- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,767
- ری ایکشن اسکور
- 8,498
- پوائنٹ
- 964
امام ابن عبد البر اور ’ التمہید ‘ کا مختصر تعارف
تحریر : حافظ خضر حیات ، جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ
امام ابن عبد البر کا تعارف
نام و نسب اور کنیت وغیرہ :
ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری الاندلسی القرطبی المالکی۔ (سیر اعلام النبلاء ( 18 / 153 )
ولادت باسعادت :
آپ قرطبہ میں 368 ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے شاگرد طاہر بن مفوز کا بیان ہے ، میں نے شیخ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے والد صاحب کی تحریر کے مطابق میں 368 ھ ربیع الآخر کی 25 تاریخ کو جمعہ کے دن پیدا ہوا ، جب امام خطبہ دے رہا تھا ۔( الصلۃ لابن بشکوال 2 / 642 ، تاریخ الإسلام 10 / 199 )
تحصیل علم :
امام صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا ، آپ کے والد گرامی عبد اللہ اور جد امجد محمد دونوں ہی وقت کے علماء میں شمار ہوتے تھے ، اسی لیے صغر سنی میں ہی طلب علم کی طرف متوجہ ہوگئے ، کبار علماء سے کسب فیض کیا ، گو اندلس سے باہر نہیں گئے ، لیکن قرطبہ وغیرہ میں آنے والے اکابرین اہل حدیث سے خوب خوب استفادہ کیا ۔ ( بغیۃ الملتمس 489 )
حافظ ذہبی لکھتے ہیں : آپ نے تقریبا 380 میں جبکہ حافظ بغدادی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، علم حدیث حاصل کرنا شروع کردیا تھا ۔ ( تاریخ الاسلام 10 / 199 )
ابھی آپ صغر سنی میں ہی تھے کہ پہلے والد گرامی اور پھر دادا جان وفات پاگئے ، اس لیے محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان دونوں سے باقاعدہ درس نہیں لے سکے ، البتہ وقت کے کبار علماء کرام آپ کے اساتذہ کرام میں شمار کیے جاتے ہیں ، جیساکہ أبو الولید ابن الفرضی (403 ھ ) ، أبو القاسم ابن الدباغ ( 430 ھ ) ، أبو عمر الطلمنکی ( 429 ھ ) ، اور ابو الید الباجی ( 476 ھ ) وغیرہم ۔ ( الصلۃ 1 / 249 ، بغیۃ الملتمس 289 )
آپ کے تلامذہ میں بھی ابن حزم (456ھ) ، أبو عبد اللہ الحمیدی ( 473ھ ) ، أبو علی الغسانی ( 498 ھ ) جیسے جلیل القدر نام شامل ہیں ۔
تصنیف و تالیف :
حافظ ابن عبد البر ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں ، جنہیں اللہ تعالی نے علم و فضل کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا ، حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
’ آپ تالیف میں توفیق و مدد ایزدی سے سرفراز تھے ، اللہ تعالی نے آپ کی تالیفات کو نفع مند بنایا ، علم الاثر میں امامت ، فقہ و معانی حدیث میں بصیرت کے ساتھ ساتھ علم الانساب وغیرہ میں بھی ید طولی رکھتے تھے ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 158 )
مختلف علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات و تالیفات کی لمبی چوڑی فہرست ہے ، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں ، موطا کی شرح التمہید(اس کا تعارف آگے آئے گا إن شاءاللہ) ، الاستذکار لمذاہب علماء الأمصار ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ، علم کی فضیلت و اہمیت میں جامع بیان العلم و فضلہ ، الإنباہ عن قبائل الرواۃ اور الانتقاء لمذاہب الثلاثۃ العلماء ۔
امام صاحب کا عقیدہ :
امام صاحب مجموعی طور پر سلفی عقیدہ رکھنے والے تھے ، علماء کرام نے عقیدہ میں انہیں کبار علماء اہل سنت میں شمار کیا ہے ، حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب ’ اجتماع الجیوش الإسلامیۃ ( 2 / 143 ) ‘ میں ان کا موقف ذکر کرتے ہوئے انہیں ’ بخاریِ مغرب ‘ اور ’ امامِ اہل سنت ‘ جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کیا ہے ۔
اپنی کتاب الاستذکار (6 / 129) میں فرماتے ہیں :
’ہدایت محض اتباع کتاب اللہ میں ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے جس سے کتاب کی مراد متعین ہوتی ہے ‘
’حدیث نزول ‘ کے متعلق رقمطراز ہیں :
’اس حدیث کی صحت میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ، اور یہ اہل سنت و الجماعت کی معتزلہ کے خلاف دلیل ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں میں عرش پر ہے ‘ ( التمہید 7 / 128 )
عقیدہ کے باب میں امام صاحب کی خدمات پر ایک مستقل تصنیف مطبوع ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اہل سنت کے امام ہیں ، البتہ بعض مسائل جیسا کہ صالحین کی قبروں سے تبرک اور بعض صفات کی تاویل میں ان کا موقف اہل سنت سے موافقت نہیں رکھتا ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : شیخ سلیمان بن صالح الغصن کی کتاب ’ عقیدۃ ابن عبد البر فی التوحید و الإیمان ‘ ۔
فقہی مسلک :
امام ابن عبدالبر دیگر ائمہ حدیث کی طرح کتاب وسنت کے پیروکار تھے ، علماء کے احترام کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کو سب سے مقدم رکھتے تھے ۔
اس طرح کے علماء کا چاہے کسی فقہی مذہب کی طرف انتساب ہو بھی تو وہ ایک اعزازی نسبت کی حد تک ہوتا ہے ، ورنہ تقلید میں مبتلا ہونا ایسے علماء کی شایان شان نہیں ہے ۔
امام صاحب کس مذہب کی طرف منتسب تھے ؟ اس میں اقوال ذرا مختلف ہیں :
برہان الدین الیعمری نے آپ کو مذہب مالکی کے کبار علماء میں شمار کیا ہے ۔ ( الدیباج المذہب فی أعیان المذہب 2 / 367 ) ، آپ خود بھی اپنی تصنیفات میں ’ اصحابنا المالکیۃ ‘ کا جملہ بکثرت استعمال کیا کرتے تھے ۔
آپ کے شاگرد حمیدی کے مطابق آپ امام شافعی کے اقوال کی طرف میلان رکھتے تھے (جذوۃ المقتبس 367 ) ، ابن سید الناس کے مطابق آپ شروع میں عرصہ دراز ظاہری رہے ، بعد میں قیاس کے قائل ہوگئے ، کسی کی تقلید نہیں کی ، البتہ بہت سارے مسائل میں مذہب شافعی کی طرف میلان رہا ( 18 / 160 )
حافظ ذہبی آپ کے فقہی مسلک کے متعلق لکھتے ہیں :
’ آپ ثقہ و متقن ، متبحر اور دین کی پاسداری کرنے والے امام ، صاحب حدیث و متبع سنت تھے ، کہا جاتا ہے کہ شروع میں منہج ظاہریہ کے مطابق نصوص پر کاربند رہے ، پھر مالکی مذہب اختیار کیا ، لیکن کئی مسائل میں فقہ شافعی کی طرف واضح میلان رہا ۔ امام صاحب کا یہ طریقہ کوئی اچھنبےکی بات نہیں ، کیونکہ آپ ائمہ مجتہدین کے درجہ پر فائز تھے ، آپ وسعت علم ، قوت فہم اور ذہانت میں کیا مقام رکھتے تھے ، آپ کی مصنفات کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ سب باتیں واضح ہیں ۔ ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 157 )
خلاصہ یہ کہ ابن عبد البر چاہے مذہب مالکی کی طرف انتساب رکھتے ہیں ، لیکن ان کا طرز تحقیق اور اسلوب استدلال تمسلک بالکتاب والسنۃ اور اتباع دلیل ہی ہے ، کتاب و سنت ، اجماع و قیاس صحیح کے مقابلے میں کسی کے اجتہاد کو قبول نہیں کرتے ، چاہے جتنا بڑا عالم دین کیوں نہ ہو ، اور جس مرضی مسلک و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، ہاں البتہ مرجوح اقوال کی تردید میں ان کا اسلوب خالص عالمانہ اور منصفانہ ہے ، شاذ قسم کی آراء کو چھوڑ کر ہر قول کی مناسب توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابن حزم اور ابن عبد البر دونوں تقریبا ایک ہی علاقے اور زمانے کی دو عبقری شخصیات ہیں ، لیکن دونوں کے طرز استدلال اور اسلوب تحقیق و تنقید میں بہت فرق ہے ، اس حوالے سے ’ منہج الاستدلال الفقہی عند ابن حزم و ابن عبد البر ‘ کے عنوان سے ایک علمی تحقیقی اور تجزیاتی مقالہ ہے ، جس کے مطالعہ سے دونوں ائمہ کرام کی شخصیات ، منہج اور اسلوب سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔
وفات :
قرآن وسنت ، سیر و تاریخ ، اور دیگر علوم و فنون کی خدمت میں بھرپور زندگی گزار کر مغرب سے طلوع ہونے والا یہ آفتابِ علم و عرفان خود تو مغرب میں ہی غروب ہوگیا ، البتہ اس کے علم و فضل کی شعائیں رہتی دنیا تک جہانِ علم و فن کو روشن کرتی رہیں گی ۔ امام صاحب کی وفات اندلس کے معروف علاقے ’ شاطبہ ‘ میں 463 ھ کو ہوئی ، اس وقت آپ کی عمر 95 سال پانچ دن تھی ۔ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 159 )
حافظِ مشرق خطیب بغدادی بھی اسی سال اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ رحمہما اللہ رحمۃ واسعۃ و نفع بعلومہما .ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری الاندلسی القرطبی المالکی۔ (سیر اعلام النبلاء ( 18 / 153 )
ولادت باسعادت :
آپ قرطبہ میں 368 ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے شاگرد طاہر بن مفوز کا بیان ہے ، میں نے شیخ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے والد صاحب کی تحریر کے مطابق میں 368 ھ ربیع الآخر کی 25 تاریخ کو جمعہ کے دن پیدا ہوا ، جب امام خطبہ دے رہا تھا ۔( الصلۃ لابن بشکوال 2 / 642 ، تاریخ الإسلام 10 / 199 )
تحصیل علم :
امام صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا ، آپ کے والد گرامی عبد اللہ اور جد امجد محمد دونوں ہی وقت کے علماء میں شمار ہوتے تھے ، اسی لیے صغر سنی میں ہی طلب علم کی طرف متوجہ ہوگئے ، کبار علماء سے کسب فیض کیا ، گو اندلس سے باہر نہیں گئے ، لیکن قرطبہ وغیرہ میں آنے والے اکابرین اہل حدیث سے خوب خوب استفادہ کیا ۔ ( بغیۃ الملتمس 489 )
حافظ ذہبی لکھتے ہیں : آپ نے تقریبا 380 میں جبکہ حافظ بغدادی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، علم حدیث حاصل کرنا شروع کردیا تھا ۔ ( تاریخ الاسلام 10 / 199 )
ابھی آپ صغر سنی میں ہی تھے کہ پہلے والد گرامی اور پھر دادا جان وفات پاگئے ، اس لیے محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان دونوں سے باقاعدہ درس نہیں لے سکے ، البتہ وقت کے کبار علماء کرام آپ کے اساتذہ کرام میں شمار کیے جاتے ہیں ، جیساکہ أبو الولید ابن الفرضی (403 ھ ) ، أبو القاسم ابن الدباغ ( 430 ھ ) ، أبو عمر الطلمنکی ( 429 ھ ) ، اور ابو الید الباجی ( 476 ھ ) وغیرہم ۔ ( الصلۃ 1 / 249 ، بغیۃ الملتمس 289 )
آپ کے تلامذہ میں بھی ابن حزم (456ھ) ، أبو عبد اللہ الحمیدی ( 473ھ ) ، أبو علی الغسانی ( 498 ھ ) جیسے جلیل القدر نام شامل ہیں ۔
تصنیف و تالیف :
حافظ ابن عبد البر ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں ، جنہیں اللہ تعالی نے علم و فضل کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا ، حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
’ آپ تالیف میں توفیق و مدد ایزدی سے سرفراز تھے ، اللہ تعالی نے آپ کی تالیفات کو نفع مند بنایا ، علم الاثر میں امامت ، فقہ و معانی حدیث میں بصیرت کے ساتھ ساتھ علم الانساب وغیرہ میں بھی ید طولی رکھتے تھے ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 158 )
مختلف علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات و تالیفات کی لمبی چوڑی فہرست ہے ، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں ، موطا کی شرح التمہید(اس کا تعارف آگے آئے گا إن شاءاللہ) ، الاستذکار لمذاہب علماء الأمصار ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ، علم کی فضیلت و اہمیت میں جامع بیان العلم و فضلہ ، الإنباہ عن قبائل الرواۃ اور الانتقاء لمذاہب الثلاثۃ العلماء ۔
امام صاحب کا عقیدہ :
امام صاحب مجموعی طور پر سلفی عقیدہ رکھنے والے تھے ، علماء کرام نے عقیدہ میں انہیں کبار علماء اہل سنت میں شمار کیا ہے ، حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب ’ اجتماع الجیوش الإسلامیۃ ( 2 / 143 ) ‘ میں ان کا موقف ذکر کرتے ہوئے انہیں ’ بخاریِ مغرب ‘ اور ’ امامِ اہل سنت ‘ جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کیا ہے ۔
اپنی کتاب الاستذکار (6 / 129) میں فرماتے ہیں :
’ہدایت محض اتباع کتاب اللہ میں ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے جس سے کتاب کی مراد متعین ہوتی ہے ‘
’حدیث نزول ‘ کے متعلق رقمطراز ہیں :
’اس حدیث کی صحت میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ، اور یہ اہل سنت و الجماعت کی معتزلہ کے خلاف دلیل ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں میں عرش پر ہے ‘ ( التمہید 7 / 128 )
عقیدہ کے باب میں امام صاحب کی خدمات پر ایک مستقل تصنیف مطبوع ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اہل سنت کے امام ہیں ، البتہ بعض مسائل جیسا کہ صالحین کی قبروں سے تبرک اور بعض صفات کی تاویل میں ان کا موقف اہل سنت سے موافقت نہیں رکھتا ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : شیخ سلیمان بن صالح الغصن کی کتاب ’ عقیدۃ ابن عبد البر فی التوحید و الإیمان ‘ ۔
فقہی مسلک :
امام ابن عبدالبر دیگر ائمہ حدیث کی طرح کتاب وسنت کے پیروکار تھے ، علماء کے احترام کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کو سب سے مقدم رکھتے تھے ۔
اس طرح کے علماء کا چاہے کسی فقہی مذہب کی طرف انتساب ہو بھی تو وہ ایک اعزازی نسبت کی حد تک ہوتا ہے ، ورنہ تقلید میں مبتلا ہونا ایسے علماء کی شایان شان نہیں ہے ۔
امام صاحب کس مذہب کی طرف منتسب تھے ؟ اس میں اقوال ذرا مختلف ہیں :
برہان الدین الیعمری نے آپ کو مذہب مالکی کے کبار علماء میں شمار کیا ہے ۔ ( الدیباج المذہب فی أعیان المذہب 2 / 367 ) ، آپ خود بھی اپنی تصنیفات میں ’ اصحابنا المالکیۃ ‘ کا جملہ بکثرت استعمال کیا کرتے تھے ۔
آپ کے شاگرد حمیدی کے مطابق آپ امام شافعی کے اقوال کی طرف میلان رکھتے تھے (جذوۃ المقتبس 367 ) ، ابن سید الناس کے مطابق آپ شروع میں عرصہ دراز ظاہری رہے ، بعد میں قیاس کے قائل ہوگئے ، کسی کی تقلید نہیں کی ، البتہ بہت سارے مسائل میں مذہب شافعی کی طرف میلان رہا ( 18 / 160 )
حافظ ذہبی آپ کے فقہی مسلک کے متعلق لکھتے ہیں :
’ آپ ثقہ و متقن ، متبحر اور دین کی پاسداری کرنے والے امام ، صاحب حدیث و متبع سنت تھے ، کہا جاتا ہے کہ شروع میں منہج ظاہریہ کے مطابق نصوص پر کاربند رہے ، پھر مالکی مذہب اختیار کیا ، لیکن کئی مسائل میں فقہ شافعی کی طرف واضح میلان رہا ۔ امام صاحب کا یہ طریقہ کوئی اچھنبےکی بات نہیں ، کیونکہ آپ ائمہ مجتہدین کے درجہ پر فائز تھے ، آپ وسعت علم ، قوت فہم اور ذہانت میں کیا مقام رکھتے تھے ، آپ کی مصنفات کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ سب باتیں واضح ہیں ۔ ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 157 )
خلاصہ یہ کہ ابن عبد البر چاہے مذہب مالکی کی طرف انتساب رکھتے ہیں ، لیکن ان کا طرز تحقیق اور اسلوب استدلال تمسلک بالکتاب والسنۃ اور اتباع دلیل ہی ہے ، کتاب و سنت ، اجماع و قیاس صحیح کے مقابلے میں کسی کے اجتہاد کو قبول نہیں کرتے ، چاہے جتنا بڑا عالم دین کیوں نہ ہو ، اور جس مرضی مسلک و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، ہاں البتہ مرجوح اقوال کی تردید میں ان کا اسلوب خالص عالمانہ اور منصفانہ ہے ، شاذ قسم کی آراء کو چھوڑ کر ہر قول کی مناسب توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابن حزم اور ابن عبد البر دونوں تقریبا ایک ہی علاقے اور زمانے کی دو عبقری شخصیات ہیں ، لیکن دونوں کے طرز استدلال اور اسلوب تحقیق و تنقید میں بہت فرق ہے ، اس حوالے سے ’ منہج الاستدلال الفقہی عند ابن حزم و ابن عبد البر ‘ کے عنوان سے ایک علمی تحقیقی اور تجزیاتی مقالہ ہے ، جس کے مطالعہ سے دونوں ائمہ کرام کی شخصیات ، منہج اور اسلوب سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔
وفات :
قرآن وسنت ، سیر و تاریخ ، اور دیگر علوم و فنون کی خدمت میں بھرپور زندگی گزار کر مغرب سے طلوع ہونے والا یہ آفتابِ علم و عرفان خود تو مغرب میں ہی غروب ہوگیا ، البتہ اس کے علم و فضل کی شعائیں رہتی دنیا تک جہانِ علم و فن کو روشن کرتی رہیں گی ۔ امام صاحب کی وفات اندلس کے معروف علاقے ’ شاطبہ ‘ میں 463 ھ کو ہوئی ، اس وقت آپ کی عمر 95 سال پانچ دن تھی ۔ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 159 )