• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوالحسن کرخی کے ایک اصول پر اعتراض کا جواب

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
درج ذيل باتیں بھی عرض کی گئی تھیں
اصل پیغام ارسال کردہ از: خضر حیات
جمشید بھائی لکھتے ہیں :

یہاں یہ پوچھنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ ہمارے اصحاب ) کو کس نے یہ درجہ دیا ہے کہ ان کے اقوال کو قرآن و سنت کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے ۔۔۔ اور جو قرآن وسنت میں ظاہرا تعارض کے وقت قواعد بیان کیے جاتے ہیں وہی ان ( اصحاب ) کے اقوال لیے استعمال کیے جائیں ۔
کیا ان ( اصحاب ) کے اقوال کی یہ حیثیت ہے ؟؟ او ران ( اصحاب ) کو یہ حیثیت کس نے دی ہے ؟دوسری بات ( اصحاب حنفیۃ ) کے علاوہ بھی کوئی اصحاب ہیں کہ نہیں ؟ کیا ان کی طرف سے اگر ایسا دعوی کردیا جائے تو یہی قواعد استعمال ہوں گے ؟
اگرکسی دوسرے صاحب کاکلام بھی ایساہوگاتواس کے بہترایسے معنی مراد لیں گے جو اصول شریعت سے ہم آہنگ ہو جہاں تک الفاظ میں اس کی گنجائش ہوگی جیساکہ یہاں مراد لیاگیاہے اورجب ایسامعنی مراد لینا ممکن ہو جوکہ اصول شریعت سے ہم آہنگ ہو توپھر اس کلام میں کوئی خرابی نہیں رہ جاتی ہے۔ مثلا دیکھیں کہ حضرت ابن تیمیہ علیہ الرحمہ نے شادی نہیں ۔ شادی کرنا سنت رسول ہے اور انحضرت نے بڑی شدت کے ساتھ اس کی تاکید کی ہے لیکن ہم نے کبھی بھی آپ کے ہم مسلک جاہلوں کی طرح جو باربار امام ابوحنیفہ کومخالفت سنت کی بات کرتے ہیں یہ نہیں کہاکہ انہوں نے سنت کی مخالفت کی ہے بلکہ ہمیشہ یہی سمجھاکہ دین کی حفاظت ونصرت اوراس کی اشاعت وتبلیغ اورردبدعات ومنکرات نے ان کو اتنا وقت ہی نہیں دیاکہ وہ اس جانب توجہ کرتے ۔
اس جواب پر بھی اگرچہ یہ اعتراض کیاجاسکتاہے کہ ان کے علاوہ دیگر علماء نے بھی دین کی خدمت ونصرت کی ہے اوربدعات کا قلع قمع کیاہے لیکن انہوں نے شادی بھی کی بال بچے بھی ہوئے اورپوری تاہل کی زندگی گزاری ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں ہم صرف اتناہی عرض کریں گے کہ ہرشخص کے حالات اورمزاج اورافتادطبع الگ ہواکرتے ہیں اوراسی کے لحاظ سے وہ فیصلہ کرتاہے اوراسکوکسی بھی درجہ میں سنت رسول کی مخالفت کے معنی میں اخذ نہیں کیاجاسکتا۔

ابن تیمیہ کی رفع الملام وغیرہ کا جو حوالہ دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مطلب سمجھ آتا ہے کہ وہ علماء جن کا علم حدیث و فقہ واقعہ ہی مسلم ہے اگر ان سے کوئی اخطاء ہو گئی ہیں تو ان کو ان میں معذور سمجھا جائے ۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو معصوم عن الخطاء قراردے کر باقاعدہ قواعد گھڑنے شروع کردیے جائیں کہ :

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ذرا غور فرمائیں ! ابن تیمیہ اور مقلدین کے مقاصد میں بڑا واضح فرق ہے ایک کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نےکہہ دیا وہ حرف آخر ہے چاہے اس کے مخالف قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہو ؟
اور دوسرا کہتا ہے چلو ان سے غلطی ہو گئی ہے تو اس پر ضد نہ کرو بلکہ ان کی اغلاط میں پڑہ کر ان کی بدنامی کا باعث نہ بنو ۔
اگرتمام محتملات بیان کرنے کے بعد بھی اوراس کے باوجود کہ اس کا بہترمعنی مرادلیاجاسکتاہے اوریہ کہ ظاہرالفاظ کی کسی بھی بعد کے عالم نے تائید نہیں کی ۔اپ اپنی ہی ہانکے جائیں گے توپھر دوسرے کے پاس عرض کرنے کیلئے کیابچتاہے؟

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں :

ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔
ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے۔
اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے ۔۔ کیونکہ یہاں بھی مقاصد کا فرق بڑا مہم ہے ۔۔۔ لیکن اپنے بھائیوں سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ وہ ’’ ہو گا ، ہو گی ‘‘ کی آڑ میں شریعت سمجھنے کے قواعد بنانا شروع کر دیتے ہیں۔۔ جو بہر صورت ایک قبیح جرم ہے ۔۔ کہ متقدمیں کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح کی بجائے ان پر مزید قواعد کی تفریع شروع کردی جائے اور خود تو جو غلطی کر رہے ہیں کر ہی رہے ہیں ساتھ ان کو بھی رگڑا لگا دیا جائے جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
اگرکسی کا مبلغ علم اسی قدر ہو کہ وہ قواعد فقہ اوراصول فقہ کی کتابوں میں تمیز نہ کرسکتاہو تواس کو حق ہے کہ وہ ایسی بات کہے
اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے
اوردوسرے یہ کہ کسی کے کلام کے معنی مراد بیان کرتے وقت جزم کااختیار آنجناب کو کہاں سے آگیا۔ وہ کون سے دلیل قطعی مل جاتی ہے جس کی بنائ پر کسی ایک آنجناب کو بالکلیہ متعین کردیاجائے۔ یہ ایسے ہی لوگوں کاکام ہوسکتاہے جو اپنے فہم کو حجت قطعیہ سمجھتے ہیں اوردوسروں کی ارائ پر توجہ نہیں کرتے اورپھر کنویں کے مینڈک بننابھی پسند نہیں کرتے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت ( )والے موضوع میں بھی آپ نے اسی طرح کیا ہے اور کر رہے ہیں ۔
یہ دنیا میں سب سے آسان کام ہے جو آنجناب نے کیاہے اوراسی پر بس نہ کریں گے آگے بھی کرتے رہیں۔ ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جہاں تک بات یہ ہے کہ انسان کے کلام کی بہترین تشریح اس کی اپنی بات سے ہونی چاہئے ۔
اس اصول سے میں نے کبھی انحراف نہیں کیاہے البتہ جب آپ نے مجھے اس اصول کی پابندی کامشورہ دیاہے تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوسرے تھریڈ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے کلام سے جومن مانا مطلب کشید کیاہے وہاں پر اپنی بات سے رجوع کریں ۔ (اگرآنجناب اخلاقی ذمہ داری کے مفہوم سے آشنا ہوں اوراس کے تقاضے سے واقف ہوں)
میں عرض کرچکاہوں کہ اگر اصول کرخی کا مطلب وہی ہوتاجو انجناب نے اورآپ ہی جیسے عقل وفہم رکھنے والے دیگر آپ کے ہم مسلکوں نے سمجھاہے توپھر امام کرخی کے اس قول کاکیامطلب ہوگاکہ حدیث کے سامنے چاہے اس کا راوی فقییہ ہویاغیرفقیہ مجتہد کے قیاس کو رد کردیاجائے گا۔(کشف الاسرار)
اس کے علاوہ ان کے دوسرے اقوال ہیں جس سے وضاحت کے ساتھ پتہ چلتاہے کہ اس قول کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ان کے کلام اوراس کلام میں تقیید واطلاق اورعام خاص کا ہم سے زیادہ علم امام کرخی کے شاگردوں اوران کے شاگردوں کے شاگردوں کو ہوگا۔
اس اصول کااطلاق ہم حضرت شاہ ولی اللہ ،ان کے شاگرد اوران کے شاگردوں کے شاگرد پر کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں۔ آنجناب بتانا پسند کریں گے کہ شاہ ولی اللہ کے کس جملہ سے آپ نے یہ من مانا مطلب کشید کیاتھا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ مجتہد نہیں ہیں۔ یاان کے کس دوسرے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
بات وہ کیاکیجئے جس کاعقل وفہم سے کوئی تعلق ہو ۔ یوں ہی بس لکھتے رہنا اورمراسلات پوسٹ کرتے رہناہے تومجھے یقین ہے کہ آنجناب کے پاس اس فضول مشغلے کے علاوہ کچھ دوسرے اہم کام بھی ہوں گے۔
جواب سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی باتوں و اصولوں پر توجہ کرلی جائے تاکہ بات کے فہم میں آسانی پید ا ہوجائے۔

اگرکوئی ایسا معاملہ ہو جو براہ راست کسی شخص کی زات سے متعلق ہو یا اسکے اپنے اقوال و اصولوں اور نظریات کی بات ہو تو ا ن تمام معاملات میں اختلاف کی صورت میں خود اسی شخص کی گواہی، تعبیر اور تشریح ہی حرف آخر ہوگی ۔ اس کی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد گرامی ہے: بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ()وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ (سورہ القیامۃ:۱۴)
بلکہ انسان کو اپنے آپ کا خوب پتا ہے اگرچہ کتنے عذر پیش کرتا رہے ۔
لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ وہ شخص سچ بول رہا ہو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی زات ، اقوال و نظریات کے متعلق وہی بات کہے گا جس کی قرائن و شواہد تصدیق کرتے ہوں لیکن اگر اسکا کردار و عمل اور دیگر اقوال اس کی گواہی کی تکذیب کرتے ہوں تواس صورت میں اس کی بات کو کذب اور دھوکہ دہی سے تعبیر کیا جائے گا۔

اگر معاملہ کسی خبر کا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خبر دینے والا خود اس خبر سے اتفاق کرتا ہے یا اختلاف۔اس صورت میں خبر ہی کا اعتبار ہوگا جبکہ اس خبر کے راوی کے نظریات وعقائد سے خبر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

تنبیہ: مذکورہ بالااصول میرے محدود علم کا نتیجہ ہیں لہٰذا اگر کوئی بھائی دلیل سے ان اصولوں کو غلط ثابت کردے یا صحیح اصولوں کی جانب راہنمائی کردے تو میں رجوع کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں۔ ان شاء اللہ

اب بات سمجھنا آسان ہے کہ ہماری جانب سے پیش کی گئی شاہ ولی اللہ حنفی کی عبارت ایک خبر پر مشتمل ہے جس کی رو سے ابوحنیفہ مقلد ثابت ہوتے ہیں۔ جبکہ جمشید صاحب کی جانب سے اس مطالبے کی کوئی حیثیت نہیں کہ شاہ ولی اللہ کی خبرسے خود ان کے فہم اور مذہب کی روشنی میں استدلال کیا جائے۔دیوبندی حضرات جب اپنے مخالفین جیسے بریلوی حضرات کی عبارات نقل کرکے اس پر تنقید فرماتے ہیں تو کیا کبھی بریلوی حضرات کے فہم کو بھی در خو اعتناء جانتے ہیں؟ حاشا و کلا بلکہ ہر شخص کسی بھی عبارت سے اپنے فہم کے مطابق ہی مطلب اخذ کرتا ہے۔

امام کرخی کے وضع کردہ اصول چونکہ احناف اور حنفی مذہب کے لئے انکی زاتی کاوش ہیں اس لئے اگر امام کرخی نے اپنے ان مخصوص اصولوں کی وضاحت میں کچھ کہا ہو تو جمشید صاحب سے التماس ہے کہ پیش فرما کر اس قضیہ کو نپٹا دیں۔کرخی اصولوں کی وضاحت میں جو عبارت جمشید موصوف نے پیش کی ہے ،اس لئے قابل قبول نہیں کہ وہ متذکرہ اصولوں کے مخالف مفہوم پر مشتمل ہے۔ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفی اصحاب کے خلاف آنے والی ہر حدیث اور قرآن کی ہر آیت کو منسوخ کہہ کر یا تاویل کرکے ٹھکر ا دیا جائے گا اس کے برخلاف دوسری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے مقابلے میں مجتہد کے اجتہاد و رائے کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے رد کر جائے گا۔ہر صاحب عقل باآسانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ دونوں عبارات ایک دوسرے سے سخت متصادم ہیں جن میں ایک کو دوسری کی تشریح میں ہر گز قبول نہیں کیا جاسکتا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جواب سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی باتوں و اصولوں پر توجہ کرلی جائے تاکہ بات کے فہم میں آسانی پید ا ہوجائے۔

اگرکوئی ایسا معاملہ ہو جو براہ راست کسی شخص کی زات سے متعلق ہو یا اسکے اپنے اقوال و اصولوں اور نظریات کی بات ہو تو ا ن تمام معاملات میں اختلاف کی صورت میں خود اسی شخص کی گواہی، تعبیر اور تشریح ہی حرف آخر ہوگی ۔ اس کی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد گرامی ہے: بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ()وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ (سورہ القیامۃ:۱۴)
بلکہ انسان کو اپنے آپ کا خوب پتا ہے اگرچہ کتنے عذر پیش کرتا رہے ۔
لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ وہ شخص سچ بول رہا ہو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی زات ، اقوال و نظریات کے متعلق وہی بات کہے گا جس کی قرائن و شواہد تصدیق کرتے ہوں لیکن اگر اسکا کردار و عمل اور دیگر اقوال اس کی گواہی کی تکذیب کرتے ہوں تواس صورت میں اس کی بات کو کذب اور دھوکہ دہی سے تعبیر کیا جائے گا۔

اگر معاملہ کسی خبر کا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خبر دینے والا خود اس خبر سے اتفاق کرتا ہے یا اختلاف۔اس صورت میں خبر ہی کا اعتبار ہوگا جبکہ اس خبر کے راوی کے نظریات وعقائد سے خبر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
قرآن کی جوآیت دلیل میں پیش کی ہے اس کیلئے کم ازکم کتب تفسیر کی جانب رجوع کرلیاہوتا تومعلوم ہوجاتا کہ اس کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آیت کا مدعا اس سے ہے کہ انسان بظاہر بہانے بناتاہےعذرتراشتا ہے لیکن خود اس کے دل میں چھپی بات کچھ اور ہوتی ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر دیکھئے۔
{ بَلِ الإنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } أي: هو شهيد على نفسه، عالم بما فعله ولو اعتذر وأنكر، كما قال تعالى: { اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا } [ الإسراء : 14 ].
وقال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: { بَلِ الإنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ } يقول: سمعُه وبصرُه ويداه ورجلاه وجوارحُه.
وقال قتادة: شاهد على نفسه. وفي رواية قال: إذا شئت -والله-رأيته بصيرا بعيوب الناس وذنوبهم غافلا عن ذنوبه، وكان يقال: إن في الإنجيل مكتوبا: يا ابن آدم، تُبصر القَذَاة في عين أخيك، وتترك الجِذْل (1) في عينك لا تبصره.



وقال مجاهد: { وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } ولو جادل عنها فهو بصير عليها. وقال قتادة: { وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } ولو اعتذر يومئذ بباطل لا يقبل منه. وقال السدي: { وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } حجته. وكذا قال ابن زيد، والحسن البصري، وغيرهم. واختاره ابن جرير.
وقال قتادة، عن زرارة، عن ابن عباس: { وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } يقول: لو ألقى ثيابه.
وقال الضحاك: ولو أرخى ستوره، وأهل اليمن يسمون الستر: المعذار.
والصحيح قول مجاهد وأصحابه، كقوله: { ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ } [ الأنعام : 23 ]وكقوله { يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ } [ المجادلة : 18 ] .
وقال العوفي، عن ابن عباس: { وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ } هي الاعتذار (1) ألم تسمع أنه قال: { لا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ } [ غافر : 52 ] وقال { وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ } [ النحل : 87 ]{ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ } [ النحل : 28 ] وقولهم { وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ }

جب کہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کسی شخص کے ظاہری قول پر ہی اکتفاء کرناہے۔ مسند الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے دل میں کیاہے ہمیں معلوم نہیں ہے۔ شاہد نذیر صاحب نے درون باطن کیاچھپارکھاہے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہمیں تومطلب اس سے ہوگا جوشاہد نذیر صاحب لکھیں گے۔ پھر ہم شاہد نذیر صاحب کے اقوال کو دوسرے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھیں گے اوراس کا مفہوم متعین کریں گے۔
اب اگر آنجناب دوبارہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف کی جانب رجوع کریں تو بات آئے گی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہرعالم اورمجتہد اپنے شہر کے گزرے علماء کے اقوال کی جانب زیادہ مائل ہوتاہے۔
وكان سعيد وأصحابه يذهبون إلى أن أهل الحرمين أثبت الناس في الفقه وأصل مذهبهم فتاوى عمر وعثمان وقضاياهما وفتاوى عبد الله بن عمر وعائشة وابن عباس وقضايا قضاة المدينة فجمعوا من ذلك ما يسره الله لهم ثم نظروا فيها نظر اعتبار وتفتيش فما كان منها مجمعا عليه بين علماء المدينة فانهم يأخذون عليه بنواجذهم وما كان فيه اختلاف عندهم فانهم يأخذون بأقواها وأرجحها إما لكثرة من ذهب إليه منهم أو لموافقته لقياس قوي أو تخريج صريح من الكتاب والسنة أو نحو ذلك وإذا لم يجدوا فيما حفظوا منهم جواب المسألة خرجوا من كلامهم وتتبعوا الإيماء والاقتضاء فحصل لهم مسائل كثيرة في كل باب باب وكان إبراهيم وأصحابه يرون أن عبد الله بن مسعود وأصحابه أثبت الناس في الفقه كما قال علقمة لمسروق هل أحد منهم أثبت من عبد الله وقول أى حنيفة رضي الله 2عنه للأوزاعي إبراهيم أفقه من سالم ولولا فضل الصحبة لقلت إن علقمة أفقه من عبد الله بن عمر وعبد الله هو عبد الله وأصل مذهبه فتاوى عبد الله بن مسعود وقضايا على رضي الله عنه وفتاواه وقضايا شريح وغيره من قضاة الكوفة فجمع من ذلك ما يسره الله ثم صنع في آثارهم كما صنع أهل المدينة في آثار أهل المدينة وخرج كما خرجوا فتلخص له مسائل الفقه في كل باب باب
اس سے مراد واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کیاکہناچاہ رہے ہیں۔
ایک ہمدردانہ نصیحت یہ ہے کہ کسی کی کتاب سے کوئی لفظ کوٹ کرنے سے پہلے ماقبل اورمابعد کو ذرااچھی طرح پڑھ لیاکریں۔ اورمیراگمان غالب یہ ہے کہ آنجناب نے کسی اورجگہ سے جوکسی دوسرے عالم نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو مذکورہ جملہ نقل کیاہے وہیں سے یہ جملہ کوٹ کرکے بحث شروع کردی ہے۔ اگراصل کتاب کی جانب رجوع کرنے کی زحمت اٹھاتے تویہ نوبت نہ آتی۔ جب کسی سے کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال کرنا مقصود ہوتو اصل کتابوں کی جانب رجوع کریں۔
اگرفرصت ہوتی تو مزید تفصیل سے کلام کرتالیکن فرصت عنقاہے۔ دعاکیجئے کہ فرصت کے لمحات نصیب ہوں توتفصیل سے کچھ لکھاجائے۔والسلام
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
امام ابوالحسن الکرخیؒ کی کتاب اصول کرخی کی عبارت پر کیئے جانے والے منکرین حدیث کے اعتراض کی اصل حقیقت دلائل کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحیم
امام ابوالحسن الکرخیؒ (متوفی ۳۴۰ھ)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاویؒ کےہم عصر ہیں اورامام طحاویؒ کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا۔
امام عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزیؒ(متوفی۵۹۶ھ)نے مناقب معروف الکرخی واخبارہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں امام ابوالحسن الکرخیؒ کے مناقب بیان کیئے ہیں۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ نے اصول فقہ پر ایک مختصر کتاب لکھی ہے۔ جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اوراحادیث رسولﷺکااستخفاف معلوم ہوتاہے۔ جس کی بنیاد پرعام اور لاعلم عوام حتیٰ کہ بہت سےاہل علم بھی اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیرفوراًتبراشروع کردیتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراًطعن وتشنیع شروع کردینا۔ آئیں ہم اس عبارت کے اصل معنیٰ و مفہوم کو سمجھتے ہیں تاکہ قارئین کی رہنمائی اور اصل حقیقت معلوم ہوسکے ۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ اصول کرخی میں لکھتے ہیں۔ ’’ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق‘‘۔ ’’ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
’’ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق، وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ‘‘۔ ’’ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی، یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہوگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
یہی وہ عبارات ہیں جن کی حقیقت سمجھے بغیر آج کے لاعلم علماء و جہلافقہ حنفی پراعتراض کرتےرہتے ہیں اور فقہ حنفی کو قرآن و حدیث کے مخالف بیان کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے زیادہ تروہ لوگ ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے۔ ایسے لوگ اپنے معمولی علم وفہم کو استعمال کرتے ہوئےکنویں کے مینڈک کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حق و سچ ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔
امام کرخیؒ کے قول کاصحیح مطلب کیاہے اس کا جواب ذیل میں وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہے
کسی بھی قول کاصحیح مطلب قائل خودسمجھاسکتاہے یااس کےشاگردوں کی زبانی سمجھاجاسکتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے۔ کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔
امام کرخیؒ کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفیؒ (متوفی ۵۳۷ھ)جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں وقواعدکی تشریح کی ہےجس میں امام کرخیؒ کی اس عبارت کا صحیح معنیٰ و مطلب بھی بیان ہوتاہے۔ وہ ان تمام اصول وقواعدکی تشریح اور مثال بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ، والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ، اویحمل علی النسخ، کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ‘‘۔ ’’امام نسفی ؒفرماتے ہیںاس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل "فولواوجوھکم شطرہ" کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو، اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو، یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے "ولرسولہ ولذی القربی الخ" آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرامؓ کے اجماع سے منسوخ ہے۔ ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک "والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا" کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہواس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔ یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔ لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت "پہلی آٰت والذین یتوفون منکم" کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر‘‘۔ (المصدرالسابق)
’’قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض‘‘۔ ’’اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت عیسٰیؓ سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاکﷺ نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا، انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے۔معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیااورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو۔امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے‘‘۔ (المصدرالسابق)
امام کرخیؒ کے قاعدے کا صحیح معنیٰ و مطلب امام نسفی ؒکی بیان کردہ تشریح کی روشنی میں اتناواضح ہوگیاہے کہ جس سے صاف معلوم ہوتاہےکہ امام کرخیؒ کےقول کا ظاہری مطلب مراد یہ نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہؒ کا قول کافی ہوگا۔ بلکہ یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخیؒ کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے جس کی دلیل دوسری آیت یا احادیث سے ملتی ہے۔ ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اتنی بات سمجھنے میں کسی بھی صاحب عقل شخص کو تامل نہ ہوگا۔ امام کرخیؒ کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے، یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں قرآن و حدیث کی واضح نص موجود ہونے کے باوجود ائمہ کرامؒ نے ان آیات و احادیث میں تاویلات کی ہیں۔ جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، كِلاَهُمَا عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ "‏إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاَةِ‏"‘‘۔ ’’آدمی اورکفرمیں فرق، نماز ترک کرنےکاہے‘‘۔ (صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب بَيَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ، ج۱، رقم الحدیث ۱۵۳)
’’ أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "‏إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ"‘‘۔ ’’ہمارے اورتمہارے درمیان عہد نماز ہے، جونماز ترک کرےگا، کافر ہوگا‘‘۔ (سنن النسائی: كتاب الصلاۃ، باب الْحُكْمِ فِي تَارِكِ الصَّلاَةِ، ج۱، رقم الحدیث ۴۶۴)
مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریمﷺ کے فرمان میں واضح نص موجود ہے کہ فرض نماز ترک کرنے والاکافرہے۔ چاہے جان بوجھ کرترک کرے یا سستی وکوتاہی کے سبب۔ اس کے باوجود بھی آج تقریباًتمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علماء حضرات فرض نماز ترک کرنے والے کو مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں اورایسےشخص کانکاح بھی پڑھاتے ہیں اور نمازِ جنازہ بھی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جاتا ہےاورایسے شخص کا ذبیحہ کھانا بھی جائز سمجھتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن دور میں تقریباً ہر مسلک و مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو صرف جمعہ، عیدین یا پھر رمضان میں نمازیں پڑھتے ہیں تو کیا ان تمام لوگوں کو کافرکہاجاتاہے؟
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلاَةِ‘‘۔ ’’اصحاب رسول اللہ ﷺ بجز نماز اور کسی عمل کےترک کرنے کوکفر نہیں جانتےتھے‘‘۔ (جامع الترمذی: كتاب الإيمان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ، ج۵، رقم الحدیث ۲۶۲۲)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے واضح فرمان کے باوجود بھی تمام صحابہ کرامؓ نماز ترک کرنے والے کو کافرنہیں سمجھتے تھے۔ تو کیا کوئی مسلمان یہ کہنے کی جرٔت کرسکتا ہے کہ نعوذباﷲتمام صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی مخالفت کی؟ کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ رسول اﷲﷺ کے فرمان کا حقیقی مطلب جانتے تھے اسی لئے اصحاب رسولﷺنے تارک نماز کو کافرنہیں سمجھا۔ امام کرخیؒ کی عبارت کا صحیح معنی و مفہوم بھی بالکل یہی ہےکہ جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے واضح فرمان کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا، بالکل اسی طرح ائمہ احناف نے بعض آیات و احادیث کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا۔
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ امام کرخی ؒکی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرامؒ کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہؒ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہؒ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام کے نام سےایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ ائمہ کرامؒ کے کسی حدیث یانص قرآنی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص، وجميع الأعذار ثلاثة أصناف‏:‏ أحدها‏:‏ عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله۔‏ الثاني‏:‏ عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول۔‏ والثالث‏:‏ اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ۔‏ وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة‘‘۔ ’’ایسے تمام اسباب جن کی وجہ سے آئمہ کرام کا عمل بظاہر کسی حدیث کے مخالف نظر آتا ہے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا (یعنی حدیث کے ثبوت کا اختلاف)۔ دوسرایہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا مقصد وہ نہیں تھا جو لوگ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں (حدیث کے فہم کا اختلاف)۔ تیسرا یا وہ سمجھتے ہیں کہ حدیث ثابت بھی ہے اور اس سے مراد بھی ٹھیک لیا گیا ہے مگر اب یہ حکم منسوخ ہے (حدیث کے بلحاظ عمل قبولیت میں اختلاف) ‘‘۔(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام:ص۹)

اس کے بعد ابن تیمیہؒ نے ان تینوں اعذار کی شرح لکھی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں: ’’السبب التاسع:‏ اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع‘‘۔ (المصدرالسابق: ص۳۰)
ابن تیمیہؒ کی بیان کردہ تشریح کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخیؒ کے بیان میں اورامام ابن تیمیہؒ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔ امام کرخیؒ کی بات اورابن تیمیہؒ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا۔
امام کرخیؒ کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو، جب کہ ابن تیمیہؒ کا بیان مثبت ہے۔ یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا، کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ مزیدگہرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔
امام کرخیؒ کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب یہ نکلتا ہےکہ امام کرخیؒ نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ،امام محمدؒ، امام زفرؒاوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ایسانہیں ہوسکتا۔ حوالے اور مزید تفصیل کے لیےاس لنک کا مطالعہ کریں۔
https://nomaniqbal-alhanafi.blogspot.com/…/…/blog-post.html…
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امام ابوالحسن الکرخیؒ کی کتاب اصول کرخی کی عبارت پر کیئے جانے والے منکرین حدیث کے اعتراض کی اصل حقیقت دلائل کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحیم
امام ابوالحسن الکرخیؒ (متوفی ۳۴۰ھ)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاویؒ کےہم عصر ہیں اورامام طحاویؒ کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا۔
امام عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزیؒ(متوفی۵۹۶ھ)نے مناقب معروف الکرخی واخبارہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں امام ابوالحسن الکرخیؒ کے مناقب بیان کیئے ہیں۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ نے اصول فقہ پر ایک مختصر کتاب لکھی ہے۔ جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اوراحادیث رسولﷺکااستخفاف معلوم ہوتاہے۔ جس کی بنیاد پرعام اور لاعلم عوام حتیٰ کہ بہت سےاہل علم بھی اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیرفوراًتبراشروع کردیتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراًطعن وتشنیع شروع کردینا۔ آئیں ہم اس عبارت کے اصل معنیٰ و مفہوم کو سمجھتے ہیں تاکہ قارئین کی رہنمائی اور اصل حقیقت معلوم ہوسکے ۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ اصول کرخی میں لکھتے ہیں۔ ’’ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق‘‘۔ ’’ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
’’ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق، وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ‘‘۔ ’’ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی، یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہوگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
یہی وہ عبارات ہیں جن کی حقیقت سمجھے بغیر آج کے لاعلم علماء و جہلافقہ حنفی پراعتراض کرتےرہتے ہیں اور فقہ حنفی کو قرآن و حدیث کے مخالف بیان کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے زیادہ تروہ لوگ ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے۔ ایسے لوگ اپنے معمولی علم وفہم کو استعمال کرتے ہوئےکنویں کے مینڈک کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حق و سچ ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔
امام کرخیؒ کے قول کاصحیح مطلب کیاہے اس کا جواب ذیل میں وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہے
کسی بھی قول کاصحیح مطلب قائل خودسمجھاسکتاہے یااس کےشاگردوں کی زبانی سمجھاجاسکتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے۔ کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔
امام کرخیؒ کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفیؒ (متوفی ۵۳۷ھ)جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں وقواعدکی تشریح کی ہےجس میں امام کرخیؒ کی اس عبارت کا صحیح معنیٰ و مطلب بھی بیان ہوتاہے۔ وہ ان تمام اصول وقواعدکی تشریح اور مثال بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ، والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ، اویحمل علی النسخ، کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ‘‘۔ ’’امام نسفی ؒفرماتے ہیںاس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل "فولواوجوھکم شطرہ" کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو، اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو، یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے "ولرسولہ ولذی القربی الخ" آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرامؓ کے اجماع سے منسوخ ہے۔ ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک "والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا" کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہواس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔ یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔ لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت "پہلی آٰت والذین یتوفون منکم" کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر‘‘۔ (المصدرالسابق)
’’قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض‘‘۔ ’’اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت عیسٰیؓ سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاکﷺ نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا، انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے۔معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیااورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو۔امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے‘‘۔ (المصدرالسابق)
امام کرخیؒ کے قاعدے کا صحیح معنیٰ و مطلب امام نسفی ؒکی بیان کردہ تشریح کی روشنی میں اتناواضح ہوگیاہے کہ جس سے صاف معلوم ہوتاہےکہ امام کرخیؒ کےقول کا ظاہری مطلب مراد یہ نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہؒ کا قول کافی ہوگا۔ بلکہ یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخیؒ کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے جس کی دلیل دوسری آیت یا احادیث سے ملتی ہے۔ ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اتنی بات سمجھنے میں کسی بھی صاحب عقل شخص کو تامل نہ ہوگا۔ امام کرخیؒ کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے، یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں قرآن و حدیث کی واضح نص موجود ہونے کے باوجود ائمہ کرامؒ نے ان آیات و احادیث میں تاویلات کی ہیں۔ جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، كِلاَهُمَا عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ "‏إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاَةِ‏"‘‘۔ ’’آدمی اورکفرمیں فرق، نماز ترک کرنےکاہے‘‘۔ (صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب بَيَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ، ج۱، رقم الحدیث ۱۵۳)
’’ أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "‏إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ"‘‘۔ ’’ہمارے اورتمہارے درمیان عہد نماز ہے، جونماز ترک کرےگا، کافر ہوگا‘‘۔ (سنن النسائی: كتاب الصلاۃ، باب الْحُكْمِ فِي تَارِكِ الصَّلاَةِ، ج۱، رقم الحدیث ۴۶۴)
مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریمﷺ کے فرمان میں واضح نص موجود ہے کہ فرض نماز ترک کرنے والاکافرہے۔ چاہے جان بوجھ کرترک کرے یا سستی وکوتاہی کے سبب۔ اس کے باوجود بھی آج تقریباًتمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علماء حضرات فرض نماز ترک کرنے والے کو مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں اورایسےشخص کانکاح بھی پڑھاتے ہیں اور نمازِ جنازہ بھی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جاتا ہےاورایسے شخص کا ذبیحہ کھانا بھی جائز سمجھتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن دور میں تقریباً ہر مسلک و مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو صرف جمعہ، عیدین یا پھر رمضان میں نمازیں پڑھتے ہیں تو کیا ان تمام لوگوں کو کافرکہاجاتاہے؟
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلاَةِ‘‘۔ ’’اصحاب رسول اللہ ﷺ بجز نماز اور کسی عمل کےترک کرنے کوکفر نہیں جانتےتھے‘‘۔ (جامع الترمذی: كتاب الإيمان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ، ج۵، رقم الحدیث ۲۶۲۲)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے واضح فرمان کے باوجود بھی تمام صحابہ کرامؓ نماز ترک کرنے والے کو کافرنہیں سمجھتے تھے۔ تو کیا کوئی مسلمان یہ کہنے کی جرٔت کرسکتا ہے کہ نعوذباﷲتمام صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی مخالفت کی؟ کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ رسول اﷲﷺ کے فرمان کا حقیقی مطلب جانتے تھے اسی لئے اصحاب رسولﷺنے تارک نماز کو کافرنہیں سمجھا۔ امام کرخیؒ کی عبارت کا صحیح معنی و مفہوم بھی بالکل یہی ہےکہ جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے واضح فرمان کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا، بالکل اسی طرح ائمہ احناف نے بعض آیات و احادیث کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا۔
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ امام کرخی ؒکی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرامؒ کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہؒ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہؒ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام کے نام سےایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ ائمہ کرامؒ کے کسی حدیث یانص قرآنی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص، وجميع الأعذار ثلاثة أصناف‏:‏ أحدها‏:‏ عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله۔‏ الثاني‏:‏ عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول۔‏ والثالث‏:‏ اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ۔‏ وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة‘‘۔ ’’ایسے تمام اسباب جن کی وجہ سے آئمہ کرام کا عمل بظاہر کسی حدیث کے مخالف نظر آتا ہے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا (یعنی حدیث کے ثبوت کا اختلاف)۔ دوسرایہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا مقصد وہ نہیں تھا جو لوگ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں (حدیث کے فہم کا اختلاف)۔ تیسرا یا وہ سمجھتے ہیں کہ حدیث ثابت بھی ہے اور اس سے مراد بھی ٹھیک لیا گیا ہے مگر اب یہ حکم منسوخ ہے (حدیث کے بلحاظ عمل قبولیت میں اختلاف) ‘‘۔(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام:ص۹)

اس کے بعد ابن تیمیہؒ نے ان تینوں اعذار کی شرح لکھی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں: ’’السبب التاسع:‏ اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع‘‘۔ (المصدرالسابق: ص۳۰)
ابن تیمیہؒ کی بیان کردہ تشریح کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخیؒ کے بیان میں اورامام ابن تیمیہؒ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔ امام کرخیؒ کی بات اورابن تیمیہؒ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا۔
امام کرخیؒ کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو، جب کہ ابن تیمیہؒ کا بیان مثبت ہے۔ یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا، کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ مزیدگہرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔
امام کرخیؒ کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب یہ نکلتا ہےکہ امام کرخیؒ نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ،امام محمدؒ، امام زفرؒاوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ایسانہیں ہوسکتا۔ حوالے اور مزید تفصیل کے لیےاس لنک کا مطالعہ کریں۔
https://nomaniqbal-alhanafi.blogspot.com/…/…/blog-post.html…
اسرار صدیقی صاحب آپ کی پوسٹ کردہ تحریر کو پہلے سے موجود ایک تھریڈ میں منتقل کردیا گیا ہے۔
اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریر کافی حد تک اسی تھریڈ سے ماخوذ ہے۔
 
Top