• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہؒ پر جرح وطعن حقیقت کے آئینے میں

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
یہ دنیا کا دستورہے کہ ہربڑے آدمی اور ہرمقبول وممدوح کے کچھ حاسدین وناقدین ہوتے ہیں، جن کواس کی مقبولیت اور اس کی سربلندی ذرہ برابر گوارا نہیں ہوتی، وہ اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ کس طرح اس کومجروح کیا جائے اور اس کی مقبولیت کوٹھیس پہنچاکر اس کی مقبولیت میں کمی پیدا کردی جائے۔
کچھ اسی طرح کی بات حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ پیش آئی؛ چونکہ آپ کواللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا، آپ اپنے وقت کے فقیہ بھی تھے اور محدث بھی، آپ کے یہ کمالات حاسدین کوہضم نہ ہوپائے اور انھوں نے آپ پر مختلف طعن کیے، اللہ جزائے خیر دے علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو کہ انھوں نے ان سبھی طعن کا ذکرکرکے ان کا جواب بھی دیا ہے، علامہ خطیب نے لکھا ہے کہ آپ پرجوطعن کئے گئے ہیں ان میں سے بعض عقائد سے متعلق ہیں اور بعض فروع سے متعلق ہیں، عقائد سے متعلق حسب ذیل اقوال آپ کی طرف منسوب کئے گئے ہیں:
"یہودی، مشرک، زندیق، دہری، صاحب ھویٰ، ان کوکفر سے دوبار توبہ کرائی گئی، مرجیہ، جھمی، خلقِ قرآن کے قائل؛ نیزاصحاب ابوحنیفہؒ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ اختیار کرتے ہیں"۔
اور فروع سے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں:
"خروج علی السلطان، تقیہ کرنا، زناکوحلال قرار دینا، ربواکوجائز کہنا، خونریزی کودرست قرار دینا؛ نیز انہوں نے آپﷺ کی سنتوں کوپسِ پشت ڈال دیا اور اس کو کوئی اہمیت نہیں دی"۔
(۱)امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین:۵۰،۴۹۔
جرحوں پر تحقیقی نظر
اب ان جرحوں پر ذراتحقیقی نظر بھی ڈال لی جائے، بحث کے دوپہلو ہوسکتے ہیں، نقلی، عقلی: نقلی بحث یہ ہے کہ خود خطیب ان جرحوں کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں؛ بلکہ انھوں نے ان جرحوں کے نقل کرنے پر معذرت کی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ خود امام صاحبؒ کی جلالت قدر کومانتے ہیں؛ انھوں نے آپ کے حالات کوواقعتاً آپ میں ڈوب کر لکھا ہے، ظاہر ہے کہ اگرمذکورہ بالا جرحوں میں سے خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یافروع سے، ایک جرح بھی خطیب کے یہاں ثابت ہوتی توجلالت قدرتودرکنا، امام صاحب کی قدر بھی ان کے دل میں نہ ہوتی، اس کے علاوہ جرحیں نقل کرنے کے ساتھ ساتھ جابجا ان کے تردیدی اقوال بھی نقل کرتے ہیں، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خطیب صرف ناقل ہیں، خود ان کوان جرحوں پر اعتماد نہیں۲؎، اب ذیل میں آپ کے اوپر کئے گئے طعن کا پہلے ایک اجمال جواب سن لیجئے:
صاحب اعلاء السنن نے امام صاحبؒ پر کئے جانے والے جرح پر سیر حاصل بحث کی ہے اور دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ پر یہ ساری جرحیں بے بنیاد ہیں، صرف حسد اور دشمنی کی بناء پرلوگوں نے آپ پرطرح طرح کی جرح کی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ حسد ودشمنی کی بنیاد پر بھی بعض مرتبہ جرح کی جاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسماء رجال کے ماہرین نے یہ لکھا ہے کہ ہرجرح معتبر نہیں ہوتی ہے؛ کیونکہ ہرجرح وطعن کومعتبرمان لیا جائے توایک محدث بھی ایسا نہیں بچے گا جوجرح وطعن سے محفوظ ہو، اس لیے کہ بڑے سے بڑا امام بھی ایسا نہیں ہے جس پر کسی نہ کسی نے طعن نہ کیا ہو۳؎، صاحب اعلاء السنن نے ایک جگہ بجا فرمایا:
"میں تم کوقسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے ایسا شخص بتاؤ جس پرکسی نے کلام نہ کیا ہو"۴؎۔
یہ توایک اجمالی جواب ہے، ان جرحوں کا جوامام صاحبؒ پر کئے گئے ہیں، اس کے بعد بعض جرح پر ذراتفصیلی نگاہ ڈالتے جائیں؛ لیکن تفصیل میں جانے سے پہلے ایک بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ کسی بھی جرح وطعن کے صحیح ومعتبر ہونے کے لیے دوچیزیں لازم وضروری ہیں، ایک یہ کہ وہ جرح واضح اور مفسر ہو، دوسرے یہ کہ اس جرح کا سبب بھی واضح طور پر بیان کیا جائے۵؎، اس نقطۂ نظر سے امام ابوحنیفہ پر کیئے گئے طعن کا جائزہ لیا جاتا ہے توایک طعن بھی معتبر نظرنہیں آتا؛ جیسا کہ ذیل کے سطور سے معلوم ہوگا۔
(۲)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۵۰۔ (۳)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۵،۲۴۔ (۴)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۵۔ (۵)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۳۔
امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور خلقِ قرآن
حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی طرف خلقِ قرآن کی نسبت درست ہی نہیں ہے؛ کیونکہ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے اس کا انکار کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
"لم یصح عندنا ان اباحنیفۃ کان یقول القرآن مخلوق"۶؎۔
ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں کہ ابوحنیفہؒ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے۔
امام احمدبن حنبلؒ کے علاوہ ابوسلیمان جوزجانیؒ اور معلیٰ بن منصور وغیرہ کا کہنا ہے:
"ماتکلم ابوحنیفۃ ولاابویوسف ولازفر ولامحمد ولااحد من اصحابھم فی القرآن وانماتکلم فی القرآن بشرالمریسی وابن ابی داؤد"۷؎۔
امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، امام زفرؒ، امام محمدؒ اور ان کے علاوہ دیگر احناف میں سے کوئی خلقِ قرآن کے قائل نہیں ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ بشر مریسی اور ابن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک ہے؛ لیکن ان لوگوں نے اصحاب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوبدنام کیا، امام ابوحنیفہؒ خلقِ قرآن کے کیا قائل ہوتے؛ بلکہ انھوں نے تواس کی تردید کی ہے، ایک مرتبہ عبداللہ ابنِ مبارکؒ ابوحنیفہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے توامام صاحب رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں میں کیا چرچا ہورہا ہے؛ انھوں نے جواب دیا: ایک شخص جھم نامی ہے؛ اسی کا چرچا ہورہا ہے، امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ وہ کیا کہتا ہے؟ عبداللہ ابنِ مبارکؒ نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:"القرآن مخلوق" یہ سنکر امام صاحبؒ نےیہ آیت پڑھی:
"كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّاكَذِبًا"۔
(الکہف:۵)
بڑی بھاری بات ہے جوان کے منھ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ بالکل ہی جھوٹ بکتے ہیں۔
اس صراحت کے باوجود امام صاحبؒ کی طرف خلقِ قرآن کی نسبت کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟۔
(۶)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۱۵۔ (۷)امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین، بحوالہ تاریخ بغداد:۵۰۔
کیا جنت وجہنم کوامام ابوحنیفہؒ غیرموجود مانتے تھے؟
فقہ اکبرجوامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اس میں صراحت ہے کہ جنت وجہنم موجود ہیں اور ان کی نعمتیں لازوال ہیں۸؎۔
خطیب بغدادی نے بھی آپ پر جن لوگوں نے یہ جرح کی ہے، اس کی تفصیل پیش کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ درحقیقت ابومطیع اس کا قائل تھا ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا یہ مسلک بالکل نہیں تھا۹؎۔
(۸)شرح فقہ اکبر:۱۵، ملاعلی قاریؒ۔ (۹)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۱۵۔
کیا آپ کذاب تھے؟
امام احمد بن حنبلؒ کی طرف جوجرح امام صاحبؒ کے کذاب ہونے کی منسوب ہے، اس کوخطیب نے پہلے نقل کیا ہے، اس کے بعدانھوں نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ آیا ابوحنیفہ ثقہ ہیں؟ توانھوں نے کہا:
"نَعَمْ ثِقَۃ، ثِقَۃ"۔
ہاں ثقہ ہیں ثقہ ہیں۔
انہی کا دوسرا قول یہ بھی نقل کیا ہے:
"کان ابوحنیفۃ، ثقۃ لایحدث بالحدیث الامایحفظ ولایحدث بمالایحفظ"۱۰؎۔
ابوحنیفہؒ ثقہ تھے، وہی حدیث روایت کرتے جوان کوبخوبی یاد ہوتی اور جوبخوبی یاد نہ ہوتی اس کوروایت نہ کرتے۔
اب خطیب کے ان دونوں بیان کوپڑھئے اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ خطیب کی رائے امام صاحبؒ کے بارے میں کذاب ہونے کی نہیں تھی؛ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مخالف اقوال کونقل کرکے اپنا مؤرخانہ فرض بھی ادا کردیا۱۱؎۔
(۱۰)سیراعلام النبلاء:۶/۳۹۵، علامہ ذہبیؒ، بیروت۔ (۱۱)امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین:۵۱۔
کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ضعیف ہیں؟
امام نسائیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کوباعتبار حفظ ضعیف قرار دیا؛ اسی طرح ابنِ عدی اور دوسرے حضرات سے بھی منقول ہے؛ اگرواقعہ وہی ہوتا جیسا کہ امام نسائی اور ابنِ عدیؒ وغیرہ نے امام صاحبؒ کے متعلق بیان کیا ہے توپھر علامہ ذہبیؒ آپ کوطبقات الحفاظ میں کیسے ذکر کرتے، امام نسائی کی یہ بات کسی درجے میں تسلیم کرنے کے لائق نہیں ہے؛ کیونکہ دوسری طرف جنھوں نے آپ کی تعدیل وتوثیق کی ہے، ان میں یحییٰ بن معین، شعبہ، علی ابن مدینی، اسرائیل بن یونس، یحییٰ ابن آدم، حسن بن صالح اور ان کے علاوہ دیگر بڑی بڑی شخصیتیں شامل ہیں؛ لہٰذا ان کے مقابلہ میں امام نسائی اور ابنِ عدی کی تضعیف کا کوئی اعتبار نہیں۱۲؎۔
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"کان واللہ حسن الفھم جید الحفظ"۔
آپ بخدا بڑے فہیم تھے اور آپ کا حفظ بلا کا تھا۔
یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ابوحنیفہؒ ثقہ تھے، آپ وہی بیان فرماتے، جوآپ کویاد ہوتا تھا"۱۳؎۔
(۱۲)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۵۔ (۱۳)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۲۵۔
کیاامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مرجئی تھے؟
فرقہ مرجیہ ایک گمراہ فرقہ ہے، جن کے عقائد اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوبعض حضرات نے مرجیہ بھی کہا ہے، قطب الاقطاب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے بھی حنفیہ کواپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" میں فرقہ مرجیہ میں شمار کیا ہے؛ لیکن درحقیقت یہ آپ پربڑا بہتان ہے، امام صاحبؒ کبھی مرجیہ نہیں تھے؛ بلکہ آپ متبع سنت اور سچے پکے مسلمان تھے، آپ کی شاہ کار تصنیف "فقہ اکبر" خود اس کی شاہد ہے اور آپ کے تلامذہ نے جوکتابیں تصنیف کی ہیں، وہ آپ کے برحق ہونے اور اہلِ سنت والجماعت میں سے ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
حافظ ابنِ حجرمکی شافعیؒ نے "الخیرات الحسان" کے اندر کیا ہی اچھی بات لکھی ہے کہ ایک جماعت نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومرجیہ میں شمار کیا ہے؛ جب کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حافظ ابنِ حجرمکی شافعی نے "الخیرات الحسان" کے اندر کیا ہی اچھی بات لکھی ہے کہ ایک جماعت نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومرجیہ میں شمار کیا ہے، جب کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
شارح مواقف کا قول نقل کرتے ہوئے ابنِ حجرمکیؒ نے لکھا ہے کہ غسان مرجئی امام ابوحنیفہؒ کے حوالہ سے مذہب ارجاء کونقل کرتا تھا اور لوگوں کوبتلایا کرتا تھا کہ امام ابوحنیفہؒ بھی مرجیہ میں سے ہیں، اس افتراء کے ذریعہ وہ اپنے مذہب کورواج دینا چاہتا تھا؛ نیز علامہ آمدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صدر اوّل میں معتزلہ کا طریقِ کار یہ تھا کہ مسئلہ تقدیر میں جوان کی مخالفت کرتا تھا، اس کووہ مرجیہ کہا کرتے تھے، امام صاحبؒ بھی مسئلہ تقدیر میں ان کے مخالف تھے، اس لیے انھوں نے امام صاحب کو مرجیہ کہا؛ لیکن بعد کے لوگوں نے آپ کومرجیہ کہنا شروع کردیا اور معتزلہ کی بات ذہنوں سے محو ہوگئی اور حقیقۃً آپ کو مرجیہ سمجھا جانے لگا۱۴؎۔
جہاں تک عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی بات ہے توانھوں نے کبھی امام ابوحنیفہؒ کومرجیہ میں شمار نہیں کیا؛ اگرایسی بات ہوتی توشیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ، امام صاحب رحمہ اللہ کواپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" کے اندر امام کے لفظ سے تذکرہ نہ فرماتے اور احکامِ شرعیہ میں اپنے پسندیدہ ائمہ کے ساتھ آپ کے اقوال کا تذکرہ نہ فرماتے، اس لیے یہ بات طے ہے کہ حضرت شیخ نے حنفیہ کہہ کرامام صاحبؒ کے ان بعض متبعین کومراد لیا جوفروعات میں توامام صاحبؒ کی تقلید کرتے ہیں اور اصول وعقائد میں آپ کی مخالفت کرتے ہیں اور اہلِ ہواء کے مذہب کی طرف اپنے کومنسوب کرتے ہیں، جسے زمخشری اور شیخ ابن سینا کہ یہ فروعات میں توحنفی المسلک ہیں؛ لیکن عقائد کی دنیا میں ان کا شمار معتزلہ میں ہوتا ہے اور جیسے غسان جومرجئی ہے، تاریخ میں اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں؛ لہٰذا ان لوگوں کی اس طرح کی حرکت سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومہتم کرنا کسی طرح درست نہیں؛ کیونکہ اس طرح کے لوگوں سے کوئی مجتہد محفوظ نہیں ہے، اس لیے کہ شافعیہ اور مالکیہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جواعتزال اور فلسفہ سے متھم ہیں، جیسے سیف الدین آمدی اور قاضی ابوالولید ابن رشد وغیرہ۱۵؎، لہٰذا امام صاحب رحمہ اللہ پر مرجیہ ہونے کا الزام کسی طرح عائد نہیں ہوسکتا۔
(۱۴)الرفع والتکمیل:۲۴۔ (۱۵)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۵۔
کیا امام صاحبؒ کا اہل الرائے ہوناموجبِ طعن ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ آپ اہل الرائے میں سے تھے، جیسا کہ میزان میں علامہ ذہبیؒ نے فرمایا:
"النعمان بن ثابت بن زوطی ابوحنیفۃ الکوفی امام اھل الرای"۔
اس کاجواب یہ ہے کہ اگران لوگوں کی مراد رائے سے عقل صحیح اور فہم ثاقب ہے؛ پھرتویہ ایک عزت اور شرافت کی چیز ہے؛ چونکہ جوبے عقل ہے، اس کے علم کا بھی کوئی اعتبار نہیں اور علم منقول توعقل کے بغیر سمجھا بھی نہیں جاسکتا اور اگران کا مطلب رائے سے وہ قیاس ہے جوحجج اربعہ میں سے ہے توپھریہ کوئی تعجب کی چیز نہیں اور نہ اس میں امام ابوحنیفہ کی کوئی تخصیص ہے؛ کیونکہ قیاس تواپنے شرط کے ساتھ بڑے بڑے علماء کے یہاں معتبر ہے اور تمام علماء جب کسی پیچیدہ مسئلہ میں الجھے اور انھیں قرآن وسنت اور اجماع سے کوئی رہنمائی نہیں ملی اور نہ صحابہ کے فیصلے سے کسی نتیجہ پر پہونچ سکے تووہ قیاس ہی کا سہارا لیا کرتے ہیں جیسا کہ میزان میں علامہ شعرانی کی صراحت ہے۱۶؎۔
لیکن اگراس کے علاوہ کچھ اور مطلب ہے تودلیل کے ساتھ اس کی وضاحت کی جائے۔
(۱۶)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۴۳۔
کیا آپ قلیل الحدیث تھے؟
آپ پرایک جرح یہ بھی کی گئی ہے کہ آپ قلیل الحدیث اور یتیم فی الحدیث تھے؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کوصرف سترہ حدیثیں معلوم تھیں اور جرح کرنے والوں نے اپنے دعویٰ کومدلل کرنے کے لیے مؤرخِ اسلام علامہ ابنِ خلدون کی شہرۂ آفاق کتاب مقدمہ ابنِ خلدون کا حوالہ دیا، اس دلیل کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے؛ یہاں مقدمہ ابنِ خلدون کی وہ پوری عبارت نقل کردی جائے، جس میں اس طرح کی بات نقل کی گئی ہے؛ تاکہ سلیم القلب اور منصف مزاج حضرات اصل حقیقت کو دیکھ سکیں۱۷؎ :
"واعلم أيضاً أن الأئمة المجتهدين تفاوتوا في الإكثار من هذه الصناعة والإقلال فابو حنيفة رضي اللة تعالى عنه، يقال بلغت روايته إلى سبعة عشر حديثا أونحوها، ومالك رحمه الله إنماصح عنده مافي كتاب الموطأ وغايتها ثلاثمائة حديث أونحوها، وأحمد بن حنبل رحمه الله تعالى في مسنده خمسون ألف حديث، ولكل ماأداه إليه اجتهاده في ذلك. وقد تقول بعض المبغضين المتعسفين، إلى ان منهم من كان قليل البضاعة في الحديث، فلهذا قلت! روايته. ولاسبيل إلى هذا المعتقد في كبار الأئمة"۱۸؎۔
اورتویہ بھی جان لے کہ ائمہ مجتہدین فن حدیث میں متفاوت رہے ہیں؛ کسی نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں اور کسی نے کم؛ سوامام ابوحنیفہؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی روایتیں سترہ یاان کے لگ بھگ ہیں اور امام مالکؒ سے جوروایتیں ان کے یہاں پہنچی ہیں وہ وہی ہیں جوموطا میں درج ہیں، جن کی تعداد تین سوکے لگ بھگ ہے اور امام احمد بن حنبلؒ کے مسند میں پچاس ہزار حدیثیں ہیں اورہرایک نے اپنے اپنے اجتھاد کے مطابق اس میں سعی کی ہے اور کچھ مبغضین اور حاسدین نے اس جھوٹ پر کمرباندھ لی ہے کہ ان ائمہ مجتہدین میں سے جن سے کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ ہی اتنا ہے؛ لہٰذاان کی روایتیں کم ہیں؛ حالانکہ ان بڑے بڑے اماموں کی نسبت ایسا خیال کرنا راہِ راست سے دوری ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ علامہ ابنِ خلدون سترہ احادیث والے قول کو "یقال" سے تعبیر کیا ہے، جو اس قول کے تضعیف وتمریض کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے خود علامہ ابنِ خلدون راضی نہیں ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آخر میں انھوں نے یہ واضح کردیا کہ اس طرح کا خیال ائمہ مجتہدین سے بغض رکھنے اور ان سے تعصب برتنے والوں کا ہے؛ ایسا عقیدہ ان حضرات کے متعلق کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
علامہ ابنِ خلدون کے اس صراحت کے باوجود کیا اب بھی یہ شبہ رہ جاتا ہے کہ انھوں نے امام صاحبؒ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ انھیں صرف سترہ احادیث یاد تھیں؟ یہ توسراسر ان پر جھوٹ اور بہتان ہے؛ نیز یہ کہنا کہ ان سے روایتیں بہت کم ہیں، جوان کے قلیل الحدیث ہونے کی واضح دلیل ہے، تویہ بات بھی حقیقت سے بہت دور ہے؛ اس لیے کہ روایت کا کسی سے کم ہونا ان کے قلیل الحدیث ہونے کولازم نہیں ہے؛ کیونکہ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمرِفاروق رضی اللہ عنہما کوجس قدر آپﷺ سے خصوصی تعلق اورقرب حاصل تھا اور جس کثرت کے ساتھ یہ دونوں حضرات سفروحضرت میں آپﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے، وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں؛ مگراس کے باوجود ان حضرات سے منقول احادیث بہت کم ہیں؛ جب کہ حضرت ابوہریرۃؓ بالاتفاق سنہ۷ھجری میں مسلمان ہوئے ہیں؛ مگروہ ۵۳۷۴ روایتیں بیان کرتے ہیں؛ توکیا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا کہ وہ قلیل الحدیث تھے اور انھیں صرف اتنی احادیث یاد تھیں، جتنی احادیث آج کل کتب احادیث میں ان سے منقول پائی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایسا اعتقادخلافِ واقعہ ہوگا؛ بلکہ ان کے بارے میں یہی کہا جائےگا کہ فتنوں کی سرکوبی اور ملکی انتظام میں ان کی مشغولیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ روایت بیان کرنے کاانھیں موقع نہ مل سکا اور دوسرے حضرات اس کام کوسنبھالے ہوئے تھے؛ اس لیے اس طرف ان حضرات کوخصوصی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کیا اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ خیال نہیں کیاجساکتا کہ وہ باوجود حافظِ حدیث ہونے کے استنباط مسائل میں مصروف رہے؛ اس لیے روایتیں ان کی کم ہیں اور کم کہنا بھی واقعہ کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتا؛ کیونکہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی املائی کتابوں میں سترہزار سے اوپر حدیثیں موجود ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے منتخب کرکے "کتاب الآثار" کا مجموعہ تیار کیا گیا ہے، اس کے باوجود ان پر قلت حدیث کا الزام لگانا کیسی بے انصافی ہے۱۹؎۔
(۱۷)مقام ابی حنیفہؒ، مولانا محمدسرفرازخان صفدرؒ۔ (۱۸)مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۴، مصر۔ (۱۹)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۵۔
کیاامام ابوحنیفہؒ نے اسلام کونقصان پہنچایا ہے؟
امام صاحبؒ پر یہ الزام بھی تھوپا گیا ہے کہ ان سے اسلام کوسخت نقصان پہنچا ہے؛ چنانچہ حضرت امام بخاریؒ نے اپنی سند کے ساتھ اور اسی طرح علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی سند کے ساتھ نعیم بن حماد کے طریق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امام سفیان ثوری کوجب ابوحنیفہ کی وفات کی خبر پہنچی توفرمانے لگے:
"الحمد للہ وہ مرگیا، وہ تواسلام کی کڑیوں کا حلقہ توڑتا تھا، اسلام میں اس سے بڑا بدبخت کوئی پیدا ہی نہیں ہوا"۲۰؎۔
یہ الزام صرف اور صرف نعیم بن حماد کی طرف سے ہے، نعیم بن حماد پر کتب اسماء الرجال میں اچھی خاصی جرح موجود ہے، صاحب "تہذیب التہذیب" لکھتے ہیں:
"کان نعیم بن حماد یضع الحدیث فی تقویۃ السنۃ وحکایات مزورۃ فی ثلب نعمان کلھا کذب"۲۱؎۔
نعیم بن حماد تقویت سنت کے لیے جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین میں جھوٹی حکایات بنابنا کر پیش کرتا تھا، جوسب کی سب جھوٹی ہیں۔
"تہذیب التہذیب" کے علاوہ "میزان الاعتدال، الترغیب والترہیب اور نھایۃ السؤل فی روایۃ الستۃ الاصول" وغیرہ میں بھی جابجا نعیم بن حماد پرکڑی جرح کی گئی ہے؛ خلاصہ یہ کہ نعیم بن حماد کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اس کی روایت کی بناء پرحضرت امام ابوحنیفہؒ جیسے بزرگ امام کے حق میں بدگوئی کی جائے، امام صاحب کوتوحافظ شمس الدین ذہبیؒ جیسے ناقدالرجال نے امام اعظم اور فقیہ الملۃ جیسے معزز لقب سے یاد کیا ہے۲۲؎۔
حافظ ابنِ کثیرؒ نے "البدایہ والنھایہ" میں آپ کی نہایت تعریف کی ہے اور آپ کے حق میں لکھا ہے:
"احد الائمۃ الاسلام والسادۃ الاعلام واحد الارکان العلماء واحد الائمۃ الاربعۃ اصحاب المذھب المتبوعۃ"۲۳؎۔
آپ ائمہ اسلام میں سے ایک بڑے امام اور عظیم المرتبت اور بلند پایہ لوگوں میں سے تھے اوران چاراماموں میں سے ایک تھے جن کے مذہب کی اتباع کیا جاتی ہے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح کی طرح اپنی دیگر کتب میں صحت کا التزام نہیں کیا ہے۲۴؎، لہٰذاان ٹھوس اور معنی خیز حوالہ جات کی موجودگی میں بھی اگرکوئی شخص حضرت امام ابوحنیفہؒ کو (معاذ اللہ) دشمنِ اسلام اور اسلام کا حلقہ توڑنے والا ثابت کرنے پر بضد ہوتوہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور نہ ایسے تعصب اور عناد کا دنیا میں علاج ہوا ہے، اس کا علاج توعالمِ آخرت ہی میں ہوسکے گا۔
بہرِحال سطورِ بالا سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام صاحب پر جوبھی طعن کیا گیا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جس نے کہا ہے وہ محض تعصب یاپھرجہالت وناواقفیت کی بناء پرکہا ہے۲۴؎، اس لیے ان جرحوں پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۲۰)تاریخ صغیرلامام البخاری:۱۷۹، الہ آباد۔ (۲۱)تہذیب التہذیب:۱۰/۴۶۳۔ (۲۲)سیراعلام النبلاء۶/۳۹۰، بیروت۔ (۲۳)البدایہ والنھایہ:۱۰/۱۰۷۔ (۲۴)سیراعلام النبلا:۶/۴۰۲۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
اب آئے ہیں اصل بات کی طرف۔اچھے لوگوں کی اچھائیاں بیان کریں مگر دوسروں کو تنگ مت کریں۔

آپ کے سارے مضمون کو درست مان لیتا ہوں مجھے اس سے غرض نہیں کہ بڑوں کا رتبہ گھٹایا جائے ویسے بھی اسلام نے عمر میں بڑھے کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے یہی تو دین میں بڑے ہیں۔
لیکن بڑی معذرت کے ساتھ امام ؒ کی عزت عظمت اور شان میں شک نہ کیا جائے پھر بھی ان کو دین کی مکمل اتھارٹی نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی اتھارٹی نہیں ہر بات جس کو امام صاحب ؒ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے وہ امام صاحب نے ہی فرمایا ہے۔بس تھوڑی سی احتیاط کر لی جائے کہ انکے قول کو چیک کر لیا جائے کہ جو بات قرآن وحدیث کے موافق ہو اسکوتسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں اور جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہو اور ان کے نام پر لوگوں نے فقہ میں داخل کی ہے اس کو چھوڑ دیا جائے ۔
 
Top