• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ ؒ سے مخالفت کی وجہ

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
اللہ تعالیٰ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوغیرمعمولی کمالات سے نوازا تھا، قرآن وسنت سے مسائل کے استخراج واستنباط کاجودرک آپ کوحاصل تھا، ان سے آپ کے معاصرین تہی دست تھے، آپ کی عمیق نظر آیات واحادیث سے ایسے لعل وگہر کا انتخاب کرلیتی، جس میں کوئی آپ کا شریک وسہیم نہیں تھا؛ مگریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب ان گونا گوں کمالات کے حامل تھے توپھرآپ کے معاصرین اور بعد میں آنے والے حضرات آپ کے کیوں مخالف ہوئے اور آپ پرایسے ایسے الزامات کیوں تراشے، جن کوایک دیندار انسان کے لیے بھی گوارہ نہیں کیاجاسکتا؛ اگرہم اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے دوبنیادی اسباب تھے، ایک توحسد اور دوسرے ناواقفیت۔
حسد
آپ کوچونکہ خدائے تعالیٰ نے غیرمعمولی ذہانت وفطانت اور علمی کمالات سے نوازا تھا، جسے معاصرین برداشت نہ کرسکے اور ان کے قلوب میں حسد پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے آپؒ کی شخصیت پر کیچڑاچھالنا شروع کردیا اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی بڑی شخصیت دنیا میں رونما ہوئی توبہت سارے لوگ ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑگئے، جب امام بخاریؒ کی شخصیت لوگوں کے سامنے کھل کرآئی اور آپ اپنی خداداد صلاحیت کی بناء پرمعاصرین پر فائق رہے تولوگوں نے آپ پرحسد کا دروازہ کھول دیا، مصائب وآلام کے پہاڑ آپ پر ڈھائے اور طرح طرح کے الزامات عائد کرکے آپ کوستایا گیا؛ حتی کہ آپ کواپنے وطن مالوف کوبھی الوداع کہنا پڑا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ اس دنیا سے بیزار ہوکر دعا کرنے لگے:
"اے باری تعالیٰ! یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوتی جارہی ہے، مجھے اپنے پاس بلالے"۔
(تذکرۃ المحدثین:۱۹۲)
اللہ اکبر! حاسدوں نے آپ کے ساتھ اتنا ظلم کیا کہ آپ کی جان لے لی؛ اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہؒ کی شہرت اور مقبولیت عام ہوگئی تھا؛ ہرکوئی آپ کوجانتا تھا، آپ کے علم کی عزت کرتا تھا، آپ کی فقہ ہرایک کے نزدیک مسلم تھی، آپ کی بات دلیل کے طور پر پیش کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے حاسدین کورہا نہ گیا اور وہ مخالفت پرکمربستہ ہوگئے؛ چنانچہ ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی "السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی" میں لکھتے ہیں:
"امام اعظم ابوحنیفہؒ کی شخصیت وہ ہے جس نے نصوص سے سب سے پہلے استنباط کا طریقہ شروع کیا اور قابلِ قدر بات یہ تھی کہ آپ آئندہ پیش آنے والے مسائل کوفرض کرتے اور اس کا حکم شرعی تلاش وجستجو سے نکالتے؛ حالانکہ آپ سے پہلے لوگ قیاس کوناپسند سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس میں تضیع وقت ہے اور یہ ایسا مشغلہ ہے جس میں کوئی خاص فائدہ نہیں؛ جیسا کہ جب زید بن ثابت سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تووہ سوال کرتے کہ کیا یہ مسئلہ پیش آیا ہے؟ اگرلوگ کہتے کہ نہیں؛ توزیدبن ثابت فرماتے ایسے مسئلہ میں کیوں واقع ہوتے ہو جوابھی تک پیش نہیں آیا ہے، جب پیش آئے گا تودیکھا جائے گا؛ لیکن امام صاحب کا وصفِ امتیاز یہ تھا کہ آپ آئندہ کے مسائل کوحل کرتے اور کہتے: اگراس وقت پیش نہیں آیا ہے توبعد میں توپیش آئے گا"۔
اس جگہ ایک واقعہ کا بیان کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، حضرت قتادہؒ جب کوفہ تشریف لائے تولوگوں سے کہا، جوبھی سوال کرنا چاہے سوال کرے، امام صاحب مجلس میں کھڑے ہوئے اور کہا: اے ابوالخطاب! اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جوکئی سال سے اپنی بیوی سے غالب ہوکر واپس نہ آیا تواس کی بیوی نے یہ خیال کرکے کہ اس کا شوہر مرگیا ہے، دوسرے مرد سے شادی کرلی؛ پھرغائب شوہر لوٹ آیا تووہ عورت پہلے مرد کی بیوی ہوگی یادوسرے کی؟ توقتادہؒ نے کہا تجھ پر ہلاکت ہو، کیا یہ مسئلہ پیش آچکا ہے؟ فرمایا: نہیں، توقتادہؒ نے کہا: تم مجھ سے وہ سوال نہ کرو جوابھی تک پیش نہیں آیا ہے، توامام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: ہم بلاء کواس کے آنے سے پہلے ہی دور کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں؛ تاکہ جب وہ مسئلہ پیش آجائے تواس میں داخل ہونے کی راہ نکلنے کی راہ ہم کومعلوم ہوجائے۔
الغرض اس وقت عام محدثین اور فقہاء میں سے کسی کے پاس فرضی واقعات کے احکام بیان کرنے کا رواج نہیں تھا، ڈاکٹر مصطفیٰ عباسی نے صاحب عنایہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ امام صاحبؒ نے جن فرضی واقعات کے احکام نصوص سے اجتہاد کے ذریعہ نکالا ہے، وہ تقریباً بارہ لاکھ سترہزار ہے، جودوسرے ائمہ کے مستخرج مسائل کے مقابلہ میں بہت بڑی تعداد ہے۔
(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۴۰۳)
نیزآپ اخذ واستنباط میں دقت نظری سے کام لیتے تھے اورہرمسئلہ میں کئی رائے اور کئی وجوہ کے نکالنے پر قادر تھے، ابن العوام اپنی سند سے ایک قول نقل کیا ہے کہ جب امام ابوحنیفہؒ بغداد تشریف لائے تواپنے اصحاب کوجمع فرماتے تھے، جس میں ابویوسفؒ، زفرؒ، اسد بن عمروؒ اور دیگر فقہاء ہوتے، ایک مسئلہ پر بحث کرتے اور اس پر کئی دلائل دیتے، امام صاحبؒ ان کے خلاف رائے دیتے اور کہتے تمہاری رائے غلط ہے اور اس کے بعد اپنی رائے پر اتنے دلائل دیتے کہ وہ مجبور ہوجاتے اور آپ کی رائے کوتسلیم کرلیتے پھر امام صاحبؒ اسی مسئلہ کے بارے میں ایک دوسری رائے دیتے توآپ کے اصحاب اس کوتسلیم نہیں کرتے توپھر آپ اس رائے پر مکمل دلائل دیتے جس سے آپ کی رائے کی قوت واضح ہوجاتی توآپ کے اصحاب اس کوبھی تسلیم کرلیتے؛ پھراسی مسئلہ کے بارےمیں تیسری رائے دیتے اور اس پر دلائل کے انبار لگادیتے توآپ کے اصحاب اس کوبھی قبول فرمالیتے اور کہتے: اے ابوحنیفہؒ! آخر اس مسئلہ میں صحیح رائے کیا ہے؟ آپ ہی بتائیے توامام صاحب پہلی رائے کوصحیح قرار دیتے اور کہتے یہی صحیح ہے؛ اسی پر عمل کرو؛ لیکن اس مسئلہ میں اتنی رائیں نکلتیں ہیں اور ہررائے میں فقہ کی ایک وجہ ہے، امام صاحبؒ کویہ ملکہ تھا کہ جس رائے کوثابت کرنا چاہتے تواتنا عمیق استنباط کرتے اور ایسے ایسے قوی دلائل دیتے کہ ہرایک ماننے کوتیار ہوجاتا۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۴۰۶)
لاعلمی
امام اعظم ابوحنیفہؒ سے مخالفت کی بنیادی وجہوں میں سے دوسری وجہ امام صاحب کی شخصیت سے ناواقفیت ہے، تاریخ میں متعدد شخصیات ایسی ہیں جن کی مخالفت کی بنیاد ان کی شخصیت سے ناواقفیت ہے، ان کے بارے میں مخالفین نے اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ اصل شخصیت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی، ماضی قریب میں شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدیؒ کی شخصیت گزری ہے، جن کے سلسلے میں اتنا زیادہ پروپیگنڈہ کیا کہ لوگ ان کوبددین، بدعقیدہ اور باغی تصور کرنے لگے، علامہ شامیؒ جیسی شخصیت بھی اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہی، ان کے علاوہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری، علامہ انورشاہ کشمیری اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ بھی ابتداءً اصل حقیقت سے ناآشنا رہے اور شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے سلسلے میں اپنے منفی تاثرات ہی ظاہر کئے، بعد میں رجوع فرمالیا اس کی تفصیل مولانا محمدمنظور نعمانیؒ نے اپنی کتاب "شیخ محمدبن عبدالوہاب کے خلاف پروپیگنڈہ" میں تحریر فرمائی ہے۔
(شیخ محمدبن عبدالوہاب کے خلاف پروپگنڈہ:۹۶ تا ۱۰۴)
ٹھیک یہی صورت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ بھی پیش آئی؛ چنانچہ عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں کہ میں شام میں امام اوزاعیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ انھوں نے مجھ سے پوچھا، اے خراسانی! کوفہ میں یہ کون بدعتی شخص پیدا ہوا ہے، جس کی کنیت ابوحنیفہؒ ہے، یہ سن کر میں اپنی قیامگاہ پر واپس آگیا اور تین دن بعد امام کے تحریر کردہ مسائل کا ایک حصہ لے کر حاضر ہوا، آں جناب اپنی مسجد کے امام ومؤذن تھے، مجھ سے دریافت کیا کہ یہ کون سی کتاب ہے؟ میں نے کتاب ان کے حوالہ کردی، اس میں وہ مسئلے بھی ان کی نظر سے گزرے جن کے شروع میں میں نے امام صاحب کا نام گرامی لکھ دیا تھا کہ "نعمان یہ فرماتے ہیں" انھوں نے کتاب کا ابتدائی حصہ دیکھا؛ پھرآستین میں کتاب رکھ لی اور اقامت کہہ کر نماز پڑھی، اس کے بعد کتاب پڑھنا شروع کیا؛ یہاں تک کہ پڑھتے پڑھتے ختم کرڈالی؛ پھرمجھ سے مخاطب ہوکر کہا، اے خراسانی! یہ نعمان کون شخص ہیں؟ میں نے عرض کیا ایک صاحب ہیں، ان سے میری ملاقات عراق میں ہوئی تھی، فرمایا کہ "یہ توبڑے پایہ کے شیخ معلوم ہوتے ہیں، جاؤ ان سے اور بھی علم سیکھو!"اس پر میں نے ان سے کہا:
"جی! یہی توابوحنیفہؒ کوفی ہیں! جن کے پاس جانے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا"۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ امام صاحبؒ کے متعلق انھوں نے کیا سن رکھا تھا اور جب حقیقت سامنے آئی توبات کیا نکلی۔
(ترجمان السنۃ:۱/۲۳۸)
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ بھی حضرت عبداللہ بن مبارکؒ ہی سے منقول ہے کہ امام باقررضی اللہ عنہ سے مدینہ طیبہ میں امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات ہوئی توامام باقر رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی خفگی کے عالم میں ان سے پوچھا: کیا تم ہی ہو کہ ہمارے جدامجد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی مخالفت قیاس سے کرتے ہو، امام ابوحنیفہؒ نے کہا: معاذ اللہ! آپ ذراتشریف رکھیں توکچھ عرض کروں، آپ کی حرمت بھی ہم پرایسی ہے، جیسے آپ کے جدامجد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت صحابہؓ پر تھی، امام باقرؓ بیٹھ گئے، امام صاحب بھی روبرو بیٹھ گئے؛ پھرامام ابوحنیفہؒ نے عرض کیا کہ میں آپ سے تین مسئلے پوچھتا ہوں ان کا جواب ارشاد فرمائیے:
(۱)ایک یہ کہ مرد ضعیف ہے یاعورت؟ آپ نے فرمایا عورت، امام صاحب نے کہا: عورت کا حصہ مرد کے حصہ کا نصف ہے۔
حضرت ابوحنیفہؒ نے عرض کیا:اگرمیں قیاس سے مسئلے بتاتا تواس کے خلاف حکم دیتا کہ عورت کا حصہ مرد سے دوگنا ہونا چاہیے۔
(۲)دوسرا مسئلہ یہ کہ نماز افضل ہے یاروزہ؟ امام باقرؓ نے فرمایا: نماز، توامام ابوحنیفہؒ نے کہا: اگرمیں قیاس سے حکم دیتا تویہ حکم دیتا کہ حائضہ نماز کی قضاء کرے اور روزہ کی قضاء نہ کرے۔
(۳)تیسرا مسئلہ یہ کہ پیشاب زیادہ نجس ہے یامنی؟ امام باقرؓ نے فرمایا: پیشاب، امام ابوحنیفہؒ نے کہا: اگرمیں قیاس جاری کرتا توپیشاب کوموجب غسل قرار دیتا، اس کے بعد عرض کیا کہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ کوئی حکم خلافِ حدیث دوں، یہ سنتے ہی امام باقرؓ نے اپنے مقام سے اُٹھ کر امام صاحبؒ کی پیشانی کوبوسہ دیا، اس سے ظاہر ہے کہ امام باقرؓ عام شہرت کی وجہ سے امام صاحبؒ سے بدظن تھے؛ مگرتحقیق کرکے صفائی کرلی اور کمال درجہ کا اخلاص ظاہر فرمایا۔
(امام اعظم امام المحدثین:۸۱۔ بحوالہ: حقیقۃ الفقہ:۲/۱۷۵)
ڈاکٹر مصطفےٰ سباعی نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ صحت حدیث کے لیے امام اعظم کی شرطیں بہت سخت تھیں اس لیے وہ حدیثیں جوعام محدثین کے یہاں صحیح اور مقبول تھیں ان کوبھی آپ اپنی شرطوں پر جانچتے اور پرکھتے تھے، بغیر تحقیق کہ نہ ان کوقبول کرتے اور نہ ان سے استنباط کرتے تھے، اس لیے کہ اس وقت عراق کوتمام عالم اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی، آپ کویہ شبہ ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ حدیث وضع کرکے میرے پاس لائیں اور میں اسے قبول کرلوں۔
(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۴۰۴)
اس طرح کی احتیاط آپ کے لیے ضروری بھی تھی کہ باطل فرقے مثلاً معتزلہ، خوارج، شیعہ، کرامیہ، جہمیہ وغیرہ اپنے خیالات وعقائد کی ترویج کے لیے احادیث گھڑنا شروع کردیا تھا، اس کی شناخت بغیر اضافی شرط کے مشکل تھی؛لیکن بہت سے حضرات ان حالات سے ناواقف تھے، جس کی وجہ سے اس سلسلے میں مخالفت شروع کردی؛ پھران سخت شرائط کی وجہ سے جب بعض احادیث غیرمعتبر ٹھہرتیں توقیاس سے کام لیتے اور قیاس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کوغیرمعمولی مہارت عطاء کی تھی، جس کی بناء پرمنشاءِ شریعت پالیتے تھے، اس کی وجہ سے جہاں آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا وہیں آپ کے حاسدین آپ کوبدنام کرنے اور اس سے ایک عالم کومتاثر کرنے کی مذموم کوشش کی۔
(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۴۰۵)
اس لیے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"وقال حفص بن غیاث: کلام ابی حنیفۃ فی الفقہ ادق من الشعر لایعیبہ الاجاھل"۔
(سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۳)
ابوحنیفہؒ کا کلام فقہ میں شعر سے زیاہ دقیق ہے، آپ کے اندر جاہل ہی عیب پیدا کرتا ہے۔
اخیر میں امام احمد بن حنبلؒ کے ایک فیصلہ پر اس بات کوختم کرتا ہوں، یہ بات توطے شدہ ہے کہ امام صاحبؒ کی احکام شرعیہ کی تحقیق اور ان کا اجتہاد معاصرین کی فہم سے بالاتر ثابت ہوا، فہم کی نارسائی باعث ہوئی اختلاف کا، اختلاف نے جرح کا رنگ اختیار کیا، اصولِ حدیث کاایک مسلمہ قاعدہ ہے، اختلاف اجتہاد جس جرح کا منشاء ہو، وہ جرح نامقبول ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے فیصلہ فرمادیا:
"ومن جھل شیاعاداہ"۔
(امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین:۵۹)
کوئی کسی چیز کونہیں جانتا ہے تواُس کا دشمن بن جاتا ہے۔
بہرحال یہ دوبنیادی وجہیں (حسد اور ناواقفیت) تھیں، جس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی گئی، ان مخالفتوں کاحقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے؛ جیسا کہ سطورِ بالا سے معلوم ہوا۔
 
Top