ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 107
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 54
امام حافظ ابومحمد علی ابن احمد بن حزم اندلسی رحمہ اللہ
384ھ تا 456ھ
امام بن حزم محدث ۔ مجتہد فقیہ ۔ سیرت نگار ۔ مُؤرِّخ ۔ ماہر الانساب ۔ مناظر ۔ ماہر نفسیات ۔ ادیب ۔ شاعر ۔ نقاد فلسفہ و علم الکلام اور تین خلفاء کے وزیر تھے.
1 نام و نسب
ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح بن خلف بن معدان بن سفيان بن يزيد ، الفارسي الأصل آپ اصل میں فارس کے باشندے تھے آپ کے خاندان سے خلف بن معدان پہلے شخص ہیں جو اندلس میں داخل ہوئے ۔ یزید بن ابو سفیان کی طرف نسبت ولاء کی وجہ سے اموی کہلاتے تھے۔
2 ولادت اور وطن
امام بن حزم رمضان المبارک کی آخری شب بروز بدھ 384ھ بمطابق 7 نومبر 994ء کو قرطبہ کے مشرقی جانب محلہ منیةالمغیرة میں پیدا ہوئے .
3 ابتدائی تعلیم و تربیت اور اساتذہ
آپ کے والد منصور عامری متوفیٰ 393ھ اور اسکے بیٹے المظفر متوفیٰ 399ھ کے وزیر تھے۔ اس لیے ابتدائی زندگی خوش حالی میں گزری۔ ابتدائی تعلیم وتربیت خواتین ۔ مربی اور ان اساتذہ سے حاصل کی جو آپ کے والد کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے۔ امام ابن حزم کے تمام اساتذہ کا شمار ایک مشکل امر ہے تا ہم کتب ابن حزمؒ اورکتب تراجم سے جن اساتذہ کا تذکرہ مل سکا وہ یہ ہیں۔
1۔ يحيى عبدالرحمان بن مسعود بن وجه الجنہ۔ 402ھ، 2۔ احمد بن قاسم بن أصبغ البیانی۔ 430ھ، 3۔ عمر أحمد بن محمد بن احمد ابن الجسور الاموی۔ 401ھ، 4۔ يونس بن عبد الله بن محمد بن مغيث ابن الصغار القرطبی۔ 429ھ، 5۔ حمام بن أحمد بن عبداللہ الاطروش القرطبي۔421ھ، 6۔ محمد بن سعيد بن عمر بن نبات الاموی۔ 425ھ، 7۔ عبد الله بن ربيع بن عبداللہ التميمي۔415ھ، 8۔ عبد الرحمن بن عبد الله بن خالدالہمدانی۔411ھ، 9۔ عبد الله بن محمد بن عثمان، 10۔ أحمد بن محمد بن عبداللہ المقری الطلمنكي۔ 429ھ، 11۔ عبد الله بن محمد بن يوسف بن نصر ابن الفرضی۔ 403ھ، 12۔ أحمد بن قاسم بن محمد بن قاسم بن أصبغ، 13۔ یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر المزی۔ 463ھ، 14۔ أحمد بن عمر بن أنس العذري المری ابن الدلائی۔ 478ھ، 15۔ عبداللہ بن یوسف نامی القرطبی۔ 435ھ، 16۔ عبداللہ بن ابراہیم بن محمد الاصیلی۔ 392ھ، 17۔ محمد بن عیسی بن محمد الوراق قاضی طرطوشہ م بعد 396ھ، 18۔ عبدالرحمان بن ابی یزید المصری۔ 401ھ، 19۔ محمد بن عبدالرحمان بن محمد الکتانی۔ 408ھ، 20۔ احسان بن مالک بن ابی عبدة الوزیر۔ 416ھ، 21۔ عبداللہ بن عبدالرحمان الجحاف المعافری۔ 418ھ، 22۔ محمد بن حسن المذحجی الکتانی۔ 420ھ، 23۔ خلف مولی الحاجب جعفر الفتی الجعفری۔ 425ھ، 24۔ مسعود بن سلمان بن مفلت ابوالخیار۔ 426، 25۔ ثابت بن محمد الجرجانی العدوی۔ 431ھ، 26۔ عبداللہ بن یحیی بن احمد بن دحون۔ 431ھ، 27۔ محمد بن عبدالواحد محمد الزبیری۔ م بعد 434، 28۔ المہلب بن احمد بن اسید بن ابی صغرة التمیمی۔ 435ھ، 29۔ محمد بن عبداللہ البکری الترمذی ۔ 436ھ، 30۔ احمد بن اسماعیل دیلم الخضری۔م قبل 440ھ، 31۔ محمد بن الحسن بن عبدالرحمان الرازی م بعد 450ھ، 32۔ محمد بن اسماعیل العذری ابن الفور تش۔ 453ھ، 33۔ علی بن محمد عباد الانصاری الاشبیلی۔ 456ھ۔ وغیرہ۔
4 ابن حزم کی عفِِّت و عصمت کا راز
ان الفاظ میں ابن حزم اپنی عفت و عصمت کا راز بیان کرتے ہیں اس ناز و نعمت کی زندگی میں مرد اور عورتیں ان کی عفت کے نگہبان تھے۔ عورتیں یوں بھی مرد کے فتنہ میں مبتلا ہونے کے وقت اس کی نگہداشت کا فریضہ بہت اچھی طرح سے ادا کر سکتی ہیں۔ وہ اس کی ہر حرکت کا نوٹس لیٹی ہیں یہاں تک کہ جنبشِ نگاہ اور چہرے کے اتار چڑھاؤ تک کو دیکھتی رہتی ہیں ۔ ابن حزم کی حفاظت و نگہداشت کا اہتمام کرنے والے ان کے گرامی قدر والد تھے جنہیں ان کی تربیت کی فکر ہر وقت دامنگیر رہتی تھی جو اس بات کے حریص تھے کہ ناز و نعمت کے اس ماحول میں ابن حزم کی سیرت و کردار محفوظ و مصئون رہے ۔ صرف حفاظت و نگہداشت ہی ابن حزم کے تقویٰ اور طہارت کا موجب نہ تھی بلکہ تحفظِّ حِسّی کے دوش بدوش روحانی قیادت بھی ان کی ممد و معاون تھی ابن حزم ابھی جوان بھی نہ ہونے پائے تھے کہ ان کے والد نے انہیں ایک نیک نہاد خوش اخلاق عالم دین کی صحبت میں بٹھا دیا۔ یہ عالم عورتوں سے الگ تھلگ رہے ان کی انتہا یہ ہے کہ حرام سے قطع نظر حلال سے بھی استفادہ نہ کر سکے اور کوئی عورت آپ کو فریفتہ نہ کر سکی خواہ وہ حلال ہی ہو اور حرمت کی کوئی وجہ موجود نہ ہو ابن حزم کے یہ استاد محترم شیخ ابو حسین الفاسیؒ تھے۔ نوجوان ابن حزم عورتوں سے الگ تھلگ رہنے والے اس شیخ سے بڑے متاثر ہوئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی ذات پر شہوت نفسانی کا دروازہ مسدود کر لیا یہ حقیقت ہے کہ صالح رہنما کی صحبت صد ہا مواعظ حسنہ اور زبانی جمع خرچ کی نسبت کہیں زیادہ نفس انسانی کو متاثر کرتی ہے.
5 امام ابن حزم کی سیاسی زندگی اور خلفشار
امام ابن حزم کے دور میں اندلس بغاوتوں۔خانہ جنگیوں اور بربر حملوں کا شکار تھا کئی حکمران آئے اور تخت سے اتار دیے گئے یا قتل ہو گئے۔ ابن حزم کو بھی ان ہنگاموں میں شریک ہونا پڑا وہ وزیر بھی بنے جلاوطن بھی ہوئے اور قید کی سزائیں بھی بھگتنی پڑیں۔
سیاسی خلفشار کے دنوں میں ہم آپ کو قرطبہ میں حدیث کی تعلیم میں مصروف پاتے ہیں۔
بنو عامر کا تختہ جس انقلاب نے الٹ دیا تھا اس سے باپ اور بیٹے دونوں کی حیثیت پر نمایا اثر پڑا۔ چنانچہ ھسام الثانی کو جب دوبارہ ذوالحجہ 400ھ میں تخت پر بٹھایا گیا تو ان دونوں کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ابن حزم کے باپ کا انتقال ذوالقعدة 402ھ کے آخری ایام میں ہوا۔ محرم 404ھ میں ابن حزم نے قرطبہ کی اقامت ترک کر دی کیونکہ خانہ جنگی کے دوران میں یہ شہر شدید آفتوں میں مبتلا رہ چکا تھا اور بلاط المغیث میں اس کے خاندان کا خوبصورت محل بربروں نے تباہ و برباد کردیا تھا۔ اب ابن حزم نے المریة میں سکونت اختیار کی۔ جہاں آپ بظاہر نسبةً آرام و سکون کی زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک کہ علی بن حمود نے خیران العامری والی المریہ کے ساتھ مل کر سلیمان الظافر الاموی کو محرم 407ھ میں تخت سے الگ کر دیا خیران کے دل میں یہ شبہ پیدا کیا گیا کہ امام ابن حزم امویوں کی حمایت میں سازش کر رہا ہے اس لیے اس نے آپ کو اور آپ کے دوست محمد بن اسحاق کو پہلے تو چند ماہ قید رکھا پھر جلاوطن کر دیا۔ لہذا دونوں دوستوں نے حمص القصر کی راہ لی جس کا والی ان سے بڑے لطف و کرم سے پیش آیا لیکن اس کے چند مہینے بعد جب انھیں معلوم ہوا کہ عبدالرحمان الرابع المرتضیٰ بلنسیہ میں خلیفہ تسلیم کر لیا گیا ہے تو وہ اپنے میزبان سے رخصت ہو کر سمندر کے راستے بلنسیہ روانہ ہوگئے جہاں ابن حزم کی اپنے کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی آپ المرتضیٰ کی فوج میں شامل ہوکر لڑے جس کے آپ وزیر تھے ابن حزم غرناطہ کے معاذ پر لڑے اور دشمن کے ہاتھ قید ہو گئے جس نے تھوڑے ہی دنوں میں آپکو رہا کر دیا 6 سال کی غیر حاضری کے بعد شوال 409ھ میں آپ قرطبہ واپس آئے۔ اس وقت یہاں القاسم بن حمود خلیفہ تھا اس کی معزولی کے بعد مسند خلافت کے لیے عبدالرحمان الخامس المستطہر جیسے عالم اور روشن ضمیر بادشاہ کا رمضان 414ھ میں انتخاب ہوا اور اس نے اپنے دوست ابن حزم کو وزیر منتخب کیا لیکن یہ دونوں اس نئی صورت حال سے صرف چند دن لطف اندوز ہوسکے اس لیے کہ عبدالرحمان کو سات ہفتے کے بعد ذوالقعدہ 414ھ میں قتل کر دیا گیا۔ اور بن حزم کو ایک بار پھر قید خانے کا منہ دیکھنا پڑا یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کب تک قیدخانے میں پڑے رہے لیکن 418ھ کے قریب قریب اس کا شاطبہ میں مقیم ہونا محقق ہے۔ معجم الادباء میں یاقوت کے قول کے مطابق آپ ایک بار پھر ہسام المعتد 418 تا 422ھ کے عہد میں منصب وزارت پر فائز ہوئے ۔ یہ ابن حزم کی آخری وزارت تھی اس کے بعد آپ نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی۔
6 رحلت و سفر
امام ابن حزم آغاز زندگی ہی میں تحصیل علم میں لگ گئے تھے اور بچپن ہی میں علوم اسلامیہ اور حدیث و اخبار کے مطالعہ میں مشغول و منہمک رہتے تھے۔ آپ نے پہلے پہل سترہ سال کی عمر میں 400ھ میں حدیث کا سماع کیا ۔ تاہم آپ بلنسیہ حاضر ہوئے اور وہاں کے علماء کی صحبت میں رہ کر درس و مذاکرہ میں حصہ لینے سے قبل فقہ کی جانب پوری توجہ مبذول نہ کر سکے اور نہ فقہ کے ایک ایسے امام کی حیثیت سے شہرت حاصل کر پائے جو خود صاحب اجتہاد تھا اور کسی کا مقلد نہ تھاحتیٰ کہ صحابہؓ و تابعینؒ کی تقلید بھی نہیں کرتا تھا۔ علامہ ابن حزمؒ خود لکھتے ہیں کہ ہم عازم بُلنسیہ ہو کر سمندری جہاز میں سوار ہوئے اور وہاں پہنچ کر قیام کیا۔ قیام بلنسیہ کا یہ واقع ابن حزم کے ملک بدر ہونے کے چند ماہ بعد 407ھ میں پیش آیا آپ 407ھ کے آخر یا 408ھ کے اوائل میں بلنسیہ پہنچ کر وہاں قیام پذیر ہوئے وہاں آپ خلیفہ عبدالرحمان بن محمد کی نصرت و اعانت اور دعوت خلافت کے سلسلہ میں گئے تھے مگر وہاں جا کر تحصیل علم میں لگ گئے ۔ یہی تحصیل فقہ آگے چل کر ان کی امام فقہ پر منتج ہوئی۔
ان شیوخ و اساتذہ کے علاوہ جن سے آپ کو اخذ و استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی لامحالہ ایسے علماء بھی ہوں گے یہ وہ علماء فحول تھے جن کی تصانیف سے قرطبہ ۔ مریہ ۔ حصن القصر ۔ بلنسیہ ۔ قیروان ۔ شاطبہ ۔ میورقہ اور اندلس کے دیگر مشہور شہروں جہاں اس یکتا مصنف لاثانی عالم امام وقت اور حجتِ عصر ابن حزم کا گزر ہوا کی لائبریریاں معمور تھیں۔ پھر جو کچھ آپ نے پڑھا سیکھا اور آزامایا اس سے آپ کی ایسی شخصیت کی تکوین میں مدد ملی جو دید و شنید سے بالا تھی اور جس کا نام تاریخ کے اوراق میں تا ابد گونجتا رہے گا۔
7 حدیث و فقہ میں علمی مقام
یگانہ فاضل علامہ ابن حزمؒ کے علمی مقام کے بارے میں۔
1۔ شہرہ آفاق محدث و مؤرخ شمس الدین ذھبیؒ لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں ابن حزم چوٹی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں ان میں اجتہاد کی پوری صلاحیّت موجود ہے اور دوسرے مجتہدیں کی طرح ان کے مسائل معیار تحقیق پر پورے اترتے ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ ابن حزم پر ذکاوت و فطانت علوم کتاب و سنت ۔۔۔۔ صدق و دیانت دولت و ثروت کثرت کتب اور جاہ و حشمت کا خاتمہ ہو گیا۔
2۔ مؤرّخ قاضی صاعد بن احمدؒ اندلسی کہتے ہیں کہ ابن حزم تمام اہل اندلس سے علوم اسلامیہ کے جامع معرفت میں سب پر فائق احادیث رسول ۔ اقوال صحابہ اور اخبار امم کے جاننے میں سب سے آگے تھے اور کمال حافظہ کے مالک تھے۔
3۔ محدث و مؤرخ حمیدیؒ کہتے ہیں کہ ابو محمد ابن حزم حدیث و فقہ کے حافظ تھے احکام کا استنباط براہِ راست کتاب و سنت سے کرتے تھے مختلف علوم میں ماہر اور علم پر پورے پورے عامل تھے ہم نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو ذکاوت سرعتِ حفظ کرم نفس اور دیانتداری میں ان کی برابری کر سکے۔
4۔ ابوالقاسم صاعدؒ کہتے ہیں آپ نے وزارت چھوڑ کر تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے علم منطق میں کمال پیداکیا پھر اس سے متنفر ہو کر علوم اسلامیہ کی طرف مائل ہوئے اور ان میں وہ کمال حاصل کیا جو کسی کو نصیب نہیں ہوا۔
5۔ یسع بن حزم غافقیؒ کہتے ہیں ابو محمد کے محفوظات ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر اور پھوٹ پھوٹ کر بہنے والا پانی ہیں ان کے بحر علم سے حکمت کے مرجان اور یاقوت نکلتے ہیں ۔ ۔ ۔آپ نے اہل اسلام کے علوم کو محفوظ کیا تمام اہل ادیان پر فوقیّت لے گئے۔
6۔ شیخ عزالدین بن عبدالسلامؒ نے کہا ہے کہ میں نے اسلامی کتب میں ابن حزم کی ظمحلیّٰ“ اور شیخ موفق کی ”المغنی“ جیسی کوئی علمی کتاب نہیں دیکھی ۔ تذکرة الحفاظ: والیم۔2 : 766 تا 771.
7۔ ابن حزم ”موحدین 524 تا 668ھ“ کے نزدیک بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار سلطان یعقوب المنصور باللہؒ 548 تا 595ھ نے ابن حزم کی قبر پر کہا تھا جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو سب علماء کو ابن حزم ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
8 ابن حیانؒ ان کا شدید مخالف ہونے کے باوجود کہتا ہے جب سائل کوئی بات پوچھ کر چھیڑ دیتا تو گویا علم کا ایک ایسا سمندر امنڈ آتا جس کو ڈولوں کی آمد و رفت گدلا نہ کر سکتی۔
9 پروفیسر محمد ابوزہرہؒ لکھتے ہیں کہ علامہ ابن حزم نے علم احادیث پڑھا اسے یاد کیا اور اپنی تصانیف میں جمع کر دیا آپ کی گراں قدر تالیف محلیّٰ دیکھنے سے اندزہ ہوتا ہے کہ آپ کو احادیث نبویہ اور صحابہ کے فتاویٰ و قضایا کا کس قدر وسیع علم تھا اور آپ تابعین کے آثار ان کے فتاویٰ اور فیصلہ جات سے کس قدر واقفیت رکھتے تھے ابن حزم احادیث نبوی اور اقوال صحابہ کا سمندر تھے جسے دنوں کی آمدورفت گدلا نہیں کر سکتی ۔ مزید لکھتے ہیں تمام روایات و اخبار اس بات پر متفق ہیں کہ ابن حزم بڑے عظیم المرتبت عالم دین تھے آپ کثرت تصانیف کے اعتبار سے ممتاز تھے اور جملہ علوم اسلامیہ میں یکساں طور پر یدطُولیٰ رکھتے تھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کثرت تصانیف میں ابن جریر طبری کے ہم پلہ تھے البتہ تصانیف و تالیف کی نوعیت جدا گانہ ہے طبری کی تصانیف کا موضوع زیادہ تر تاریخ و اخبار اور روایت و تفسیر ہے طبری حدیث و فقہ سے بھی بہرہ ور تھے اور ”اختلاف الفقہاء“ نامی ایک کتاب آپ کی تصنیف ہے مگر نقد و اصول میں انہیں ابن حزم کا مقام حاصل نہ ہو سکا ۔ مزید لکھتے ہیں آپ ایک عظیم محدث ہیں جملہ اَصنافِ احادیث کے آپ حافظ ہیں اگر چہ بعض لوگوں نے آپ کی روایت کردہ احادیث پر نقد و جرح کیا ہے مگر اس سے آپ کے حافظِ حدیث اور ماہر اسماالرجال ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ابن حزم عظیم فقیہ تھے ۔ حیات امام ابن حزم ۔ ابو زہرہ.
8 سیرت نگار،مُؤرِّخ اور ماہر انساب
مححق شہیر امام ابن حزمؒ تاریخ ۔ سیرةالنبی اور انساب کے بہت بڑے عالم تھے۔
1۔ مؤرّخ قاضی صاعد بن احمد لکھتے ہیں کہ ابن حزم اخبار امم کے جاننے میں سب سے آگے تھے اور کمال حافظہ کے مالک تھے ۔
2۔ ابومروان ابن حیّان کہتے ہیں کہ امام بن حزمؒ علم الانساب اور علم ادب سے متعلق تمام فنون کے ماہر تھے۔
3۔ پروفیسر محمد ابوزہرہ ازہری لکھتے ہیں امام ابن حزم کا اسلوب علمی ہے اور ادبی بھی آپ تاریخ عام و خاص دونوں کے وسیع عالم تھے آپ سلاطین و ملوک کی تاریخ سے آگاہ تھے اور تاریخ ادیانِ و ملل سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے آپ جانتے تھے کہ ان مذاہب کا آغاز کب ہوا ؟ کب عروج کو پہنچے اور کب صفحہ ہستی سے مٹ گۓ ۔ مزید لکھتے ہیں آپ بڑے عمیق النظر مُؤرِّخ ہیں اور تاریخ کے نازک ترین جز یعنی علم الانساب پر بڑی عالمانہ گفتگو کرتے ہیں ان جملہ امور میں آپ کا اشہب قلم اپنی جولانی کے جوہر دکھاتا ہے۔
4۔ پروفیسر سعید اختر لکھتے ہیں ابن حزم کی تالیفات میں سے ایک مختصر تالیف ”جوامع السیرة“ ہے جو 225 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے یہ کتاب انہوں نے جس والہانہ عقیدت سے لکھی اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے ۔ ”رسول کریم کی سیرت کا جو شخص بغور مطالعہ کرے گا مُحَمَّد ﷺ کی نبوت کی تصدیق پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ مُحَمَّد ﷺ کی سیرت طیبہ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ آپ اللّٰه کے سچے رسول تھے اس سیرت مبارکہ کے سوا اگر رسالتمآپ کے پاس اور کوئی بھی معجزہ نہ ہوتا تب بھی سیرت بطور معجزہ کے آپ کے لیے کافی تھی“ ۔ علامہ موصوف کی ایک تاریخی تالیف ”جمھرة انساب العرب“ ہے جس میں عرب بربر قبائل کے انساب کا بیان ہے اس کتاب کی علمی منزلت کا اندزہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جہاں کہیں عربوں اور بربروں کے انساب کی بحث آئی ہے بن خلدون علامہ ابن جزم کی اسی تالیف کا اکثر و بیشتر حوالہ دیتے ہیں ۔ فن تاریخ میں علامہ ابن حزم کی ایک تالیف ”نقط العروس فی تاریخ خلفاء“ ہے کمیاب ہے۔ کتاب کا مضمون اس کے نام سے ظاہر ہے۔ ابن حزم کی مؤرخانہ بصیرت اور ادبیانہ صلاحیّت کا اندزہ مندرج ذیل دو اقتباسات سے کیا جاسکتا ہے جس میں اموی و عباسی خانوادوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ ”اب بنوامیہ کی حکومت ختم ہوگئی بہر حال وہ ایک عربی حکومت تھی بنوامیہ نے کوئی دارالحکومت یا محل سرائے نہیں بنائی ان میں ہر امیر کی سکونت اسی مکان اور احاطے میں ہوتی تھی جو خلافت سے پہلے ان کے پاس ہوا کرتا تھا انہوں نے مسلمانوں کو اس امر پر ہر گز مجبور نہیں کیا کہ غلاموں کی مانند انہیں شاہانہ القابات سے پکاریں یا زمین بوسی یا قدم بوسی کریں ان کا مقصد دور دراز ممالک مثلاً اندلس ۔ چین ۔ سندھ ۔ خراسان آرمینیہ ۔ شام ۔ عراق ۔ مصر اور مغرب میں اپنی فرمانروائی کا سکہ رواں کرنا تھا“ ۔ ”بنوعباس کی سلطنت گویا عجمی سلطنت تھی جس میں عربوں کی بالا دستی ختم ہوگئی ایران کے عجمی برسراقتدار آگئے سلطنت میں کسروی انداز آگیا مگر یہ بات ضرور تھی کہ کسی صحابی کو علانیہ برا بھلا نہیں کہا جاتا تھا بنوعباس کے زمانے میں مسلمانوں کا شرازہ بکھر گیا اور ممالک اسلامیہ میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہو گیا اس خانہ جنگی کے دور میں اندلس اور سندھ کے متعدد شہروں پر کافروں نے دوبارہ قبضہ کرلیا“ ۔ ناظرین اکرام دیکھ سکتے ہیں کہ ان چند الفاظ میں ابن حزمؒ نے معانی کے قُلزم بہا دیئے ہیں.
9 مناظر اسلام اور عالم الملل و النحل
امام ابن حزم بہت بڑے مناظر اور مذاہب و فرق کے مسلّمہ ریسرچ اسکالر تھے۔
1۔ امام ابن حزم کے سوانح نگار پروفیسر محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم کی زندگی جدل و پیکار میں بسر ہوئی اگر چہ آپ بڑے ناز پروردہ تھے مگر افسوس کہ باقی زندگی میں آپ کو عیش و عشرت نصیب نہ ہوئی اس میں شبہ نہیں کہ آپ کے فکر و نظر کے گوشوں میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔
2۔ غافقی کہتے ہیں عمر بن واجب نے مجھے آپ کے متعلق درج ذیل واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ کچھ طلبا بُلنسیہ میں میرے والد کی خدمت میں حاضر تھے وہ مذاہب کے سلسلہ میں درس دے رہے تھے ابو محمد ابن حزم سراپا تعجب بن کر سن رہے تھے آخر انہوں نے فقہ کا کوئی مسئلہ پوچھا اور اس پر اعتراض بھی کیا یہ سن کرحاضرین میں سے کسی نے کہا میاں چپ رہو یہ علم تمہاری دسترس سے باہر ہے اس کی باریکیاں تم کیا جانو؟ اس بات سے وہ بڑے پریشان ہوئے گھر میں گھس گئے اور تحصیل علم پر جھک پڑھے پھر کیا تھا ان سے علم کی وہ موسلا دھار بارش شروع ہوئی جو رکنے کا نام نہیں لیٹی تھی چند ہی مہینوں کے بعد ہم نے ان کو وہاں بہت اچھا مناظرہ کرتے دیکھا اور یہ اعلان کرتے سنا میں حق کا اتباع کرتا ہوں اجتہاد سے کام لیتا ہوں کسی خاص مذہب کا پابند نہیں ہوں۔
3۔ ابن حیّان کہتا ہے شیخ ابو محمد ابن حزم نے ملعون یہود اور دیگر غیر اسلامی مذاہب والوں کے ساتھ مناظرے کیئے جن کا حال کتابوں میں مذکور ہے ادیان و ملل کے ذکر و بیان میں ابن حزم نے متعدد کتب تحریر کیں جو عام طور پر معروف ہیں ۔1۔ الفصل في الملل والأهواء والنحل، 2۔ کتاب الصادع والرادع، 3۔ کتاب الرد علی من قال باالتقلید۔ 4۔ پروفیسر ابوزہرہ لکھتے ہیں ابن حزم اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و ملل سے بھی پوری پوری واقفیت رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اسلامی فرقے کون سے ہیں اور ان میں مستحقِ نجات کتنے ہیں غیر مسلم مذاہب و ادیان کی تردید آپ کا خاص موضوع ہے فرقوں کے باہمی فرق و امتیاز پر وہ بڑی عمیق نگاہ رکھتے تھے اور ان کے خلاف جدل و بحث میں حریتِ فکر نظر کی راہ پر گامزن تھے اور اس ضمن میں کسی کے مقلد نہ تھے قرآن سنت کے مخالف قول کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہ تھی خواہ اس کا قائل کوئی ہو کسی عالم کا قول اگر کتاب و سنت سے مستنبط نہ ہو اور نہ ہی اس کی اساس ظواہر کتاب و سنت پر رکھی گئی ہو تو آپ کے نزدیک وہ مردود ہے آپ کا قول ہے کہ وہ عقائد میں ظواہر کتاب و سنت کے متبّع ہیں ان پیچیدہ فلسفیانہ مناہج کے پابند نہیں جو یونانی فلسفہ پر مبنی ہیں یا اس سے ماخوذ ہیں ۔ آپ تردید فلاسفہ کے میدان میں امام غزالی سے سبقت لے گئے اور ان کے دلائل کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر کر رکھ دیں فلسفیوں کی تردید میں آپ انہی کا انداز بیان اختیار کرتے اور منطقی دلائل سے ان کی تردید کرتے۔ الغرض ابن حزم علوم اسلامیہ کے بحرِ عمیق کے شناور تھے اور ان میں ماہرانہ بصیرت رکھتے تھے جسےحق سمجھتے اسے اخذ کرتے باطل کی تردید میں آپ کا لہجہ بڑی شدت اختیار کرجاتا تھا آپ مسببّات کے اسباب بتاتے نتائج کے مقدمات کی نشاندہی کرتے اور اقوال کے غایات و مقاصد زیر بحث لاتے اور یہ سب کچھ ایسی شاندار اور واضح عبارت میں کرتے جو آفتاب نصف النہار کی طرح تابندہ و درخشندہ ہوتی ۔ مزید لکھتے ہیں ابن حزم قدیم مذاہب و ادیان اور فرق اسلامیہ کا وسیع علم رکھتے تھے دیار اندلس کے قرب جوار میں رہنے والے یہود و نصاریٰ نے اسلام پر جو اعتراضات کۓ تھے آپ نے ان کے شافی جواب دئے دراصل اندلس کی آغوش ہر اس شخص کے لے وا تھی جو اس میں آکر پناہ گزین ہوتا مسلمان خلفاء کے جوار میں کامل آزادی کے دن کاٹتا پڑھتا پڑھاتا بحث و مناظرے میں حصہ لیتا اور اسلام کو اپنے اعتراضات کا ہدف بناتا ابن حزم ایسے اسلام دشمن عناصر کے خلاف نمر آزما ہوئے اور ان کے افکار آراء کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں ۔ ابن حزم نے ان تمام مجادلات و مناظرات کی تفصیلات اپنی تصانیف میں پڑے بلیغ الفاظ میں ذکر کی ہیں آپ کا اسلوب علمی ہے اور ادبی بھی ۔ آپ تاریخ ادیانِ و ملل سے پوری واقفیت رکھتے تھے آپ جانتے تھے کہ ان مذاہب کا آغاز کب ہوا ؟ کب عروج کو پہنچے اور کب صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
5۔ دائرہ معارف اسلامیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے الملل و النہل میں ابن حزم نے اسلام کے مذہبی فرقوں پر بڑی تیز اور تلخ تنقید کی ہے بلخصوص اشاعر اور ان کے خیالات پر جو انھوں نے صفات اٰلہیہ کے بارے میں ظاہر کیے ہیں ۔ نیز اولیاء پرستی ۔ عقائد تصوّف اور علم نجوم کی بھی مذمت کی ہے ۔ مقالہ نگار مزید لکھتا ہے ابن حزم بلطبع مناظرے پر مائل رہتا تھا یہودیوں ۔ عیسائیوں اور مختلف فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت مناظرہ دیتا رہا ابن حزم ایک زبردست حریف تھا جو شخص اس کے مقابلے میں آتا اس طرح اچھل کر دور جا گرتا جیسے اس نے کسی پتھر سے ٹکر لی ہے ۔ ابن حزم نے ابوحنیفہ ۔ مالک اور اشعری پر بھی کڑی تنقید کی ہے ۔ نوٹ امام ابن حزمؒ کو غالباً امام اشعریؒ کی کتب الاباتہ۔ مقالات اسلامیین نہیں ملیں ان کتب میں اشعری نے سلفی عقائد بیان کیے ہیں ۔ امام ابوالحسن اشعریؒ پہلے معتزلی تھے پھر متکلم ہوئے پھر سلفی ملاحظہ ہو اشعری کی کتب الاباتہ۔ مقالات اسلامیین ۔عقائد السلفیہ۔ قاضی احمؒد بن حجرؒ دوحہ قطر۔