• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

المسند فی عذاب القبر --- محمد ارشد کمال --- عذابِ قبر کی ایک طویل روایت

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
المسند فی عذاب القبر --- محمد ارشد کمال --- عذابِ قبر کی ایک طویل روایت


muhamad bin umro ki riwayat.jpg


ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر صفحہ ٥٦ سے ٥٨ پر محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ہریرہ کی سند سے آئی ہوئی ایک روایت پیش کرتے ہیں - روایت کی سند یوں ہے -

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة -


(اثبات عذاب القبر للبيهقی: صفحہ ٩٥ ، رقم ١٣٩ ، دار الفرقان - عمان الاردن)َ

جوزجانی احوال الرجال میں کہتے ہیں کہ:

محمد بن عمرو بن علقمة ليس بقوي الحديث ويشتهى حديثه


محمد بن عمرو بن علقمہ حدیث میں قوی نہیں اور ان کی حدیث پسند کی جاتی ہے -

(جلد ١ ، صفحہ ٢٤٣ ، حدیث اکیڈمی ، فیصل آباد - پاکستان)

یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ:

وقال إسحاق بن منصور ، عن يحيى بن معين : أنه سئل عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، ومحمد بن إسحاق أيهما يقدم ؟ فقال : مُحَمَّد بن عمرو. وقال أَبُو بَكْرِ بْنُ أبي خيثمة : سئل يحيى بن معين عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فقال : ما زال الناس يتقون حديثه. قيل له : وما علة ذلك ؟ قال : كان يحدث مرة عن أبي سلمة بالشيء من رأيه ، ثم يحدث به مرة أخرى عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة.


لوگ مسلسل محمد بن عمرو کی روایت سے بچتے رہے.....پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہا محمد بن عمرو کبھی روایت ابی سلمہ سے بیان کرتے اور کبھی ابی سلمہ عن ابی ہریرہ سے -


(تہذیب الکمال للمزی: محمد بن عمرو بن علقمہ)

وسئل يحيى بن سعيد عن محمد بن عمرو ، فقال للسائل : تريد العفو أو نشدد ؟ قال : بل شدد . قال : ليس ممن تريد


يحيى بن سعيد سے محمد بن عمرو کے بارے میں سوال ہوا کہ کیسا ہے بولے نرمی والی بات ہے یا سختی والی بولے نہیں سختی والی یہ وہ نہیں جو تم کو چاہیے -


(سیر اعلام النبلاء الذہبی: الطبقہ الرابعہ: محمد بن عمرو)

قُلْتُ : صَدَقَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ لَيْسَ ، هُوَ مِثْلُ بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ ، وَحَدِيثُهُ صَالِحٌ.


میں (الذہبی) کہتا ہوں کہ: يحيى بن سعید سچ کہتے ہیں اور یہ يحيى بن سعید الانصاری جیسا نہیں اس کی حدیث صالح ہے -


(تاریخ السلام الذہبی: الطَّبَقَةُ الْخَامِسَةَ عَشْرَةَ: تَرَاجِمُ أَهْلِ هَذِهِ الطَّبَقَةِ عَلَى ...حرف الْمِيمِ)

وَقَالَ السَّعْدِيّ لَيْسَ بِقَوي


السعدی کہتے ہیں کہ: قوی نہیں ہے -


(الضعفاء والمتروكین لابن الجوزی: جلد ٣ ، صفحہ ٨٨ ، رقم ٣١٤٣، دار الکتب العلمیہ - بیروت)

بخاری نے اصول میں کوئی بھی روایت محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ہریرہ کی سند سے بیان نہیں کیں بلکہ شاہد کے طور پر صرف دو جگہ "بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِينِ" اور "بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} [النساء: 125] میں صرف سند دی ہے - امام مسلم نے بھی شاہد کے طور پر "بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ" میں ان کی سند پیش کی ہے نہ کہ مکمل روایت - لہذا بخاری و مسلم کا اصول ہے کہ ان کی روایت شاہد کے طور پر غیر عقیدہ میں پیش کی جا سکتی ہے -


صحیح بخاری کی مشہور حدیث ہے کہ:

حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن سمي مولى أبي بكر عن أبي صالح عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال الإمام { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } فقولوا آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه تابعه محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ونعيم المجمر عن أبي هريرة رضى الله تعالى عنه


ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو ، اس لئے کہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین سے مل جائے گی اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے -


( صحيح البخاري: أبواب صفة الصلاة: باب جهر المأموم بالتأمين)

دیکھیں سند میں "محمد بن عمرو" نہیں ہے ، لیکن آخر میں ہے کہ "تابعه (یعنی ماتحت) محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة" - اسے کہتے ہیں "شاہد" کے طور پر -

دوسری حدیث ہے کہ:

حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا مغيرة بن عبد الرحمن القرشي عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اختتن إبراهيم عليه السلام وهو ابن ثمانين سنة بالقدوم حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب حدثنا أبو الزناد وقال بالقدوم مخففة تابعه عبد الرحمن بن إسحاق عن أبي الزناد تابعه عجلان عن أبي هريرة ورواه محمد بن عمرو عن أبي سلمة -


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ختنہ ایک بسولے سے اسی سال کی عمر میں کئے -


(صحیح بخاری: کتاب الانبیاء: باب اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اور اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا)

دیکھیں حدیث "ثمانين سنة بالقدوم" پر ختم ہو جاتی ہے - لیکن شاہد کے طور پر امام بخاری نے حدیث کے آخر میں اس کی دوسری سند بھی پیش کر دی جس میں "محمد بن عمرو" ہے - یعنی اصل سند اس کی وہ ہے جو شروع میں ہے -

اس کے باوجود کہ آئمہ حدیث نے اس راوی کے حوالے سے اتنی احتیاط برتی ہے لوگوں نے ان کی روایات کو عقیدے میں بھی لے لیا ہے جو کہ صریحاً آئمہ حدیث کے مؤقف کے خلاف ہے -


اس بات کو ذہبی صاحب نے بھی بیان کیا ہے کہ:

روى له البخاري مقرونا بآخر ، وروى له مسلم متابعة -

(سير اعلام النبلاء: الطبقہ الرابعہ: محمد بن عمرو)


کیا روایت پر عقیدہ استوار کیا جا سکتا ہے؟

 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”عقیدہ“ ایک ایسی چیز ہے جس پر انسان کی ”نجات “کا دارومدار ہے لہذا اس کو اللہ تعالٰی نے ”انسانی اجتہاد“ پر نہیں چھوڑا بلکہ پوری ”وضاحت “کے ساتھ” قرآن مجید“ میں بیان کر دیا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ایک ” عالم“کا ” اجتہاد “دوسرے کے ساتھ لازما ” موافقت “کرے مزید یہ کہ انسانی اجتہاد میں ”خطاء“ کا عنصر ” موجود“ ہے جبکہ اللہ تعالٰی ہر ”خطاء و نسیان“ سے پاک اور منزہ ہے۔
بہر حال یہ بات” تسلیم شدہ“ ہے کہ” مرنے کے بعد“ اور” قیامت سے پہلے“ ایک مرحلہ ”برزخ“کابھی ہے اور وہاں انسان کو ” راحت“ یا ” دکھ درد“ سے دوچار ہونا ہی ہے۔
لہذا جو ” روایات“اس حوالے سے ”پیش“ کی جاتیں ہیں ان میں ”مرکزی مضمون“ ” عذابِ برزخ“ یا ” عذابِ قبر“نہیں بلکہ اسی”عالمِ برزخ“ کا”تصور“ دلانا ہے جو ”مرنے کے بعد“ اور ”قیامت سے پہلے“کا ہے۔
اگر کوئی اسے ”عذابِ برزخ“کہے تب بھی کوئی ” قباحت“نہیں اور اگر ” عذابِ قبر“ سمجھے تب بھی کوئی ” برائی“نہیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شمولیت
جولائی 23، 2017
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
[.. برزخی جسم ...] _______________________________ قارئین! صحیح مسلم کی حدیث کےمطابق شہداء جنت میں اڑنےوالےبرزخی جسموں کےساتھ زندہ ہیں، عرش الہی کےنیچےقندیلوں میں رھتےہیں . . لیکن اھلحدیث"محققین" کہتےہیں کہ اڑنےوالےقالب شہداء کےبرزخی جسم نہیں بلکہ انکی سواریاں ہیں _ قارئین اھلحدیث"محققین" کو اس نکتۂ سنجی کی آخرضرورت کیوں پیش آئی اس پر ان شاءالله آئندہ بات کریں گےفی الحال ان"محققین" سےاس سوال پر اکتفا کریں گےکہ اگرسبز اڑنےوالےقالب شہداء کےبرزخی جسم نہیں تو پھرشہداء کی ارواح خاکی جسموں سےعلیحدہ ھونےکےبعدکون سے جسموں کےساتھ جنت میں زندہ ہیں؟؟؟ کیوں کہ زندگی کیلۓ روح کا جسم میں ڈالاجانا ضروری ھےمجرد روح تو میت ھے_
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
[.. برزخی جسم ...] _______________________________ قارئین! صحیح مسلم کی حدیث کےمطابق شہداء جنت میں اڑنےوالےبرزخی جسموں کےساتھ زندہ ہیں، عرش الہی کےنیچےقندیلوں میں رھتےہیں . . لیکن اھلحدیث"محققین" کہتےہیں کہ اڑنےوالےقالب شہداء کےبرزخی جسم نہیں بلکہ انکی سواریاں ہیں _ قارئین اھلحدیث"محققین" کو اس نکتۂ سنجی کی آخرضرورت کیوں پیش آئی اس پر ان شاءالله آئندہ بات کریں گےفی الحال ان"محققین" سےاس سوال پر اکتفا کریں گےکہ اگرسبز اڑنےوالےقالب شہداء کےبرزخی جسم نہیں تو پھرشہداء کی ارواح خاکی جسموں سےعلیحدہ ھونےکےبعدکون سے جسموں کےساتھ جنت میں زندہ ہیں؟؟؟ کیوں کہ زندگی کیلۓ روح کا جسم میں ڈالاجانا ضروری ھےمجرد روح تو میت ھے_
ایک ہی پوسٹ ہر جگہ پر کرنا ضروری ہے ؟!
 
Top