محترم بھائی واقعی بڑا زبر دست نام رکھا ہے آپ نے اس نام کے درست ہونے کے بارے ایک لطیفہ سناتا ہوں اور اس بات کو ثابت کرتا ہوں کہ یہ نام کیسے بالکل اس تقریر پر ٹھیک آیا ہے
ایک انہیں ملانا کی طرح کم عقل چور گاؤں میں رات کو چوری کرتا ہے اور صبح جب سارے مشورے کر رہے ہوتے ہیں اور کھوج لگا رہے ہوتے ہیں تو وہ بھی ساتھ شامل ہوتا ہے اور مشورے دے رہا ہوتا ہے کوئی کہ رہا ہوتا ہے کہ یہاں سے آیا ہو گا اور اس طرف گیا ہو گا وہ چور بھی بیچ میں اپنے اوپر سے شک ختم کرنے کے لئے کہتا ہے کہ وہ ادھر سے آیا ہو گا اور اس طرح دیوار پر چڑھا ہو گا اور پھر اس طرح میرا پاؤں پھسل گیا تھا یعنی وہ خود اپنا چور ہونا بتا دیتا ہے
تقریبا 3 منٹ اور 40 سیکنڈ پر اسکی ویڈیو دیکھیں کہ جب ہمارے شیخ محترم توصیف الرحمن اللہ تعالی کے چہرہ کا ذکر کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کرتے ہوئے یہ ملانا کہتا ہے
"جنت میں ہمارے علماء یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا دیدار ہو گا مگر بے کیف ہو گا اسکی کیفیت کا ہمیں پتا نہیں مگر انہوں نے مطلقا حکم لگا دیا کہ اللہ چہرہ دکھائیں گے اپنا اور جنی چہرہ کا دیدار کرے گا"
یہاں کوئی دیکھے کہ خود دیدار کا اقرار کر رہا ہے اور ہم سے پہلے سوال کر رہا ہے کہ عرش پر کیسے بیٹھا ہو گا پورا جسم اس عرش پر ہو گا یا کچھ نہیں ہو گا اور اس طرح سامنے بیٹھی مصطفی کی بھیڑوں (بقول احمد رضا بریلوی عوام بھیڑیں ہیں اور ہم بھیڑیے ہیں) کو ہم بھیڑیوں سے بچانے کا انتظام کررہا ہے مگر بھول گیا کہ اس نے پھر اس طرح جو اللہ کے دیدار کا اقرار کیا ہے تو ہم بھی تو اس سے سوال کر سکتے ہیں کہ وہ دیدار چہرہ کا ہو گا یا ہاتھ کا ہو گا ی کس چیز کا ہو گا اس کے جواب میں جیسے وہ خود کہ رہا ہے کہ اس دیدار کی کیفیت کا ہمیں نہیں پتا چلتا تو جب وہ خود یہ کہ کر اپنے اوپر پڑنے واے تمام سوالوں سے بہ آسانی چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے تو ہمیں اسکی اجازت کیوں نہیں دیتا
جیسے اس چور نے مکمل واقعہ کو اہنے سے منسوب نہیں کیا تھا بلکہ صرف ایک جگہ غلطی سے گرنے کو اپنے سے منسوب کر دیا تھا مگر پھر بھی وہ چور ثابت ہو گیا تھا تو اسی طرح اگرچہ اس نے جب چہرہ کا ذکر تو نہیں کیا مگر دیدار کو تو مان لیا ہے تو وہ سارے سوال پھر دیدار پر بھی وارد ہوتے ہیں جو چہرے پر وارد ہوتے ہیں اور وہ ساری وضاحتیں جو یہ دیدار کی پس منظر میں دے رہا ہے وہی ساری چہرہ کے بارے میں بھی تو دی جا سکتی ہیں
پس ہمارے امام مالک رحمہ اللہ نے استوی کے بارے یہی کہا تھا کہ
الاستواء معلومٌ ، والكيف مجهولٌ ، والإيمان بـــه واجبٌ ، والسؤال عنه بدعةٌ
رواه اللالكائي في " شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة " (3/441) والبيهقي في "الأسماء والصفات " (ص 408) وصححه الذهبي وشيخ الإسلام والحافظ ابن حجر
تشریح
معلوم: أي: معناه في لغة العرب ، ومن ظن أن معنى " معلوم " أي: موجود مذكور في القرآن فهو جاهل كما قال شيخ الإسلام رحمه الله " مجموع الفتاوى" ( 5/149) و (13/309).
الكيف مجهول : فيه اثبات الكيف لكنه مجهول بالنسبة لنا .
والإيمان به واجب : الإيمان بالكيف .
والسؤال عنه بدعة : أي : السؤال عن الكيف
یعنی استوی معلوم ہے اور اسکی کیفیت مجہول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اسکے بارے جتنے بھی سوال اوپر ملانا نے کیے ہیں وہ بدعت ہیں پس ایک بدعتی اور مشرک ایسے ہی سوال کرے گا جس میں وہ یہ بھی بتا جائے گا کہ پھر میں دیوار پر سے گر گیا تھا