حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
سوال: الیکشن کی شرعی حیثیت کیا ہے، جماعتی اختلافات ختم کرنے کے لیے الیکشن یا انتخاب کا شرعی طریقہ کیا ہے، کیا الیکشن کمیشن میں سے بعض حضرات کابینہ کے ارکان منتخب ہو سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کے مطابق جواب دیں۔
جواب: واضح رہے کہ موجودہ الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں ہاں، اگر سنجیدہ فکر اور درد دل رکھنے والے حضرات باہمی سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہچکولے کھانے والی ناؤ کو ساحل سمندر سے ہم کنار کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں تو اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے کوئی لگا بندھا قاعدہ مقرر نہیں ہے، بلکہ حالات وظروف کے پیش نظر اس میں توسیع کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو امیدوار کی اہلیت کو دیکھا جاتا ہے اور ووٹر حضرات کے صاحب شعور ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں، یعنی گلی کوچوں کا کوڑا کرکٹ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو، کبائر سے گریزاں اور جس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمایندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت کرھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینےوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول ﷺ کے مطابق کہ ’’جب معاملات کی بھاگ دوڑ نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘
صورت مسؤلہ میں اختلافات کو نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب بصیرت اور گہری سوچ وبچار رکھنے والے حضرات اکٹھے ہو کر کسی ایک جہاں دیدہ کو اپنا امیر منتخب کر لیں اور امیر اپنی صوابدید کے مطابق کمیٹی تشکیل دے اور پھر اس مجلس شوریٰ کے مشورہ سے جماعتی امور کو چلایا جائے، اگر کمیشن نے اپنےمیں سے ہی کسی کو منتخب کرنا ہے اور یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے تو کمیشن میں سے کسی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ان میں کسی کو باہمی مشورہ سے منتخب کر لیا جائے۔ اگر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے تو پھر کمیشن کے علاوہ کسی اور ساتھی کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا جائے۔ بہر حال دور حاضر میں یہ مسئلہ بڑی نازک صورت حال سے دوچار ہے، اس لیے نہایت بصیؤرت کے ساتھ اس سے نمٹنا ہو گا۔ و اللہ اعلم
(انتخاب فتاویٰ اصحاب الحدیث از مولانا مفتی حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ)
جواب: واضح رہے کہ موجودہ الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں ہاں، اگر سنجیدہ فکر اور درد دل رکھنے والے حضرات باہمی سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہچکولے کھانے والی ناؤ کو ساحل سمندر سے ہم کنار کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں تو اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے کوئی لگا بندھا قاعدہ مقرر نہیں ہے، بلکہ حالات وظروف کے پیش نظر اس میں توسیع کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو امیدوار کی اہلیت کو دیکھا جاتا ہے اور ووٹر حضرات کے صاحب شعور ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں، یعنی گلی کوچوں کا کوڑا کرکٹ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو، کبائر سے گریزاں اور جس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمایندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت کرھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینےوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول ﷺ کے مطابق کہ ’’جب معاملات کی بھاگ دوڑ نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘
صورت مسؤلہ میں اختلافات کو نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب بصیرت اور گہری سوچ وبچار رکھنے والے حضرات اکٹھے ہو کر کسی ایک جہاں دیدہ کو اپنا امیر منتخب کر لیں اور امیر اپنی صوابدید کے مطابق کمیٹی تشکیل دے اور پھر اس مجلس شوریٰ کے مشورہ سے جماعتی امور کو چلایا جائے، اگر کمیشن نے اپنےمیں سے ہی کسی کو منتخب کرنا ہے اور یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے تو کمیشن میں سے کسی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ان میں کسی کو باہمی مشورہ سے منتخب کر لیا جائے۔ اگر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے تو پھر کمیشن کے علاوہ کسی اور ساتھی کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا جائے۔ بہر حال دور حاضر میں یہ مسئلہ بڑی نازک صورت حال سے دوچار ہے، اس لیے نہایت بصیؤرت کے ساتھ اس سے نمٹنا ہو گا۔ و اللہ اعلم
(انتخاب فتاویٰ اصحاب الحدیث از مولانا مفتی حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ)