محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"ولاء" اور "براء" کی وضاحت
ولاء عربی زبان کا لفظ ہےجس کا مادہ "و،ل،ی"ہے ولی کا مطلب ہے دوست،مددگار ،حلیف ،قریبی ،حامی اسی سے ولاء کا لفظ بنا ہے جس کا مطلب ہے دوستی،قربت،محبت،نصرت،حمایت ۔جب یہ لفظ ال کے اضافے کے ساتھ الولاء کے طور پر استعمال ہوتا ہےتو یہ ایک شرعی اصطلاح بن جاتی ہے جس کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ مومن آدمی کو کس کس سے دوستی اور محبت کرنی چاہیے۔الولاء کا لفظ شرعی اصطلاح میں اس قدر جامع ہے کہ اردو کے کسی ایک لفظ کے ساتھ اس کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی مشکل ہے ہم نے اس کی ترجمانی کے لیے "دوستی" کا لفظ منتخب کیا ہے لیکن اس دوستی سے مراد وہ سرسری تعلقات نہیں جو عارضی مفادات یا بعض دیگر وقتی اسباب کے تابع ہوتے ہیں بلکہ اس دوستی سے مراد وہ قلبی تعلق ہے جو ہمیشہ قائم رہے اور جس میں دلی محبت اور وفا کوٹ کوٹ کر بھری ہو سر سے خون کی ندیاں ہی کیوں نہ گزر جائیں لیکن اس دوستی میں ذرہ برابر فرق نہ آئے۔
عقیدہ الولاء کی رو سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے،اس کے بعد رسول اکرم ﷺ سے اور اس کے بعد تمام اہل ایمان سے محبت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
"براء" بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ "ب،ر،ء" ہے ،بَرَء کا مطلب ہے وہ بری ہوا،وہ بیزار ہوا،اس نے نفرت کی ،اس نے دشمنی کی،اس نے قطع تعلق کیا۔بَرَاء کا مطلب ہے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا یا دشمنی کا اظہار کرنا یا کسی سے قطع تعلق کرنا ،جب یہ لفظ "ال" کے اضافے کے ساتھ "البراء" کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو یہ ایک شرعی اصطااح بن جاتی ہے جس کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ ایک مومن آدمی کو کس کس سے اظہار بیزاری ،اظہار نفرت یا اظہار دشمنی کرنی چاہیے ۔"الولاء" کی طرح "البراء" بھی بڑا جامع لفظ ہے اس کی ترجمانی کے لیے ہم نے "دشمنی" کا لفظ منتخب کیا ہے جو کہ دوستی کا متضاد ہے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس دشمنی سے مراد وہ دشمنی نہیں جو ہمارے ہاں دو روایتی دشمنوں کے درمیان پائی جاتی ہے یعنی اہل دورے کو دیکھتے ہی حملہ آور ہو جانا یا مارنے مرنے پر تُل جانا بلکہ اس سے مراد نفرت اور بیزاری کی وہ کیفیت ہے جو ایک مومن آدمی کے دل میں اسلام دشمن کافروں کے خلاف ہمیشہ رہنی چاہیے۔عقیدہ البراء کی رو سے اسلام دشمن کفار سے شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور موقع ملنے پر ان کے خلاف جہاد (یعنی قتال) کرنا ان کی قوت توڑنا اور ان سے ظلم کا بدلہ لینافرض ہے۔
کتاب دوستی اور دشمنی کتاب و سنت کی روشنی میں از محمد اقبال کیلانی سے اقتباس