• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہؒ حدیث میں مشہور کیوں نہ ہوئے؟

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی پیدائش کوفہ شہر میں ہوئی، جواس وقت فقہ وحدیث کا مرکز تھا، یہیں امام صاحب کی پرورش ہوئی۲؎، آپ حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں، آپ کی ولادت سنہ۸۰ھ میں ہوئی، اس وقت متعدد صحابہ کرامؓ بقیدحیات تھے، جن سے آپ کی ملاقات ہوئی اور ان سے روایت بھی کی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنا توقطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہے، تقریباً بیس اکابر علماء نے اس کوتسلیم کیا ہے۲؎، امام صاحبؒ نے چار ہزار محدثین سے علم حدیث حاصل کیا ہے، ان میں سب شیوخ تابعین اور تبع تابعین ہیں، اس لیے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحبؒ کا شمار محدثین کے طبقۂ حفاظ میں کیا ہے۳؎، شیخ الاسلام ابن عبدالبر مالکی تحریر فرماتے ہیں:
"حماد بن زید نے امام ابوحنیفہؒ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں"۔
اگرامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے پاس حدیثیں تھی ہی نہیں، یاصرف سولہ سترہ کے قریب تھی توبہت سی حدیثوں کا کیا مطلب ہوگا؟ جب ان کے پاس زیادہ حدیثیں نہ تھی توحماد بن زید نے ان سے بہت سی حدیثیں کہاں سے روایت کی ہوں گی؟ امام عبدالرحمٰن مقری جوکہ امام المحدث اور شیخ الاسلام تھے؛ انھوں نے امام ابوحنیفہؒ سے نوسوحدیثیں سنی تھیں۴؎، امام عبدالرحمن مقری سے مناقب کردری میں روایت ہے کہ جب وہ امام ابوحنیفہؒ کی سند سے کوئی حدیث بیان کرتے تووہ کہتے: ہم سے شہنشاہ نے حدیث بیان کی، اندازہ فرمائیے! ایک محدث کامل امام ابوحنیفہؒ کوروایت اور حدیث کا شہنشاہ کہہ رہا ہے، توجوشخص اپنے زمانہ میں حدیث کا شہنشاہ ہوگیا، اس کے محدث اور حافظ ہونے میں کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے؟۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ امام محمدبن سماعہ سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا:
"امام ابوحنیفہؒ نے اپنی تصانیف میں سترہزار سے کچھ اوپرحدیثیں بیان کی ہیں اور چالیس ہزار حدیثوں سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے"۵؎۔
حیرت کی بات ہے کہ امام صاحبؒ سترہزار سے زیادہ حدیثیں بیان فرماتے ہیں اور چالیس ہزار حدیثوں سے کتاب الآثار کا انتخاب کرتے ہیں، اس کے باوجود بعض ناواقف حضرات کا یہ گمان ہے کہ امام صاحب حدیث میں کمزور تھے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ امام صاحب کی کتب ستہ میں کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی امام صاحب حدیث میں مشہور ہیں؛ لیکن امام شافعی سے بھی کوئی حدیث مروی نہیں ہے، امام احمد جوکہ امام بخاری کے استاذ ہیں ان سے بھی بخاری شریف میں صرف تین چار روایت مروی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ حضرات حدیث میں کمزور تھے؛ بلکہ اس کی اصل اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ شروع سے کتاب وسنت سے مسائل کے استنباط میں دومکاتب فکر رہا کیے ہیں، ایک طبقہ وہ تھا جوحدیث کے حفظ وروایت کی طرف زیادہ متوجہ تھا اور نصوص کے ظاہر پر حکم لگاتا تھا؛ نیزنصوص پر محض صحت اسناد کے پہلو سے غور کرتا تھا، دوسرا گروہ وہ تھا جس نے قرآن وحدیث سے احکام کے استنباط پر زیادہ توجہ دی، محض الفاظِ حدیث کے ظاہری مفہوم پر اکتفاء کرنے کے بجائے اس کے معانی ومقاصد میں بھی غوروفکر کرتا تھا اور روایت کوخارجی قرائن کی روشنی میں بھی پرکھتا تھا، پہلاگروہ "اصحاب الحدیث" کہلایا اور دوسرا گروہ "اصحاب الرائے" گویا یہ لقب متقدمین کے نزدیک وجہ تعریف تھا نہ کہ باعثِ مذمت؛ جیسا کہ آج کل بعض کوتاہ بین سمجھتے ہیں، ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ اس لقب کے زیادہ مستحق تھے۔
(۱)مناقب ابی حنیفہؒ:۲۲۔ مستدلات الامام ابی حنیفہؒ:۲۸۔ (۲)قواعد فی علوم الحدیث:۳۰۶۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ حالاتِ زندگی۔ (۳)تذکرۃ النعمان:۲۹۸۔ مفتاح الفلاح:۱۰۷۔ (۴)مناقب کردری:۲/۴۹۸۔ (۵)بحث ونظر، اکٹوبر سنہ۲۰۰۳ء۔ حیات حضرت امام ابوحنیفہؒ:۱۲۸۔
امام اعظم کے حدیث میں مشہور نہ ہونے کی پہلی وجہ
امام ابوحنیفہؒ کی ذہانت اور طباعی کا حال یہ تھا کہ لوگ ان کو "اعقل اھل الزمان" اور "اعلم اھل الزمان" کہتے تھے، اس لیے آپ اصحاب الرائے شمار کیئے گئے، حقیقت یہ ہے کہ "اصحاب الرائے" اور "اصحاب الحدیث" کے گروہ عہد صحابہؓ ہی سے تھے، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کا شمار اصحاب الرائے میں تھا اور حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ وغیرہ اصحاب الحدیث میں تھے، اس کا اندازہ ان مناقشوں سے ہوتا ہے جوصحابہؓ کے درمیان پیش آئے۔
(بحث ونظر، اکٹوبر سنہ۲۰۰۳ء۔ حیات حضرت امام ابوحنیفہؒ:۱۲۸)
اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اصحاب الرائے کے زمرے میں آتے ہیں، جیسا کہ ان مناقشوں سے واضح ہوتا جوآپ کے معاصرین سے ہوتا رہتا تھا، امام صاحب علیہ الرحمہ کی حدیث میں مشہور نہ ہونے کی یہ ایک معقول وجہ ہے۔
امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حدیث میں مشہور نہ ہونے کی دوسری وجہ
یہ بات روشن سورج کی طرح عیاں ہے کہ مسائل کا استخراج احادیث میں ملکہ راسخہ کے بغیر ممکن نہیں، اس میں جہاں نصوص کے معانی واصول پر نظر رکھنی پڑتی ہے، وہیں ناسخ ومنسوخ، عموم وخصوص، عادت وعبادت کے فرق وغیرہ کوبھی جاننا ضروری ہوتا ہے اور بلاشبہ استنباطِ مسائل میں حدیث اور اصولِ حدیث کی ساری تفصیلات سے استفادہ کرنا پڑتا ہے، جس سے کوئی فقیہ انکار نہیں کرسکتا۔
(تذکرۃ النعمان:۲۹۸)
بزرگانِ سلف میں سینکڑوں ایسے بزرگ گزرے ہیں، جوکہ اجتہاد اور روایت دونوں علوم کے ماہر تھے؛ لیکن ان بزرگانِ دین کی شہرت اسی فن سے ہوئی، جس میں ان کا کمال غالب تھا، اس کی بہت سی نظیریں پائی جاتی ہیں، مثلاً امام بخاری علیہ الرحمہ پر نظر کریں گے توآپ کومعلوم ہوگا کہ امام بخاریؒ بہت بڑے محدث ہیں؛ بلکہ امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں؛ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امام بخاریؒ قرآن کی تفسیر سے ناواقف تھے، بلاشبہ آپ کی نظر قرآن مجید پر گہری تھی، تفسیر اور اصولِ تفسیر میں امام بخاریؒ کودرک حاصل تھا، اس کا اندازہ بخاری شریف کے تراجم سے ہوتا ہے؛ لیکن آپ مفسر کی حیثت سے مشہور نہیں ہوئے، دنیا آپ کومحدث ہی کہتی ہے؛ اسی طرح جب ہمارے سامنے اولیاء اللہ کی فہرست آتی ہے یاان کا تذکرہ ہوتا ہے توبجا طور پر ہمارے سامنے خواجہ معین الدین چشتیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، خواجہ قطب الدینؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، اور صابر کلیریؒ، اکابراولیاء اللہ کے اسمائے گرامی لیے جاتے ہیں؛ لیکن اس کے برخلاف امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا نام اولیاء اللہ کی فہرست میں نہیں لیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ حضرات اولیاء اللہ نہیں تھے؟ یقیناً تھے؛ بلکہ ان لوگوں نے ولایت کے ساتھ تفقہ فی الدین حاصل کیا، اس لیے فقہاء کی فہرست میں شمار ہوئے، اولیاءاللہ کی فہرست میں ان حضرات کے نام نہ آنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ حضرات فقہ کے اونچے مرتبہ پر فائز تھے، ان حضرات کا فقہ سے ایسا گہرا تعلق تھا کہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل گئی کہ یہ حضرات بھی اولیاء اللہ ہوسکتے ہیں؛ اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ علماءِ امت میں بعض شخصیت محدث سے مشہور ہوئی اور بعض فقیہ کی حیثیت سے مشہور ہوئی اس کا مطلب یہ نہیں کہ جوشخصیت فقیہ کی حیثیت سے مشہور ہوئی وہ حدیث سے ناواقف ہیں؛ یہی حال امام صاحبؒ کا ہے کہ امام صاحبؒ فقیہ کی حیثیت سے مشہور ہوئے، محدث کی حیثیت سے مشہور نہیں ہوئے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حدیث میں مشہور نہ ہونے کی تیسری وجہ
یہ ہے کہ امام صاحبؒ کا مسائل کودلائل سے استنباط کرنے میں اشتغال ٹھیک ایسا ہی رہا؛ جیسا کہ کبارِ صحابہؓ، مثلاً حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کونظام امت کے سنبھالنے میں اشتغال تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات سے روایتیں کم ہیں، اس کے برخلاف جوصحابہؓ مرتبہ میں ان سے کم ہیں ان کی روایتیں ان کبارِ صحابہؓ سے زیادہ ہیں۔
(تذکرۃ النعمان:۲۹۸)
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حدیث میں مشہور نہ ہونے کی چوتھی وجہ
جس طرح روایت حدیث میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بہت محتاط تھے، جس کی وجہ سے ان حضرات سے بہت کم حدیثیں روایت کی گئی ہیں؛ کیونکہ قبولِ حدیث میں ان حضرات کی کڑی شرطیں تھیں، جب تک کسی حدیث پر ان کواطمینان نہ ہوجاتا، اس وقت تک قبول نہیں کرتے؛ اسی طرح امامِ اعظمؒ کے اصول وشرائط قبول حدیث میں سخت تھے، آپ نے دوسرے محدثین کی طرح بے تحاشا روایت نہیں کی؛ اسی وجہ سے آپ کی بیان کردہ روایت تعداد میں کم ہے اور ایک محدث کی حیثیت سے آپ مشہور نہ ہوسکے اور یہ کوئی عیب نہیں ہے؛ جیسا کہ سطورِ بالا میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔
(ترجمان السنۃ:۱/۲۳۴)
 
Top