کیا یہ روایات مستند ہیں ؟آيتِ کريمه ’اَلْيوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمَْ‘ (القرآن، المائده، 5 : 3) ۔ ۔ ۔ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں محدثین و مفسرین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : مَن صام يوم ثمان عشرة مِن ذي الحجة کتب له صيام ستين شهراً، و هو يوم غدير خم لما أخذ النبيا بيد عليّ بن أبی طالب رضي الله عنه، فقال : ألست ولي المؤمنين؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک يا ابن أبي طالب! أصبحتَ مولاي و مولي کل مسلم، فأنزل اﷲ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا والی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘
1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 290
2. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 324
3. واحدي، اسباب النزول : 108
4. رازي، التفسير الکبير، 11 : 139
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 176، 177
6۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 179)‘ میں یہ راویت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی لی ہے۔
7. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464
8۔ سیوطی نے ’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (2 : 259)‘ میں آیت مذکورہ کی شان نزول کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز ’من کنت مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ فرمائے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
امام فخر الدين رازي ’يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أنْزِلَ إِلَبْکَ مِن رَّبِّکَ‘، (القرآن، المائده، 5 : 67)
۔ ۔ ۔ (اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے) ۔ ۔ ۔ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
نزلت الآية في فضل عليّ بن أبي طالب عليه السلام، و لما نزلت هذه الآيةُ أخذ بيده و قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم والِ من والاه و عادِ من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال : هنيئاً لک يا ابن أبي طالب، أصبحتَ مولاي و مولي کلِ مؤمنٍ و مؤمنة. و هو قول ابن عباس و البراء بن عازب و محمد بن علي.
یہ آیتِ مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولاہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے، اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ اُس کے (فوراً ) بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو، اب آپ میرے اور ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے ہیں۔ اِسے عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی رضی اللہ عنھم نے روایت کیا
ہے۔
1. رازي، التفسير الکبير، 12 : 49، 50
2. ابن ابی حاتم رازی نے ’تفسیر القرآن العظیم (4 : 1172، رقم : 6609)‘ میں عطیہ عوفی سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر67 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
علاوہ ازیں درج ذیل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے :
3. واحدي، اسباب النزول : 115
4. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 2 : 298
5. آلوسي، روح المعاني، 6 : 193
6. شوکاني، فتح القدير، 2 : 60
اگر ہاں تو پھر اسکا مفہوم باتیں اسے کیا مراد ہے علی کے مولا ہونے سے کیا مراد ہے