• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابراہیم نخعی کی عبد اللہ بن مسعود سے مرسل روایت کا حکم

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
ابراہیم نخعی کا مختصر تعارف:

نام ونسبت: إبراهيم بن يزيد بن قيس بن الأسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل بن سعد بن مالك بن النخع النخعي، اليماني، ثم الكوفي ۔
کنیت: أبو عمران۔
پیدائش: 46 ھ تقریبا
طبقہ: 5 یعنی صغار تابعین میں سے ہیں
وفات: 96 ھ
عمر: 50 تقریبا

آپ امام حافظ اور اپنے زمانے میں کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ اس وجہ سے انہیں فقيه العراق کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کی روایات صحاح ستہ اور باقی تمام بنیادی حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام مليكة بنت يزيد تھا جو کہ امام اسود بن یزید اور عبد الرحمن بن یزید کی بہن تھیں جو عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب میں شامل ہیں۔

امام ابو الحسن عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لم يحدث عن أحد من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم و قد أدرك منهم جماعة ، و رأى عائشة رؤيا ، و كان مفتى أهل الكوفة هو و الشعبى فى زمانهما ، و كان رجلا صالحا فقيها متوقيا قليل التكلف" ترجمہ: ابراہیم نے کسی صحابی رسول ﷺ سے روایت نہیں لی ہے لیکن ان کی ایک جماعت کا زمانہ پایا ہے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی دیکھا ہے۔ وہ اور امام شعبی اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے مفتی تھے۔ وہ صالح فقیہ، محتاط اور قلیل التکلف شخص تھے (کتاب الثقات: 3)۔

امام اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں: " كان الشعبي وإبراهيم وأبو الضحى يجتمعون في المسجد يتذاكرون الحديث، فإذا جاءهم شيء ليس عندهم فيه رواية رموا إِبْرَاهِيم بأبصارهم " شعبی، ابراہیم اور ابو ضحی مسجد میں جمع ہو کر حدیث پر تذکرہ کیا کرتے تھے، اور جب ان کے پاس کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس میں ان کے پاس کوئی روایت نہ ہو تو وہ ابراہیم کی طرف اپنی نظریں جماتے تھے (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/1/144، وتاریخ یحیی روایۃ عباس: 2/17)۔

جب ابراہیم فوت ہوئے امام شعبی نے فرمایا: " ما ترك بعده خلف " انہوں نے اپنے بعد کوئی ان جیسا نہیں چھوڑا (سیر اعلام النبلاء: 4/526)۔

امام یحیی بن معین، ابو زرعہ، نسائی، ابن سعد، ابن حبان وغیرہ نے انہیں ثقہ کہا ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

آپ نے اہل کوفہ کی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریقے کو لازم پکڑا اور ان کی روایات، فقہ اور قراءت میں مہارت حاصل کی یہاں تک کہ امام علی بن المدینی نے فرمایا:
" وكان إبراهيم عندي من أعلم الناس بأصحاب عبد الله وأبطنهم به " ترجمہ: "میرے نزدیک ابراہیم اصحاب عبد اللہ کے بارے میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے اور دقیق العلم تھے" (العلل لابن المدینی: ص 43)۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب گنوانے کے بعد، امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
" وأصحاب هؤلاء الستة من أصحاب عبد الله ممن يقول بقولهم ويفتي بفتواهم إبراهيم النخعي " ترجمہ: اور عبد اللہ بن مسعود کے ان چھ (کبار) اصحاب کے وہ اصحاب جو ان کے قول کی پیروی کرتے، اور ان کے فتوی کے مطابق فتوی دیتے، ان میں ابراہیم نخعی شامل ہیں (العلل: ص 43)۔

اور قرآن کی قراءت بھی ابراہیم نے عبد اللہ بن مسعود کے طریقے پر لی ہے، چنانچہ ابو عمرو الدانی فرماتے ہیں: " أخذ إبراهيم القراءة عرضا عن: علقمة، والأسود. " ابراہیم نے قراءت قرآن علمقہ اور اسود سے لی ہے (سیر اعلام النبلاء: 4/529)۔

الغرض ابراہیم نخعی کی تمام فقہ، قراءت، اور مذہب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کبار اصحاب کے مطابق تھی، اور انہوں نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لیا تھا۔

اور ان سے پھر اس طریقے کو اعمش، سفیان، اور وکیع وغیرہ نے اس طریقے کو اپنایا اور اسی طریقے کو فقہ اہل کوفہ یا فقہ عبد اللہ بن مسعود کا نام دیا گیا۔

چنانچہ امام علی بن المدینی مزید فرماتے ہیں: "
وكان أعلم الناس بهؤلاء من أهل الكوفة ممن يفتي بفتواهم ويذهب مذهبهم الأعمش وأبو إسحاق والأعمش أعلم الناس ممن مضى من هؤلاء غير رجل ولم يلق الأعمش من هؤلاء أحدا لقي أبو إسحاق منهم الأسود بن يزيد ومسروقا وعبيدة السلماني وعمرو بن شرحبيل ولم يلق علقمة ولا الحارث بن قيس
ومن بعد هؤلاء سفيان الثوري كان يذهب مذهبهم ويفتي بفتواهم
ومن بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله
"
ترجمہ: "اور اہل کوفہ میں ان لوگوں کے علم کو سب سے زیادہ جاننے والے، جنہوں نےان کے فتاوی کے مطابق فتوی دیا، اور ان کے مذہب کی پیروی کی، ان میں اعمش اور ابو اسحاق شامل ہیں۔۔۔۔۔
اور ان کے بعد سفیان الثوری بھی ان کے مذہب پر چلے اور ان کے قول کے مطابق فتوے دیے۔
اور سفیان کے بعد، یحیی بن سعید القطان سفیان الثوری اور اصحاب عبد اللہ کے مذہب پر چلے۔
" (العلل: ص 44)

گویا اہل کوفہ کی مجموعی فقہ کی سند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اور اسی کو فقہ اہل کوفہ کہا جاتا ہے۔

ابراہیم نخعی کی عبد اللہ سے روایت:


ابراہیم نخعی کی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرسل روایات، جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقہ، اقوال، قراءت، اور روایات پر مشتمل ہیں، کو صحیح شمار کیا جاتا ہیں کیونکہ ابراہیم عبد اللہ کے اقوال اور علم سے سب سے زیادہ واقف تھے جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے۔

کسی محدث یا امام کا کسی خاص صحابی یا شیخ کے طریقے، اقوال اور روایات میں خاص مہارت کے ہونے کی وجہ سے اس کی روایت کو انقطاع کے باوجود صحیح قرار دینا کوئی نیا اصول نہیں ہے بلکہ محدثین کے ہاں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں، مثلا:
1- سعید بن المسیب کی سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع شمار کی جاتی ہے لیکن چونکہ امام سعید بن المسیب کو عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال وافعال اور روایات کی خاص پرکھ اور جانکاری تھی تو اس وجہ سے محدثین نے اجماعی طور پر ان کی عمر سے روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

2- اسی طرح ابو عبیدۃ بن عبد اللہ بن مسعود کی اپنے والد سے روایت منقطع ہے لیکن محدثین نے انہیں قبول کیا ہے کیونکہ وہ اپنے والد کے گھر والوں سے روایت کرتے تھے، چنانچہ ابن رجب فرماتے ہیں:​

"أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ، لكن رواياته عنه أخذها عن أهل أبيه ، فهي صحيحة عندهم"​

(فتح الباری: 614)

اس کے علاوہ جہاں تک خاص سند کا تعلق ہے تو اس کے متعلق درج ذیل روایت کافی ہے:
امام ترمذی روایت کرتے ہیں: " حَدثنَا أَبُو عُبَيْدَة بن أبي السّفر الْكُوفِي حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن شُعْبَة عَن سُلَيْمَان الْأَعْمَش قَالَ قلت لإبراهم النَّخعِيّ أسْند لي عَن عبد الله بن مَسْعُود فَقَالَ إِبْرَاهِيم إِذا حدثتك عَن رجل عَن عبد الله فَهُوَ الَّذِي سميت وَإِذا قلت قَالَ عبد الله فَهُوَ عَن غير وَاحِد عَن عبد الله " ترجمہ: "سلیمان الاعمش فرماتے ہیں میں ابراہم نخعی نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود کی روایت کی سند بیان کریں، تو ابراہیم نے کہا:جب میں تمہیں عن رجل عن عبد اللہ کہہ کر روایت کروں تو وہ روایت میں نے صرف اسی سے سنی ہے، اور جب میں کہوں کہ عبد اللہ نے کہا، تو وہ روایت ایک سے زائد اشخاص نے مجھے عبد اللہ سے سنائی ہے۔" (العلل الصغیر للترمذی: ص 754، وشرح معانی الآثار: 1/226)

تبصرہ:
اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم جب عبد اللہ سے مرسلا روایت کریں تو وہ روایت رواۃ کی ایک جماعت نے عبد اللہ سے بیان کی ہوتی ہے۔
اس پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے جیسا کہ علامہ معلمی نے فرمایا: " ما روي عنه أنه قال : إذا قلت : قال عبد الله ، فهو عن غير واحد عن عبد الله . لا يدفع الانقطاع لاحتمال أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد الله، أو ممن لقيه و ليس بثقة " ترجمہ: یہ جو ابراہیم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب میں کہوں کہ عبد اللہ نے کہا ہے تو وہ غیر واحد نے عبد اللہ سے نقل کیا ہے، اس سے انقطاع رفع نہیں ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ ابراہیم نے اسے ایسے غیر واحد لوگوں سے سنا ہو جنہوں نے عبد اللہ کو نہیں پایا یا جنہوں نے انہیں پایا ہو لیکن ثقہ نہ ہوں۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی روایت کو امام ابن سعد نے اس سے افضل سند سے روایت کیا ہے، چنانچہ امام ابن سعد فرماتے ہیں:
أخبرنا عمروا بن الهيثم أبوقطن قال: حدثنا شعبة عن الأعمش قال: قلت: لإبراهيم: إذا حدثتني عن عبد الله فأسند، قال: إذا قلت: قال عبد الله، فقد سمعته من غير واحد من أصحابه، وإذا قلت: حدثني فلان، فحدثني فلان» ترجمہ: عمرو بن ہیثم شعبہ سے روایت کرتے ہیں کہ اعمش نے کہا میں نے ابراہیم سے کہا: جب آپ عبد اللہ سے روایت بیان کریں تو اس کی سند ذکر کر دیا کریں، تو ابراہیم نے کہا: جب میں کہوں کہ عبد اللہ نے کہا ہے تو اسے میں عبد اللہ کے ایک سے زائد اصحاب سے سنا ہے، اور جب میں کہوں کہ فلان نے مجھے بتایا ہے تو اس فلان نے ہی مجھے بتایا ہے (طبقات الکبری لابن سعد: 6/190)۔
اسی روایت کو امام ابو زرعہ الدمشقی نے بھی اپنی تاریخ (2/131) میں احمد بن سیبویہ کے طریق سے عمرو بن الہیثم سے نقل کیا ہے۔
عمرو بن ہیثم ثقہ ثبت ہیں اور شعبہ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں۔

اس روایت میں ابراہیم نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ وہ جب عبد اللہ سے مرسلا روایت کریں تو وہ روایت عبد اللہ کے غیر واحد اصحاب سے مروی ہو گی، لہٰذا اس میں علامہ معلمی کے اعتراض کا جواب موجود ہے کہ ابراہیم نے ایسے لوگوں سے روایت لی ہو جنہوں نے عبد اللہ کو نہیں پایا، کیونکہ ابراہیم نے صراحتا کہا ہے کہ روایت عبد اللہ کے اصحاب سے ہے۔

اور ابراہیم نخعی کے شیوخ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جتنے بھی اصحاب شامل ہیں وہ سب ثقہ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں اور ان میں ایک بھی شخص ضعیف یا مجہول نہیں ہے۔ لہٰذا علامہ معلمی کے دوسرا اعتراض کا بھی جواب اسی میں موجود ہے۔

ابراہیم کے شیوخ جو عبد اللہ کے اصحاب ہیں یا ان سے روایت کرتے ہیں:

امام ابراہیم نخعی کے وہ شیوخ جو عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب ہیں یا ان سے روایت کرتے ہیں درج ذیل ہیں:
1- الأسود بن يزيد النخعي (ثقة مخضرم)
2- الحارث بن سويد التيمي (ثقه ثبت)
3- الربيع بن خثيم الثوري (ثقة عابد مخضرم)
4- سالم بن أبي الجعد الأشجعي (ثقة)
5- شريح بن الحارث (ثقة)
6- شقيق بن سلمة الأسدي (ثقة مخضرم)
7- عبد الرحمن بن يزيد النخعي (ثقة)
8- عبد الله بن سخيرة الأزدي (ثقة)
9- عبيدة بن عمرو السلماني الكوفي (ثقة)
10- علقمة بن قيس النخعي (ثقة ثبت)
11- مسروق بن الأجدع الهمداني (ثقة)
12- همام بن الحارث النخعي (ثقة عابد)
جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سب کے سب ثقہ تابعین ہیں اور ایک بھی ضعیف یا مجہول نہیں۔ لہٰذا یہاں احتمالات کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔
اس قول کی تائید کرتے ہوئے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ علامہ معلمی کے قول کے تحت فرماتے ہیں:
" وإذا تأمل الباحث في قول إبراهيم «من غير واحد من الصحابة» يتبين له ضعف بعض الإحتمالات التي أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال: قال ابن مسعود، فأن قوله: «من أصحابه» يبطل قول المصنف «أن يسمع إبراهيم من غير واحد ممن لم يلق عبد الله» ، كما هو ظاهر"
ترجمہ: "جب کوئی باحث ابراہیم کے قول (من غیر واحد من اصحابہ) پر غور کرے گا تو اس پر ان بعض احتمالات کا ضعف واضح ہو جائے گا جو مصنف نے ابراہیم کی روایت میں کیے ہیں جب وہ قال ابن مسعود کہیں۔ کیونکہ ان کا قول (من اصحابہ) مصنف کے اس قول کو باطل کر دیتا ہے جس میں انہوں نے کہ (ہو سکتا ہے ابراہیم نے ایسے غیر واحد سے سنا ہو جنہوں نے عبد اللہ کو نہیں پایا)، جیسا کہ ظاہر ہے۔"

علامہ معلمی کے دوسرے اعتراض کہ ہو سکتا ہے وہ غیر واحد اشخاص غیر ثقہ ہوں، کا جواب دیتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
" هذا فيه بعد. فأننا لا نعلم في أصحاب ابن مسعود المعروفين من ليس بثقة، ثم أن عبارته المتقدمة منا آنفاً صريحة في أنه لا يسقط الواسطة بينه وبين ابن مسعود إلا الذي كان حدثه عنه أكثر من واحد من أصحابه. فكون الأكثر منهم - لا الواحد - غير ثقة بعيد جداً. لا سيما وإبراهيم إنما يروي كذلك مشيراً إلى صحة الرواية عن ابن مسعود. والله أعلم."
ترجمہ: "یہ قول بعید ہے کیونکہ ہم ابن مسعود کے معروف اصحاب میں سے کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو ثقہ نہ ہو۔ مزید یہ کہ براہیم کی مذکورہ بالا عبارت اس بات پر بالکل واضح اور صریح ہے کہ وہ اپنے اور ابن مسعود کے درمیان واسطے کو صرف تب گراتے ہیں جب اس روایت کو ابن مسعود کے ایک سے زیادہ اصحاب نے انہیں بیان کیا ہو۔ لہٰذا ان میں سے اکثر – نہ کہ صرف ایک شخص – کا غیر ثقہ ہونا بہت ہی بعید بات ہے۔ خاص کر جب ابراہیم صحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (یعنی بالجزم) ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں، واللہ اعلم۔" (حاشیہ التنکیل للالبانی: 2/898)

شیخ البانی کا یہ کلام اوپر بیان کی گئی باتوں کی عین تائید کرتا ہے۔ مزید یہ کہ ابراہیم کی عبد اللہ سے مراسیل پر بڑے ائمہ ومحدثین نے بھی صحت کا حکم لگایا ہے۔

محدثین کے نزدیک ابراہیم کی عبد اللہ سے روایت کا حکم:

ابراہیم کی عبد اللہ بن مسعود سے مرسل روایات کے بارے میں بعض محدثین کیا کہتے ہیں وہ بھی دیکھ لیتے ہیں:

1- حافظ علائی فرماتے ہیں: " جماعة من الأئمة صححوا مراسيله كما تقدم وخص البيهقيي ذلك بما أرسله عن بن مسعود " ائمہ کی ایک جماعت نے ابراہیم کی مراسیل کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ پیچھے گزرا، جبکہ بیہقی نے اسے ان کی ابن مسعود سے مرسل روایت پر خاص کیا ہے (جامع التحصیل: ص 141)۔

2- امام ابو جعفر الطحاوی فرماتے ہیں: " كان إبراهيم , إذا أرسل عن عبد الله , لم يرسله إلا بعد صحته عنده , وتواتر الرواية عن عبد الله.... فكذلك هذا الذي أرسله عن عبد الله لم يرسله إلا ومخرجه عنده أصح من مخرج ما يرويه عن رجل بعينه عن عبد الله " ترجمہ: ابراہیم عبد اللہ بن مسعود سے تب ہی ارسال کرتے تھے جب اس کی صحت ان کے نزدیک ثابت ہو جاتی، اور عبد اللہ سے اس کی روایت متواتر ہوتی۔۔۔۔ پس اسی طرح یہ روایت جو انہوں نے عبد اللہ سے مرسلا بیان کی ہے اس کا مخرج ان کے نزدیک ایک آدمی کا واسطہ ذکر کر دینے سے زیادہ صحیح ہے (شرح معانی الآثار: 1/226)۔

3- حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ ابراہیم کے قول کی شرح میں فرماتے ہیں: " هذا يقتضي ترجيح المرسل على المسند، لكن عن النخعي خاصة، فيما أرسله عن ابن مسعود خاصة. وقد قال أحمد في مراسيل النخعي، لا بأس بها. " ترجمہ: اس قول کا تقاضا یہ کہ مرسل کو مسند پر ترجیح دی جائے، لیکن صرف ابراہیم نخعی کی روایت میں ہی، جس میں انہوں نے خاص ابن مسعود سے ارسال کیا ہو۔ جبکہ امام احمد ابراہیم نخعی کی مراسیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے (شرح علل الترمذی: 1/542)۔

لہٰذا ابراہیم کی عبد اللہ سے مرسل روایت یا کم از کم عبد اللہ بن مسعود کے اپنے اقوال، فقہ، اور افعال پر مشتمل روایات صحیح ہوں گی، ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم۔​
 
Last edited by a moderator:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نام ونسبت: إبراهيم بن يزيد بن قيس بن الأسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل بن سعد بن مالك بن النخع النخعي، اليماني، ثم الكوفي ۔
کنیت: أبو عمران۔
پیدائش: 146 ھ تقریبا
طبقہ: 5 یعنی صغار تابعین میں سے ہیں
وفات: 196 ھ
عمر: 50 تقریبا
تاریخ پیدائش و وفات پر نظر ثانی کی ضرورت معلوم ہوتی ہے!
 
شمولیت
جنوری 02، 2017
پیغامات
175
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
39
تاریخ پیدائش 46 ھ تقریبا

تاریخ وفات 96 ھ

یہ صحیح ھے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
Top