• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن حزم اندلسی

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
امام حافظ ابومحمد علی ابن احمد بن حزم اندلسی رحمہ اللہ

384ھ تا 456ھ

امام بن حزم محدث ۔ مجتہد فقیہ ۔ سیرت نگار ۔ مُؤرِّخ ۔ ماہر الانساب ۔ مناظر ۔ ماہر نفسیات ۔ ادیب ۔ شاعر ۔ نقاد فلسفہ و علم الکلام اور تین خلفاء کے وزیر تھے.
1 نام و نسب
ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح بن خلف بن معدان بن سفيان بن يزيد ، الفارسي الأصل آپ اصل میں فارس کے باشندے تھے آپ کے خاندان سے خلف بن معدان پہلے شخص ہیں جو اندلس میں داخل ہوئے ۔ یزید بن ابو سفیان کی طرف نسبت ولاء کی وجہ سے اموی کہلاتے تھے۔
2 ولادت اور وطن
امام بن حزم رمضان المبارک کی آخری شب بروز بدھ 384ھ بمطابق 7 نومبر 994ء کو قرطبہ کے مشرقی جانب محلہ منیةالمغیرة میں پیدا ہوئے .
3 ابتدائی تعلیم و تربیت اور اساتذہ
آپ کے والد منصور عامری متوفیٰ 393ھ اور اسکے بیٹے المظفر متوفیٰ 399ھ کے وزیر تھے۔ اس لیے ابتدائی زندگی خوش حالی میں گزری۔ ابتدائی تعلیم وتربیت خواتین ۔ مربی اور ان اساتذہ سے حاصل کی جو آپ کے والد کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے۔ امام ابن حزم کے تمام اساتذہ کا شمار ایک مشکل امر ہے تا ہم کتب ابن حزمؒ اورکتب تراجم سے جن اساتذہ کا تذکرہ مل سکا وہ یہ ہیں۔
1۔ يحيى عبدالرحمان بن مسعود بن وجه الجنہ۔ 402ھ، 2۔ احمد بن قاسم بن أصبغ البیانی۔ 430ھ، 3۔ عمر أحمد بن محمد بن احمد ابن الجسور الاموی۔ 401ھ، 4۔ يونس بن عبد الله بن محمد بن مغيث ابن الصغار القرطبی۔ 429ھ، 5۔ حمام بن أحمد بن عبداللہ الاطروش القرطبي۔421ھ، 6۔ محمد بن سعيد بن عمر بن نبات الاموی۔ 425ھ، 7۔ عبد الله بن ربيع بن عبداللہ التميمي۔415ھ، 8۔ عبد الرحمن بن عبد الله بن خالدالہمدانی۔411ھ، 9۔ عبد الله بن محمد بن عثمان، 10۔ أحمد بن محمد بن عبداللہ المقری الطلمنكي۔ 429ھ، 11۔ عبد الله بن محمد بن يوسف بن نصر ابن الفرضی۔ 403ھ، 12۔ أحمد بن قاسم بن محمد بن قاسم بن أصبغ، 13۔ یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر المزی۔ 463ھ، 14۔ أحمد بن عمر بن أنس العذري المری ابن الدلائی۔ 478ھ، 15۔ عبداللہ بن یوسف نامی القرطبی۔ 435ھ، 16۔ عبداللہ بن ابراہیم بن محمد الاصیلی۔ 392ھ، 17۔ محمد بن عیسی بن محمد الوراق قاضی طرطوشہ م بعد 396ھ، 18۔ عبدالرحمان بن ابی یزید المصری۔ 401ھ، 19۔ محمد بن عبدالرحمان بن محمد الکتانی۔ 408ھ، 20۔ احسان بن مالک بن ابی عبدة الوزیر۔ 416ھ، 21۔ عبداللہ بن عبدالرحمان الجحاف المعافری۔ 418ھ، 22۔ محمد بن حسن المذحجی الکتانی۔ 420ھ، 23۔ خلف مولی الحاجب جعفر الفتی الجعفری۔ 425ھ، 24۔ مسعود بن سلمان بن مفلت ابوالخیار۔ 426، 25۔ ثابت بن محمد الجرجانی العدوی۔ 431ھ، 26۔ عبداللہ بن یحیی بن احمد بن دحون۔ 431ھ، 27۔ محمد بن عبدالواحد محمد الزبیری۔ م بعد 434، 28۔ المہلب بن احمد بن اسید بن ابی صغرة التمیمی۔ 435ھ، 29۔ محمد بن عبداللہ البکری الترمذی ۔ 436ھ، 30۔ احمد بن اسماعیل دیلم الخضری۔م قبل 440ھ، 31۔ محمد بن الحسن بن عبدالرحمان الرازی م بعد 450ھ، 32۔ محمد بن اسماعیل العذری ابن الفور تش۔ 453ھ، 33۔ علی بن محمد عباد الانصاری الاشبیلی۔ 456ھ۔ وغیرہ۔
4 ابن حزم کی عفِِّت و عصمت کا راز
ان الفاظ میں ابن حزم اپنی عفت و عصمت کا راز بیان کرتے ہیں اس ناز و نعمت کی زندگی میں مرد اور عورتیں ان کی عفت کے نگہبان تھے۔ عورتیں یوں بھی مرد کے فتنہ میں مبتلا ہونے کے وقت اس کی نگہداشت کا فریضہ بہت اچھی طرح سے ادا کر سکتی ہیں۔ وہ اس کی ہر حرکت کا نوٹس لیٹی ہیں یہاں تک کہ جنبشِ نگاہ اور چہرے کے اتار چڑھاؤ تک کو دیکھتی رہتی ہیں ۔ ابن حزم کی حفاظت و نگہداشت کا اہتمام کرنے والے ان کے گرامی قدر والد تھے جنہیں ان کی تربیت کی فکر ہر وقت دامنگیر رہتی تھی جو اس بات کے حریص تھے کہ ناز و نعمت کے اس ماحول میں ابن حزم کی سیرت و کردار محفوظ و مصئون رہے ۔ صرف حفاظت و نگہداشت ہی ابن حزم کے تقویٰ اور طہارت کا موجب نہ تھی بلکہ تحفظِّ حِسّی کے دوش بدوش روحانی قیادت بھی ان کی ممد و معاون تھی ابن حزم ابھی جوان بھی نہ ہونے پائے تھے کہ ان کے والد نے انہیں ایک نیک نہاد خوش اخلاق عالم دین کی صحبت میں بٹھا دیا۔ یہ عالم عورتوں سے الگ تھلگ رہے ان کی انتہا یہ ہے کہ حرام سے قطع نظر حلال سے بھی استفادہ نہ کر سکے اور کوئی عورت آپ کو فریفتہ نہ کر سکی خواہ وہ حلال ہی ہو اور حرمت کی کوئی وجہ موجود نہ ہو ابن حزم کے یہ استاد محترم شیخ ابو حسین الفاسیؒ تھے۔ نوجوان ابن حزم عورتوں سے الگ تھلگ رہنے والے اس شیخ سے بڑے متاثر ہوئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی ذات پر شہوت نفسانی کا دروازہ مسدود کر لیا یہ حقیقت ہے کہ صالح رہنما کی صحبت صد ہا مواعظ حسنہ اور زبانی جمع خرچ کی نسبت کہیں زیادہ نفس انسانی کو متاثر کرتی ہے.
5 امام ابن حزم کی سیاسی زندگی اور خلفشار
امام ابن حزم کے دور میں اندلس بغاوتوں۔خانہ جنگیوں اور بربر حملوں کا شکار تھا کئی حکمران آئے اور تخت سے اتار دیے گئے یا قتل ہو گئے۔ ابن حزم کو بھی ان ہنگاموں میں شریک ہونا پڑا وہ وزیر بھی بنے جلاوطن بھی ہوئے اور قید کی سزائیں بھی بھگتنی پڑیں۔
سیاسی خلفشار کے دنوں میں ہم آپ کو قرطبہ میں حدیث کی تعلیم میں مصروف پاتے ہیں۔
بنو عامر کا تختہ جس انقلاب نے الٹ دیا تھا اس سے باپ اور بیٹے دونوں کی حیثیت پر نمایا اثر پڑا۔ چنانچہ ھسام الثانی کو جب دوبارہ ذوالحجہ 400ھ میں تخت پر بٹھایا گیا تو ان دونوں کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ابن حزم کے باپ کا انتقال ذوالقعدة 402ھ کے آخری ایام میں ہوا۔ محرم 404ھ میں ابن حزم نے قرطبہ کی اقامت ترک کر دی کیونکہ خانہ جنگی کے دوران میں یہ شہر شدید آفتوں میں مبتلا رہ چکا تھا اور بلاط المغیث میں اس کے خاندان کا خوبصورت محل بربروں نے تباہ و برباد کردیا تھا۔ اب ابن حزم نے المریة میں سکونت اختیار کی۔ جہاں آپ بظاہر نسبةً آرام و سکون کی زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک کہ علی بن حمود نے خیران العامری والی المریہ کے ساتھ مل کر سلیمان الظافر الاموی کو محرم 407ھ میں تخت سے الگ کر دیا خیران کے دل میں یہ شبہ پیدا کیا گیا کہ امام ابن حزم امویوں کی حمایت میں سازش کر رہا ہے اس لیے اس نے آپ کو اور آپ کے دوست محمد بن اسحاق کو پہلے تو چند ماہ قید رکھا پھر جلاوطن کر دیا۔ لہذا دونوں دوستوں نے حمص القصر کی راہ لی جس کا والی ان سے بڑے لطف و کرم سے پیش آیا لیکن اس کے چند مہینے بعد جب انھیں معلوم ہوا کہ عبدالرحمان الرابع المرتضیٰ بلنسیہ میں خلیفہ تسلیم کر لیا گیا ہے تو وہ اپنے میزبان سے رخصت ہو کر سمندر کے راستے بلنسیہ روانہ ہوگئے جہاں ابن حزم کی اپنے کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی آپ المرتضیٰ کی فوج میں شامل ہوکر لڑے جس کے آپ وزیر تھے ابن حزم غرناطہ کے معاذ پر لڑے اور دشمن کے ہاتھ قید ہو گئے جس نے تھوڑے ہی دنوں میں آپکو رہا کر دیا 6 سال کی غیر حاضری کے بعد شوال 409ھ میں آپ قرطبہ واپس آئے۔ اس وقت یہاں القاسم بن حمود خلیفہ تھا اس کی معزولی کے بعد مسند خلافت کے لیے عبدالرحمان الخامس المستطہر جیسے عالم اور روشن ضمیر بادشاہ کا رمضان 414ھ میں انتخاب ہوا اور اس نے اپنے دوست ابن حزم کو وزیر منتخب کیا لیکن یہ دونوں اس نئی صورت حال سے صرف چند دن لطف اندوز ہوسکے اس لیے کہ عبدالرحمان کو سات ہفتے کے بعد ذوالقعدہ 414ھ میں قتل کر دیا گیا۔ اور بن حزم کو ایک بار پھر قید خانے کا منہ دیکھنا پڑا یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کب تک قیدخانے میں پڑے رہے لیکن 418ھ کے قریب قریب اس کا شاطبہ میں مقیم ہونا محقق ہے۔ معجم الادباء میں یاقوت کے قول کے مطابق آپ ایک بار پھر ہسام المعتد 418 تا 422ھ کے عہد میں منصب وزارت پر فائز ہوئے ۔ یہ ابن حزم کی آخری وزارت تھی اس کے بعد آپ نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی۔
6 رحلت و سفر
امام ابن حزم آغاز زندگی ہی میں تحصیل علم میں لگ گئے تھے اور بچپن ہی میں علوم اسلامیہ اور حدیث و اخبار کے مطالعہ میں مشغول و منہمک رہتے تھے۔ آپ نے پہلے پہل سترہ سال کی عمر میں 400ھ میں حدیث کا سماع کیا ۔ تاہم آپ بلنسیہ حاضر ہوئے اور وہاں کے علماء کی صحبت میں رہ کر درس و مذاکرہ میں حصہ لینے سے قبل فقہ کی جانب پوری توجہ مبذول نہ کر سکے اور نہ فقہ کے ایک ایسے امام کی حیثیت سے شہرت حاصل کر پائے جو خود صاحب اجتہاد تھا اور کسی کا مقلد نہ تھاحتیٰ کہ صحابہؓ و تابعینؒ کی تقلید بھی نہیں کرتا تھا۔ علامہ ابن حزمؒ خود لکھتے ہیں کہ ہم عازم بُلنسیہ ہو کر سمندری جہاز میں سوار ہوئے اور وہاں پہنچ کر قیام کیا۔ قیام بلنسیہ کا یہ واقع ابن حزم کے ملک بدر ہونے کے چند ماہ بعد 407ھ میں پیش آیا آپ 407ھ کے آخر یا 408ھ کے اوائل میں بلنسیہ پہنچ کر وہاں قیام پذیر ہوئے وہاں آپ خلیفہ عبدالرحمان بن محمد کی نصرت و اعانت اور دعوت خلافت کے سلسلہ میں گئے تھے مگر وہاں جا کر تحصیل علم میں لگ گئے ۔ یہی تحصیل فقہ آگے چل کر ان کی امام فقہ پر منتج ہوئی۔
ان شیوخ و اساتذہ کے علاوہ جن سے آپ کو اخذ و استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی لامحالہ ایسے علماء بھی ہوں گے یہ وہ علماء فحول تھے جن کی تصانیف سے قرطبہ ۔ مریہ ۔ حصن القصر ۔ بلنسیہ ۔ قیروان ۔ شاطبہ ۔ میورقہ اور اندلس کے دیگر مشہور شہروں جہاں اس یکتا مصنف لاثانی عالم امام وقت اور حجتِ عصر ابن حزم کا گزر ہوا کی لائبریریاں معمور تھیں۔ پھر جو کچھ آپ نے پڑھا سیکھا اور آزامایا اس سے آپ کی ایسی شخصیت کی تکوین میں مدد ملی جو دید و شنید سے بالا تھی اور جس کا نام تاریخ کے اوراق میں تا ابد گونجتا رہے گا۔
7 حدیث و فقہ میں علمی مقام
یگانہ فاضل علامہ ابن حزمؒ کے علمی مقام کے بارے میں۔
1۔ شہرہ آفاق محدث و مؤرخ شمس الدین ذھبیؒ لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں ابن حزم چوٹی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں ان میں اجتہاد کی پوری صلاحیّت موجود ہے اور دوسرے مجتہدیں کی طرح ان کے مسائل معیار تحقیق پر پورے اترتے ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ ابن حزم پر ذکاوت و فطانت علوم کتاب و سنت ۔۔۔۔ صدق و دیانت دولت و ثروت کثرت کتب اور جاہ و حشمت کا خاتمہ ہو گیا۔
2۔ مؤرّخ قاضی صاعد بن احمدؒ اندلسی کہتے ہیں کہ ابن حزم تمام اہل اندلس سے علوم اسلامیہ کے جامع معرفت میں سب پر فائق احادیث رسول ۔ اقوال صحابہ اور اخبار امم کے جاننے میں سب سے آگے تھے اور کمال حافظہ کے مالک تھے۔
3۔ محدث و مؤرخ حمیدیؒ کہتے ہیں کہ ابو محمد ابن حزم حدیث و فقہ کے حافظ تھے احکام کا استنباط براہِ راست کتاب و سنت سے کرتے تھے مختلف علوم میں ماہر اور علم پر پورے پورے عامل تھے ہم نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو ذکاوت سرعتِ حفظ کرم نفس اور دیانتداری میں ان کی برابری کر سکے۔
4۔ ابوالقاسم صاعدؒ کہتے ہیں آپ نے وزارت چھوڑ کر تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے علم منطق میں کمال پیداکیا پھر اس سے متنفر ہو کر علوم اسلامیہ کی طرف مائل ہوئے اور ان میں وہ کمال حاصل کیا جو کسی کو نصیب نہیں ہوا۔
5۔ یسع بن حزم غافقیؒ کہتے ہیں ابو محمد کے محفوظات ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر اور پھوٹ پھوٹ کر بہنے والا پانی ہیں ان کے بحر علم سے حکمت کے مرجان اور یاقوت نکلتے ہیں ۔ ۔ ۔آپ نے اہل اسلام کے علوم کو محفوظ کیا تمام اہل ادیان پر فوقیّت لے گئے۔
6۔ شیخ عزالدین بن عبدالسلامؒ نے کہا ہے کہ میں نے اسلامی کتب میں ابن حزم کی ظمحلیّٰ“ اور شیخ موفق کی ”المغنی“ جیسی کوئی علمی کتاب نہیں دیکھی ۔ تذکرة الحفاظ: والیم۔2 : 766 تا 771.
7۔ ابن حزم ”موحدین 524 تا 668ھ“ کے نزدیک بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار سلطان یعقوب المنصور باللہؒ 548 تا 595ھ نے ابن حزم کی قبر پر کہا تھا جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو سب علماء کو ابن حزم ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
8 ابن حیانؒ ان کا شدید مخالف ہونے کے باوجود کہتا ہے جب سائل کوئی بات پوچھ کر چھیڑ دیتا تو گویا علم کا ایک ایسا سمندر امنڈ آتا جس کو ڈولوں کی آمد و رفت گدلا نہ کر سکتی۔
9 پروفیسر محمد ابوزہرہؒ لکھتے ہیں کہ علامہ ابن حزم نے علم احادیث پڑھا اسے یاد کیا اور اپنی تصانیف میں جمع کر دیا آپ کی گراں قدر تالیف محلیّٰ دیکھنے سے اندزہ ہوتا ہے کہ آپ کو احادیث نبویہ اور صحابہ کے فتاویٰ و قضایا کا کس قدر وسیع علم تھا اور آپ تابعین کے آثار ان کے فتاویٰ اور فیصلہ جات سے کس قدر واقفیت رکھتے تھے ابن حزم احادیث نبوی اور اقوال صحابہ کا سمندر تھے جسے دنوں کی آمدورفت گدلا نہیں کر سکتی ۔ مزید لکھتے ہیں تمام روایات و اخبار اس بات پر متفق ہیں کہ ابن حزم بڑے عظیم المرتبت عالم دین تھے آپ کثرت تصانیف کے اعتبار سے ممتاز تھے اور جملہ علوم اسلامیہ میں یکساں طور پر یدطُولیٰ رکھتے تھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کثرت تصانیف میں ابن جریر طبری کے ہم پلہ تھے البتہ تصانیف و تالیف کی نوعیت جدا گانہ ہے طبری کی تصانیف کا موضوع زیادہ تر تاریخ و اخبار اور روایت و تفسیر ہے طبری حدیث و فقہ سے بھی بہرہ ور تھے اور ”اختلاف الفقہاء“ نامی ایک کتاب آپ کی تصنیف ہے مگر نقد و اصول میں انہیں ابن حزم کا مقام حاصل نہ ہو سکا ۔ مزید لکھتے ہیں آپ ایک عظیم محدث ہیں جملہ اَصنافِ احادیث کے آپ حافظ ہیں اگر چہ بعض لوگوں نے آپ کی روایت کردہ احادیث پر نقد و جرح کیا ہے مگر اس سے آپ کے حافظِ حدیث اور ماہر اسماالرجال ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ابن حزم عظیم فقیہ تھے ۔ حیات امام ابن حزم ۔ ابو زہرہ.
8 سیرت نگار،مُؤرِّخ اور ماہر انساب
مححق شہیر امام ابن حزمؒ تاریخ ۔ سیرةالنبی اور انساب کے بہت بڑے عالم تھے۔
1۔ مؤرّخ قاضی صاعد بن احمد لکھتے ہیں کہ ابن حزم اخبار امم کے جاننے میں سب سے آگے تھے اور کمال حافظہ کے مالک تھے ۔
2۔ ابومروان ابن حیّان کہتے ہیں کہ امام بن حزمؒ علم الانساب اور علم ادب سے متعلق تمام فنون کے ماہر تھے۔
3۔ پروفیسر محمد ابوزہرہ ازہری لکھتے ہیں امام ابن حزم کا اسلوب علمی ہے اور ادبی بھی آپ تاریخ عام و خاص دونوں کے وسیع عالم تھے آپ سلاطین و ملوک کی تاریخ سے آگاہ تھے اور تاریخ ادیانِ و ملل سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے آپ جانتے تھے کہ ان مذاہب کا آغاز کب ہوا ؟ کب عروج کو پہنچے اور کب صفحہ ہستی سے مٹ گۓ ۔ مزید لکھتے ہیں آپ بڑے عمیق النظر مُؤرِّخ ہیں اور تاریخ کے نازک ترین جز یعنی علم الانساب پر بڑی عالمانہ گفتگو کرتے ہیں ان جملہ امور میں آپ کا اشہب قلم اپنی جولانی کے جوہر دکھاتا ہے۔
4۔ پروفیسر سعید اختر لکھتے ہیں ابن حزم کی تالیفات میں سے ایک مختصر تالیف ”جوامع السیرة“ ہے جو 225 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے یہ کتاب انہوں نے جس والہانہ عقیدت سے لکھی اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے ۔ ”رسول کریم کی سیرت کا جو شخص بغور مطالعہ کرے گا مُحَمَّد ﷺ کی نبوت کی تصدیق پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ مُحَمَّد ﷺ کی سیرت طیبہ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ آپ اللّٰه کے سچے رسول تھے اس سیرت مبارکہ کے سوا اگر رسالتمآپ کے پاس اور کوئی بھی معجزہ نہ ہوتا تب بھی سیرت بطور معجزہ کے آپ کے لیے کافی تھی“ ۔ علامہ موصوف کی ایک تاریخی تالیف ”جمھرة انساب العرب“ ہے جس میں عرب بربر قبائل کے انساب کا بیان ہے اس کتاب کی علمی منزلت کا اندزہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جہاں کہیں عربوں اور بربروں کے انساب کی بحث آئی ہے بن خلدون علامہ ابن جزم کی اسی تالیف کا اکثر و بیشتر حوالہ دیتے ہیں ۔ فن تاریخ میں علامہ ابن حزم کی ایک تالیف ”نقط العروس فی تاریخ خلفاء“ ہے کمیاب ہے۔ کتاب کا مضمون اس کے نام سے ظاہر ہے۔ ابن حزم کی مؤرخانہ بصیرت اور ادبیانہ صلاحیّت کا اندزہ مندرج ذیل دو اقتباسات سے کیا جاسکتا ہے جس میں اموی و عباسی خانوادوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ ”اب بنوامیہ کی حکومت ختم ہوگئی بہر حال وہ ایک عربی حکومت تھی بنوامیہ نے کوئی دارالحکومت یا محل سرائے نہیں بنائی ان میں ہر امیر کی سکونت اسی مکان اور احاطے میں ہوتی تھی جو خلافت سے پہلے ان کے پاس ہوا کرتا تھا انہوں نے مسلمانوں کو اس امر پر ہر گز مجبور نہیں کیا کہ غلاموں کی مانند انہیں شاہانہ القابات سے پکاریں یا زمین بوسی یا قدم بوسی کریں ان کا مقصد دور دراز ممالک مثلاً اندلس ۔ چین ۔ سندھ ۔ خراسان آرمینیہ ۔ شام ۔ عراق ۔ مصر اور مغرب میں اپنی فرمانروائی کا سکہ رواں کرنا تھا“ ۔ ”بنوعباس کی سلطنت گویا عجمی سلطنت تھی جس میں عربوں کی بالا دستی ختم ہوگئی ایران کے عجمی برسراقتدار آگئے سلطنت میں کسروی انداز آگیا مگر یہ بات ضرور تھی کہ کسی صحابی کو علانیہ برا بھلا نہیں کہا جاتا تھا بنوعباس کے زمانے میں مسلمانوں کا شرازہ بکھر گیا اور ممالک اسلامیہ میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہو گیا اس خانہ جنگی کے دور میں اندلس اور سندھ کے متعدد شہروں پر کافروں نے دوبارہ قبضہ کرلیا“ ۔ ناظرین اکرام دیکھ سکتے ہیں کہ ان چند الفاظ میں ابن حزمؒ نے معانی کے قُلزم بہا دیئے ہیں.
9 مناظر اسلام اور عالم الملل و النحل
امام ابن حزم بہت بڑے مناظر اور مذاہب و فرق کے مسلّمہ ریسرچ اسکالر تھے۔
1۔ امام ابن حزم کے سوانح نگار پروفیسر محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم کی زندگی جدل و پیکار میں بسر ہوئی اگر چہ آپ بڑے ناز پروردہ تھے مگر افسوس کہ باقی زندگی میں آپ کو عیش و عشرت نصیب نہ ہوئی اس میں شبہ نہیں کہ آپ کے فکر و نظر کے گوشوں میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔
2۔ غافقی کہتے ہیں عمر بن واجب نے مجھے آپ کے متعلق درج ذیل واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ کچھ طلبا بُلنسیہ میں میرے والد کی خدمت میں حاضر تھے وہ مذاہب کے سلسلہ میں درس دے رہے تھے ابو محمد ابن حزم سراپا تعجب بن کر سن رہے تھے آخر انہوں نے فقہ کا کوئی مسئلہ پوچھا اور اس پر اعتراض بھی کیا یہ سن کرحاضرین میں سے کسی نے کہا میاں چپ رہو یہ علم تمہاری دسترس سے باہر ہے اس کی باریکیاں تم کیا جانو؟ اس بات سے وہ بڑے پریشان ہوئے گھر میں گھس گئے اور تحصیل علم پر جھک پڑھے پھر کیا تھا ان سے علم کی وہ موسلا دھار بارش شروع ہوئی جو رکنے کا نام نہیں لیٹی تھی چند ہی مہینوں کے بعد ہم نے ان کو وہاں بہت اچھا مناظرہ کرتے دیکھا اور یہ اعلان کرتے سنا میں حق کا اتباع کرتا ہوں اجتہاد سے کام لیتا ہوں کسی خاص مذہب کا پابند نہیں ہوں۔
3۔ ابن حیّان کہتا ہے شیخ ابو محمد ابن حزم نے ملعون یہود اور دیگر غیر اسلامی مذاہب والوں کے ساتھ مناظرے کیئے جن کا حال کتابوں میں مذکور ہے ادیان و ملل کے ذکر و بیان میں ابن حزم نے متعدد کتب تحریر کیں جو عام طور پر معروف ہیں ۔1۔ الفصل في الملل والأهواء والنحل، 2۔ کتاب الصادع والرادع، 3۔ کتاب الرد علی من قال باالتقلید۔ 4۔ پروفیسر ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و ملل سے بھی پوری پوری واقفیت رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اسلامی فرقے کون سے ہیں اور ان میں مستحقِ نجات کتنے ہیں غیر مسلم مذاہب و ادیان کی تردید آپ کا خاص موضوع ہے فرقوں کے باہمی فرق و امتیاز پر وہ بڑی عمیق نگاہ رکھتے تھے اور ان کے خلاف جدل و بحث میں حریتِ فکر نظر کی راہ پر گامزن تھے اور اس ضمن میں کسی کے مقلد نہ تھے قرآن سنت کے مخالف قول کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہ تھی خواہ اس کا قائل کوئی ہو کسی عالم کا قول اگر کتاب و سنت سے مستنبط نہ ہو اور نہ ہی اس کی اساس ظواہر کتاب و سنت پر رکھی گئی ہو تو آپ کے نزدیک وہ مردود ہے آپ کا قول ہے کہ وہ عقائد میں ظواہر کتاب و سنت کے متبّع ہیں ان پیچیدہ فلسفیانہ مناہج کے پابند نہیں جو یونانی فلسفہ پر مبنی ہیں یا اس سے ماخوذ ہیں ۔ آپ تردید فلاسفہ کے میدان میں امام غزالی سے سبقت لے گئے اور ان کے دلائل کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر کر رکھ دیں فلسفیوں کی تردید میں آپ انہی کا انداز بیان اختیار کرتے اور منطقی دلائل سے ان کی تردید کرتے۔ الغرض ابن حزم علوم اسلامیہ کے بحرِ عمیق کے شناور تھے اور ان میں ماہرانہ بصیرت رکھتے تھے جسےحق سمجھتے اسے اخذ کرتے باطل کی تردید میں آپ کا لہجہ بڑی شدت اختیار کرجاتا تھا آپ مسببّات کے اسباب بتاتے نتائج کے مقدمات کی نشاندہی کرتے اور اقوال کے غایات و مقاصد زیر بحث لاتے اور یہ سب کچھ ایسی شاندار اور واضح عبارت میں کرتے جو آفتاب نصف النہار کی طرح تابندہ و درخشندہ ہوتی ۔ مزید لکھتے ہیں ابن حزم قدیم مذاہب و ادیان اور فرق اسلامیہ کا وسیع علم رکھتے تھے دیار اندلس کے قرب جوار میں رہنے والے یہود و نصاریٰ نے اسلام پر جو اعتراضات کۓ تھے آپ نے ان کے شافی جواب دئے دراصل اندلس کی آغوش ہر اس شخص کے لے وا تھی جو اس میں آکر پناہ گزین ہوتا مسلمان خلفاء کے جوار میں کامل آزادی کے دن کاٹتا پڑھتا پڑھاتا بحث و مناظرے میں حصہ لیتا اور اسلام کو اپنے اعتراضات کا ہدف بناتا ابن حزم ایسے اسلام دشمن عناصر کے خلاف نمر آزما ہوئے اور ان کے افکار آراء کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں ۔ ابن حزم نے ان تمام مجادلات و مناظرات کی تفصیلات اپنی تصانیف میں پڑے بلیغ الفاظ میں ذکر کی ہیں آپ کا اسلوب علمی ہے اور ادبی بھی ۔ آپ تاریخ ادیانِ و ملل سے پوری واقفیت رکھتے تھے آپ جانتے تھے کہ ان مذاہب کا آغاز کب ہوا ؟ کب عروج کو پہنچے اور کب صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
5۔ دائرہ معارف اسلامیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے الملل و النہل میں ابن حزم نے اسلام کے مذہبی فرقوں پر بڑی تیز اور تلخ تنقید کی ہے بلخصوص اشاعر اور ان کے خیالات پر جو انھوں نے صفات اٰلہیہ کے بارے میں ظاہر کیے ہیں ۔ نیز اولیاء پرستی ۔ عقائد تصوّف اور علم نجوم کی بھی مذمت کی ہے ۔ مقالہ نگار مزید لکھتا ہے ابن حزم بلطبع مناظرے پر مائل رہتا تھا یہودیوں ۔ عیسائیوں اور مختلف فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت مناظرہ دیتا رہا ابن حزم ایک زبردست حریف تھا جو شخص اس کے مقابلے میں آتا اس طرح اچھل کر دور جا گرتا جیسے اس نے کسی پتھر سے ٹکر لی ہے ۔ ابن حزم نے ابوحنیفہ ۔ مالک اور اشعری پر بھی کڑی تنقید کی ہے ۔ نوٹ امام ابن حزمؒ کو غالباً امام اشعریؒ کی کتب الاباتہ۔ مقالات اسلامیین نہیں ملیں ان کتب میں اشعری نے سلفی عقائد بیان کیے ہیں ۔ امام ابوالحسن اشعریؒ پہلے معتزلی تھے پھر متکلم ہوئے پھر سلفی ملاحظہ ہو اشعری کی کتب الاباتہ۔ مقالات اسلامیین ۔عقائد السلفیہ۔ قاضی احمؒد بن حجرؒ دوحہ قطر۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
10 لغت و ادب ، خطابت اور فنّی نشر
امام ابن جزم زبردست خطیب و مناظر اور لائق ترین انشاپرداز و ادیب تھے.
1۔ مؤرّخ قاضی صاعد بن احمد کہتے ہیں ابن حزم ادب عربی بلاغت شعر گوئی میں سب سے آگے تھے اور کمال حافظہ کے مالک تھے۔
2۔ مؤرّخ و محدث حمیدی کہتے ہیں کہ ابو محمد ابن حزم کو ادب عربی اور شعر گوئی میں کمال حاصل تھا ان سے جلدی فی البدیہ شعر کہنے والا میں نے کوئی نہیں دیکھا ۔ انھوں نے ان گنت شعر کہے ہیں اور میں نے ان کو حروف معجم کی ترتیب پر جمع کیا ہے۔
3۔ پروفیسر محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم ادبیات میں ایک بہترین نشرنگار ہیں اور اپنے دور کے کسی بھی لکھنے والے سے کم مرتبہ نہیں بلکہ اکثر اوقات جودتِ فکر شوکتِ بیان حُسن سلوک کے اعتبار سے وہ ان سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔ لغت و ادب سے بہرہ وا فرمایا اور اشعار قدیم و جدید کا بھی کافی وافر ذخیرہ جمع کیا۔
* شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم کی فنّی نشر الفاظ و معانی اور حُسنِ اُسلوب کے اعتبار سے نہایت بلند مقام پر واقع ہے اس میں الفاظ کا انتخاب بڑا پاکیزہ ہے ہر لفظ دوسرے کے ساتھ متصل ہے اس کی صورت اور موضوع میں بھی گہرا ربط پایا جاتا ہے اُسلوب تحریر آسان ہونے کے باوجود بڑا دلفریب اور سہل ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ابن حزم اپنی نشر فنّی کے اعتبار سے اپنے دور کے بہت سے اُدباء پر فوقیّت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کی بات قاری کے دل نشین ہوتی چلی جاتی ہے اور اس میں تکلف اور تصنع کی آمیزش نیں ہوتی.
4۔ عبدالواحد مراکشی کا بیان ہے ابن حزم صنفِ خطابت سے بھی آگاہ تھے وہ لکھتے ہیں ابن حزم نحو و لغت اور شعر و خطابت سے پوری طرح بہرہ ور تھے ۔ المعجب ص 47۔
11 امام ابن حزم عالم نفسیات کی حیثیت سے
ابن حزم نفسیات کے بھی عالم تھے آپ نے بڑے غور و فکر سے نفس انسانی کی گہرائی میں اتر کر بنظر غائر اس کا مطالعہ کیا تھا آپ نفس انسانی کا تجزیہ کرتے اور بتاتے ہیں کہ قبائل و اقوام میں مختلف قسم کے افکار و نظریات کیونکر نفوذ کرتے ہیں پھر افراد کے نفوس کا تجزیہ کرتے ہیں یہاں تک کہ عشق و محبت کو بھی موضوع کلام بناتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ عشق کیونکر دلوں میں داخل ہوکر ان پر قابو پا لیتا ہے آپ کی کتاب طوق الحمامہ یہ بات معلوم کرنے کے لیے کافی ہے یہ عظیم فقیہ عشق و عشاق کے احوال و کوائف اور عشق و محبت کے عوامل سے کس قدر با خبر تھے۔ یہ معلومات انھوں نے تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں حاصل کے تھے ظن و تخمین کی بنا پر نہیں اس کے لیے انہوں نے کتابوں کی ورق گردانی نہیں کی بلکہ اپنے علم کی مدد سے اسے محسوسات کی دنیا میں ملاحظہ کیا۔ ابن حزم کی خوشحالی اور فارغ البالی اس میں مزید معاون ثابت ہوئی انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں تربیت پائی تھی جس کے صحن میں حسین نازنین باندیوں کی آمدورفت تھی اور اس طرح انہیں اپنے نفس کو آزمانے اور دوسروں کے اعمال کا جائزہ لینے کا موقع ملا پھر ان احساسات و عواطب کو ایسی بلیغ و لطیف عبارت میں قلمبند کیا جو اس صاف و شفاف آب شیریں کی طرح رواں دواں تھی جو باغوں اور ندیوں میں جاری اور ساری ہوتا ہے.
12 فقہ ظاہری اور امام داؤد ظاہریؒ
امام داؤد بن علی بن خلف ظاہریؒ
201 ھ تا 270 ھ
تاریخ اسلام کے سنہری دور کے ایک عالم و محقق جو تفسیریات ، علم اسماء الرجال اور تاریخ نگاری جیسے اہم علمی و تحقیقی شعبوں کے متخصص تھے۔ داؤد ظاہری کا شمار اہلسنت کے علمائے مجتہدین میں ہوتا ہے۔ داؤد ظاہری کی شہرت کی اصل وجہ فقہی مذاہب میں ایک نئے منہج یا مسلک یعنی فقہ ظاہری کی تشکیل ہے۔ اسے ظاہری کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآن و سنت کے ظاہر ہی کو قابل اعتبار خیال کرتے اور ان میں کسی قسم کی تاویل ، رائے یا قیاس کو روا نہیں سمجھتے تھے۔ تاریخ اسلام میں داؤد ظاہری پہلے عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علانیہ اس مسلک کو اختیار کیا ۔ فقہ ظاہری کو اہل سنت کا پانچواں فقہی مکتب فکر بھی سمجھا جاتا ہے تاہم انہوں نے کبھی خود کو اس حیثیت سے پیش کیا اور نہ ان کے پیروکاروں نے اپنے مکتب فکر کے بانی کو اس نظر سے دیکھا۔ گو کہ انہیں متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن مؤرخین لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری کو ان کے عہد میں خاصی مقبولیت حاصل تھی ، حتیٰ کہ بعض مؤرخین نے انہیں "محقق دوراں" کے لقب سے بھی یاد کیا ہے۔ امام ابن حزمؒ اندلسی لکھتے ہیں: وہ اصفہانی کے لقب سے معروف تھے کیونکہ ان کی والدہ کا وطن اصفہان تھا نیز ان کے والد حنفی تھے۔
١ ابتدائی زندگی
داؤد ظاہری کی اصل جائے پیدائش پر مؤرخین کا اتفاق نہیں ہے ۔ عموماً انہیں ایرانی شہر اصفہان سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسی لیے متعدد کتابوں میں انہیں "داؤد اصفہانی" بھی لکھا گیا ہے۔ ابن حزم اندلسی اور شمس الدین ذہبی وغیرہ نے اس انتساب کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت ان کی والدہ کا تعلق اصفہان سے تھا جبکہ داؤد ظاہری عراقی نژاد تھے اور عراقی شہر کوفہ میں 201ھ بمطابق 815ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی . ایگناز گولڈزیہر نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ وہ کوفہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ ان کے والد عباسی خلیفہ مامون الرشید کی جانب سے کاشان میں دیوانی ملازمت پر مامور تھے۔ کاشان اصفہان کے قریب واقع ایک چھوٹا ایرانی شہر ہے۔
٢ تعلیم
ابتدائی عمر ہی میں داؤد ظاہری کوفہ سے بغداد آگئے تھے ۔ یہاں اس دور کے اجلہ علماء ابوثورؒ، یحییٰ بن معینؒ اور احمد بن حنبلؒ وغیرہ سے تفسیر قرآن اور علوم حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ روایتی الہیات کی ان معروف شخصیتوں سے جو علم انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کے والد (جو فقہ حنفی کے پیروکار تھے) کے افکار و نظریات سے یکسر متصادم تھا۔
بغداد میں اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد داؤد ظاہری مزید تعلیم کے لیے خراسان کے شہر نیشاپور روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر اسحاق بن راہویہؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے۔ اسحاق بن راہویہ اس دور میں اہل سنت کے بڑے امام اور سنی علوم کے امین سمجھے جاتے تھے۔ ابوالفرج ابن جوزیؒ لکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے عالم اجل اسحاق بن راہویہ سے حصول علم کے دوران میں امام ظاہری نے مذہبی موضوعات پر ان سے مباحثہ کیا تھا جس کی ہمت کبھی کسی نے نہیں کی۔ اثنائے درس امام راہویہؒ نے امام شافعیؒ پر تنقید کی تو امام ظاہری نے جواباً عرض کیا کہ اس موضوع پر آپ امام شافعی کے موقف کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ تاہم احمد بن حنبلؒ نے جو خود بنفس نفیس اس مباحثے کے وقت وہاں حاضر تھے، اسحاق بن راہویؒہ کو درست قرار دیا۔
ابتدا میں داؤد ظاہری فقہ اور اصول میں امام شافعی کے پیروکار تھے چنانچہ انہوں نے فقہ شافعی کے اصولوں میں توسیع بھی کی اس تاثر کی وجہ غالباً ابن راہویہ ہی تھے۔ فقہ شافعی اور بعد ازاں خود اپنی فقہ کے تئیں ان کی "جنونی" حمایت یا تصَلّب کو بیان کرتے ہوئے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے محققین لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری کی فقہ درحقیقت فقہ شافعی کی یک رخی تفسیر ہے جس میں انہوں نے استنباط مسائل کے لیے اجماعِ فقہا کے شافعی نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے اسے قیاس کی ایک شکل قرار دیا۔
٣ اساتذہ
داؤد ظاہری کے چند مشہور اساتذہ کے نام حسب ذیل ہیں:
1۔سلیمان بن حرب 2۔ عمرو بن مرزوق 3۔ قعنبی 4۔ محمد بن کثیر عبدی 5۔ مسدد بن مسرہد 6۔ اسحاق بن راہویہ 7۔ ابوثور لمبی 8۔ قواریری
٤ تدریس
نیشاپور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد امام داؤد ظاہریؒ واپس بغداد آگئے اور یہاں خود اپنا حلقہ درس قائم کیا۔ ان کے شاگردوں کی درست تعداد کے سلسلے میں مؤرخین کا اختلاف ہے لیکن یہ متفق علیہ ہے کہ ان کی شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ، جو شاگرد ان کی روزانہ مجلس میں مستقل حاضر ہوتے تھے ان کا اندازہ چار سے پانچ ہزار کے درمیان میں لگایا گیا ہے۔ جلد ہی ان کی شہرت بغداد سے نکل کر عالم اسلام کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ گئی اور ہر جگہ کے بڑے علما مذہبی موضوعات پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کرنے لگے۔ گوکہ داؤد ظاہری کے دور میں بھی ان کے افکار و نظریات کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن ان کے معاصرین نے انہیں کبھی فتویٰ جاری کرنے سے روکا اور نہ منصب تدریس سے معزول کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ارشد تلامذہ میں محمد بن داؤد ظاہری، احمد بن حنبل کے فرزند عبداللہ ، محمد بن جریر طبری ، نفطویہ اور رویم بن احمد قابل ذکر ہیں۔ نیز داؤد ظاہری قاضی عبداللہ القیسی کے بھی استاد تھے جنہوں نے اندلس میں فقہ ظاہری کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
٥ تلامذہ
داود ظاہری کے چند مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ محمد بن داؤد ظاہری 2۔ زکریا ساجی 3۔ یوسف بن یعقوب داودی 4۔ عباس بن احمد مذکر
٦ وفات
رمضان 270ھ میں بغداد میں آپ کی وفات و تدفین ہوئی۔ عیسوی تقویم کے حساب سے ان کا سنہ وفات مختلف فیہ ہے۔ مؤرخین کے یہاں 883ء اور 884ء دونوں سنین ملتے ہیں۔
٧ فقةالحدیث
عقیدہ ۔ ۔ داؤد ظاہری کے کلامی مکتب فکر کے متعلق ابن تیمیؒہ نے لکھا ہے کہ وہ اثری تھے اور اللّٰہ کی ذات میں غور کیے بغیر اس کی تمام صفات کے قائل تھے۔ بارہویں صدی عیسوی کے مؤرخ مذاہب عبدالکریم شہرستانی نے احمد بن حنبلؒ اور سفیان ثوریؒ کے ساتھ داؤد ظاہری کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ اہل سنت کے ان علما نے اللّٰه کی ذات والا صفات کی تاویل اور تشبیہ کی تعبیرات کو مسترد کر دیا تھا۔ نیز ابن تیمیؒہ اور شہرستانی دونوں نے داؤد ظاہری اور ان کے تلامذہ کو ابن حنبلؒ، سفیان ثوریؒ، ابوثورؒ ، الماوردیؒ، شافعیؒ اور ان سب کے تلامذہ کے ساتھ طبقہ اہلحدیث میں شمار کیا ہے جو اہل الرائے کا مخالف مکتب فکر سمجھا جاتا ہے۔
مذہبی متون کی اساسی طبیعت میں غور و فکر نہ کرنے اور ان کے ظواہر پر عمل کر لینے کے رجحان نے داؤد ظاہری کو بھی متاثر کیا۔ دیگر علما و فقہائے اسلام کی طرح داؤد ظاہری بھی قرآن و سنت کو اسلامی شریعت کے اولین مآخذ قرار دیتے ہیں لیکن داؤد ان کے بیانات کو ظاہری معنوں پر محمول کرتے اور قیاس سے سخت اجتناب برتتے ہیں۔ نیز استنباط مسائل میں وہ قرآن و سنت کو چند مخصوص حالات (جن کا مفصل ذکر ان کی کتاب میں ملتا ہے) ہی میں قابل انطباق خیال کرتے ہیں۔
٨ قیاس
داؤد ظاہری نے فقہ میں استنباط مسائل کے لیےقیاس کو یکسر مسترد کر دیا ہے، انہوں نے نہ صرف اسے مسترد کیا بلکہ اسے بدعت اور شرعی رو سے اسے ناجائز فعل قرار دیا۔ قرآن وسنت کے احکام و نواہی پر ان کی رائے کے متعلق سخت متضاد بیانات ملتے ہیں۔ مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ان تمام متضاد بیانات کا ذکر کیا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ داؤد ظاہری ان احکام کو انہی احوال تک محدود سمجھتے ہیں جن میں وہ احکام دیے گئے، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بیان کردہ احوال کی مناسبت سے وہ ایک عمومی اصول تشکیل دیتے اور اسے منطبق کرتے ہیں۔
٩ اجماع
داؤد ظاہری کے یہاں اجماع قابل اعتبار لیکن مشروط ہے یعنی یہ اجماع محض اصحاب رسول کا ہونا چاہیے، ان کے بعد آنے والی تمام نسلوں کا اجماع لغو ہے۔ اس مسئلے میں داؤد الظاہری کا مسلک درحقیقت ان کے پیشرو احمد بن حنبل اور ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے۔
١٠ ماہیت قرآن
گوکہ داؤد ظاہریؒ نے احمد بن حنبلؒ سے علم حدیث حاصل کیا لیکن قرآن کی ماہیت پر ان کا اپنے استاد سے سخت اختلاف تھا۔ داؤد ظاہری کے نزدیک قرآن ایک "محدث" یعنی حال میں وقوع پزیر ہونے والی شے ہے۔ احمد بن حنبل کو اس موقف سے سخت اختلاف تھا۔ قبل ازیں ظاہری کا شافعی کے معاملے میں اسحاق بن راہویہ سے اختلاف ہوا، اس موقع پر جب احمد بن حنبل نے انہیں شافعی کا دفاع کرتے دیکھا تو انہوں نے ان تمام افراد سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جو امام ظاہری کے ساتھی تھے یا مذہبی امور میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ نیز قرآن کے متعلق ظاہری کے اس بیان کے سلسلے میں ایک افواہ بھی گشت کرنے لگی جس نے جلتی آگ میں تیل کا کام کیا اور اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو گئی۔ شامی محدث ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ یہ تنازعے اصلاً محض تعبیری تھے جو داؤد ظاہری (جن کا کہنا تھا کہ اللہ کا کوئی ہمسر نہیں)، جہمیہ اور معتزلہ (جن کا اعتقاد تھا کہ قرآن مخلوق ہے) کے بیان سے پیدا ہوئے۔
نیز داؤد ظاہری، ابن حنبل، شافعی، اسحاق بن راہویہ، طبری، مالک بن انس، سفیان ثوری، عبد الرحمن، اوزاعی، ابو حنیفہ، ابن خزیمہ، عبد اللہ ابن مبارک، دارمی اور بخاری - جیسا کہ ابن تیمیہ نے اپنے عہد تک ائمہ اسلام کے نام شمار کرائے ہیں - ان تمام حضرات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے لیکن اس وقت ایک تعبیری غلط فہمی رونما ہوئی جب داؤد ظاہری، بخاری اور مسلم بن الحجاج نے اللہ اور قرآن کے درمیان میں امتیاز برتنے کے لیے قرآن کے حق میں "حادث" کی تعبیر استعمال کی۔ اس کے برخلاف عام مسلمانوں اور بیشتر ائمہ اسلام کا موقف یہ تھا کہ قرآن اللہ کا بلا استعارہ حقیقی کلام ہے جبکہ مذکورہ تین حضرات کا کہنا تھا کہ اللہ کا کلام اس کی ایک صفت ہے۔
موجودہ دور کے بعض علما کا موقف یہ ہے کہ داؤد ظاہری کے متعلق حدوث قرآن کی روایت میں ضعف ملتا ہے اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کے متعلق ایسی بات کبھی نہیں کی اور نہ ان کا یہ اعتقاد رہا۔ بلکہ درحقیقت داؤد ظاہری کی جانب سے تقلید اور قیاس (اہل سنت کے دوسرے ممتاز مکاتب فکر کے اہم ستون) کے انکار نے ان سنی مکاتب فکر کے منتسبین کو اس امر پر برانگیختہ کیا کہ وہ ظاہری کی جانب اس غلط عقیدے کو منسوب کریں تاکہ عام مسلمان ان سے اور ان کے مکتب فکر سے بدگمان ہو کر دور ہو جائیں۔ بقول ابو عبیدہ، داؤد ظاہری اور ان کے تلامذہ نے تو معتزلہ اور قرآن کے بابت ان کے عقیدے کی جس شد و مد سے مخالفت کی تھی ویسی احمد بن حنبلؒ نے بھی نہیں کی۔ اس طرح کے عقائد کی تردید میں انہوں نے تحریری رد بھی شائع کیے جن میں انتہائی درشت زبان استعمال کی گئی تھی۔
١١ سود
داؤد ظاہری کا موقف ہے کہ اشیا کا مبادلہ بالمثل میں یعنی سود کی ممنوعہ قسم کا اطلاق محض چھ اشیا پر ہوتا ہے جسے پیغمبر اسلام نے بیان کیا ہے : سونا ، چاندی ، گندم ، جو ، کھجور اورنمک۔ چونکہ ظاہری کے یہاں مسائل کے استنباط و تخریج میں قیاس کا استعمال ناجائز ہے اس لیے انہوں نے فقہاء کے اس مسلمہ نظریہ سے انحراف کیا کہ مذکورہ نبوی بیان کا منشا دیگر تمام اشیا کو محیط ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ان مذکورہ اجناس کے سوا کسی اور شے میں اضافہ کے ساتھ مبادلہ بالمثل سود نہیں۔ اگر پیمغبر اسلام ان اجناس کے علاوہ دیگر اشیا کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا چاہتے تو انہیں بیان کرتے، ان چھ کے بیان کا مقصد ہی یہ ہے کہ مبادلہ بالمثل میں سود صرف انہی اشیا میں منحصر ہے اور مسلمان دوسری اشیا کے حسب مرضی لین دین میں آزاد ہیں۔ نوٹ امام ابن حزم، قاضی شوکانی اور نواب صدیق حسن خان نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ محدث بغوی نے اس پر علما کا اتفاق نقل کیا ہے۔
١٢ زنانہ لباس
شوکانی نے لکھا ہے کہ داؤد ظاہری مسلمان خواتین کے لیے نقاب کو فرض کی بجائے مستحب خیال کرتے تھے، ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمان خواتین چہرہ کھول سکتی ہیں البتہ بدن کے دوسرے اعضا ڈھکے رہنا ضروری ہیں۔ ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کا بھی یہی موقف ہے۔
١٣ سفر
رمضان کے مہینے میں اگر کوئی مسلمان روزے کی حالت میں اپنا سفر شروع کرے تو امام ظاہریؒ کے نزدیک وہ اپنا اس دن کا روزہ توڑ سکتا ہے۔ یہی موقف ابن راہویہ اور ابن حنبل کا بھی ہے۔ ظاہری کے اس موقف کی دلیل قرآن کی وہ آیت ہے جس میں مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت اور سفر ختم ہونے کے بعد ان کی قضا کر لینے کی ہدایت موجود ہے۔ البتہ ظاہری کے موقف میں مزید یہ شق بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کسی مسلمان مسافر نے سفر کے دوران روزے رکھے تب بھی سفر سے واپسی پر ان روزوں کی قضا لازم ہوگی کیونکہ مذکورہ آیت میں روزہ نہ رکھنے کی ہدایت محض رخصت نہیں بلکہ حکم اللہ تعالی ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ سفر کے دوران بیشتر مسلمان نمازوں میں قصر بھی کرتے ہیں۔ فقہا کے درمیان میں "سفر شرعی" (جس سفر سے روزہ چھوڑنے کی رخصت اور نمازیں قصر کرنے کی اجازت حاصل ہو جائے) کی مدت اور مسافت موضوع بحث رہے ہیں۔ اس مسئلے میں ظاہری کا موقف یہ ہے کہ شریعت میں مدت اور مسافت سے قطع نظر ہر قسم کے سفر میں نمازیں قصر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
١٤ تصنیفات
امام داؤد ظاہریؒ کثیر التصانیف تھے۔ ایرانی مؤرخ ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں امام ظاہریؒ کی 157 تصنیفات کے نام درج کیے ہیں۔ جن میں سے بیشتر اسلامیات سے متعلق ہیں۔ بعض کتابیں بہت طویل اور ضخیم بھی ہیں جن میں شرعی نقطہ نظر اور تمام مکاتب فکر کے موقف شرح و بسط سے مذکور ہیں۔ نیز ظاہری محمد بن ادریس شافعی کے سب سے پہلے سوانح نگار سمجھے جاتے ہیں۔ ابن ندیم اور ابن عبدالبر کا بیان ہے کہ ظاہری کی تحریر کردہ یہ کتاب نہ صرف شافعیؒ کی پہلی سوانح عمری تھی بلکہ کسی فقیہ کی جانب سے لکھی جانے والی پہلی سوانح عمری بھی تھی۔ تاہم ان کی کتابیں دست برد زمانہ کی نذر ہو گئیں اور ہم تک پہنچ نہ سکیں۔
ابن ندیم نے مزید لکھا ہے کہ شافعی کی الرسالہ کے بعد اہل سنت کے یہاں ابن حنبل اور ظاہری ہی بڑے مصنف گزرے ہیں جنہوں نے فقہ اسلامی کے اصول پر مفصل کتابیں تصنیف کیں۔ ظاہری نے تقلید، قرآن کی عام اور خاص آیتوں کے فرق، شریعت کے مجمل و مفصل احکام کے فرق اور شافعی کے ساتھ اپنے تجربات جیسے موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ عصر حاضر کے محققین نے اصول پر ان کی تصنیفات کی حسب ذیل زمرہ بندی کی ہے: مشروط اجماع، عدم جواز تقلید، عدم جواز قیاس، خبر آحاد، خبر متواتر، ادلہ محکمہ، خاص بمقابلہ عام اور مفصل بمقابلہ مجمل۔ یہ تمام زمرے یا ابواب اور شاید ان میں موجود معلومات ابتداً عہد فاطمی کے مصنف قاضی نعمان کی کتاب میں محفوظ ہوئے، نیز فقہ ظاہری کے عالم ابن حزمؒ اندلسی نے بھی اپنی کتاب المحلی میں جا بجا داؤد ظاہری کی کتابوں سے اقتباس نقل کیے ہیں۔
١٥ معاصرین کی آراء
گوکہ امام ظاہری کے نظریات و افکار متنازع تھے اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کا کردار اجلے کپڑے کی مانند اور تقویٰ مسلم تھا۔ خطیب بغدادی ، سیوطی ، البانی ، ذہبی ، نووی اور طبری نے متفقہ طور پر ان کے بلند اخلاق ، تواضع اور کسر نفسی اور شخصی خصائل حمیدہ کا ذکر کیا ہے۔
١٦ علماء کا نقطہ نظر
گرچہ موجودہ دور میں فقہ ظاہری کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو دیگر چار مکاتب فکر کو حاصل ہے۔ تاہم فقہ ظاہری اپنے عہد میں ایک اہم مکتب فکر سمجھا جاتا تھا اور اس کا دائرہ اثر میسوپوٹیمیا، جزیرہ نما آئبیریا، جزائر بلیبار، شمالی افریقا اور جنوبی ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے ہم عصر ناقدین بھی جب ان کے افکار پر نقد کرتے ہیں تو ساتھ ہی ان کی فہم اور علمی سطح کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے۔ حتیٰ کہ ذہبی نے تو انہیں "محقق دوراں" کے خطاب سے نوازا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بغداد میں علمی ریاست امام ظاہریؒ پر ختم ہوتی ہے۔ جب طبری سے کسی نےابن قتیبہ دینوری کی کتابوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ان کی کتابیں کچھ نہیں ہیں، ان کی بجائے اصحاب الاصول کی کتابیں پڑھیں جن میں سب سے پہلے شافعی اور ظاہری کے نام لیے اور بعد ازاں ان کے معاصرین کے۔
اہل سنت کے دوسرے مکاتب فکر نے بھی ظاہریؒ کے رد قیاس پر خاصا نقد کیا ہے۔ شافعی کے ابتدائی پیروکاروں نے عموماً اپنے سابقہ ہم درس کے متعلق منفی نقطہ نظر قائم کر لیا تھا۔ چنانچہ شوافع میں خصوصاً امام الحرمین جوینی نے ظاہری پر سخت تنقیدیں کی ہیں۔ تاہم ایسے بہت سے شوافع بھی گزرے ہیں جنہوں نے ان کے بعض نظریات سے استفادہ کیا اور انہیں اختیار کرنے کی کوشش کی۔ذہبی نے ظاہری اور ان کے متبعین کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے جس طرح جوینی نے اجتہاد کے ذریعہ اپنے نظریات قائم کیے تھے اسی طرح ظاہری نے بھی کیا۔ نیز ابن الصلاح نے بھی ظاہری کے افکار اور ان کی فقہ کا دفاع کیا ہے اور ساتھ ہی اہل سنت کے ان علما کی فہرست بھی نقل کی ہے جو ظاہری کی آراء کو اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
13 ظاہری فقہ کیونکر اندلس پہنچی
اگر چہ مغرب میں فقہ ظاہری کی چنداں گرم بازاری نہ تھی تاہم سرزمین اندلس میں اس کی تخم ریزی ہوچکی تھی بلکہ امام داؤد ظاہری کی زندگی ہی میں ان کا مسلک و منہاج اندلس کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگیا تھا تیسری صدی ہجری میں قرطبہ کے ممتاز علماء کی ایک جماعت علمی استفادہ کے پیش نظر عازم مشرق ہوئی ان میں سے بعض علماء امام احمد اور امام داؤد ظاہری سے ملتے تھے ۔ ان میں سے تیں علماء وہ تھے جو ظاہری نہ تھے تاہم ان کے افکار و آراء بڑی حد تک اہل ظاہر سے ملتے جلتے تھے مثلاً وہ اپنے افکار کو احادیث نبویہ اور اقوال و آثار سے استنباط کرتے تھے انہوں نے ظاہری فقہ سے یہ بات اخذ کی تھی کہ کسی فقہی مذہب کے پابند نہ تھے اور براہ راست قرآن و حدیث سے استفادہ کرتے تھے ان تین علماء کے اسماءگرامی یہ ہیں ۔
1۔ محدث بقی بن مخلدؒ ۔ 201ھ تا 276ھ۔
2۔ حافظ ابو عبداللہ محمد ابن وضعؒ ۔ 199 تا 287ھ۔
3۔ محدث قاسم بن اصبخؒ ۔ 244 تا 340ھ۔
ذکر کردہ تینوں اشخاص اور ان کے تلامیذ اور رفقاء نے سرزمین اندلس میں احادیث رسول فقہاء اربعہ کی فقہ اپنے مشرقی اسفار وہاں کے علماء اور ان کے مذاہب کی نشر و اشاعت اور تشہیر کی بنا پر فقہ ظاہری کا سنگ بنیاد رکھا ۔ بعد میں ایسے علماء منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے جو اعلانیہ ظاہری فقہ کو اپنانے لگے ان میں اندلس کے عظیم ترین قاضی اور وہاں کی ایک ممتاز ترین اور قوی الاثر شخصیت قاضی ”منذر بن سعید البلوطیؒ“ تھے آپ اندلس کے بڑے خطیب تھے زنجہ کا وفد جب خلیفہ ناصر کے دربار میں حاضر ہوا تو منذر نے وہاں تقریر کی ان کے بعد ابوعلی القالی الامالی کا منصف کھڑا ہوا اور بژی گونچدار آواز میں تقریر کی قاضی منذر کھڑے ہوئے اور فی البدیہہ اور فصیع و بلیغ تقریر کی کہ بڑے بڑے انشاپرداز بھی ایسی تقریر نہیں کر سکتے سرزمین اندلس کے عظیم خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ منذر قرطبہ کے قاضی بھی تھے اپنی فصاحتِ لسانی قوت جنان کے پہلو بہ پہلو آپ فیصلہ دینے میں بھی بڑے بیباک تھے سچا فیصلہ کرتے اور کسی سے نہ ڈرتے تھے خلیفہ کے حق میں بھی اور ایک عام شخص کے حق میں بھی ایک عام شخص کی طرح فیصلہ صادر کرتے احکام باری تعالیٰ میں ان کے نزدیک امیر و فقیر کی کوئی تمیز نہ تھی ۔ آپ محدث بھی تھے اور فقیہ بھی آپ نے ”احکام القرآن“ اور کتاب ”الناسخ و المنسوخ“ نامی دو کتب تحریر کیں انہوں نے فقہ ظاہری کی تائید اور فقہ ہائے اربعہ کی ترتید میں ایک کتاب تصنیف کی ۔ علامہ مقری نفح الطیب میں لکھتے ہیں منذر بن سعید متعدد علوم میں ماہر تھے آپ پر داؤد بن علی کی مرتب کردہ فقہ ظاہری کا غلبہ تھا منذر اس فقہ کو ترجیح دیتے اس کی کتابیں جمع کرتے اور اس کی تائید کے لۓ احتجاج کرتے جب منصب قضا پر بیٹھتے تو مالکی فقہ کے مطابق فیصلہ کرتے کیونکہ اندلس میں یہی فقہ رائج تھی ۔ منذر کی وفات 355ھ میں ہوئی ابن حزم ان سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کے بیٹے ”سعید بن منذر“ سے مل چکے تھے جو پیرانہ سالی کی عمر میں 403ھ میں فوت ہوئے۔ خلاصہ کلام چوتھی صدی ہجری میں سرزمین اندلس کے اندر فقہ ظاہری کی نصرت و حمایت کرنے والوں کی کمی نہ تھی یہی وجہ ہے کہ تصنیف شدہ کتب کے علاوہ ابن حزم کو ایسے اساتذہ مل گئے تھے جن سے انہوں نے فقہ ظاہری کا درس لیا مثلاً مسعود بن سلمان ابو الخیار المتوفیٰ 466ھ وغیرہ.
14 ابن حزمؒ کے اََعداء و اَنصار
امر اول ۔ پہلا یہ کہ اس سے ابن حزم کے استغراق فی العلم کا پتا چلتا ہے کہ جو شخص آپ کی ہجو گوئی کے درپے ہوتا تھا وہ آپ کی تصانیف کو ہدف طعن بناتا تھا اور بس جیسا کہ ابومغیرہ کی زبان سے کتاب کی مذمت آپ سن چکے مقصد یہ ہے کہ مخالفین آپ کے علم پر حملہ آور ہوتے تھے اور احباب و عزہ علم کی بنا پر آپ سے مخلصانہ روابط قائم کرتے تھے.
امر ثانی ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن حزم کے احباب و انصار بھی تھے اور آپ کے تلامذہ اور َاتباع بھی آپ کا ساتھ دیتے تھے اور ایسا نیں جیسا کہ ابن حیان کی تصانیف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف آپ کے دشمن ہی دشمن تھے ان کے چچا زاد بھائی ابومغیرہ کے بیان سے بھی واضع ہوتا ہے کہ ابن حزم کے اعوان و انصار بھی تھے جن کا وہ مذاق اڑتا ہے اس نے صراحتہً کہا ہے آپ کے دوست تھے اور دشمن بھی اور وہ سبھی آپ کے معزز ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی شخصیت کا کمال واضع ہوتا ہے آپ کے اَعداء و خصوم بھی تھے جو آپ کو ناراض کرتے اور ہمیشہ درپے آزار رہتے اس کے دوش بدوش وہ احباب بھی رکھتے تھے جو بڑے وفا شعار تھے اور ہمیشہ انہیں نفع پہنچانے کی کوشش کرتے تھے ۔ یہ جملہ بیانات اس حقیقت کے آئینہ دار تھے کہ ابن حزم علم کی خاطر جیا اسی کے لئے مصروف سعی و جہد رہے اور علم ہی نے آپ کو حیاتِ جاوید پانے والوں کے درمیان زندہ پائندہ تابندہ رکھا۔
نیز ابن حزم کا علم اور علماء سے گہرا تعلق رہا بچپن میں علماء سے حدیث اور فقہ کا درس لیا بڑے ہو کر کتابوں میں منہمک ہو گئے اور جن علماء سے دوستانہ روابط استوار کر چکے تھے ان کی صحبت سے محظوظ ہوتے سیاسی کشمکش کے دور میں جب آپ پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا تھا بڑے چیدہ و برگزیدہ علماء کے ساتھ آپ کے محبانہ و مخلصانہ مراسم تھے جن سے آپ ملتے جلتے اور بڑی کوشش سے اپنے ذاتی حقوق بھی انہیں سونپ دیتے تھے ان سے ظنز و مزاح کا معاملہ بھی رہتا اپنے احباب علماء کو خطوط بھی لکھتے ۔ آپ کے دوستوں کا شمار ایک مشکل امر ہے چند کا اندراج کر رہا ہوں ۔ محمد بن اسحاق ۔ احمد بن رشیق ۔ محدث ابوعمر ابن عبدالبر وغیرہ
15 درس و تدریس اور دعوت
امام ابن حزمؒ شاطبہ ۔ مریہ ۔ قرطبہ ۔ بُلنسیہ اور دیگر بلاد اندلس میں جاتے وہاں درس دیتے اور اپنی شیریں بیانی سے اندلسی نوجوانوں کو فریفتہ کرتے رہتے تھے آپ نے ان کے افکار نظریات پر گہرا اثر ڈالا ۔ میورقہ میں آپ کے متبعین کی کثرت کا پتا چلتا ہے وہاں خصوصی طور سے آپ کے نظریات زیادہ پھیلے اور آپ نے وہاں خاصی شہرت و سیادت حاصل کر لی ۔ واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ابن حزم کو یہ تفوق و غلبہ میورقہ میں ان کے دوست احمد بن رشیق کی وجہ سے حاصل ہوا جس کو دینیات اور ادب دونوں سے یکساں شغف تھا اور جس کا وہاں خاصا اثر و رسوخ تھا ابن رشیق کا انتقال 440ھ میں ہوا اس کے فوت ہوجانے کے بعد میورقہ میں ابن حزم کا اثر و رسوخ کمزور پڑ گیا اور حسب سابق فقہا نے ان پر غلبہ پالیا نیز انہوں نے ابوالولید باجی سے مدد چاہی جو اسی سال مشرق سے تحصیل علم کے بعد لوٹے تھے باجی ابن حزم کے خلاف مناظرے میں نکلے انکو ابن رشیق کی ذندگی میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ابن رشیق کی وفات کے بعد انہوں نے ابن حزم پر غلبہ حاصل کر لیا ۔ پروفیسر ابوزہرہ لکھتے کہ ولیدالباجی کو یہ غلبہ حجّت و برہان کی بنا پر نہیں بلکہ سیاسی قوت کے زیرِ اثر حاصل ہوا باجی دلائل براہین کے بل بوتے پر ابن حزم کے خلاف کبھی کامیاب نہ ہو سکے اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ابن حزم کے ممدو معاون ابن رشیق کے فوت ہو جانے کی بنا پر فقہاء ان پر غالب آگئے ۔ اور سلطان وقت کو آپ کے خلاف اکسایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب آپ میورقہ سے نکلے تو حجّت و برہان کی بنا پر مغلوب نہ تھے بلکہ اپنے ناصر و موید ابن رشیق کے فقدان اور کثرت اَعداء و خصوم کے باعث مغلوب ہوئے۔
16 عداوت ابن حزم کے اسباب
1۔ احکام کو یہ خطرہ دامنگیر رہتا تھا کہ ابن حزم پہلے سیاست سے وابستہ تھے ان کا خاندان اندلس میں بڑا مکرّم و موّقر تھا مزید براں یہ بھی ممکن تھا کہ وہ خلافت و امارت کا دعویٰ کر بیٹھیں یا حمایت بنی امیہ کی بنا پر ان کی سلطنت کے اعادہ کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیں اب ظاہر ہے کہ غیر اموی احکام میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ ابن حزم جیسے ذہین و فطین شخص کو امکانی حد تک اپنے سے دور رکھے یا کم از کم لوگوں میں اس کے وقار کو گھٹاتا رہے ۔ نیز امام ابن حزمؒ کی تحریریں احکام کے سیاسی مقاصد میں حائل تھیں ۔ مزید براں امام ابن حزمؒ ایک مؤرّخ بھی تھے جو اپنے دور کے حقائق و واقعات کو قلمبند کرتے رہتے تھے اور ظاہر ہے کہ احکام وقت آپ کی ان تحریروں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
2۔ عداوت ابن حزم کا ایک سبب یہ ہے کہ آپ پر ناصبی یعنی خارجی ہونے کا الزام تراشا گیا اور آپ کو علیؓ اور بنی ہاشم کا دشمن تصور کیا جانے لگا جب اموی حکومت کو زوال آیا اور ان کی جگہ دوسرے حکمرانوں نے لے لی تو ان میں شیعہ مذہب اور علیؓ کی طرف رجحان و میلان کے آثار نمودار ہونے لگے اور ابن حزمؒ کے مزید دشمن پیدا ہو گۓ ۔ پروفیسر ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ ابن حزم ناصبی نہ تھے.
3۔ ایک سبب یہ ہے کہ ابن حزم اقتصادی اعتبار سے بڑے خوشحال تھے اور ان میں ایک طرح کا احساس برتری بھی پایا جاتا تھا آپ دوسرے فقہاء کی طرح امراء کے نمک خوار نہ تھے بلکہ اپنی ابائی جائداد کے بل بوتے پر آرام و راحت کی ذندگی بسر کرتے تھے اور اس کا لوگوں پر خاصا اثر تھا اور ابن حزم اس اعتبار سے اپنے آپ کو دوسروں سے انچے درجے کا آدمی سمجھتے تھے یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے سے زیادہ باعزت شخص کو ایک نظر دیکھنا گوارہ نہیں کرتا اور نہ اس سے محبت کرتا ہے ۔ نیز ابن حزم کی ذات میں ان کے معاصرین کے لئے سب سے بڑا ابتلا اور امتحان یہ تھا کہ وہ اس زمانے اور اس نسل کی عام ذہنی اور علمی سطح سے بلند تھے.
4۔ ابن حزم بالطبع مناظرے پر مائل رہتا تھا یہودیوں عیسائیوں اور مختلف فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت مناظرہ دیتا رہا ابن حزم ایک زبر دست حریف تھا جو شخص اس کے مقابلے میں آتا اس طرح اچھل دور جا گرتا تھا جیسے اس نے کسی پتھر سے ٹکر لی ہے ۔ مزید براں ابن حزم اپنے نظریات کو اس قدر واضح اور زور دار الفاظ میں بیان کرتے تھے کہ مخالف جواب کی تاب نہ لاسکتا تھا ۔ اس سے آپ مخالفت میں اضافہ ہوا.
5۔ امام ابن حزم کی عداوت کا سب سے بڑا سبب متعصب مالکی فقہاء کی شدید مخالفت ہے ۔ علماء وقت اور ان کے احباب و اَعّزہ ابن حزم کو گوارا نہ کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ فقہاء نے اپنے آپ کو ایک تنگنائے فقہی یعنی مالکی فقہ میں محدود و محصور کر دیا تھا ان کا خیال تھا کہ حق و صدق اسی فقہی مسلک میں محدود مقیّد ہو کر رہ گیا ہے وہ یہ سمجھتے تھے کہ مالکی فقہی مسلک سے خروج کرنے والا حق سے دور رہتا ہے خواہ اس کے اقوال قرآن و حدیث کے مصادر و مآخذ سے کتنے ہی قریب کیو نہ ہوں.
نیز مالکی فقہاء کی ائمہ دشمنی تاریخی ہے.
١۔ ایک مشہور واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو انتہائی متعصب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام شافعی سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں ابن ادریس شافعی کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام شافعی کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کر دیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبدالعزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لیے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام شافعی کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے،
”لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مر جاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لیے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بد دعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔“ ”محمد ادریس زبیر ، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 163 – 164“
٢۔ امام بقی بن مخلد جب مشرق سے حدیث کا علم پڑھ کر واپس قرطبہ اندلس تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ ”مصنف ابن ابی شیبہ“ کا نسخہ بھی لے گئے لوگوں نے ان سے مصنف ابن بی شیبہ کو پڑھنا شروع کیا تو وہاں کے مالکی فقہاء اپنے مسائل و موقف سے اختلاف کی تاب نہ لا سکے وہ حضرات سختی سے مخالفت پر اتر آئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عوام نے بقی بن مخلد پر یورش کر کے کتاب کی قرات کو موقوف کرادیا اور انہیں زندیق تک کہا گیا بات اندلس کے فرمانروا محمد بن عبدالرحمان اموی تک پہنچی تو انہوں نے بقی بن مخلد کو مع فریق مخالف اپنے ہاں طلب کیا المصنف کا ایک ایک جز پڑھا گیا بعد ازاں عبدالرحمان نے اپنے خازن سے کہا یہ وہ کتاب ہے جس سے ہمارا کتبخانہ مستغنی نہیں رہ سکتا ہمارے لیے بھی اس نسخہ کا بندو بست کرو پھر آپ نے امام بقی بن مخلد سے کہا آپ اپنے علم کو پھیلایئے اور معترضین کو ہدایت کر دی کہ آئندہ ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کریں ۔ معترضین کی جماعت کے سرخیل اصبغ خلیل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میری کتابوں میں خنزیر کاسر رکھ دیا جائے تو وہ مجھے پسند ہے اس سے کہ ان میں مصنف ابن ابی شیبہ ہو ۔تفصیل کے لۓ ملاحظہ ہو : ”سیر اعلام النبلاء ج 13 ص 288 تا 290” ۔ ”لیسان المیزان ج 1 ص 458“ ۔ ”نفح الطیب ج 3 ص 273“۔ ”ترتیب المدراک ج3 ص 143 تا 144“ ۔ ”تذکرة الحفاظ ج2 ص630“ وغیرہ.
٣۔ ایک مقدمہِ میں شیخ السلام ابن تیمیہؒ نے قاضی ابن مخلوف مالکی کو کہا کہ آپ تو میرے حریف اور مدمقابل ہیں آپ حکم کیسے بن سکتے ہیں اس پر ان کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے شیخ السلام کے خلاف فیصلہ صادر کیا جس کے نتیجے میں ابن تیمیہ ایک سال قید رہے ۔ مزید براں ابن تیمیہ نے اپنی آخر اسیری میں ایک رسالہ لکھا ”مسلہ زیارت“ جس میں انھوں نے مصر کے ایک مالکی قاضی عبداللہ بن الاخنائی کی تردید کی اس میں انھوں نے ثابت کیا کہ قاضی موصوف بہت قلیل العلم اور نہ واقف آدمی ہے قاضی نے سلطان سے اس کی شکایت کی اور اپنے غم و غصہ کااظہار کیا سلطان نے فرمان جاری کیا کہ شیخ کے پاس جتنی کتابیں کاغذ قلم دوات ہے لےلیا جائے لِہٰذا شیخ کو اپنی وفات تک ردی کاغذوں پر کوئلہ سے لکھنا پڑا : ”تاریخ دعوت و عزیمت ندوی“ ۔ مقلدین کی باہمی لڑائی اور محاذ آرائی کے لیے ملاحظہ ہو ”اسباب اختلاف فقہاء ۔ ارشاد الحق اثری ۔ ص 43 تا 50“.
محدث و مؤرخ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن حزم کو کٹھن امتحان سے گزرنا پڑا ہے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا وطن عزیز سے نکالا گیا اور دیگر متعدد صدمات سہنے پڑے.
17 تصانیف ابن حزم کو نظرآتش کرنا
فقہاء ابن حزم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے وہ حکام وقت کو آپ کے خلاف اکساتے اور ان سے شکایت کرتے رہتے تھے کہ امام ابن حزم فقہ مالکی کے خلاف ہے مزید براں وہ لوگوں کے سامنے ایسی فقہ پیش کرتے ہیں جن کا فقہ ہائے اربعہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ و تعلق نہیں ہے ۔ ان حالات کے تحت ”معتضد بن عباد 439 تا 464ھ“ حاکم اشبیلیہ کے لئے علماء کی خوشنودی حاصل کرنا ازبس ضروری تھا مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اس نے فقہاء کو راضی کرنے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اس سے تجاوز کر کے ذاتی انتقام لینے پر اتر آیا فقہاء کو تو اس طرح بھی راضی کیا جاسکتا تھا کہ معتضد ابن حزمؒ کو حسب سابق حدود سلطنت سے نکال دیتا یا اپنے آبائی شہر میں انہیں نظربند کر دیتا بس یہ حدود و قیود ابن حزم کے لئے کافی تھے اس سے بڑھ کر کتب ابن حزم کو نظرآتش کرنے کا اقدام کرنا فقہاء کو راضی کرنے میں بدنمامبالغہ آمیزی سے کام لینا ہے ۔ حکام اور فقہاء نے ابن حزمؒ کی گراں قدر کتب نظرآتش کر کے انہیں وہ شدید ترین نفسیاتی سزا دی جو کسی عظیم عالم کو دی جا سکتی ہے مگر وہ سزا اس کے لۓ شدید ثابت نہ ہوسکی کہ وہ ابن حزم کو دی گئی جو بڑے کہنہ مشق اور سرد و گرم چشیدہ تھے وہ عُسر و یُسر دونوں سے دوچار ہوئے اور اپنے کو اس بلند مقام پر فائز تصور کرتے تھے یہاں حوادث و آلامِ روزگار کی رسائی ممکن نہیں خواں اس کی شدت و حدّت کسی درجہ کی بھی ہو ۔
تصانیف نظرآتش کیے جانے کے بعد ابن حزمؒ نے کہا تھا۔
1۔ ”اگر تم اوراق کو جلا بھی دو تو ان کے مندرجات کو نہیں جلا سکتے جو میرے سینہِ میں محفوظ ہیں“.
2۔ ”میری سواریاں جہاں بھی جاتی ہیں میرا علم بھی ساتھ جاتا ہے جب سواریاں ٹھہرتی ہیں تو علم بھی اتر پڑتا ہے اور میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا“.
ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے سلطان یعقوب المنصورؒ کے دور میں مالکی فقہ کی کتب کو جلا دیا گیا اور فقہ ظاہری کو جبرا نافذ کیا گیا لہٰذا مالکی فقہا ڈرنے لگے ۔ تفصیل آگے آرہی ہے ۔فقہا اور امراء کی ریشہ دوانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ اپنے آبائی گاؤں ”منت لیشم“ میں جا کر آباد ہو گئے.
18 آبائی گاؤں میں قیام اور علمی مَشاغل
امام ابن حزمؒ حوادث و آلام کے دوران نہ اپنے عقائد سے ایک انچ بھر ہٹے نہ اَعداء و خصوم سے مصالحت کی ۔ ظلم و ستم کی آماجگاہ بننے کے بعد آپ علاقہ لبلہ میں واقع اپنے آبائی گاؤں ”منت لیشم“ میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ جہاں قرطبہ جانے سے پیشتر آپ کا کنبہ اقامت گزیں تھا ۔ اپنے آبائی گاؤں میں اقامت گزیں ہو کر ابن حزم کی سیاحانہ زندگی اختام پذیر ہوئی ۔ ”منت لیشم“ میں مقیم ہو کر آپ نے درس و مطالعہ جدل و مناظرہ اور شغِل تصنیف کو جاری رکھا ۔ اپنے احباب و اقارب اور ان طلبہ کو اپنے علم سے مستفید کرتے رہے جو طلبِ علم کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور جنہیں کسی کی ملامت کی کچھ پروا نہ تھی ان میں چند طلبہ بڑے خوشحال گھرانوں کے چشم و چراغ تھے آپ انہیں حدیث کا درس دیتے فقہی مسائل سے آگاہ کرتے اور زندگی کے تجربات سکھاتے ۔ ”معجم الادباء ۔ یاقوت حموی۔ ج 12۔ ص 238“.
پروفیسر محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں محدث ابن حزمؒ کو جلاوطن اور نظربند کرنے والوں نے اللّٰه کے اس نور کو بجھانے کی سعی لا حاصل کی تھی جو ان کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا مگر اللّٰه تعالیٰ کو اس نور کو پھلانا منظور تھا چنانچہ اس نے ایسے باخلوص طلبہ کو آپ کی جانب متوجہ کیا جو آپ کی مجلس میں حاضر ہوکر علمی فوائد سے بہرہ ور ہوتے یہی وہ برگزیدہ و چنیدہ طلبہ تھے جنہوں نے ابن حزم کے علم کو اکناف عالم میں پھیلایا ۔ تاریخ کے اوراق سے ابن حزم کے اَعداء و خصوم کا نام تک مٹ گیا ۔ اس کے برعکس ان کا نام نامی علماء اسلام بلکہ دنیا بھر کے علماء کے درمیان درخشند ستارے کی طرح چمک رہا ہے ۔”حیات ابن حزم ۔ 103“.
19 اولاد اور تلامذہ
تاریخ میں ابن حزمؒ کے تین بیٹوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنے باپ کے علم کی نشر و اشاعت کی.
1۔ ابورافع الفضل بن علی بن احمد بن سعید ابن حزمؒ ۔م 479ھ ۔ اس کی حثیثیت ایک فاضل کی ہے۔
2۔ ابواسامہ یعقوب بن علی بن احمد بن سعید ابن حزمؒ ۔ م 503ھ۔
3۔ ابو سلمان مصعب علی بن احمد بن سعید ابن حزمؒ ۔ ”دائرہ معارف اسلامیہ“.
دیگر تلامذہ، 4۔ محمد بن احمد بن محمد بن حسن بن اسحاق م فی حدود. 450ھ، 5۔ عبدالملک بن زیادة اللہ التمیمی الطبنی.457ھ، 6۔ سالم بن احمد بن فتح. 461ھ، 7۔ صاعد بن احمد بن عبدالرحمان التغلی القرطبی. 462ھ، 8۔ احمد بن عمر بن انس العذری المری الدلائی .م 473ھ، 9۔ عمر بن حیان بن خلف. م 474ھ، 10۔ عبداللہ بن محمد بن الصابونی. م 478ھ، 11۔ علی بن سعید العبدری. م491ھ، 12۔ عبداللہ بن محمد بن عبداللہ العربی اشبیلی. م 493ھ، 13۔ ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر بن فتوح عبداللہ ازدی الحمیدیؒ. م 488ھ، 14۔ محمد بن خلف الخولانی. م بعد 494ھ، 15۔ محمد بن ولید محمد بن خلف الطرطوشی.م 510ھ، 16۔ محمد بن محمد مسلمہ.م 511ھ، 17۔ شریح بن محمد بن شریح الرعینی المقری اشبیلی. م 539ھ، 18۔ حسین بن عبدالرحیم بن نام البہرانی، 19۔ محمد بن عبیداللہ اللخمی.
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
20 فقہی مسلک
پہلے پہل امام بن حزمؒ امام شافعیؒ سے متاثر تھے ان کی حمایت میں مخالفین سے شدت کے ساتھ برسر پیکار ہوئے کہ اندلس کے اکثر فقہاء ان کے خلاف ہوگئے ان کے کردار کو ہدف تنقید بنایا اور ان پر شذوذ کا الزام لگایا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے ظاہری مسلک اختیار کر لیا۔ فقہ ظاہری تقلید شخصی کو حرام قرار دیتا ہے قرآن و حدیث پر عمل کی دعوت دیتا ہے ابن حزم فرماتے ہیں ”میں حق کا پیرو ہوں اجتہاد کرتا ہوں اور کسی مذہب کا پابند نہیں“ مزید براں فرماتے ہیں ”فقہی استنباط کی ان تمام جزئیات کو جن کی بنیاد قرآن و حدیث پر نہیں رد کر دینا ضروری ہے“.
21 وفات
یگانہ فاضل اور قرآن و حدیث کے زبردست وکیل امام ابو محمد ابن حزمؒ نے 28 شعبان 456ھ بروز اتوار بمطابق 15 جولائی 1065ء کی رات اکہتر سال دس ماہ اور انتیس دن کی عمر میں ”منت لیشم“ اندلس میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ وفات کے وقت اپنے بیٹے ابورافع الفضل بن علی کو اپنی کتاب المحلی مکمل کرنے کی وصیت کی ابورافع نے کتاب مکمل کرکے وصیت پوری کر دی ۔
”سلطان یعقوب المنصور باللہؒ۔ 548 تا 595ھ“ کا شمار مسلم دنیا کے چند بڑے فرمانرواؤں میں ہوتا ہے سلطان یعقوب المنصور باللہؒ جب اندلس آئے اور ابن حزمؒ کی قبر پر سے گزرے اور کہا ”یہ دیار مغرب کے سب سے بڑے عالم کی قبر ہے“.
22 فقہ ظاہری ابن حزم کی وفات کے بعد
امام ابن حزمؒ جب تک بقید حیات رہے فقہ ظاہری کے مخالفین کا مقابلہ کرتے رہے ۔ ابن حزم کی وفات سے فقہ ظاہری کرہٗ ارضی سے معدوم نہیں ہوئی بلکہ آپ کے اصحاب و تلمذہ نے ان کی تصانیف کی نشر و اشاعت کے بل پر اسے زندہ رکھا ۔ اگر چہ بلادِ اسلامیہ میں آپ کے تلامذہ موجود نہ تھے تا ہم علماء آپ کی کتب سے استفادہ کرتے تھے سر زمین مشرق میں جس شخص نے سب سے پہلے ابن حزمؒ کے علم کو پھلایا وہ آپ کے تلمذ ”محدث و مؤرخ ابو عبداللہ محمد بن ابی نصر الحمیدیؒ 420 تا 488ھ“ ”مصنف الجمع بین الصحیحین“ تھے وفات ابن حزم کے بعد حمیدی بھاگ کر مشرق پہنچے اور وہاں تصانیف ابن حزم کے ذریعہ ان کی فقہ کی نشر واشاعت کی ۔ ابن حزمؒ کے تلامذہ اور ان کی تصانیف کی نشر و اشاعت کا خواطر خواہ اثر ہوا ہر زمانہ میں کوئی جیّد ظاہری فقیہ ضرور ہوا کرتا تھا جو ظاہری فقہ کی طرف دعوت دیتا اور اسکی پشت پناہی کرتا تھا الحمیدیؒ کے تلامذہ میں سے ”ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسیؒ 448 تا 507ھ“ ہوئے انھوں نے حمیدیؒ سے ظاہری فقہ کا درس لیا اور مشرق میں اس کی خوب نشر و اشاعت کی. سرزمین اندلس کسی دور میں بھی فقہاء ظاہر سے خالی نہ ری چنانچہ ”حافظ ابو الخطاب عمر ابن دیہ کلبیؒ 544 تا 633ھ“ نے پورے اندلس کا چکر لگایا اور مختلف شیوخ و اساتذہ سے کسبِ فیض کیا پھر بلادِ مغرب سے نقل مکانی کر کے خلفاء ایوبیہ کے عہد میں مصر روانہ ہوئے آپ نے مغرب و مصر و شام اور عراق و عجم میں حدیث کی روایت کی اور لوگوں کو حدیث کا درس دیا متعدد بیش قیمت مفید کتب تصنیف کیں ۔ 633ھ میں بققام قاہرہ خالق حقیقی سے جا ملے اور المقطم میں مدفون ہوئے ۔ عصر موحّدین میں فقہ ظاری کی جبری نشر و اشاعت کی گئ ۔ محدث ذہبی نے محلی کا اختصار لکھا ۔ الشیخ محمد الممنقر کتانیؒ م1371ھ نے معجم فقہ ابن حزم الظاہری۔ 2 والیم لکھی جو بہت مقبول ہے ۔ میڈرڈ میں ہسپانوی زبان میں پانچ جلدوں میں ابن حزم کی کتابوں کے ترجمے اور جائزہ شائع کیا گیا ہے.
23 عصر مُوحّدین فقِہ ابِن حزم کی جَبری اِشاعت
”مُوحّدین 541 تا 668ھ“ ظاہری المسلک تھے ان کے دور میں فقہ ظاہری خوب پھلی پھولی ۔ عصر مُوحّدین کے مؤرخ عبدالواحد مراکشی کا بیان ہے کہ صلاة کے متعلق جو اولیں رسالہ تحریر کیا گیا وہ اس رسالہ کی طرح تھا جو محمد بن تومرت نے طہارت کے مسائل پر لکھا تھا محمد بن تومرت جس نے مرابطین کی سلطنت کا خاتمہ کر کے سلطنت مُوحّدین کی بنیاد ڈالی فقہ ظاہری کا اولیں داعی تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فروعی مسائل کے استخراج کے لۓ نصوص کتاب و سنت کی طرف میلان و رجحان سلطنت مُوحّدین کے ساطین کا ابتدائی مسلک تھا جو انھوں نے آغاز سلطنت میں اختیار کیا اس کو اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا داعی محمد بن تومرت اس مسلک کا حامل تھا ۔ المعجب ص 279.
حقیقت یہ ہے کہ سلطان یعقوب المنصور باللہؒ 580 تا 595ھ سے قبل بھی سلطنت مُوحّدین کے اراکین و سلاطین پر اتباع قرآن و حدیث کا نظریہ غالب تھا سلطان کے والد یوسف۔ 558 تا 580ھ اور دادا عبدالمومن۔م 558ھ بلکہ سلطنت مُوحّدین کے داعی اور بانی محمد بن تومرت۔م 524ھ بھی ظاہری مسلک رکھتے تھے اتنا فرق ہے کہ سلطان یعقوب نے علانیہ فقہ ظاہری کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور جبراً لوگوں کو اس کا پابند بنایا ابن حزمؒ فرمایا کرتے تھے کہ دو مذہب اقدار کے بل بوتے پر پھیلے مشرق میں حنفی فقہ اور مغرب میں فقہ مالکی اگر وہ سلطان یعقوبؒ کے زمانہ تک بقید حیات ہوتے اور اس کے روّیہ کو دیکھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ان کی فقہ سلطان کے اثر و رسوخ سے ہی نہیں پھیلی بلکہ جبراً لوگوں کو اسکا پابند بنایا گیا تھا۔
حافظ ابوبکر بیان کرتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ امیرالمومنین یعقوبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پاس ابن یونس کی کتاب دیکھی امیرالمومنین نے کہا ابوبکر دین اسلام میں طرح طرح کے اقوال رائج کے گئے ہیں کسی مسلہ میں جار اقوال ہیں کسی میں پانچ اور کسی میں اس سے بھی زیادہ بتائیے ان میں سے کون سا قول حق ہے اور ہر مقلد کس قول پر عمل کرے میں نے جواب دیتے ہوئے ان مسائل کی گرہ کشائی کی۔ امیر المومنین نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ابوبکر قابلِ تعمیل چیزیں صرف دو ہیں پہلے قرآن کی طرف اشارہ کیا پھر دائیں طرف رکھی ہوئی ابوداؤد کی طرف اشارہ کیا اور ان کی پیروی نہ کی جائے تو پھر تلوار ہے ۔ ”المعجب ص 279“.
سلطان یعقوبؒ کے زمانہِ میں علم فقہ کا خاتمہ ہو گیا فقہاء ڈرنے لگے سلطان نے حکم دیا کہ احادیث نبویہ و آیات قرآنیہ کو الگ کرنے کے بعد فقہ مالکی کی کتب کو نظر آتش کر دیا جائے . چانچہ تمام بلاد اسلامیہ میں سے مالکی کتب جلادی گئی مثلاً 1۔ مدونہ سحنون، 2۔ کتاب ابن یونس، 3۔ نوادر ابن ابی زید، 4۔ مختصر ابن ابی زہد، 5۔ کتاب التہذیب ازبردعی، 6۔ واضحہ بن حبیب وغیرہ.
سلطان یعقوبؒ نے لوگوں کو فقہ سے روگردانی کا حکم دیا اور اس پر بڑی بڑی سزائیں دینے کی دھمکی دی جو محدثین و علماء ان کے عہد میں موجود تھے انہیں کتب عشرہ سے نماز اور اس کے متعلقات کے بارے میں حدیثیں جمع کرنے کا حکم دیا علماء نے حکم کی تعمیل کی اور نماز کے مسائل ایک مجموعہ میں جمع کر دیے احکام نماز کا یہ مجموعہ دیارِ مغرب میں خوب پھیلا اور خاص و عام نے اسے حفظ کر لیا سلطان اس کے حافظ کو بڑا انعام و اکرام اور خلعت دیا کرتا تھا وہ بہ یک جنبش قلم فقہ مالکی کو دیار مغرب سے نست و نابود کر کے قرآن و حدیث کو رائج کرنا چاہتا تھا ”المعجب ص 278 ۔ 279“.
سلطان یعقوب نے اسی پر بس نہ کی بلکہ طلبہ کی ایک جماعت کو فقہ ظاہری کی نشر و اشاعت پر مامور کردیا اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ مسلک آئیندہ نسلوں تک پہنچ جائے چنانچہ اس نے علم حدیث کے طلبہ کی جانب توجہ مبذول کر کے ان پر انعامات کی بارش شروع کردی ۔ خلاصہ کلام یہ کہ سلطان یعقوبؒ کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی جماعت کا وجود نا گزیر ہے جو ظواہر قرآن و حدیث کی پابند ہو اور ان مذاہب میں محدود و مقیّد نہ ہو جو رائے کا التزام کرتے ہیں تاکہ آئیندہ نسلوں میں فقہ ظاہری کی تحفظ و بقا کی ضمانت حاصل ہو جائے اور یہ مذہب مستقبل میں خوب پھلے پھولے ۔ ”حیات امام ابن حزم ص 702۔ 703“.
24 کیٹلاگ
مؤرّخ صاعد بن احمد اندلسی کہتے ہیں مجھے امام ابن حزمؒ کے صاحبزادے الفضل نے بتایا ہے کہ میرے پاس میرے والد کی لکھی ہوئی کتابوں کی 400 جلدیں موجود ہیں جو 80 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ امجد حسین کی تحقیق کے مطابق ابن حزمؒ کی کتب کی تعداد 137 ہے ایکن اکثر کتب نہ پید ہے ایک درجن کتب ملتی ہیں.
1۔”المحلى بالآثار“. یہ ابن حزمؒ کی ”کتاب المجلی“ کی شرح اور ”کتاب الایصال“ کا خلاصہ ہے ۔ المحلی اسلامی ادب کی عظیم کتب میں سے ایک ہے ۔ یہ قرآن و حدیث اقوال صحابہ و تابعین اور فقہی احکام و مسائل کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا ہے ۔ اور عصر ابن حزم تک کے ائیمہ کے اقوال و آراء کا تنقیدی جائزہ ہے ۔ یوں تو اس میں ہزاروں احادیث ہیں لیکن سات سو احادیث محدث ابن حزمؒ نے اپنی سند سے بیان کی ہیں 80 احادیث متواتر ہیں ۔ شیخ احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس میں 2308 مسائل ہیں بروتی طباعت میں 2312 مسائل ہیں ابن حزمؒ ہر مسئلہ کا نمبر لکھ کر مسئلہ لکھتے ہیں کئی مسائل ایک سطر کے ہیں کئی ایک ایک صفحہِ کے کئی بیس بیس صفحات کے کئی تیس تیس صفحات کے ہیں کئی مسائل اس سے بھی زیادہ طویل ہیں ۔ المحلی کی تکمیل سے پہلے ہی جلد 10 مسئلہ نمر 2023 تک پہنچے تھے کہ ابن حزم کا آخر وقت آگیا آپ نے اپنے بیٹے الفضل کو الایصال کی روشنی میں المحلی مکمل کرنے کی وصیت کی اس سے آگے مسئلہ نمر 2024 سے گیارویں جلد کے آخر تک 285 مسائل آپ کے صاحبزادے نے الایصال سے خلاصہ کرکے مکمل کیے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابن حزمؒ کی آخری کتاب ہے ۔ یہ کتاب فقہ اسلامی کے سبھی موضوعات پر مشتمل ہے ۔ التوحید ۔ عبادات معاملات ۔ معاشرتی مسائل ۔ نذر و قسم کے مسائل ۔ کھانے , پینے ,حقیقہ, قربانی اور لباس کے مسائل ۔ حدود و قصاص اور قضا و شہادت کے مسائل ۔ جہاد کے مسائل ۔ وصیت اور وراشت کے مسائل وغیرہ ۔ المحلی کے بہت سے اختصار بھی لکھے گۓ مثلاً۔ 1۔اختصارالمحلی ابن حیّان اندلسی م 745ھ، 2۔ محدث ذہبی نے محلی کا اختصار لکھا، 3۔ الشیخ محمد الممنقر کتانیؒ۔م1371ھ نے معجم فقہ ابن حزم الظاہری۔ 2 والیم لکھی جو بہت مقبول ہے وغیرہ۔
* المحلی کی طباعات۔
1۔ پہلی بار 1347 تا 1352ھ میں شیخ محمد منیرؒ دمشقی کی تصحیح اور تحقیق سے شائع ہوا ۔ اس پر شیخ احمد شاکرؒ مصری نے تعلیق لکھی پہلی 6 جلدوں میں احادیث کی تصحیح و تضعیف بھی کی باقی اجزاء میں تحقیق نادر اور آخری تین اجزاء میں تحقیق ناقص ہے المحلی ۔ دار التراث قاہرہ سے گیارہ جلدوں اور 4388 صفحات پر شائع ہوا ہے۔
2۔ دوسری بار 1384ھ میں شیخ خلیل ھراسؒ کی تعلیق کے ساتھ 11 جلدوں میں مصر سے نشر ہوا۔
3۔ حنان عبدالمنان کی نگرانی میں 3029 صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں بائبل پیپر پر 2003ھ میں بیت الافکار السعودیة نے شائع کیا۔
4۔ محقق: عبد الغفار سليمان البنداري ۔ ناشر: دار الكتب العلمية بيروت ۔ تاریخ طباعت 2015ء مجلدات: 12۔
5۔ ناشر دار ابن حزم لبنان تاريخ نشر 2016ء صفحات 9999 محقق خالد الرباط - باحثين بدار الفلاح۔
6۔ پروفیس غلام احمد حریریؒ م 1998ء نے المحلی کی 11 جلدوں کا اردو ترجمہ کیا ہے 3 جلدیں ابو الاشبال صغیر احمد بہاریؒ کی تحقیق کے ساتھ اب تک شائع ہو چکی ہیں۔

2۔ ”الناسخ والمنسوخ في القرآن الكريم“ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي : المحقق: الدکتور. عبد الغفار سليمان البنداري الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان ۔ الطبعة: الأولى، 1406 هـ - 1986ء عدد الأجزاء ۔ 1 : عدد الصفحات ۔ 75 : تاريخ الإضافة: 14 نوفمبر 2010ء.

3 ۔”جوامع السيرة النبوية“ ۔ سیرة النبی پر مستند مختصر جامع اور قدیم ترین مآخذ ۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ المحقق: عبد الكريم سامي الجندي ۔ الناشر: دار الكتب العلمية سنة النشر 1424ھ - 2003 ۔ عدد المجلدات: 1 ۔ عدد الصفحات: 160 ۔ تاريخ إضافته: 29 / 06 / 2012 ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ محمد سردار احمد فاضل عربی نے کیا ہے نظر ثانی عبدالقدوس ہاشمی ۔ صفحات 292 ۔ سال طباعت 1990ء مجلس نشریاتِ اسلام کراچی نے اسے شائع کیا ہے.

4 ۔”الأخلاق والسير في مداواة النفوس“۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ المحقق: بلا ۔ الناشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت ۔ الطبعة: الثانية، 1399هـ - 1979ء عدد الأجزاء: 1 ۔ عدد الصفحات 75 ۔ تاريخ الإضافة : 14 نوفمبر 2010ء.

5 ۔”حجة الوداع“ ۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ المحقق: أبو صهيب الكرمي ۔ الناشر: بيت الأفكار الدولية للنشر ۔ سنة النشر: 1418ھ - 1998ء ۔ عدد المجلدات: 1 ۔ عدد الصفحات: 512 ۔ تاريخ إضافته: 04 / 06 / 2013ء.

6 ۔ ”الإحكام في أصول الأحكام“۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ الناشر: دار الآفاق الجديدة ۔ سنة النشر: 1403ھ - 1983ء ۔ عدد المجلدات: 8 ۔ الطبعة: 2۔ المحقق الشيخ أحمد شاكر - تقديم: إحسان عباس - تصوير دار الآفاق الجديدة - بيروت ۔ تاريخ إضافته: 14 / 10 / 2008ء.

7۔ ”النبذة الكافية في أحكام أصول الدين“ (النبذ في أصول الفقه) المؤلف: ابو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ المحقق: محمد أحمد عبد العزيز ۔ الناشر: دار الكتب العلمية ۔ سنة النشر: 1405ھ - 1985ء ۔ عدد المجلدات: 1 الطبعة: 1 ۔ عدد الصفحات: 86 ۔ تاريخ إضافته: 24 / 07 / 2012ء۔

8۔”مراتب الإجماع، ويليه: نقد مراتب الإجماع“. المؤلف: ابن حزم - ابن تيمية ۔ المحقق: حسن أحمد أسبر ۔ الناشر: وزارة الأوقاف السعودية ۔ عدد المجلدات: 1 ۔ عدد الصفحات: 320 ۔ تاريخ إضافته: 26 / 09 / 2014ء.

9۔ ”فصل في الملل والأهواء والنحل“۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم القرطبي الظاهري ۔ الناشر: مكتبة الخانجي - القاهرة ۔ عدد الأجزاء: 5 ۔ عدد الصفحات 727 ۔ تاريخ الإضافة: 14 نوفمبر 2010 ء ۔ اس کتاب میں فلاسفہ ۔ ملاحدہ ۔ مایین ۔ یہود و نصاریٰ اور اسلامی فرقوں مثلاً شیعہ ۔ خوارج ۔ معتزلہ ۔ اشاعرہ ۔ ماتریدیہ ۔ مرجیہ وغیرہ کی تاریخ اور ان کا رد لکھا ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ عبداللہ عمادیؒ نے کیا اور ادارہ معارف عثمانیہ حیدآباد دکن نے 1945ء میں شائع کیا اس کا جدید اڈیشن المزان لاہور نے طبع کیا ہے صفحات ۔1040.

10۔ ”جمهرة أنساب العرب“ ۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الظاهري ۔ تحقيق: لجنة من العلماءالناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولى، 1403/ 1983.عدد الأجزاء: 1 ۔ عدد الصفحات: 300 ۔ تاريخ الإضافة: 14 نوفمبر 2010ء اس کتاب میں عرب اور بربر قبائل کے انساب کا بیان ہے.

11۔ ”الكتاب: رسائل ابن حزم الأندلسي“ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي ۔ المحقق: إحسان عباس ۔ الناشر: المؤسسة العربية للدراسات والنشر ۔ سنة النشر: 1987ء ۔ عدد المجلدات: 4 ۔ الطبعة: 2 ۔ تاريخ إضافته: 13 / 05 / 2010ء.

12۔ ”طوق الحمامة في الألفة والألاف“ ۔ المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم القرطبي ۔ تحقيق: إحسان عباس ۔ دار النشر: المؤسسة العربية للدراسات والنشر - بيروت / لبنان الطبعة: الثانية - 1987ء معدد الأجزاء: 1 ۔ عدد الصفحات 300 : تاريخ الإضافة: 14 نوفمبر 2010ء ۔ الطبعة: 2 ۔ المحقق: حسن كامل الصيرفي ۔ الناشر: مطبعة حجازي ۔ سنة النشر: 1369 - 1950 ۔ عدد الصفحات: 176۔ تاريخ إضافته: 20 / 08 / 2017ء. طوق الحمامة کے ترجمے ۔ 1 انگلش ۔ 2 جرمن ۔ 3 فرانسیسی ۔ 4 روسی زبانوں میں ہو چکے ہیں.
25 حوالہ جات
1۔ حیات امام ابن حزم ۔ پروفیسر محمد ابوزہرہ. ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریریؒ.
2۔ سیرة حافظ ابن حزم الاندلسی ۔ عویس عبدالحلیم ترجمہ رئیس احمد ندویؒ.
3۔ المعجب۔ علامہ عبداواحد مراکشی.
4۔ الاعلام ۔ خیر الدین زرکلی ۔ ادرالعلم للملایین بروت.
5۔ دائرہ معارف اسلامیہ ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور.
6۔ تذکرة الحفاظ ۔ الذھبی ترجمہ محمد اسحاق لاہوری.
7۔ المحلی لا ابن حزم : ایک تعارفی، تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ۔ پروقیسر ڈاکٹر حافظ امجد حسین.
8۔ طبقات الأمم ۔ صاعد الأندلسي.
9۔ جذوة المقتبس في ذكر ولاة الأندلس ۔ الحميدي.
10۔ معجم فقہ ابن حزم الظاہری۔ الشیخ محمد الممنقر کتانیؒ.
11۔ رسالة الماجستير (للدكتور عبد الباقي السيد عبدالهادى الظاهري).
12۔ كتاب تاريخ علماء الظاهرية (للدكتور عبد الباقي السيد عبدالهادى الظاهري).
13۔ سير أعلام النبلاء - الذهبي.
14۔ طبقات الحفاظ - السيوطي.
15۔ الإصابة - ابن حجر العسقلاني.
16۔ معجم الأدباء - ياقوت الحموي.
17۔ البداية والنهاية - ابن كثير.
18۔ طوق الحمامة ابن حزم الاندلسی.
19۔ اسباب اختلاف فقہاء ۔ ارشاد الحق اثری.
20۔ تاریخ دعوت و عزیمت ابو الحسن ندوی.
21۔ فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ڈاکٹر محمد ادریس زبیر.
22۔ مسلمان تاریخ نویس ۔ پروفیسر سعید اختر نظر ثانی عبدالوکیل علویؒ.
23۔ نفح الطيب ۔ شہاب الدین ابو العباس المقرى.
24۔ امام داؤد ظاہری۔ آزاد دائرۃ المعارف۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
1۔ ”دستاویز تذکرةالمحدثین“
2۔ ”تذکرہ علمائے اسلام عرب و عجم ، قدیم و جدید“
از ملک سکندر حیات نسوآنہ۔

ان کتب کا لنک محدث فورم پر موجود ہے۔
 

سلف صالحین

مبتدی
شمولیت
فروری 17، 2021
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
السلام علیکم ورحمته الله وبرکاته۔
میں نے سنا ہے کہ ابن حزم جہمی تھا۔ کیا یہ بات صحیح ہے
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
محدث کبیر امام ابن حزمؒ قطعًا <بالکل> جہمی نہیں تھے۔ انہوں نے تو اپنی کتب میں جہمیہ اور دیگر گمراہ فرقوں کا رد کیا ہے۔ اگر کسی امام کا کوئی ایک قول کسی فرقے سے ملتا ہے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ اسے اس فرقے میں شامل کر دیا جائے۔

نوٹ: محدث فورم میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے۔
 
Top