت کو مزید پختہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیشہ ور بھکاری کبھی بھی اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں گے کہ بھیک مانگنے کی بجائے محنت مزدوری کر کے گذر بسر کی جائے ۔۔۔اس صورت میں ان کو منع کر دینا چاہیے لیکن انداز میں درشتی اور کرختگی کی بجائے نرمی کا عنصر غالب ہو ۔۔۔اللہ تعالی فرماتے ہیں
واما السائل فلا تنھر
اور سائل کو نہ جھڑکو
ھذا ما عندی وللہ اعلم بالصواب
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ابو داؤد ‘ ابن حبان اور حاکم نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں
فان لم تجدوا فادعوا لہ حتی تعلموا انکم قد کافاتموہ
یعنی اگر تمہیں بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ ملے تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے تم نے اسے بدلہ دے دیسا ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جس شخص کو کوئی عطیہ دیا جائے اگر وہ کوئی چیز پائے تو بدلہ دےدے جو نہ پائے تو تعریف کر دے ۔۔۔کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے احسان کو چھپایا اس نے نا شکری کی (ترمذی البر ۔87)

اسامہ بن زید سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا
جس شخص سے کوئی بھلائی کی جائے اور وہ بھلائی کرنے والے کو یہ کہے جزاک اللہ خیرا تو اس نے اس کی تعریف کا حق ادا کر دیا (ترمذی البر -88)

اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی یہ کہتا ہے کہ تمہارا مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے کہ میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا۔۔۔۔اس کا بہتر بدلہ اللہ ہی تجھے عطا فرمائے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
شکریہ ادا کرنے کے بارے میں‘ میں نے ایک شخص کا واقعہ پڑھا اور اس نے حقیقتا مجھے متاثر کیا
اس نے لکھا میں فرانس جانے والی فلائٹ میں تھا۔۔۔۔اور میرے ساتھ ایک فرانسیسی خاتون اپنی بچی کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔بچی کو بھوک لگی تو اس نے ماں سے کھانے کا مطالبہ کیا ۔۔۔ماں نے کھانا نکالا اور اسے کھلانا شروع کر دیا ۔۔۔اب وہ ایک نوالہ اس بچی کے منہ میں دیتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھیsay thankyou۔۔۔اور بچی نوالہ لینے کے بعد کہتی تھی thank you اس شخص کے مطابق اس نے بچی سے تیس یا پینتیس دفعہ یہ الفاظ کہلائے
اس واقعہ میں مجھے ماں کی تربیت دو انداز میں نظر آئی
شکریہ کہنے کی عادت
ماں کو شکریہ کہتے کی عادت
حقیقت یہ ہے کہ ہم ساری عمر ماں باپ سے لیتے رہتے ہیں اور ہمارے اندر احسان مندی اور شکر گذاری کبھی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ ساری عمر ماں باپ کو نچوڑتے رہنا ہمارا پیدائشی حق ہے ۔۔۔۔اب ایک بچی جو ماں سے ہر نوالہ لینے کے بعد اس کو شکریہ ادا کر رہی ہے اوریہ لفظ پینتیس بار ادا کر رہی ہے کیا وہ ساری عمراپنی ماں کی احسان مند نہیں رہے گی اور کیا وہ ہر ایک کو شکریہ ادا کرنا نہیں سیکھے گی۔۔۔
یہ ساری ہمارے دین کی تعلیمات ہیں جو انھوں نے ٹھوکریں کھنے کے بعد اپنائی ہیں۔۔۔پتہ نہیں کون سی ٹھوکر ہماری آنکھ کھولے گی اور نہ جانے کب کھولے گی۔۔۔
 
Top