• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح "مقبول" کا کیا مطلب ہے ؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بعض رواۃ کے متعلق امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مقبول"
اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے ؟
کیا اس کا مطلب "مجہول" ہے ؟
محترم شیوخ توجہ دیں۔
جزاکم اللہ خیرا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حافظ ابن حجر العسقلانیؒ مقدمہ تقریب میں فرماتے ہیں:

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جرح و تعدیل میں رواة کا چھٹا طبقہ وہ ہے جس میں راوی کی کم احادیث ہوں، اور اس پر ایسی جرح نہ ہو جس سے اس کی حدیث متروک ہو، ایسے راوی کی طرف "مقبول" کے لفظ سے اشارہ ہے جب کہ اس کا کوئی متابع ہو ورنہ وہ لین الحدیث ہے۔

عنوان الكتاب: تقريب التهذيب (ت: شاغف)
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين
المحقق: أبو الأشبال صغير أحمد شاغف الباكستاني
حالة الفهرسة: مفهرس على العناوين الرئيسية
الناشر: دار العاصمة
سنة النشر: 1421
عدد المجلدات: 1
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
مجھے دراصل اس متعلق پوچھنا ہے کہ ایک راوی
۱- آبو ابراهيم الأشهلي ہے ۔
امام ذہبی اس کے متعلق فرماتے ہیں مجھول ۔ (الکاشف و میزان)
لیکن ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی راوی کے متعلق فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۲-
ابو اسحاق القرشی
امام ذہبی فرماتے ہیں مجھول (میزان و دیوان)
لیکن ابن حجر فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۳-
أبو حفصة مولي عائشة رضي الله عنها
امام دارقطنی فرماتے ہیں مجہول (سؤالات برقانی)
امام ذھبی فرماتے ہیں لا یعرف (میزان)
لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۴- ثمامة بن كلاب
امام بیھقی فرماتے ہیں مجھول (سنن الکبری)
لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

میرا سوال یہ ہے کہ کیا امام ابن حجر رحمہ اللہ مجھول راویوں کو بھی "مقبول" بول دیتے ہیں ؟

@خضر حیات
@اسحاق سلفی
@عدیل سلفی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مجھے دراصل اس متعلق پوچھنا ہے کہ ایک راوی
۱- آبو ابراهيم الأشهلي ہے ۔
امام ذہبی اس کے متعلق فرماتے ہیں مجھول ۔ (الکاشف و میزان)
لیکن ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی راوی کے متعلق فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۲-
ابو اسحاق القرشی
امام ذہبی فرماتے ہیں مجھول (میزان و دیوان)
لیکن ابن حجر فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۳-
أبو حفصة مولي عائشة رضي الله عنها
امام دارقطنی فرماتے ہیں مجہول (سؤالات برقانی)
امام ذھبی فرماتے ہیں لا یعرف (میزان)
لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

۴- ثمامة بن كلاب
امام بیھقی فرماتے ہیں مجھول (سنن الکبری)
لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مقبول" (تقریب)

میرا سوال یہ ہے کہ کیا امام ابن حجر رحمہ اللہ مجھول راویوں کو بھی "مقبول" بول دیتے ہیں ؟

@خضر حیات
@اسحاق سلفی
@عدیل سلفی
حافظ ابن حجر یہ جملہ عموما مجہول الحال راویوں کے متعلق بولتے ہیں، اور اس کی وضاحت وہ مقدمہ میں کر چکے ہیں، کہ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث کہ وہ مقبول اسی صورت میں ہوگا، جب اس کی متابعت ملے گی۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
حافظ ابن حجر یہ جملہ عموما مجہول الحال راویوں کے متعلق بولتے ہیں، اور اس کی وضاحت وہ مقدمہ میں کر چکے ہیں، کہ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث کہ وہ مقبول اسی صورت میں ہوگا، جب اس کی متابعت ملے گی۔
ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح ’’مقبول‘‘ ۔
تحریر: ابو محمد شحاتہ الالفی الاسکندری
ترجمہ و تنقیح : ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر علم رجال کے مبتدی طالبعلم کے لیے ابن حجر کی تقریب التہذیب ذہبی کی کاشف اور متأخرین کی کتب میں سے تحریر تقریب التہذیب اور کشف الأوہام لما فی تحریر التقریب من الأوہام اور الإیہام لما فی کشف الأوہام من الأوہام بہترین کتب راہنما کتب ہیں جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اصول ستہ کے رجال کی ثقاہت وضعف سمجھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتیں ہیں۔ لیکن تقریب التہذیب کی قدر ومنزلت اور اسکا تعارف بہت زیادہ ہے جسکے نتیجہ میں بسا اوقات نئے مبتدی محققین کرام صرف اسی پر ہی أکثر اعتماد کرکے کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اسی تقریب میں ابن حجر رحمہ اللہ کی قائم کردہ ایک اصطلاح مقبول بھی ہے جسکا انہوں نے تقریب کے مقدمہ میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ متابعات وشواہد میں‌ اس راوی کی روایت قبول ہے وگرنہ مردود۔ لیکن حضرت حافظ صاحب اس اصول پر یا تو پابند نہیں‌ رہ سکے اور یا پھر انکی تحقیق میں تغیر واقع ہوا (جوکہ ہر مجتہد فن میں ضرور ہوتا ہے)۔ مگر ہمارے ہاں تقریب کے مقبول کو متفرد دیکھ کر روایت کو ضعیف قرار دینے کا کام تیزی سے شروع ہو چکا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کسی راوی کو ’مقبول‘ قرار دینا ، یعنی جب حافظ صاحب کسی راوی کا رتبہ لفظ ’مقبول‘ سے بیان فرماتے ہیں تو اس کاکیا معنیٰ ہے؟ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابن حجر کے ’مقبول‘ کہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ ’مقبول‘ راوی کی حدیث جب اس کی متابعت میں نہ ہو تو ضعیف ’ہی‘ ہو تی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، حافظ صاحب علیہ الرحمہ جس راوی کو مقبول کہتے ہیں ہر اس راوی کی مرویات بوقت تفرد ضعیف نہیں ہوتیں, بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہی مقبول راوی حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حسن الحدیث ہوتا ہے یا ثقہ ثبت ہوتا ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں اسے مقبول کہہ دیتے ہیں اور پھر بعد میں دیگر تصانیف میں اس راوی کی ثقاہت معلوم ہونے پر اسے بیان فرما دیتے ہیں۔انہوں نے جب خود ایک اصطلاح وضع کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اس کا کیا مفہوم لیتے ہیں۔ جب ہم ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح کو انہی سے سمجھیں گے تو معاملہ بالکل واضح ہوجائے گا۔ حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں: الخامسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث. (تقريب التهذيب: 1/74) یعنی ایسا راوی جو قلیل الروایہ ہو, اور اسکے ضعف پہ کوئی "خاص" دلیل نہ ہو, حافظ صاحب اسے "مقبول" کا درجہ دیتے ہیں۔ اور عموما یہ راوی ایسا ہوتا ہے کہ جسکی متابعت ملنے پر یہ "مقبول" ٹھہرتا ہے وگرنہ لین الحدیث قرار پاتا۔ لیکن بسا اوقات حافظ صاحب علیہ الرحمۃ "قلیل الروایۃ ثقہ" راوی کے لیے بھی "مقبول" کا لفظ بول دیتے ہیں۔ یا تو یہ انکے سہو کی وجہ سے ہوتا ہے‘ یا راوی کی توثیق اسے مقبول قرار دینے کے بعد معلوم ہونے کی وجہ سے۔ میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک راوی کو ’مقبول‘ قرار دیا ہے اور پھراس کی ایسی روایت،جس میں وہ متفرد ہے ،کو حسن یا صحیح قراردیا ہے، ان میں سے چند مثالیں پیش ِخدمت ہیں۔ 1۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق میں فرمایا ہے کہ امام احمد نے اور اسحاق بن راہویہ نے بطریق وَكِيع ثَنَا وبر ابْن أبي دليلة شيخ من أهل الطَّائِف عَن مُحَمَّد بن مَيْمُون بن أبي مُسَيْكَة وَأثْنى عَلَيْهِ خيرا عَن عَمْرو بن الشريد عَن أَبِيه مرفوعاً یہ روایت بیان کی ہے : «ليُّ الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ» [مسند أحمد: 4/388، ط: المیمنیۃ. (19456)، ط: الرسالۃ] اور پھر اس کی تخریج کرتے ہوئے فرماتےہیں : «رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ من حَدِيث ابْن الْمُبَارك عَن وبر وَرَوَاهُ النَّسَائِيّ وَابْن ماجة من حَدِيث وَكِيع»اور پھر سند پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَهُوَ إِسْنَاد حسن» (تغليق التعليق: 3/319، طبع: المکتب الإسلامي، بیروت) حالانکہ محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکة الطائفی کے بارہ میں تقریب میں فرماتے ہیں: «مقبول من السادسۃ» (تقريب التهذيب: 1/490، (6051) ط: دار الرشید، سوریا) اور فتح الباری میں ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ الباری کے اس قول «وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ» کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ وَصَلَهُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي مُسْنَدَيْهِمَا وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ أَبِيهِ بِلَفْظِهِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَذَكَرَ الطَّبَرَانِيُّ أَنَّهُ لَا يُرْوَى إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ» ( فتح الباری: 5/62، ط: دار المعرفۃ، بیروت) اور یہی بات تلخیص الحبیر میں بھی مذکور ہے۔ [التلخيص الحبير: 3/102 (1237)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] اسی طرح امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «محمد بن عبد اللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفي عن عمرو بن الشرید وعنہ وبر بن أبي دلیلۃ فقط» [میزان الاعتدال فی نقدالرجال: 3/598، رقم الراوي: 7760، طبع: دار المعرفۃ، بیروت] یعنی اس کو روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفی متفرد ہے اور حافظ صاحب نے اس کو’’مقبول‘‘ قرارد یا ہے اور اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کو ’’حسن‘‘ قراردے رہے ہیں۔ جبکہ اس کی کوئی متابعت بھی نہیں ہے۔ 2۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں سعد بن ضمیرۃ بن سعد بن سفیان بن مالک بن حبیب کے بارہ میں فرماتے ہیں: «لہ عند أبي داؤد حدیث فی قصۃ محلم بن جثامۃ بإسناد حسن» ( الإصابة في تمييز الصحابة: 3/54، رقم الصحابي: 3175، ط: العلمیۃ، بیروت) اورا س کی حدیث سنن أبي داؤد، کتاب الدیات، باب الإمام یأمر بالعفو في الدم، (4503) بطریق محمد بن جعفر بن الزبیر از زیادہ بن سعد بن ضمیرۃ السلمی عن ابیہ مروی ہے۔ یعنی اس کی سند میں زیاد بن سعد بن ضمیرۃ السلمی متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی نہیں آتی ، نیز یہ کہ زیاد بن سعد سے اس کے علاوہ اور کوئی حدیث بھی مروی نہیں ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو ’’مقبول‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: «مقبول من الرابعۃ» (تقريب التهذيب: 1/219، رقم الراوي: 2079) تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کی بھی ’’تحسین‘‘ فرمارہے ہیں ۔ 3۔ امام بخاری نے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی روایت صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے کے بارہ میں نقل فرمائی ہے۔ صحیح البخاري، کتاب الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ (1986) حافظ صاحب علیہ الرحمۃ میں اسی حدیث کے تحت رقم طراز ہیں: «وَلَيْسَ لِجُوَيْرِيَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبُخَارِيِّ مِنْ رِوَايَتِهَا سِوَى هَذَا الْحَدِيثِ وَلَهُ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيثِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عِنْدَ النَّسَائِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ بِمَعْنَى حَدِيثِ جُوَيْرِيَةَ» فتح الباری (4/234) یعنی امام نسائی کی سنن کبریٰ میں بیان شدہ روایت بطریق: الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَذَكَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ حُذَيْفَةَ الْبَارِقِيِّ، عَنْ جُنَادَةَ الْأَزْدِيِّ، أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... الحدیث‘‘ [السننن الكبرى للنسائي: ۱۴۵/۲(۲۷۷۳)] کو حافظ صاحب ’’صحیح الاسناد‘‘قرارد ے رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں حذیفہ البارقی ، جنادۃ الازدی سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں۔ حالانکہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو «مقبول من الرابعۃ» فرمایا ہے۔ (تقريب التهذيب: 1/154، رقم الراوي: 1157) تو اس دلیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس ’’مقبول‘‘ راوی کی حدیث کا درجہ صحت وحسن کے درمیان ہے۔ 4۔ جن روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے تعلیقاً صیغہ ٔ تمریض سے ذکر کیا ہے ان کا حکم بیان کرتے ہوئے حافظ صاحب فرماتے ہیں: «فَمِنْهُ مَا هُوَ صَحِيح إِلَّا أَنه لَيْسَ على شَرطه وَمِنْه مَا هُوَ حسن وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد إِلَّا أَن الْعَمَل على مُوَافَقَته وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد لَا جَابر لَهُ» هُدَی الساری (1/18) اور پھر حسن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «وَمِثَال الْحسن قَوْله فِي الْبيُوع وَيذكر عَن عُثْمَان بن عَفَّان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ إِذَا بِعْتَ فَكِلْ وَإِذَا ابْتَعْتَ فاكتل؛ وَهَذَا الحَدِيث قد رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ [3/389، (2818)] من طَرِيق عبد الله بن الْمُغيرَة وَهُوَ صَدُوق عَن منقذ مولى سراقۃ وَقد وثق عَن عُثْمَان بِهِ ۔۔۔ انتھی» تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمہ نے عبیداللہ بن مغیرہ کی حدیث کو حسن حدیث کی مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن مغیر بن ابی بردہ الکنانی کے بارہ میں «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ تقریب (1/374، رقم الراوي: 4342) ملحوظہ: اس حدیث کو عبد بن حمید نے [1/47 (52)، ط: مکتبۃ السنۃ، القاھرۃ] ابن المبارک سے ، اور ابن ماجہ نے (2230) ابوعبدالرحمن المقریٔ سے، اور بزار [2/33، (379)، طبع: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ] نے حسن بن موسىٰ سے ، اور بىہقى نے کبرىٰ [5/514، (10696)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] مىں سعىد بن ابى مرىم سے بطرىق ابن لھیعۃ از موسىٰ بن وردان ، اسى طرح سعىد بن مسىب سے بىان کىا ہے۔ اور ىہ رواىت ابن لھىعہ کى صحىح احادىث مىں سے ہے کىونکہ ىہ عبادلہ ثلاثہ کبراء [(1) ابن مبارک (2) ابن وھب(3) اور المقرئ ] کى مروىات سے ہے۔ ىعنى ا س حدىث کو رواىت کرنے مىں عبىداللہ بن مغىرہ متفرد نہىں بلکہ سعىد بن المسىب رحمہ اللہ ان کى متابعت فرمارہے ہىں اور اسى طرح امام احمد نے بھى(444) نقل فرماىا ہے، اور طحاوى نے شرح المعانى (5539) مىں ذکر کىا ہے۔ 5۔ حافظ صاحب نے تغلىق التعلىق (436/2) مىں ذکر کىا ہے: «قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ [1/299، (3421)] أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ مُحَمَّد بن عَمْرو عَن أبي عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ الأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَأَتَى سَارِيَةً ....» اور پھر فرماىا ہے: «والإسناد حسن» جبکہ ابو عمروبن حماس اللىثى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں : «مقبول من السادسۃ» [تقريب التهذيب: 1/660، (8270)] 6۔ الاصابہ فى تمییز الصحابہ مىں فرماتے ہىں: «حبۃ بن خالد الخزاعي، وقیل العامري، أخو سواء بن خالد صحابي، نزل الکوفۃ. روى حدىثہ ابن ماجہ بإسناد حسن من طرىق الأعمش عن أبي شرحبیل عن حبۃ وسواء ابني خالد قالا: دخلنا على النبي ﷺ وھو یعالج شىئاً .... الحدىث» [الإصابة في تمييز الصحابة: 2/13، (1567)] ىعنى وہ حدىث جس کو ابن ماجہ نے (4165) ، احمد نے (15855) ، ہناد نے کتاب الزھد (2/407، ط: دار الخلفاء للکتاب الإسلامي، الکویت) مىں ، ابن سعد نے الطبقات الکبرى [6/107، (1878)، ط: العلمیۃ]مىں ، بخارى نے الادب (453) مىں مختصراً، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1466) مىں، طبرانى نے الکبىر (3479، 3480، 6610) مىں اور مزى نے تہذىب الکمال [5/355، (1077)، ط: الرسالۃ] مىں بطرىق أعمش از سلام بن شرحبیل أبو شرحبیل از حبۃ وسواء ابني خالد روایت کیا ہے۔ اور ىہ حدىث غرىب ہے کىونکہ اس کو حبة اور سواء ابني خالد سے ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے سوا اور کسى نے رواىت نہىں کىا ہے اور ابو شرحبيل سے اس کو رواىت کرنے مىں اعمش متفرد ہے اور حافظ صاحب علىہ الرحمہ نے عدم متابعت اور تفرد کے باوصف اس کو حسن قرار دىا ہے۔ جبکہ ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/261، (2707)] 7۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا فَلم يتمضمض وَلم يتَوَضَّأ» (فتح الباري: 1/313) اور اس حدىث کو ابوداؤد نے باىں سند روایت کیا ہے: «عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ مُطِيعِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ .... الحدیث» [سنن أبي داود: 197] اور اسى طرح ابن شاہىن نے الناسخ والمنسوخ [1/90، (93)، ط: المنار] مىں اور بىہقى نے الکبرى [1/248 (746)] اور ضىاء نے الاحادىث المختارہ [4/409، (1582)، ط: دار خضر] مختلف طرق سے از زىد بن الحباب از مطىع بن راشد از توبۃ العنبرى از انس رضى اللہ عنہ بىان کىا ہے۔ ىعنى مطىع بن راشد البصرى اس کو رواىت کرنے مىں متفرد ہے ، جس کو حافظ صاحب تقرىب [1/535، (6717)] مىں «مقبول من السابعۃ» فرمارہے ہىں اور اس کى حدىث کى تحسىن فرما ر ہے ہىں۔ جس سے حافظ صاحب کے ہاں اس ’’مقبول‘‘ راوى کی رواىت کا ’’درجہ‘‘ واضح ہوتا ہے۔ 8۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَقَدْ كَانَ بَعْضُ السَّلَفِ يُشَدِّدُ فِي ذَلِكَ حَتَّى كَانَ حُذَيْفَةُ إِذَا مَاتَ لَهُ الْمَيِّتُ يَقُولُ لَا تُؤْذِنُوا بِهِ أَحَدًا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ يَنْهَى عَن النعي أخرجه التِّرْمِذِيّ وابن ماجہ بِإِسْنَاد حسن» (فتح الباري: 3/117) اور اس حدىث کو امام ترمذى نے اپنى جامع مىں باىں سند روایت کیا ہے: ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ القُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ العَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى العَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ اليَمَانِ .... الحدیث أبواب الجنائز ، باب ما جاء في کراھیۃ النعي، (986) اور ابن ماجہ نے کتاب الجنائز، باب النھي عن النعي، (1476) از عمرو بن رافع از عبد اللہ ابن مبارک از حبیب بن سلیم العبسي سابقہ سند سے ہى رواىت کىا ہے۔ اور اسى طرح اس کو احمد نے مسند (23270، 23455) میں وکىع اور ىحىٰ بن آدم سےاور بىہقى نے کبرىٰ (7179) مىں مسلم بن قتىبہ سے اور مزى نے تہذىب الکمال (5/376) مىں ىحىیٰ بن آدم سے اور ان تمام نے حبىب بن سلىم از بلال ابن ىحىٰ از حذىفہ رواىت کىا ہے۔ اور امام ترمذى نے کہا ہے: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ» تو ىہ رواىت بھى سابقہ رواىات کى طرح ہے کہ حافظ صاحب نے حبيب بن سليم العبسي کے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود اس رواىت کو فتح البارى مىں اور امام ترمذى نے اپنی جامع مىں حسن صحىح قرار دىا ہے ۔ جبکہ حبىب بن سلىم کے بارہ مىں حافظ صاحب علىہ الرحمۃ تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من السابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/151، (1092)] حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نخبۃ الفکر مىں فرماتے ہىں کہ : «فإِنْ جُمِعا؛ أي: الصَّحيحُ والحسنُ في وصفِ [حديثٍ] واحدٍ؛ كقولِ التِّرمذيِّ وغيرِه: [حديثٌ] حَسَنٌ صحيحٌ؛ فللتَّرَدُّدِ الحاصلِ مِن المُجتهدِ في النَّاقِلِ» (نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر، ص: 66، ط: مطبعۃ الصباح) ىعنى امام ترمذى رحمہ اللہ جب کسى راوى کے بارہ مىں متردد ہو تے ہىں کہ ىہ تام الضبط ہے ىا خفىف الضبط اور وہ راوى اس کے بىان کرنے مىں متفرد ہو تا ہے تو اس کى حدىث کو ’’حسن صحىح‘‘ فرمادىتے ہىں۔ جىسا کہ اس مثال مىں سے واضح ہو رہا ہے اور مثال نمبر 4 مىں متفرد ’’مقبول‘‘ کى رواىت کو ’’صحىح‘‘ قرارد ىا ہے جس سے ہمارے موقف کى مزىد تائىد ہوتى ہے۔ 9۔ الاصابۃ مىں حازم بن حرملۃ بن مسعود الغفارى رضى اللہ عنہ کے بارہ مىں فرماتے ہىں: « له حديث في الإكثار من الحوقلة. روى عنه أبو زينب مولاه. أخرجه ابن ماجة، وابن أبي عاصم في الوحدان، والطّبراني وغيرهم: كلّهم في الحاء المهملة، وإسناده حسن. » الإصابۃ فى تمییز الصحابہ (2/3) ىعنى وہ حدىث جسے ابن ماجہ نے باىں سند روایت کیا ہے : «حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زَيْنَبَ، مَوْلَى حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ قَالَ: مَرَرْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: يَا حَازِمُ أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ» [کتاب الأدب، باب ما جاء في لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، (3826)] اسى طرح بخارى نے تارىخ کبىر [3/109، (370)، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد دکن] ، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1000)، طبرانى نے کبىر (3565)، ابو احمد العسکرى نے تصحىفات المحدثىن (2/536، ط: المطبعۃ العربیۃ الحدیثۃ، القاھرۃ)، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابہ [2/864، (2249)، ط: دار الوطن، الریاض] اور مزى نے تہذىب الکمال [5/319، (1060)] مىں مختلف طرق سے از محمد بن معن بن نضلۃ الغفارى از خالد بن سعيد از ابي زىنب مولى حازم بن حرملہ از حازم بن حرملة رضى اللہ عنہ رواىت کىا ہے۔ اور ىہ مدنى غرىب حدىث ہے اس کو حازم بن حرملہ سے اس کے مولى ابو زىنب کے علاوہ اور کسى نے رواىت نہىں کىا اور ابو زىنب سے رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد بن ابى مرىم القرشى التميمى المدني مولى جدعان متفرد ہے۔ اور ابن حجر نے اس رواىت کو حسن قرار دىا ہے جبکہ اس کو رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد متفرد ہے اور حافظ صاحب نے تقرىب مىں اس کو «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ [1/188، (1640)] 10۔ الاصابہ مىں فرماتے ہىں: «بسر بن جحاش، بكسر الجيم بعدها مهملة خفيفة، ويقال بفتحها بعدها مثقّلة وبعد الألف معجمة. قرشيّ. نزل حمص، قاله محمود بن سميع، وذكر أنه من بني عامر بن لؤيّ. قال ابن مندة: أهل العراق يقولونه بسر- بالمهملة، وأهل الشّام يقولونه بالمعجمة. وقال الدّارقطنيّ وابن زبر: لا يصحّ بالمعجمة، وكذا ضبطه بالمهملة أبو عليّ الهجريّ في «نوادره» لكن سمّى أباه جحشا. وقال مسلم وابن السكن وغيرهما: لم يرو عنه جبير بن نفير، وحديثه عند أحمد وابن ماجة من طريقه بإسناد صحيح.» الإصابۃ فى تمییز الصحابہ [1/423 (644)] اور اس حدىث کو احمد نے (17844) باىں سند رواىت کىا ہے: «حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَصَقَ يَوْمًا فِي كَفِّهِ فَوَضَعَ عَلَيْهَا أُصْبُعَهُ، ثُمَّ قَالَ: " قَالَ اللهُ: بَنِي آدَمَ .... الحدیث» اور اسى طرح اس کو ابن ماجہ نے کتاب الوصاىا، باب النھي عن الإمساك في الحياۃ والتبذیر عند الموت، (2707)، ابن سعد نے طبقات [7/298 (3769)]، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (869)، طبرانى نے کبىر (1193، 1194) و مسند الشامیىن (469)، ابن قانع نے معجم الصحابۃ (1/76، طبع: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ) اور حاکم نے (3855) ، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابۃ (1224، 1225)، بىہقى نے شعب الاىمان (3198)اور علامہ مزى نے تہذىب الکمال [4/72، (667)] مىں مختلف طرق سے از عبد الرحمن بن میسرۃ از جبیر بن نفیر از بسر بن جحاش اسى طرح رواىت کىا ہے۔ اور ىہ حدىث شامى غرىب ہے، کىونکہ جبىر بن نفىر کے علاوہ اور کسى نے اس کو بسر بن جحاش سے رواىت نہىں کىا اور جبىر سے رواىت کرنے مىں عبدالرحمن بن مىسرہ الحمصى متفرد ہے۔ اور حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نے تفر د عبدالرحمن بن مىسرہ اورعدم متابعت کے باوصف اس کو صحىح قرارد ىا ہے ، جبکہ عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ الحمصى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [1/351، (4022)] ملحوظہ: عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ شامى مشہور تابعى ہىں ، ثقہ ہىں اور کثىر الرواىۃ ہىں۔ صحابہ مىں سے ابو امامہ الباہلى ، مقدام بن معدى کرب وغىرہ سے علم حدىث سنا ہے اور ابوداؤد ، عجلى ، ابن حبان اور ذہبى نے انھىں ثقہ قرارد ىا ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ ىہ دس مثالىں اس بات پر دلىل ہىں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدىک مقبول راوى کى رواىت بھی کبھی حسن وصحت کے درمىان ہوتی ہے ، خواہ اس کى متابعت موجود ہوىانہ ہو۔ اور واضع مصطلح ہى اپنى مصطلح کا حقىقى معنى زىادہ بہتر طور پر سمجھتاہے۔ تَمَّ بحمد اللہ، ھذا ما عندي والعلم عند اللہ وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم الراجى الى مغفرۃ ربہ الظاھر ابو عبد الرحمن محمد رفیق الطاہر 1429/04/02 ھــ

مصدر: http://www.rafiqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=989
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
حافظ ابن حجر یہ جملہ عموما مجہول الحال راویوں کے متعلق بولتے ہیں، اور اس کی وضاحت وہ مقدمہ میں کر چکے ہیں، کہ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث کہ وہ مقبول اسی صورت میں ہوگا، جب اس کی متابعت ملے گی۔
ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح ’’مقبول‘‘ ۔
تحریر: ابو محمد شحاتہ الالفی الاسکندری
ترجمہ و تنقیح : ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر علم رجال کے مبتدی طالبعلم کے لیے ابن حجر کی تقریب التہذیب ذہبی کی کاشف اور متأخرین کی کتب میں سے تحریر تقریب التہذیب اور کشف الأوہام لما فی تحریر التقریب من الأوہام اور الإیہام لما فی کشف الأوہام من الأوہام بہترین کتب راہنما کتب ہیں جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اصول ستہ کے رجال کی ثقاہت وضعف سمجھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتیں ہیں۔ لیکن تقریب التہذیب کی قدر ومنزلت اور اسکا تعارف بہت زیادہ ہے جسکے نتیجہ میں بسا اوقات نئے مبتدی محققین کرام صرف اسی پر ہی أکثر اعتماد کرکے کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اسی تقریب میں ابن حجر رحمہ اللہ کی قائم کردہ ایک اصطلاح مقبول بھی ہے جسکا انہوں نے تقریب کے مقدمہ میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ متابعات وشواہد میں‌ اس راوی کی روایت قبول ہے وگرنہ مردود۔ لیکن حضرت حافظ صاحب اس اصول پر یا تو پابند نہیں‌ رہ سکے اور یا پھر انکی تحقیق میں تغیر واقع ہوا (جوکہ ہر مجتہد فن میں ضرور ہوتا ہے)۔ مگر ہمارے ہاں تقریب کے مقبول کو متفرد دیکھ کر روایت کو ضعیف قرار دینے کا کام تیزی سے شروع ہو چکا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کسی راوی کو ’مقبول‘ قرار دینا ، یعنی جب حافظ صاحب کسی راوی کا رتبہ لفظ ’مقبول‘ سے بیان فرماتے ہیں تو اس کاکیا معنیٰ ہے؟ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابن حجر کے ’مقبول‘ کہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ ’مقبول‘ راوی کی حدیث جب اس کی متابعت میں نہ ہو تو ضعیف ’ہی‘ ہو تی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، حافظ صاحب علیہ الرحمہ جس راوی کو مقبول کہتے ہیں ہر اس راوی کی مرویات بوقت تفرد ضعیف نہیں ہوتیں, بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہی مقبول راوی حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حسن الحدیث ہوتا ہے یا ثقہ ثبت ہوتا ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں اسے مقبول کہہ دیتے ہیں اور پھر بعد میں دیگر تصانیف میں اس راوی کی ثقاہت معلوم ہونے پر اسے بیان فرما دیتے ہیں۔انہوں نے جب خود ایک اصطلاح وضع کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اس کا کیا مفہوم لیتے ہیں۔ جب ہم ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح کو انہی سے سمجھیں گے تو معاملہ بالکل واضح ہوجائے گا۔ حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں: الخامسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث. (تقريب التهذيب: 1/74) یعنی ایسا راوی جو قلیل الروایہ ہو, اور اسکے ضعف پہ کوئی "خاص" دلیل نہ ہو, حافظ صاحب اسے "مقبول" کا درجہ دیتے ہیں۔ اور عموما یہ راوی ایسا ہوتا ہے کہ جسکی متابعت ملنے پر یہ "مقبول" ٹھہرتا ہے وگرنہ لین الحدیث قرار پاتا۔ لیکن بسا اوقات حافظ صاحب علیہ الرحمۃ "قلیل الروایۃ ثقہ" راوی کے لیے بھی "مقبول" کا لفظ بول دیتے ہیں۔ یا تو یہ انکے سہو کی وجہ سے ہوتا ہے‘ یا راوی کی توثیق اسے مقبول قرار دینے کے بعد معلوم ہونے کی وجہ سے۔ میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک راوی کو ’مقبول‘ قرار دیا ہے اور پھراس کی ایسی روایت،جس میں وہ متفرد ہے ،کو حسن یا صحیح قراردیا ہے، ان میں سے چند مثالیں پیش ِخدمت ہیں۔ 1۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق میں فرمایا ہے کہ امام احمد نے اور اسحاق بن راہویہ نے بطریق وَكِيع ثَنَا وبر ابْن أبي دليلة شيخ من أهل الطَّائِف عَن مُحَمَّد بن مَيْمُون بن أبي مُسَيْكَة وَأثْنى عَلَيْهِ خيرا عَن عَمْرو بن الشريد عَن أَبِيه مرفوعاً یہ روایت بیان کی ہے : «ليُّ الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ» [مسند أحمد: 4/388، ط: المیمنیۃ. (19456)، ط: الرسالۃ] اور پھر اس کی تخریج کرتے ہوئے فرماتےہیں : «رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ من حَدِيث ابْن الْمُبَارك عَن وبر وَرَوَاهُ النَّسَائِيّ وَابْن ماجة من حَدِيث وَكِيع»اور پھر سند پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَهُوَ إِسْنَاد حسن» (تغليق التعليق: 3/319، طبع: المکتب الإسلامي، بیروت) حالانکہ محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکة الطائفی کے بارہ میں تقریب میں فرماتے ہیں: «مقبول من السادسۃ» (تقريب التهذيب: 1/490، (6051) ط: دار الرشید، سوریا) اور فتح الباری میں ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ الباری کے اس قول «وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ» کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ وَصَلَهُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي مُسْنَدَيْهِمَا وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ أَبِيهِ بِلَفْظِهِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَذَكَرَ الطَّبَرَانِيُّ أَنَّهُ لَا يُرْوَى إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ» ( فتح الباری: 5/62، ط: دار المعرفۃ، بیروت) اور یہی بات تلخیص الحبیر میں بھی مذکور ہے۔ [التلخيص الحبير: 3/102 (1237)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] اسی طرح امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «محمد بن عبد اللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفي عن عمرو بن الشرید وعنہ وبر بن أبي دلیلۃ فقط» [میزان الاعتدال فی نقدالرجال: 3/598، رقم الراوي: 7760، طبع: دار المعرفۃ، بیروت] یعنی اس کو روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفی متفرد ہے اور حافظ صاحب نے اس کو’’مقبول‘‘ قرارد یا ہے اور اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کو ’’حسن‘‘ قراردے رہے ہیں۔ جبکہ اس کی کوئی متابعت بھی نہیں ہے۔ 2۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں سعد بن ضمیرۃ بن سعد بن سفیان بن مالک بن حبیب کے بارہ میں فرماتے ہیں: «لہ عند أبي داؤد حدیث فی قصۃ محلم بن جثامۃ بإسناد حسن» ( الإصابة في تمييز الصحابة: 3/54، رقم الصحابي: 3175، ط: العلمیۃ، بیروت) اورا س کی حدیث سنن أبي داؤد، کتاب الدیات، باب الإمام یأمر بالعفو في الدم، (4503) بطریق محمد بن جعفر بن الزبیر از زیادہ بن سعد بن ضمیرۃ السلمی عن ابیہ مروی ہے۔ یعنی اس کی سند میں زیاد بن سعد بن ضمیرۃ السلمی متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی نہیں آتی ، نیز یہ کہ زیاد بن سعد سے اس کے علاوہ اور کوئی حدیث بھی مروی نہیں ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو ’’مقبول‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: «مقبول من الرابعۃ» (تقريب التهذيب: 1/219، رقم الراوي: 2079) تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کی بھی ’’تحسین‘‘ فرمارہے ہیں ۔ 3۔ امام بخاری نے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی روایت صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے کے بارہ میں نقل فرمائی ہے۔ صحیح البخاري، کتاب الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ (1986) حافظ صاحب علیہ الرحمۃ میں اسی حدیث کے تحت رقم طراز ہیں: «وَلَيْسَ لِجُوَيْرِيَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبُخَارِيِّ مِنْ رِوَايَتِهَا سِوَى هَذَا الْحَدِيثِ وَلَهُ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيثِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عِنْدَ النَّسَائِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ بِمَعْنَى حَدِيثِ جُوَيْرِيَةَ» فتح الباری (4/234) یعنی امام نسائی کی سنن کبریٰ میں بیان شدہ روایت بطریق: الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَذَكَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ حُذَيْفَةَ الْبَارِقِيِّ، عَنْ جُنَادَةَ الْأَزْدِيِّ، أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... الحدیث‘‘ [السننن الكبرى للنسائي: ۱۴۵/۲(۲۷۷۳)] کو حافظ صاحب ’’صحیح الاسناد‘‘قرارد ے رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں حذیفہ البارقی ، جنادۃ الازدی سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں۔ حالانکہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو «مقبول من الرابعۃ» فرمایا ہے۔ (تقريب التهذيب: 1/154، رقم الراوي: 1157) تو اس دلیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس ’’مقبول‘‘ راوی کی حدیث کا درجہ صحت وحسن کے درمیان ہے۔ 4۔ جن روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے تعلیقاً صیغہ ٔ تمریض سے ذکر کیا ہے ان کا حکم بیان کرتے ہوئے حافظ صاحب فرماتے ہیں: «فَمِنْهُ مَا هُوَ صَحِيح إِلَّا أَنه لَيْسَ على شَرطه وَمِنْه مَا هُوَ حسن وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد إِلَّا أَن الْعَمَل على مُوَافَقَته وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد لَا جَابر لَهُ» هُدَی الساری (1/18) اور پھر حسن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «وَمِثَال الْحسن قَوْله فِي الْبيُوع وَيذكر عَن عُثْمَان بن عَفَّان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ إِذَا بِعْتَ فَكِلْ وَإِذَا ابْتَعْتَ فاكتل؛ وَهَذَا الحَدِيث قد رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ [3/389، (2818)] من طَرِيق عبد الله بن الْمُغيرَة وَهُوَ صَدُوق عَن منقذ مولى سراقۃ وَقد وثق عَن عُثْمَان بِهِ ۔۔۔ انتھی» تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمہ نے عبیداللہ بن مغیرہ کی حدیث کو حسن حدیث کی مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن مغیر بن ابی بردہ الکنانی کے بارہ میں «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ تقریب (1/374، رقم الراوي: 4342) ملحوظہ: اس حدیث کو عبد بن حمید نے [1/47 (52)، ط: مکتبۃ السنۃ، القاھرۃ] ابن المبارک سے ، اور ابن ماجہ نے (2230) ابوعبدالرحمن المقریٔ سے، اور بزار [2/33، (379)، طبع: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ] نے حسن بن موسىٰ سے ، اور بىہقى نے کبرىٰ [5/514، (10696)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] مىں سعىد بن ابى مرىم سے بطرىق ابن لھیعۃ از موسىٰ بن وردان ، اسى طرح سعىد بن مسىب سے بىان کىا ہے۔ اور ىہ رواىت ابن لھىعہ کى صحىح احادىث مىں سے ہے کىونکہ ىہ عبادلہ ثلاثہ کبراء [(1) ابن مبارک (2) ابن وھب(3) اور المقرئ ] کى مروىات سے ہے۔ ىعنى ا س حدىث کو رواىت کرنے مىں عبىداللہ بن مغىرہ متفرد نہىں بلکہ سعىد بن المسىب رحمہ اللہ ان کى متابعت فرمارہے ہىں اور اسى طرح امام احمد نے بھى(444) نقل فرماىا ہے، اور طحاوى نے شرح المعانى (5539) مىں ذکر کىا ہے۔ 5۔ حافظ صاحب نے تغلىق التعلىق (436/2) مىں ذکر کىا ہے: «قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ [1/299، (3421)] أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ مُحَمَّد بن عَمْرو عَن أبي عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ الأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَأَتَى سَارِيَةً ....» اور پھر فرماىا ہے: «والإسناد حسن» جبکہ ابو عمروبن حماس اللىثى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں : «مقبول من السادسۃ» [تقريب التهذيب: 1/660، (8270)] 6۔ الاصابہ فى تمییز الصحابہ مىں فرماتے ہىں: «حبۃ بن خالد الخزاعي، وقیل العامري، أخو سواء بن خالد صحابي، نزل الکوفۃ. روى حدىثہ ابن ماجہ بإسناد حسن من طرىق الأعمش عن أبي شرحبیل عن حبۃ وسواء ابني خالد قالا: دخلنا على النبي ﷺ وھو یعالج شىئاً .... الحدىث» [الإصابة في تمييز الصحابة: 2/13، (1567)] ىعنى وہ حدىث جس کو ابن ماجہ نے (4165) ، احمد نے (15855) ، ہناد نے کتاب الزھد (2/407، ط: دار الخلفاء للکتاب الإسلامي، الکویت) مىں ، ابن سعد نے الطبقات الکبرى [6/107، (1878)، ط: العلمیۃ]مىں ، بخارى نے الادب (453) مىں مختصراً، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1466) مىں، طبرانى نے الکبىر (3479، 3480، 6610) مىں اور مزى نے تہذىب الکمال [5/355، (1077)، ط: الرسالۃ] مىں بطرىق أعمش از سلام بن شرحبیل أبو شرحبیل از حبۃ وسواء ابني خالد روایت کیا ہے۔ اور ىہ حدىث غرىب ہے کىونکہ اس کو حبة اور سواء ابني خالد سے ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے سوا اور کسى نے رواىت نہىں کىا ہے اور ابو شرحبيل سے اس کو رواىت کرنے مىں اعمش متفرد ہے اور حافظ صاحب علىہ الرحمہ نے عدم متابعت اور تفرد کے باوصف اس کو حسن قرار دىا ہے۔ جبکہ ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/261، (2707)] 7۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا فَلم يتمضمض وَلم يتَوَضَّأ» (فتح الباري: 1/313) اور اس حدىث کو ابوداؤد نے باىں سند روایت کیا ہے: «عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ مُطِيعِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ .... الحدیث» [سنن أبي داود: 197] اور اسى طرح ابن شاہىن نے الناسخ والمنسوخ [1/90، (93)، ط: المنار] مىں اور بىہقى نے الکبرى [1/248 (746)] اور ضىاء نے الاحادىث المختارہ [4/409، (1582)، ط: دار خضر] مختلف طرق سے از زىد بن الحباب از مطىع بن راشد از توبۃ العنبرى از انس رضى اللہ عنہ بىان کىا ہے۔ ىعنى مطىع بن راشد البصرى اس کو رواىت کرنے مىں متفرد ہے ، جس کو حافظ صاحب تقرىب [1/535، (6717)] مىں «مقبول من السابعۃ» فرمارہے ہىں اور اس کى حدىث کى تحسىن فرما ر ہے ہىں۔ جس سے حافظ صاحب کے ہاں اس ’’مقبول‘‘ راوى کی رواىت کا ’’درجہ‘‘ واضح ہوتا ہے۔ 8۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَقَدْ كَانَ بَعْضُ السَّلَفِ يُشَدِّدُ فِي ذَلِكَ حَتَّى كَانَ حُذَيْفَةُ إِذَا مَاتَ لَهُ الْمَيِّتُ يَقُولُ لَا تُؤْذِنُوا بِهِ أَحَدًا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ يَنْهَى عَن النعي أخرجه التِّرْمِذِيّ وابن ماجہ بِإِسْنَاد حسن» (فتح الباري: 3/117) اور اس حدىث کو امام ترمذى نے اپنى جامع مىں باىں سند روایت کیا ہے: ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ القُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ العَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى العَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ اليَمَانِ .... الحدیث أبواب الجنائز ، باب ما جاء في کراھیۃ النعي، (986) اور ابن ماجہ نے کتاب الجنائز، باب النھي عن النعي، (1476) از عمرو بن رافع از عبد اللہ ابن مبارک از حبیب بن سلیم العبسي سابقہ سند سے ہى رواىت کىا ہے۔ اور اسى طرح اس کو احمد نے مسند (23270، 23455) میں وکىع اور ىحىٰ بن آدم سےاور بىہقى نے کبرىٰ (7179) مىں مسلم بن قتىبہ سے اور مزى نے تہذىب الکمال (5/376) مىں ىحىیٰ بن آدم سے اور ان تمام نے حبىب بن سلىم از بلال ابن ىحىٰ از حذىفہ رواىت کىا ہے۔ اور امام ترمذى نے کہا ہے: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ» تو ىہ رواىت بھى سابقہ رواىات کى طرح ہے کہ حافظ صاحب نے حبيب بن سليم العبسي کے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود اس رواىت کو فتح البارى مىں اور امام ترمذى نے اپنی جامع مىں حسن صحىح قرار دىا ہے ۔ جبکہ حبىب بن سلىم کے بارہ مىں حافظ صاحب علىہ الرحمۃ تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من السابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/151، (1092)] حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نخبۃ الفکر مىں فرماتے ہىں کہ : «فإِنْ جُمِعا؛ أي: الصَّحيحُ والحسنُ في وصفِ [حديثٍ] واحدٍ؛ كقولِ التِّرمذيِّ وغيرِه: [حديثٌ] حَسَنٌ صحيحٌ؛ فللتَّرَدُّدِ الحاصلِ مِن المُجتهدِ في النَّاقِلِ» (نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر، ص: 66، ط: مطبعۃ الصباح) ىعنى امام ترمذى رحمہ اللہ جب کسى راوى کے بارہ مىں متردد ہو تے ہىں کہ ىہ تام الضبط ہے ىا خفىف الضبط اور وہ راوى اس کے بىان کرنے مىں متفرد ہو تا ہے تو اس کى حدىث کو ’’حسن صحىح‘‘ فرمادىتے ہىں۔ جىسا کہ اس مثال مىں سے واضح ہو رہا ہے اور مثال نمبر 4 مىں متفرد ’’مقبول‘‘ کى رواىت کو ’’صحىح‘‘ قرارد ىا ہے جس سے ہمارے موقف کى مزىد تائىد ہوتى ہے۔ 9۔ الاصابۃ مىں حازم بن حرملۃ بن مسعود الغفارى رضى اللہ عنہ کے بارہ مىں فرماتے ہىں: « له حديث في الإكثار من الحوقلة. روى عنه أبو زينب مولاه. أخرجه ابن ماجة، وابن أبي عاصم في الوحدان، والطّبراني وغيرهم: كلّهم في الحاء المهملة، وإسناده حسن. » الإصابۃ فى تمییز الصحابہ (2/3) ىعنى وہ حدىث جسے ابن ماجہ نے باىں سند روایت کیا ہے : «حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زَيْنَبَ، مَوْلَى حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ قَالَ: مَرَرْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: يَا حَازِمُ أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ» [کتاب الأدب، باب ما جاء في لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، (3826)] اسى طرح بخارى نے تارىخ کبىر [3/109، (370)، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد دکن] ، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1000)، طبرانى نے کبىر (3565)، ابو احمد العسکرى نے تصحىفات المحدثىن (2/536، ط: المطبعۃ العربیۃ الحدیثۃ، القاھرۃ)، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابہ [2/864، (2249)، ط: دار الوطن، الریاض] اور مزى نے تہذىب الکمال [5/319، (1060)] مىں مختلف طرق سے از محمد بن معن بن نضلۃ الغفارى از خالد بن سعيد از ابي زىنب مولى حازم بن حرملہ از حازم بن حرملة رضى اللہ عنہ رواىت کىا ہے۔ اور ىہ مدنى غرىب حدىث ہے اس کو حازم بن حرملہ سے اس کے مولى ابو زىنب کے علاوہ اور کسى نے رواىت نہىں کىا اور ابو زىنب سے رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد بن ابى مرىم القرشى التميمى المدني مولى جدعان متفرد ہے۔ اور ابن حجر نے اس رواىت کو حسن قرار دىا ہے جبکہ اس کو رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد متفرد ہے اور حافظ صاحب نے تقرىب مىں اس کو «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ [1/188، (1640)] 10۔ الاصابہ مىں فرماتے ہىں: «بسر بن جحاش، بكسر الجيم بعدها مهملة خفيفة، ويقال بفتحها بعدها مثقّلة وبعد الألف معجمة. قرشيّ. نزل حمص، قاله محمود بن سميع، وذكر أنه من بني عامر بن لؤيّ. قال ابن مندة: أهل العراق يقولونه بسر- بالمهملة، وأهل الشّام يقولونه بالمعجمة. وقال الدّارقطنيّ وابن زبر: لا يصحّ بالمعجمة، وكذا ضبطه بالمهملة أبو عليّ الهجريّ في «نوادره» لكن سمّى أباه جحشا. وقال مسلم وابن السكن وغيرهما: لم يرو عنه جبير بن نفير، وحديثه عند أحمد وابن ماجة من طريقه بإسناد صحيح.» الإصابۃ فى تمییز الصحابہ [1/423 (644)] اور اس حدىث کو احمد نے (17844) باىں سند رواىت کىا ہے: «حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَصَقَ يَوْمًا فِي كَفِّهِ فَوَضَعَ عَلَيْهَا أُصْبُعَهُ، ثُمَّ قَالَ: " قَالَ اللهُ: بَنِي آدَمَ .... الحدیث» اور اسى طرح اس کو ابن ماجہ نے کتاب الوصاىا، باب النھي عن الإمساك في الحياۃ والتبذیر عند الموت، (2707)، ابن سعد نے طبقات [7/298 (3769)]، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (869)، طبرانى نے کبىر (1193، 1194) و مسند الشامیىن (469)، ابن قانع نے معجم الصحابۃ (1/76، طبع: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ) اور حاکم نے (3855) ، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابۃ (1224، 1225)، بىہقى نے شعب الاىمان (3198)اور علامہ مزى نے تہذىب الکمال [4/72، (667)] مىں مختلف طرق سے از عبد الرحمن بن میسرۃ از جبیر بن نفیر از بسر بن جحاش اسى طرح رواىت کىا ہے۔ اور ىہ حدىث شامى غرىب ہے، کىونکہ جبىر بن نفىر کے علاوہ اور کسى نے اس کو بسر بن جحاش سے رواىت نہىں کىا اور جبىر سے رواىت کرنے مىں عبدالرحمن بن مىسرہ الحمصى متفرد ہے۔ اور حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نے تفر د عبدالرحمن بن مىسرہ اورعدم متابعت کے باوصف اس کو صحىح قرارد ىا ہے ، جبکہ عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ الحمصى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [1/351، (4022)] ملحوظہ: عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ شامى مشہور تابعى ہىں ، ثقہ ہىں اور کثىر الرواىۃ ہىں۔ صحابہ مىں سے ابو امامہ الباہلى ، مقدام بن معدى کرب وغىرہ سے علم حدىث سنا ہے اور ابوداؤد ، عجلى ، ابن حبان اور ذہبى نے انھىں ثقہ قرارد ىا ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ ىہ دس مثالىں اس بات پر دلىل ہىں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدىک مقبول راوى کى رواىت بھی کبھی حسن وصحت کے درمىان ہوتی ہے ، خواہ اس کى متابعت موجود ہوىانہ ہو۔ اور واضع مصطلح ہى اپنى مصطلح کا حقىقى معنى زىادہ بہتر طور پر سمجھتاہے۔ تَمَّ بحمد اللہ، ھذا ما عندي والعلم عند اللہ وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم الراجى الى مغفرۃ ربہ الظاھر ابو عبد الرحمن محمد رفیق الطاہر 1429/04/02 ھــ

مصدر: http://www.rafiqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=989
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح ’’مقبول‘‘ ۔
تحریر: ابو محمد شحاتہ الالفی الاسکندری
ترجمہ و تنقیح : ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر علم رجال کے مبتدی طالبعلم کے لیے ابن حجر کی تقریب التہذیب ذہبی کی کاشف اور متأخرین کی کتب میں سے تحریر تقریب التہذیب اور کشف الأوہام لما فی تحریر التقریب من الأوہام اور الإیہام لما فی کشف الأوہام من الأوہام بہترین کتب راہنما کتب ہیں جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اصول ستہ کے رجال کی ثقاہت وضعف سمجھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتیں ہیں۔ لیکن تقریب التہذیب کی قدر ومنزلت اور اسکا تعارف بہت زیادہ ہے جسکے نتیجہ میں بسا اوقات نئے مبتدی محققین کرام صرف اسی پر ہی أکثر اعتماد کرکے کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اسی تقریب میں ابن حجر رحمہ اللہ کی قائم کردہ ایک اصطلاح مقبول بھی ہے جسکا انہوں نے تقریب کے مقدمہ میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ متابعات وشواہد میں‌ اس راوی کی روایت قبول ہے وگرنہ مردود۔ لیکن حضرت حافظ صاحب اس اصول پر یا تو پابند نہیں‌ رہ سکے اور یا پھر انکی تحقیق میں تغیر واقع ہوا (جوکہ ہر مجتہد فن میں ضرور ہوتا ہے)۔ مگر ہمارے ہاں تقریب کے مقبول کو متفرد دیکھ کر روایت کو ضعیف قرار دینے کا کام تیزی سے شروع ہو چکا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کسی راوی کو ’مقبول‘ قرار دینا ، یعنی جب حافظ صاحب کسی راوی کا رتبہ لفظ ’مقبول‘ سے بیان فرماتے ہیں تو اس کاکیا معنیٰ ہے؟ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابن حجر کے ’مقبول‘ کہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ ’مقبول‘ راوی کی حدیث جب اس کی متابعت میں نہ ہو تو ضعیف ’ہی‘ ہو تی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، حافظ صاحب علیہ الرحمہ جس راوی کو مقبول کہتے ہیں ہر اس راوی کی مرویات بوقت تفرد ضعیف نہیں ہوتیں, بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہی مقبول راوی حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حسن الحدیث ہوتا ہے یا ثقہ ثبت ہوتا ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں اسے مقبول کہہ دیتے ہیں اور پھر بعد میں دیگر تصانیف میں اس راوی کی ثقاہت معلوم ہونے پر اسے بیان فرما دیتے ہیں۔انہوں نے جب خود ایک اصطلاح وضع کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اس کا کیا مفہوم لیتے ہیں۔ جب ہم ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح کو انہی سے سمجھیں گے تو معاملہ بالکل واضح ہوجائے گا۔ حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں: الخامسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث. (تقريب التهذيب: 1/74) یعنی ایسا راوی جو قلیل الروایہ ہو, اور اسکے ضعف پہ کوئی "خاص" دلیل نہ ہو, حافظ صاحب اسے "مقبول" کا درجہ دیتے ہیں۔ اور عموما یہ راوی ایسا ہوتا ہے کہ جسکی متابعت ملنے پر یہ "مقبول" ٹھہرتا ہے وگرنہ لین الحدیث قرار پاتا۔ لیکن بسا اوقات حافظ صاحب علیہ الرحمۃ "قلیل الروایۃ ثقہ" راوی کے لیے بھی "مقبول" کا لفظ بول دیتے ہیں۔ یا تو یہ انکے سہو کی وجہ سے ہوتا ہے‘ یا راوی کی توثیق اسے مقبول قرار دینے کے بعد معلوم ہونے کی وجہ سے۔ میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک راوی کو ’مقبول‘ قرار دیا ہے اور پھراس کی ایسی روایت،جس میں وہ متفرد ہے ،کو حسن یا صحیح قراردیا ہے، ان میں سے چند مثالیں پیش ِخدمت ہیں۔ 1۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق میں فرمایا ہے کہ امام احمد نے اور اسحاق بن راہویہ نے بطریق وَكِيع ثَنَا وبر ابْن أبي دليلة شيخ من أهل الطَّائِف عَن مُحَمَّد بن مَيْمُون بن أبي مُسَيْكَة وَأثْنى عَلَيْهِ خيرا عَن عَمْرو بن الشريد عَن أَبِيه مرفوعاً یہ روایت بیان کی ہے : «ليُّ الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ» [مسند أحمد: 4/388، ط: المیمنیۃ. (19456)، ط: الرسالۃ] اور پھر اس کی تخریج کرتے ہوئے فرماتےہیں : «رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ من حَدِيث ابْن الْمُبَارك عَن وبر وَرَوَاهُ النَّسَائِيّ وَابْن ماجة من حَدِيث وَكِيع»اور پھر سند پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَهُوَ إِسْنَاد حسن» (تغليق التعليق: 3/319، طبع: المکتب الإسلامي، بیروت) حالانکہ محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکة الطائفی کے بارہ میں تقریب میں فرماتے ہیں: «مقبول من السادسۃ» (تقريب التهذيب: 1/490، (6051) ط: دار الرشید، سوریا) اور فتح الباری میں ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ الباری کے اس قول «وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ» کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : «وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ وَصَلَهُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي مُسْنَدَيْهِمَا وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ عَنْ أَبِيهِ بِلَفْظِهِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَذَكَرَ الطَّبَرَانِيُّ أَنَّهُ لَا يُرْوَى إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ» ( فتح الباری: 5/62، ط: دار المعرفۃ، بیروت) اور یہی بات تلخیص الحبیر میں بھی مذکور ہے۔ [التلخيص الحبير: 3/102 (1237)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] اسی طرح امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «محمد بن عبد اللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفي عن عمرو بن الشرید وعنہ وبر بن أبي دلیلۃ فقط» [میزان الاعتدال فی نقدالرجال: 3/598، رقم الراوي: 7760، طبع: دار المعرفۃ، بیروت] یعنی اس کو روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفی متفرد ہے اور حافظ صاحب نے اس کو’’مقبول‘‘ قرارد یا ہے اور اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کو ’’حسن‘‘ قراردے رہے ہیں۔ جبکہ اس کی کوئی متابعت بھی نہیں ہے۔ 2۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں سعد بن ضمیرۃ بن سعد بن سفیان بن مالک بن حبیب کے بارہ میں فرماتے ہیں: «لہ عند أبي داؤد حدیث فی قصۃ محلم بن جثامۃ بإسناد حسن» ( الإصابة في تمييز الصحابة: 3/54، رقم الصحابي: 3175، ط: العلمیۃ، بیروت) اورا س کی حدیث سنن أبي داؤد، کتاب الدیات، باب الإمام یأمر بالعفو في الدم، (4503) بطریق محمد بن جعفر بن الزبیر از زیادہ بن سعد بن ضمیرۃ السلمی عن ابیہ مروی ہے۔ یعنی اس کی سند میں زیاد بن سعد بن ضمیرۃ السلمی متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی نہیں آتی ، نیز یہ کہ زیاد بن سعد سے اس کے علاوہ اور کوئی حدیث بھی مروی نہیں ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو ’’مقبول‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: «مقبول من الرابعۃ» (تقريب التهذيب: 1/219، رقم الراوي: 2079) تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اپنے اس ’’مقبول‘‘ کی روایت کی بھی ’’تحسین‘‘ فرمارہے ہیں ۔ 3۔ امام بخاری نے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی روایت صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے کے بارہ میں نقل فرمائی ہے۔ صحیح البخاري، کتاب الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ (1986) حافظ صاحب علیہ الرحمۃ میں اسی حدیث کے تحت رقم طراز ہیں: «وَلَيْسَ لِجُوَيْرِيَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبُخَارِيِّ مِنْ رِوَايَتِهَا سِوَى هَذَا الْحَدِيثِ وَلَهُ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيثِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عِنْدَ النَّسَائِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ بِمَعْنَى حَدِيثِ جُوَيْرِيَةَ» فتح الباری (4/234) یعنی امام نسائی کی سنن کبریٰ میں بیان شدہ روایت بطریق: الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَذَكَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ حُذَيْفَةَ الْبَارِقِيِّ، عَنْ جُنَادَةَ الْأَزْدِيِّ، أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... الحدیث‘‘ [السننن الكبرى للنسائي: ۱۴۵/۲(۲۷۷۳)] کو حافظ صاحب ’’صحیح الاسناد‘‘قرارد ے رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں حذیفہ البارقی ، جنادۃ الازدی سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں۔ حالانکہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے تقریب میں اس کو «مقبول من الرابعۃ» فرمایا ہے۔ (تقريب التهذيب: 1/154، رقم الراوي: 1157) تو اس دلیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس ’’مقبول‘‘ راوی کی حدیث کا درجہ صحت وحسن کے درمیان ہے۔ 4۔ جن روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے تعلیقاً صیغہ ٔ تمریض سے ذکر کیا ہے ان کا حکم بیان کرتے ہوئے حافظ صاحب فرماتے ہیں: «فَمِنْهُ مَا هُوَ صَحِيح إِلَّا أَنه لَيْسَ على شَرطه وَمِنْه مَا هُوَ حسن وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد إِلَّا أَن الْعَمَل على مُوَافَقَته وَمِنْه مَا هُوَ ضَعِيف فَرد لَا جَابر لَهُ» هُدَی الساری (1/18) اور پھر حسن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «وَمِثَال الْحسن قَوْله فِي الْبيُوع وَيذكر عَن عُثْمَان بن عَفَّان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ إِذَا بِعْتَ فَكِلْ وَإِذَا ابْتَعْتَ فاكتل؛ وَهَذَا الحَدِيث قد رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ [3/389، (2818)] من طَرِيق عبد الله بن الْمُغيرَة وَهُوَ صَدُوق عَن منقذ مولى سراقۃ وَقد وثق عَن عُثْمَان بِهِ ۔۔۔ انتھی» تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمہ نے عبیداللہ بن مغیرہ کی حدیث کو حسن حدیث کی مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن مغیر بن ابی بردہ الکنانی کے بارہ میں «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ تقریب (1/374، رقم الراوي: 4342) ملحوظہ: اس حدیث کو عبد بن حمید نے [1/47 (52)، ط: مکتبۃ السنۃ، القاھرۃ] ابن المبارک سے ، اور ابن ماجہ نے (2230) ابوعبدالرحمن المقریٔ سے، اور بزار [2/33، (379)، طبع: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ] نے حسن بن موسىٰ سے ، اور بىہقى نے کبرىٰ [5/514، (10696)، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت] مىں سعىد بن ابى مرىم سے بطرىق ابن لھیعۃ از موسىٰ بن وردان ، اسى طرح سعىد بن مسىب سے بىان کىا ہے۔ اور ىہ رواىت ابن لھىعہ کى صحىح احادىث مىں سے ہے کىونکہ ىہ عبادلہ ثلاثہ کبراء [(1) ابن مبارک (2) ابن وھب(3) اور المقرئ ] کى مروىات سے ہے۔ ىعنى ا س حدىث کو رواىت کرنے مىں عبىداللہ بن مغىرہ متفرد نہىں بلکہ سعىد بن المسىب رحمہ اللہ ان کى متابعت فرمارہے ہىں اور اسى طرح امام احمد نے بھى(444) نقل فرماىا ہے، اور طحاوى نے شرح المعانى (5539) مىں ذکر کىا ہے۔ 5۔ حافظ صاحب نے تغلىق التعلىق (436/2) مىں ذکر کىا ہے: «قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ [1/299، (3421)] أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ مُحَمَّد بن عَمْرو عَن أبي عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ الأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَأَتَى سَارِيَةً ....» اور پھر فرماىا ہے: «والإسناد حسن» جبکہ ابو عمروبن حماس اللىثى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں : «مقبول من السادسۃ» [تقريب التهذيب: 1/660، (8270)] 6۔ الاصابہ فى تمییز الصحابہ مىں فرماتے ہىں: «حبۃ بن خالد الخزاعي، وقیل العامري، أخو سواء بن خالد صحابي، نزل الکوفۃ. روى حدىثہ ابن ماجہ بإسناد حسن من طرىق الأعمش عن أبي شرحبیل عن حبۃ وسواء ابني خالد قالا: دخلنا على النبي ﷺ وھو یعالج شىئاً .... الحدىث» [الإصابة في تمييز الصحابة: 2/13، (1567)] ىعنى وہ حدىث جس کو ابن ماجہ نے (4165) ، احمد نے (15855) ، ہناد نے کتاب الزھد (2/407، ط: دار الخلفاء للکتاب الإسلامي، الکویت) مىں ، ابن سعد نے الطبقات الکبرى [6/107، (1878)، ط: العلمیۃ]مىں ، بخارى نے الادب (453) مىں مختصراً، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1466) مىں، طبرانى نے الکبىر (3479، 3480، 6610) مىں اور مزى نے تہذىب الکمال [5/355، (1077)، ط: الرسالۃ] مىں بطرىق أعمش از سلام بن شرحبیل أبو شرحبیل از حبۃ وسواء ابني خالد روایت کیا ہے۔ اور ىہ حدىث غرىب ہے کىونکہ اس کو حبة اور سواء ابني خالد سے ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے سوا اور کسى نے رواىت نہىں کىا ہے اور ابو شرحبيل سے اس کو رواىت کرنے مىں اعمش متفرد ہے اور حافظ صاحب علىہ الرحمہ نے عدم متابعت اور تفرد کے باوصف اس کو حسن قرار دىا ہے۔ جبکہ ابو شرحبيل سلام بن شرحبيل کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/261، (2707)] 7۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا فَلم يتمضمض وَلم يتَوَضَّأ» (فتح الباري: 1/313) اور اس حدىث کو ابوداؤد نے باىں سند روایت کیا ہے: «عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، عَنْ مُطِيعِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ .... الحدیث» [سنن أبي داود: 197] اور اسى طرح ابن شاہىن نے الناسخ والمنسوخ [1/90، (93)، ط: المنار] مىں اور بىہقى نے الکبرى [1/248 (746)] اور ضىاء نے الاحادىث المختارہ [4/409، (1582)، ط: دار خضر] مختلف طرق سے از زىد بن الحباب از مطىع بن راشد از توبۃ العنبرى از انس رضى اللہ عنہ بىان کىا ہے۔ ىعنى مطىع بن راشد البصرى اس کو رواىت کرنے مىں متفرد ہے ، جس کو حافظ صاحب تقرىب [1/535، (6717)] مىں «مقبول من السابعۃ» فرمارہے ہىں اور اس کى حدىث کى تحسىن فرما ر ہے ہىں۔ جس سے حافظ صاحب کے ہاں اس ’’مقبول‘‘ راوى کی رواىت کا ’’درجہ‘‘ واضح ہوتا ہے۔ 8۔ فتح البارى مىں فرماتے ہىں: «وَقَدْ كَانَ بَعْضُ السَّلَفِ يُشَدِّدُ فِي ذَلِكَ حَتَّى كَانَ حُذَيْفَةُ إِذَا مَاتَ لَهُ الْمَيِّتُ يَقُولُ لَا تُؤْذِنُوا بِهِ أَحَدًا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ يَنْهَى عَن النعي أخرجه التِّرْمِذِيّ وابن ماجہ بِإِسْنَاد حسن» (فتح الباري: 3/117) اور اس حدىث کو امام ترمذى نے اپنى جامع مىں باىں سند روایت کیا ہے: ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ القُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ العَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى العَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ اليَمَانِ .... الحدیث أبواب الجنائز ، باب ما جاء في کراھیۃ النعي، (986) اور ابن ماجہ نے کتاب الجنائز، باب النھي عن النعي، (1476) از عمرو بن رافع از عبد اللہ ابن مبارک از حبیب بن سلیم العبسي سابقہ سند سے ہى رواىت کىا ہے۔ اور اسى طرح اس کو احمد نے مسند (23270، 23455) میں وکىع اور ىحىٰ بن آدم سےاور بىہقى نے کبرىٰ (7179) مىں مسلم بن قتىبہ سے اور مزى نے تہذىب الکمال (5/376) مىں ىحىیٰ بن آدم سے اور ان تمام نے حبىب بن سلىم از بلال ابن ىحىٰ از حذىفہ رواىت کىا ہے۔ اور امام ترمذى نے کہا ہے: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ» تو ىہ رواىت بھى سابقہ رواىات کى طرح ہے کہ حافظ صاحب نے حبيب بن سليم العبسي کے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود اس رواىت کو فتح البارى مىں اور امام ترمذى نے اپنی جامع مىں حسن صحىح قرار دىا ہے ۔ جبکہ حبىب بن سلىم کے بارہ مىں حافظ صاحب علىہ الرحمۃ تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من السابعۃ» [تقريب التهذيب: 1/151، (1092)] حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نخبۃ الفکر مىں فرماتے ہىں کہ : «فإِنْ جُمِعا؛ أي: الصَّحيحُ والحسنُ في وصفِ [حديثٍ] واحدٍ؛ كقولِ التِّرمذيِّ وغيرِه: [حديثٌ] حَسَنٌ صحيحٌ؛ فللتَّرَدُّدِ الحاصلِ مِن المُجتهدِ في النَّاقِلِ» (نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر، ص: 66، ط: مطبعۃ الصباح) ىعنى امام ترمذى رحمہ اللہ جب کسى راوى کے بارہ مىں متردد ہو تے ہىں کہ ىہ تام الضبط ہے ىا خفىف الضبط اور وہ راوى اس کے بىان کرنے مىں متفرد ہو تا ہے تو اس کى حدىث کو ’’حسن صحىح‘‘ فرمادىتے ہىں۔ جىسا کہ اس مثال مىں سے واضح ہو رہا ہے اور مثال نمبر 4 مىں متفرد ’’مقبول‘‘ کى رواىت کو ’’صحىح‘‘ قرارد ىا ہے جس سے ہمارے موقف کى مزىد تائىد ہوتى ہے۔ 9۔ الاصابۃ مىں حازم بن حرملۃ بن مسعود الغفارى رضى اللہ عنہ کے بارہ مىں فرماتے ہىں: « له حديث في الإكثار من الحوقلة. روى عنه أبو زينب مولاه. أخرجه ابن ماجة، وابن أبي عاصم في الوحدان، والطّبراني وغيرهم: كلّهم في الحاء المهملة، وإسناده حسن. » الإصابۃ فى تمییز الصحابہ (2/3) ىعنى وہ حدىث جسے ابن ماجہ نے باىں سند روایت کیا ہے : «حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زَيْنَبَ، مَوْلَى حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ قَالَ: مَرَرْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: يَا حَازِمُ أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ» [کتاب الأدب، باب ما جاء في لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، (3826)] اسى طرح بخارى نے تارىخ کبىر [3/109، (370)، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد دکن] ، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (1000)، طبرانى نے کبىر (3565)، ابو احمد العسکرى نے تصحىفات المحدثىن (2/536، ط: المطبعۃ العربیۃ الحدیثۃ، القاھرۃ)، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابہ [2/864، (2249)، ط: دار الوطن، الریاض] اور مزى نے تہذىب الکمال [5/319، (1060)] مىں مختلف طرق سے از محمد بن معن بن نضلۃ الغفارى از خالد بن سعيد از ابي زىنب مولى حازم بن حرملہ از حازم بن حرملة رضى اللہ عنہ رواىت کىا ہے۔ اور ىہ مدنى غرىب حدىث ہے اس کو حازم بن حرملہ سے اس کے مولى ابو زىنب کے علاوہ اور کسى نے رواىت نہىں کىا اور ابو زىنب سے رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد بن ابى مرىم القرشى التميمى المدني مولى جدعان متفرد ہے۔ اور ابن حجر نے اس رواىت کو حسن قرار دىا ہے جبکہ اس کو رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد متفرد ہے اور حافظ صاحب نے تقرىب مىں اس کو «مقبول من الرابعۃ» کہا ہے۔ [1/188، (1640)] 10۔ الاصابہ مىں فرماتے ہىں: «بسر بن جحاش، بكسر الجيم بعدها مهملة خفيفة، ويقال بفتحها بعدها مثقّلة وبعد الألف معجمة. قرشيّ. نزل حمص، قاله محمود بن سميع، وذكر أنه من بني عامر بن لؤيّ. قال ابن مندة: أهل العراق يقولونه بسر- بالمهملة، وأهل الشّام يقولونه بالمعجمة. وقال الدّارقطنيّ وابن زبر: لا يصحّ بالمعجمة، وكذا ضبطه بالمهملة أبو عليّ الهجريّ في «نوادره» لكن سمّى أباه جحشا. وقال مسلم وابن السكن وغيرهما: لم يرو عنه جبير بن نفير، وحديثه عند أحمد وابن ماجة من طريقه بإسناد صحيح.» الإصابۃ فى تمییز الصحابہ [1/423 (644)] اور اس حدىث کو احمد نے (17844) باىں سند رواىت کىا ہے: «حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَصَقَ يَوْمًا فِي كَفِّهِ فَوَضَعَ عَلَيْهَا أُصْبُعَهُ، ثُمَّ قَالَ: " قَالَ اللهُ: بَنِي آدَمَ .... الحدیث» اور اسى طرح اس کو ابن ماجہ نے کتاب الوصاىا، باب النھي عن الإمساك في الحياۃ والتبذیر عند الموت، (2707)، ابن سعد نے طبقات [7/298 (3769)]، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (869)، طبرانى نے کبىر (1193، 1194) و مسند الشامیىن (469)، ابن قانع نے معجم الصحابۃ (1/76، طبع: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ) اور حاکم نے (3855) ، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابۃ (1224، 1225)، بىہقى نے شعب الاىمان (3198)اور علامہ مزى نے تہذىب الکمال [4/72، (667)] مىں مختلف طرق سے از عبد الرحمن بن میسرۃ از جبیر بن نفیر از بسر بن جحاش اسى طرح رواىت کىا ہے۔ اور ىہ حدىث شامى غرىب ہے، کىونکہ جبىر بن نفىر کے علاوہ اور کسى نے اس کو بسر بن جحاش سے رواىت نہىں کىا اور جبىر سے رواىت کرنے مىں عبدالرحمن بن مىسرہ الحمصى متفرد ہے۔ اور حافظ صاحب علىہ الرحمۃ نے تفر د عبدالرحمن بن مىسرہ اورعدم متابعت کے باوصف اس کو صحىح قرارد ىا ہے ، جبکہ عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ الحمصى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں: «مقبول من الرابعۃ» [1/351، (4022)] ملحوظہ: عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ شامى مشہور تابعى ہىں ، ثقہ ہىں اور کثىر الرواىۃ ہىں۔ صحابہ مىں سے ابو امامہ الباہلى ، مقدام بن معدى کرب وغىرہ سے علم حدىث سنا ہے اور ابوداؤد ، عجلى ، ابن حبان اور ذہبى نے انھىں ثقہ قرارد ىا ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ ىہ دس مثالىں اس بات پر دلىل ہىں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدىک مقبول راوى کى رواىت بھی کبھی حسن وصحت کے درمىان ہوتی ہے ، خواہ اس کى متابعت موجود ہوىانہ ہو۔ اور واضع مصطلح ہى اپنى مصطلح کا حقىقى معنى زىادہ بہتر طور پر سمجھتاہے۔ تَمَّ بحمد اللہ، ھذا ما عندي والعلم عند اللہ وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم الراجى الى مغفرۃ ربہ الظاھر ابو عبد الرحمن محمد رفیق الطاہر 1429/04/02 ھــ

مصدر: http://www.rafiqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=989
یہ موقف ابن حجر کی تقریب میں صراحت کے خلاف ہے۔
رہی بات یہ کہ ابن حجر جس راوی کو مقبول کہتے ہیں کسی اور جگہ پر اس کی روایت کی تحسین یا تصحیح کرتے ہیں، تو اس سے ابن حجر کی تقریب میں ’مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث‘ والی وضاحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
کیونکہ تقریب میں مقبول کہہ کر کسی اور جگہ تصحیح کی، تو احتمال ہے کہ حافظ ابن حجر کا اس راوی کے متعلق حکم بدل گیا ہو، کیونکہ خود ابن حجر تقریب میں راوی پر ایک حکم لگاتے ہیں، لیکن دیگر کتب میں اس سے مختلف حکم ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ابن حجر راوی کی اس روایت کی تحسین یا تصحیح متابعات کی بنا پر کر رہے ہوں، ایسی صورت میں تو ان کی تقریب میں عبارت کے ساتھ کوئی اشکال ہی نہیں رہتا۔
یہ عربی تحریر بعض واٹس ایپ مجموعہ جات میں بھی چل رہی ہے، اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ ابن حجر سے خود مقبول کو سمجھیں، لیکن خود ابن حجر کی تقریب کے مقدمے میں عبارت کو ہی یہ صاحب بھول گئے ہیں، اور کمزور ترین احتمالات کی بنا پر ایک غلط رائے قائم کرلی ہے۔
 
Top