کفایت اللہ نے اعمش کا یہ قول ذکر کیاتھا۔
اوراس کے بعد کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
ویسے بھی اس پورے کلام سے صرف اتنامعلوم ہورہاہے کہ دونوں حضرات کے دل ایک دوسرے سے صاف نہ تھے اورروایات میں تطبیق کا جائزہ لیاجائے تویہ ممکن ہے کہ شروع میں امام ابوحنیفہ کے خلاف پروپیگنڈہ کی وجہ سے امام اعمش کا دل امام ابوحنیفہ سے صاف نہو اوران کو ان سے گرانی ہو لیکن بعد میں جب ان کو امام ابوحنیفہ کے تعلق سے حقیقت کا پتہ چلاتوانہوں نے اپنی مجلس میں امام ابوحنیفہ سے مسائل بھی دریافت کرنے شروع کردیئے۔
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
واقعہ کیاہے؟
امام اعمش علیہ الرحمہ کی مجلس میں کسی نے کوئی فقہی سوال کیاتوانہوں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھایاپھر خود اعمش نے امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاکہ فلاں فلاں مسئلہ میں اپ کیاکہتے ہیں توامام ابوحنیفہ نے جواب دیا۔ امام اعمش نے دریافت کیاکہ اس کی دلیل کیاہے توفرمایاکہ اپ نے ہی تو فلاں فلاں موقع پر فلاں فلاں حدیثیں بیان کی تھیں۔اسی سے ہم نے یہ مسائل مستنبط کئے۔ اس پر امام اعمش نے فرمایاکہ اے گروہ فقہاء توطبیب ہواورہم تو پنساری ہیں۔
یہ واقعہ کئی اہل علم نے ذکر کیاہے۔آئیے ذرااس کاجائزہ لیتے چلیں کہ یہ واقعہ مردود سند سے روایت کی گئی ہے یا پھر اس کا کوئی حقیقی اورواقعی وجود بھی ہے۔
امام صیمری
اس واقعہ کو امام صیمری نے اپنی کتاب اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں نقل کیاہے۔چنانچہ ملاحظہ کیجئے۔
أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد قَالَ ثَنَا مكرم قَالَ ثَنَا أَحْمد بن عَطِيَّة قَالَ ثَنَا عَليّ بن معبد قَالَ ثَنَا عبيد الله بن عمر قَالَ كُنَّا عِنْد الْأَعْمَش وَهُوَ يسْأَل أَبَا حنيفَة عَن مسَائِل ويجيبه ابو حنيفَة فَيَقُول لَهُ الْأَعْمَش من أَيْن لَك هَذَا فَيَقُول انت حَدَّثتنَا عَن إِبْرَاهِيم بِكَذَا وحدثتنا عَن الشّعبِيّ بِكَذَا قَالَ فَكَانَ الْأَعْمَش عِنْد ذَلِك يَقُول يَا معشر الْفُقَهَاء أَنْتُم الْأَطِبَّاء وَنحن الصيادلة
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ1/27
عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم اعمش کے پاس تھے اوروہ امام ابوحنیفہ سے کچھ مسائل دریافت کررہے تھے اورامام ابوحنیفہ جواب دے رہے تھے توان سے اعمش نے کہاکہ آپ کی دلیل کیاہے توفرمایاآپ نے ہم سے ابراہیم کی سند سے شعبی کی سند سے ایسی ایسی روایت بیان کی تھی اسی سے ہم نے یہ مسائل مستنبط کئے ہیں۔ تواس وقت امام اعمش نے کہااے گروہ فقہاء توڈاکٹر اورطبیب ہو اورہم پنساری اورکیمسٹ ہیں۔
اس واقعہ کی سند یوں تودرست ہے لیکن درمیان میں احمد بن عطیہ ہے ان پر محدثین نے سخت جرح کی ہے۔ مطلب یہ کہ ان پر کذب اوروضع حدیث کا بھی الزام ہے لہذا اس راوی کی وجہ سے یہ واقعہ قابل استدلال نہیں رہ گیاہے۔ویسے اس واقعہ میں راوی نے امام اعمش سے روایت کرنے والے کا نام عبیداللہ بن عمر بتایاہے جب کہ دیگر تمام روایتوں میں اس راوی کا نام عبیداللہ بن عمرو بتایاگیاہے۔
ابن عبدالبر
اس واقعہ کا ذکر ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں کیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
اخبرنی خلف بن قاسم،ثنامحمد بن القاسم بن شعبان ،حدثناابراہیم بن عثمان بن سعید،ثناعلان بن المغیرہ ،ثناعلی بن معبد بن شداد ،ثنا عبیداللہ بن عمرو ،قال:کنت فی مجلس الاعمش فجاءہ رجل فسالہ عن مسالۃ فلم یجبہ فیھا،ونظرفاذا ابوحنیفۃ فقال:یانعمن قل فیھا ،قال:القول فیہا کذا ،قال من این؟قال:من حدیث حدثتناہ ،قال فقال الاعمش:نحن الصیادلۃ وانتم الاطباء
جامع بیان العلم وفضلہ 130
عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں میں اعمش کی مجلس میں تھا توایک شخص نے ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا توانہوں نے جواب نہیں دیا اورنگاہ دوڑائی تو امام ابوحنیفہ کو مجلس میں موجود پایا توفرمایا اے نعمان اس مسئلہ کے متعلق جواب دیں توانہوں نے جواب دیا ۔اس پر اعمش نے مسئلہ کی دلیل دریافت کی توفرمایا اسی حدیث سے جوآپ نے بیان کیاتھا اس پر اعمش نے کہاکہ ہم پنساری ہیں اورتم اطباء ہو۔
اس کی سند کو دیکھیں۔
خلف بن قاسم
ثقہ ہیں۔اس کیلئے سیراعلام النبلاء اوربغیۃ الملتمس کی جانب رجوع کیاجائے۔
محمد بن القاسم بن شعبان
یہ مالکی فقیہ ہیں اوربڑےرتبہ کے فقیہہ ہیں۔ بقول ذہبی ابن حزم نے ان کو کمزور قراردیاہے ۔
حدثناابراہیم بن عثمان بن سعید
ابن یونس نے ان کو صالح الحدیث قراردیاہے۔
علان بن المغیرہ
کا ترجمہ مجھے نہیں ملا
علی بن معبد
ثقہ ہیں
عبیداللہ بن عمرو الرقی
یہ بھی ثقہ ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہواکہ
یہ روایت بھی ضعیف ہے لیکن شدید درجے کا ضعف نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہی روایت اسی سند سے کتاب الثقات میں ابن حبان نے بھی ذکر کیاہے۔ دیکھئے ۔
على بن معبد بن شَدَّاد الْعَبْدي من أهل مصر يروي عَن اللَّيْث بن سعد وَعبيد الله بْن عَمْرو رَوَى عَنْهُ المصريون مُسْتَقِيم الحَدِيث حَدثنِي عبد الْملك بن مُحَمَّد بن سميع بصيداء ثَنَا الْمُزنِيّ ثَنَا عَليّ بن معبد عَن عبيد الله بن عَمْرو قَالَ الْأَعْمَش لأبى حنيفَة يَا نعْمَان مَا تَقول فِي كَذَا كَذَا قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ من أَيْن قلت قَالَ أَنْت حَدَّثتنَا عَن فلَان بِكَذَا قَالَ الْأَعْمَش أَنْتُم يَا معشر الْفُقَهَاء الْأَطِبَّاء وَنحن الصيادلة
کتاب الثقات لابن حبان8/468
اس میں صرف ابن حبان کے استاد عبدالملک بن محمد بن سمیع الدمشقی کا ترجمہ نہیں ملا۔اس کے علاوہ امام مزنی ،علی بن معبد عبیداللہ بن عمرو یہ تینوں ثقہ ہیں۔ اس روایت سے جامع بیان العلم وفضلہ کی روایت کی ایک درجے میں تائید ہوتی ہے اوراتناواضح ہوتاہے کہ اس واقعہ کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور موجود ہے۔
لیکن یہی واقعہ الکامل فی ضعفاء الرجال میں سند صحیح سے مروی ہے۔ دیکھئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بن عبيدة، حَدَّثَنا المزني إسماعيل بن يَحْيى، حَدَّثَنا علي بْن معبد عن عُبَيد اللَّه بْن عَمْرو الجزري، قَال: قَال الأَعْمَش يَا نعمان يعني أَبَا حنيفة ما تقول فِي كذا قَالَ كذا قَال: مَا تقول فِي كذا قَالَ كذا قَالَ من أين قلت قَالَ أنت حدثتني عن فلان عَنْهُ فَقَالَ الأَعْمَش يَا مَعْشَر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة.
الکامل فی ضعفاء الرجال8/238
عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ امام اعمش نے کہااے نعمان (ابوحنیفہ)آپ فلاں فلاں مسئلہ میں کیاکہتے ہیں یعنی اپ کی رائے کیاہے توانہوں نے جواب دیا۔ اس پر امام اعمش نے سوال کیاآپ کی ان باتوں کی دلیل کیاہے توفرمایا وہی حدیث جوآپ نے فلاں کی سند سے بیان کی تھی اس پر امام اعمش نے کہا۔اے گروہ فقہاء تم طبیب ہو اورہم پنساری ہیں۔
اس کی سند پر نگاہ ڈالئے۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بن عبيدة
ابْنُ عُبَيْدَةَ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عُبَيْدَةَ النَّيْسَابُوْرِيُّ *
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الرَّحَّالُ، الثِّقَةُ، أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عُبَيْدَةَ بنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُوْرِيُّ الشَّعْرَانِيُّ، المُسْتَمْلِي.
سیراعلام النبلاء14/410
وكَانَ ثقة.(تاریخ بغداد5/259)
امام مزنی
المُزَنِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيْمَ إِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى بنِ إِسْمَاعِيْلَ **
الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَلَمُ الزُّهَّادِ، أَبُو إِبْرَاهِيْمَ، إِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى بنِ إِسْمَاعِيْلَ بنِ عَمْرِو بنِ مُسْلِمٍ، المُزَنِيُّ (3) ، المِصْرِيُّ، تِلْمِيْذُ الشَّافِعِيِّ.
قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: سَمِعْتُ مِنَ المُزَنِيِّ وَهُوَ صَدُوْقٌ (3) .
وَقَالَ أَبُو سَعِيْدٍ بنُ يُوْنُسَ: ثِقَةٌ، كَانَ يلزمُ الرِّبَاطَ.
سیر اعلام النبلاء12/495
علاوہ ازیں امام مزنی کی سند سے حدیث کو ابن کثیر نے طبقات الشافعیین میں صحیح قراردیاہے۔جس سے حافظ ابن کثیر کے نزدیک بھی امام مزنی کی ثقاہت واضح ہوتی ہے۔
علی بن معبد
عَلِيُّ بنُ مَعْبَدِ بنِ شَدَّادٍ العَبْدِيُّ الرَّقِّيُّ *
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الفَقِيْهُ، أَبُو الحَسَنِ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ العَبْدِيُّ الرَّقِّيُّ، نَزِيْلُ مِصْرَ، مِنْ كِبَارِ الأَئِمَّةِ.
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ
سیر اعلام النبلاء10/631
حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں ان کو ثقہ قراردیاہے۔
عبیداللہ بن عمرو
عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ الْأَسَدِيُّ مَوْلًى لَهُمْ، وَيُكْنَى أَبَا وَهْبٍ، وَكَانَ ثِقَةً، صَدُوقًا، كَثِيرَ الْحَدِيثِ، وَرُبَّمَا أَخْطَأَ، وَكَانَ أَحْفَظَ مَنْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ فِي الْفَتْوَى فِي دَهْرِهِ، وَمَاتَ بِالرَّقَّةِ سَنَةَ ثَمَانِينَ وَمِائَةٍ، فِي خِلَافَةِ هَارُونَ
طبقات ابن سعد7/484
عُبَيْدُ اللهِ بنُ عَمْرِو بنِ أَبِي الوَلِيْدِ الأَسَدِيُّ مَوْلاَهُم * (ع)
الرَّقِّيُّ، الحَافِظُ الكَبِيْرُ، أَبُو وَهْبٍ.
كَانَ ثِقَةً، حُجَّةً، صَاحِبَ حَدِيْثٍ.
وَثَّقَهُ: ابْنُ مَعِيْنٍ، وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ، لاَ أَعْرِفُ لَهُ حَدِيْثاً مُنْكَراً، وَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ زُهَيْرِ بنِ مُحَمَّدٍ.
سیراعلام النبلاء8/310
حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں
ثقة فقيه ربما وهم
اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں۔ سند متصل ہے۔ ہرایک نے سماعت کی وضاحت کی ہے۔اس کے بارے میں بلاکسی شک وشائبہ کے لکھاجاسکتاہے ۔
ایک مزید سند ملاحظہ فرمائیں
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَوْهَرِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْخَزَّازُ نَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الْمُزَنِيَّ قَالَ أَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ نَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ كُنَّا عِنْدَ الْأَعْمَشِ وَهُوَ يَسْأَلُ أَبَا حَنِيفَةَ عَنْ مَسَائِلَ وَيُجِيبُهُ أَبُو حَنِيفَةَ فَيَقُولُ لَهُ الْأَعْمَشُ مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا فَيَقُولُ أَنْتَ حَدَّثْتَنَا عَنْ إِبْرَاهِيمَ بِكَذَا وَحَدَّثْتَنَا عَنِ الشَّعْبِيِّ بِكَذَا قَالَ فَكَانَ الْأَعْمَشُ عِنْدَ ذَلِكَ يَقُولُ:يَا مَعْشَرَ الْفُقَهَاءِ أَنْتُمُ الْأَطِبَّاءُ وَنَحْنُ الصَّيَادِلَةُ
نصیحۃ اھل الحدیث45
اس حدیث کی سند ملاحظہ کریں۔
حسن بن علی جوہری
خطیب کااس بارے میں کہناہے۔
كتبنا عنه، وكان ثقة أمينا كثير السماع(تاریخ بغداد8/397)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
الجَوْهَرِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ الحَسَنُ بنُ عَلِيِّ بنِ مُحَمَّدٍ *
الشَّيْخُ، الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الصَّدُوْقُ، مُسْنِدُ الآفَاقِ، أَبُو مُحَمَّدٍ الحَسَنُ بنُ عَلِيِّ بنِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ الشيرَازِيُّ ثُمَّ البَغْدَادِيُّ، الجَوْهَرِيُّ، المُقَنَّعِي.
سیر اعلام النبلاء18/68
مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْخَزَّازُ
محمد بن العباس بن محمد بن زكريا بن يحيى بن معاذ أبو عمر الخزاز المعروف بابن حيويه
سمع عبد الله بن إسحاق المدائني، ومحمد بن محمد بن سليمان الباغندي، ومحمد بن خلف بن المرزبان، وإبراهيم بن محمد الخنازيري، وأبا القاسم البغوي، وأبا بكر بن أبي داود، ويحيى بن محمد بن صاعد، وخلقا يطول ذكرهم.
وكان ثقة.
سمع الكثير وكتب طول عمره، وروى المصنفات الكبار مثل طبقات محمد بن سعد، ومغازي الواقدي، ومصنفات أبي بكر ابن الأنباري، ومغازي سعيد الأموي، وتاريخ ابن أبي خيثمة وغير ذلك.
تاریخ بغداد4/205
حَدَّثَنِي الأزهري قَالَ: كان أبو عمر بن حيويه مكثرا، وكان فيه تسامح، ربما أراد أن يقرأ شيئا ولا يقرب أصله منه فيقرأه من كتاب أبي الحسن بن الرزاز لثقته بذلك الكتاب وإن لم يكن فيه سماعه، وكان مع ذلك ثقة سمعت العتيقي ذكر ابن حيويه فأثنى عليه ثناء حسنا، وذكره ذكرا جميلا، وبالغ في ذلك، وَقَالَ: كان ثقة، صالحا، دينا، ذا مروءة
المصدرالسابق
واضح رہے کہ تاریخ بغداد کے ہی مطابق البرقانی نے بھی ان کو ثقہ متیقظ قراردیاہے اسی طرح حسن بن محمد بن خلال نے بھی اس کو ثقہ متیقظ قراردیاہے۔
تاریخ بغداد
أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ
عبد الله بن محمد بن زياد بن واصل بن ميمون، أبو بكر النيسابوري.
• قال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن أبي بكر النيسابوري، فقال: لم نر مثله في مشايخنا، لم نر أحفظ منه للأسانيد والمتون، وكان أفقه المشايخ، جالس المزني والربيع، وكان يعرف زيادات الألفاظ في المتون، ولما قعد للتحديث قالوا حدث، قال بل سلوا، فسئل عن أحاديث فأجاب فيها، وأملاها، ثم بعد ذلك ابتدأ يحدث. (325) .
• ووثقه الدَّارَقُطْنِيّ. «السنن» 1 305 و311.
قالَ الْحَاكِم كَانَ إِمَام عصره من الشَّافِعِيَّة بالعراق وَمن أحفظ النَّاس للفقهيات وَاخْتِلَاف الصَّحَابَة(طبقات الشافعیۃ الکبری3/313)
قال الخطیب كان حافظا متقنا عالما بالفقه والحديث موثقا في روايته
(تاریخ دمشق32/186)
اس سے آگے کی سند میں امام مزنی،علی بن معبد بن شداداورعبیداللہ بن عمرو ہیں جس کی ثقاہت کی وضاحت ماقبل میں کردی گئی ہے۔
اب کفایت اللہ صاحب یہ بتانے کی زحمت گوارہ فرمائیں کہ کیااب بھی وہ اسی رفتار بے ڈھنگی پر قائم رہیں گے کہ
ابوحنیفہ کی فقہ کی امام اعمش نے داد دی تو اس طرح کی بات مردود سند سے مروی ہے
قارئین نے ملاحظہ کیاکہ کفایت اللہ صاحب کا دعوی ٰ جو بڑے دم خم کے ساتھ کیاگیاتھا وہ تحقیق کی میزان پر کتنا کمزور اوربوگس نکلا۔
ویسے یہ عجیب طرفہ تماشاہے کہ کفایت اللہ صاحب کو الکامل فی ضعفاء الرجال میں ایک کمزور سند کے ساتھ حما دبن سلمہ کا قول مل جاتاہے تواس کو اسنادہ صحیح لکھ دیتے ہیں ۔ اس کے بالمقابل اعمش کی امام ابوحنیفہ کی فقاہت کی تعریف صحیح سند سے اسی کتاب میں موجود رہتی ہے لیکن ان کو اس طرح کی تمام صحیح سندیں مردود سند نظرآنے لگتی ہے۔
حافظ ذہبی نے اوردیگر محدثین نے نقل کیاہے کہ ابونعیم فضل بن دکین محدثین کے پاس سے حدیث سن کر لوٹتے توجب اپنے گھر جاتے توراستے میں امام زفر چادر میں لپٹے ہوئے رہتے۔ (اپنے گھر کے باہر)وہ آواز لگاتے تعال یااحول ۔اے بھینگے یہاں آ ،تاکہ میں تمہارے لئے احادیث کو چھان دوں ۔پھرفرماتے کیاکیاحدیثیں سنی ہیں ۔ابونعیم بیان کرتے تو امام زفر فرماتے کہ یہ حدیث قابل عمل ہے یہ حدیث متروک یامنسوخ ہے۔کفایت اللہ صاحب کا نقطہ نظربھی اسی احولیت کی کارستانی تونہیں ہے کہ مطلب کی چیزیں دیکھ لیں اورجومطلب کی نہ تھیں تو وہ مردود سند سے نظرآنے لگیں۔
امام ابویوسف اورامام اعمش
امام اعمش کا یہ واقعہ آپ نے پڑھ لیا۔
اسی طرح کاایک واقعہ امام اعمش اورامام ابویوسف کےدر میان پیش آیاتھا۔ اس واقعہ کوخطیب بغدادی،ابن عبدالبر، صیمری نے نقل کیاہے چنانچہ خطیب اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
اُخْبُرْنَا القَاضِي ابو مُحَمَّد قَالَ ثَنَا ابو بكر الدَّامغَانِي قَالَ ثَنَا ابو جَعْفَر الطَّحَاوِيّ قَالَ ثَنَا ابْن ابي عمرَان قَالَ ثَنَا بشر بن الْوَلِيد قَالَ سَمِعت ابا يُوسُف يَقُول سَأَلَني الْأَعْمَش عَن مَسْأَلَة فأجبته فِيهَا فَقَالَ لي من أَيْن قلت هَذَا فَقلت لحديثك الَّذِي حدثتناه انت ثمَّ ذكرت لَهُ الحَدِيث فَقَالَ لي يَا يَعْقُوب اني لأحفظ هَذَا الحَدِيث قبل ان يجْتَمع ابواك فَمَا عرفت تَأْوِيله حَتَّى الْآن
تاریخ بغداد14/249
بشربن الولید ابویوسف سے نقل کرتے ہیں کہ مجھ سے اعمش نے کسی مسئلہ کے تعلق سے پوچھاتومیں نے جواب دیا توانہوں نے مجھ سے کہااس کی دلیل کیاہے تومیں نے کہاکہ اس مسئلہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو آپ نے ہم سے بیان کیاتھا پھر میں نے حدیث ذکر کی توفرمایا اے یعقوب ۔یہ حدیث مجھ کو تب سے یاد ہے جب تمہارے والدین کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن اس کی تفسیر آج معلوم ہوئی ہے۔
اس حدیث کی سند لاباس بہ ہے۔ کیونکہ اس میں قاضی ابومحمد اورابوبکر الدامغانی کی توثیق کسی نے واضح طورپر نہیں کی لیکن ان کے علم وفضل کی عمومی طورپر تعریف کی گئی ہے۔
اسی واقعہ کو اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں صیمری نے بھی روایت کیاہے ۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔
اُخْبُرْنَا القَاضِي ابو مُحَمَّد قَالَ ثَنَا ابو بكر الدَّامغَانِي قَالَ ثَنَا ابو جَعْفَر الطَّحَاوِيّ قَالَ ثَنَا ابْن ابي عمرَان قَالَ ثَنَا بشر بن الْوَلِيد قَالَ سَمِعت ابا يُوسُف يَقُول سَأَلَني الْأَعْمَش عَن مَسْأَلَة فأجبته فِيهَا فَقَالَ لي من أَيْن قلت هَذَا فَقلت لحديثك الَّذِي حدثتناه انت ثمَّ ذكرت لَهُ الحَدِيث فَقَالَ لي يَا يَعْقُوب اني لأحفظ هَذَا الحَدِيث قبل ان يجْتَمع ابواك فَمَا عرفت تَأْوِيله حَتَّى الْآن
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ102
اس کی بھی سند لاباس بہ ہے۔
ابن عبدالبر جامع بیان العلم وفضلہ میں لکھتے ہیں۔
بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: سَأَلَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ مَسْأَلَةٍ، وَأَنَا وَهُوَ لَا غَيْرَ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ لِي: مِنْ أَيْنَ قُلْتَ هَذَا يَا يَعْقُوبُ؟ فَقُلْتُ: بِالْحَدِيثِ الَّذِي حَدَّثْتَنِي أَنْتَ، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ، فَقَالَ لِي: «يَا يَعْقُوبُ إِنِّي لَأَحْفَظُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَجْتَمِعَ أَبَوَاكَ مَا عَرَفْتُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا الْآنَ» .
جامع بیان العلم وفضلہ2/1029
اس کو بعد کے مورخین مثلاحافظ ذہبی، ابن خلکان اورصفدی وغیرہ نے بھی بیان کیاہے۔
ماقبل میں آپ نے دیکھاکہ امام اعمش خود ہی کہہ رہے ہیں کہ گروہ فقہاء تم طبیب ہو اورہم پنساری (کیمسٹ )ہیں۔اب اس سلسلے میں کچھ مزید نقول ذکر کئے جاتے ہیں۔
امام شافعی کا مقام ومرتبہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امام شافعی کا علم فقہ میں بطور خاص جومقام تھا وہ بہت بلند تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اہل حدیثوں سے مخاطب ہوکر کہاکہ تم لوگ پنساری ہو اورہم ڈاکٹر ہیں۔
قَالَ الرَّبِيْعُ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ لِبَعْضِ أَصْحَابِ الحَدِيْثِ:
ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے سناکہ وہ بعض اہل حدیث سے کہہ رہے تھے ۔تم پنساری ہو اورہم اطباء ہیں۔
یہی بات بعد میں ایک مشہور محدث سلیمان بن زبر سے امام طحاوی نے فرمایاتھا
قال أبو سليمان بن زبر: كان الطحاوي قد نظر في أشياء كثيرة من تصنيفي، وباتت عنده، وتصفحها، فأعجبته، وقال لي: يا أبا سليمان، أنتم الصيادلة ونحن الأطباء.
تاریخ دمشق22/260،تذکرۃ الحفاظ3/135،سیر اعلام النبلاء16/441
سلیمان بن زبر کہتے ہیں کہ طحاوی نے میری تصنیف کا بغورمطالعہ کیا توان کو میری تصنیف پسند آئی اورپھر مجھ سے کہااے ابوسلیمان تم پنساری ہو اورہم ڈاکٹر ہیں۔
یہ نقول اس بات کو ثابت کررہے ہیں کہ محدثین کرام کو اس بات سے گرانی نہیں تھی کہ ان کو پنساری اورفقہاء کو ڈاکٹر کہاجارہاہے بلکہ اس کو وہ خود بھی تسلیم کرتے تھے لیکن دور حاضر کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو پنساریوں کو ہی ڈاکٹر ثابت کرنے کے چکر میں دن رات ایک کئے دے رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کواپنی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت کرے۔
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، سَمِعْتُ مُعَرَّفًا، يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى الْأَعْمَشِ يَعُودُهُ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ، عَلَيْكَ مَجِيئِي لَعُدْتُكَ فِي كُلِّ يَوْمٍ، فَقَالَ الْأَعْمَشُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ النُّعْمَانِ أَنْتَ وَاللَّهِ ثَقِيلٌ فِي مَنْزِلِكَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْتَنِي»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 190 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد معرف بن واصل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوحنیفہ امام اعمش رحمہ اللہ کی عیادت کرنے کے لئے آئے اور کہا : ’’اے اعمش ! اگر میرا آپ کے پاس آنا آپ کو بوجھ نہ لگتا تو میں تو روزآنہ آپ کی عیادت کرتا ‘‘ ۔ امام اعمش نے کہا: یہ کون آگیا ؟ لوگوں نے کہا یہ ابوحنیفہ صاحب ہیں ۔ یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: اے نعمان کے بچے ! اللہ کی قسم تو تو اپنے گھر میں بھی بوجھ بنا ہواہے پھرمیرے پاس آئے گا تو بوجھ کیوں نہیں بنے گا۔
اوراس کے بعد کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
اس خبر کی پوری تفصیل جامع بیان العلم وفضلہ میں ابن عبدالبر نے ذکر کی ہے۔ دیکھئے۔امام اعمش رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ ان کے شاگردوں پر یاکسی گروہ پر نہیں ہے کہ عموم وخصوص کی بات کی جائے بلکہ ایک فردواحد ابوحنیفہ کی شان میں امام اعمش رحمہ اللہ کا یہ ارشاد عالی ہے ،
اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ فضل بن موسی السینانی کہتے ہیں کہ جب ہم اعمش کے پاس سے باہر نکلے تو امام ابوحنیفہ نے فرمایا ۔اعمش نے نہ کبھی رمضان کا روزہ رکھا اورنہ ہی غسل جنابیت کیا ۔علی بن خشرم کہتے ہیں کہ میں نے فضل بن موسی سے پوچھاکہ ابوحنیفہ کی اس بات سے کیامراد تھی توفرمایاکہ اعمش الماء من الماء کے قائل تھے اورحضرت حذیفہ کی حدیث پر سحری کھایاکرتے تھے۔(الماء من الماء واضح طورپر منسوخ ہے اورکچھ یہی حال حدیث حذیفہ فی السحر کابھی ہے)أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا مَسْلَمَةُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ فَيْرُوزَ، نا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْفَضْلَ بْنَ مُوسَى يَقُولُ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ عَلَى الْأَعْمَشِ نَعُودُهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، لَوْلَا التَّثْقِيلُ عَلَيْكَ لَتَرَدَّدْتُ فِي عِيَادَتِكَ أَوْ قَالَ: لَعُدْتُكَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعُودُكَ، فَقَالَ لَهُ الْأَعْمَشُ: وَاللَّهِ إِنَّكَ لَثَقِيلٌ وَأَنْتَ فِي بَيْتِكَ فَكَيْفَ إِذَا دَخَلْتَ عَلَيَّ؟ قَالَ الْفَضْلُ: فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِنَّ الْأَعْمَشَ لَمْ يَصُمْ رَمَضَانَ قَطُّ وَلَمْ يَغْتَسِلْ مِنْ جَنَابَةٍ، فَقُلْتُ لِلْفَضْلِ: مَا يَعْنِي بِذَلِكَ؟ قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ يَرَى الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ [ص:1107] وَيَتَسَحَّرُ عَلَى حَدِيثِ حُذَيْفَةَ"
ویسے بھی اس پورے کلام سے صرف اتنامعلوم ہورہاہے کہ دونوں حضرات کے دل ایک دوسرے سے صاف نہ تھے اورروایات میں تطبیق کا جائزہ لیاجائے تویہ ممکن ہے کہ شروع میں امام ابوحنیفہ کے خلاف پروپیگنڈہ کی وجہ سے امام اعمش کا دل امام ابوحنیفہ سے صاف نہو اوران کو ان سے گرانی ہو لیکن بعد میں جب ان کو امام ابوحنیفہ کے تعلق سے حقیقت کا پتہ چلاتوانہوں نے اپنی مجلس میں امام ابوحنیفہ سے مسائل بھی دریافت کرنے شروع کردیئے۔
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
کفایت اللہ صاحب نے کہاہے کہاور اس کے برعکس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ امام اعمش ابوحنیفہ کے گن گاتے تھے جو لوگ یہ کہتے کہ ابوحنیفہ کی فقہ کی امام اعمش نے داد دی تو اس طرح کی بات مردود سند سے مروی ہے ، والحمدللہ علی نعمۃ الاسناد۔
حقیقت یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب ایسی بہت سی باتیں اس طرح سے دوہرادیتے ہیں کہ سامنے والایہ یقین کرلیتاہے کہ انہوں نے یہ بات پوری تحقیق اورذمہ داری کے ساتھ کہی ہوگئی ۔ تحقیق سے میری مراد وہ تحقیق ہے جس کو علامہ سید سلیمان ندوی نے کہاتھاکہ تحقیق کا کام چیونیٹوں کے منہ سے شکر جمع کرنے جیساہے۔ لیکن جب کفایت اللہ صاحب کی تحقیق کی مزید تحقیق کی جاتی ہے تو اس میں بڑے بڑے چھید اورجھول نظرآتے ہیں۔ زیر نظرہی مثال لیں کہ انہوں نے کس طرح سے دعویٰ کردیاکہ فقاہت کی سند والی بات مردود سند سے مروی ہے۔ابوحنیفہ کی فقہ کی امام اعمش نے داد دی تو اس طرح کی بات مردود سند سے مروی ہے
واقعہ کیاہے؟
امام اعمش علیہ الرحمہ کی مجلس میں کسی نے کوئی فقہی سوال کیاتوانہوں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھایاپھر خود اعمش نے امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاکہ فلاں فلاں مسئلہ میں اپ کیاکہتے ہیں توامام ابوحنیفہ نے جواب دیا۔ امام اعمش نے دریافت کیاکہ اس کی دلیل کیاہے توفرمایاکہ اپ نے ہی تو فلاں فلاں موقع پر فلاں فلاں حدیثیں بیان کی تھیں۔اسی سے ہم نے یہ مسائل مستنبط کئے۔ اس پر امام اعمش نے فرمایاکہ اے گروہ فقہاء توطبیب ہواورہم تو پنساری ہیں۔
یہ واقعہ کئی اہل علم نے ذکر کیاہے۔آئیے ذرااس کاجائزہ لیتے چلیں کہ یہ واقعہ مردود سند سے روایت کی گئی ہے یا پھر اس کا کوئی حقیقی اورواقعی وجود بھی ہے۔
امام صیمری
اس واقعہ کو امام صیمری نے اپنی کتاب اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں نقل کیاہے۔چنانچہ ملاحظہ کیجئے۔
أخبرنَا عبد الله بن مُحَمَّد قَالَ ثَنَا مكرم قَالَ ثَنَا أَحْمد بن عَطِيَّة قَالَ ثَنَا عَليّ بن معبد قَالَ ثَنَا عبيد الله بن عمر قَالَ كُنَّا عِنْد الْأَعْمَش وَهُوَ يسْأَل أَبَا حنيفَة عَن مسَائِل ويجيبه ابو حنيفَة فَيَقُول لَهُ الْأَعْمَش من أَيْن لَك هَذَا فَيَقُول انت حَدَّثتنَا عَن إِبْرَاهِيم بِكَذَا وحدثتنا عَن الشّعبِيّ بِكَذَا قَالَ فَكَانَ الْأَعْمَش عِنْد ذَلِك يَقُول يَا معشر الْفُقَهَاء أَنْتُم الْأَطِبَّاء وَنحن الصيادلة
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ1/27
عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم اعمش کے پاس تھے اوروہ امام ابوحنیفہ سے کچھ مسائل دریافت کررہے تھے اورامام ابوحنیفہ جواب دے رہے تھے توان سے اعمش نے کہاکہ آپ کی دلیل کیاہے توفرمایاآپ نے ہم سے ابراہیم کی سند سے شعبی کی سند سے ایسی ایسی روایت بیان کی تھی اسی سے ہم نے یہ مسائل مستنبط کئے ہیں۔ تواس وقت امام اعمش نے کہااے گروہ فقہاء توڈاکٹر اورطبیب ہو اورہم پنساری اورکیمسٹ ہیں۔
اس واقعہ کی سند یوں تودرست ہے لیکن درمیان میں احمد بن عطیہ ہے ان پر محدثین نے سخت جرح کی ہے۔ مطلب یہ کہ ان پر کذب اوروضع حدیث کا بھی الزام ہے لہذا اس راوی کی وجہ سے یہ واقعہ قابل استدلال نہیں رہ گیاہے۔ویسے اس واقعہ میں راوی نے امام اعمش سے روایت کرنے والے کا نام عبیداللہ بن عمر بتایاہے جب کہ دیگر تمام روایتوں میں اس راوی کا نام عبیداللہ بن عمرو بتایاگیاہے۔
ابن عبدالبر
اس واقعہ کا ذکر ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں کیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
اخبرنی خلف بن قاسم،ثنامحمد بن القاسم بن شعبان ،حدثناابراہیم بن عثمان بن سعید،ثناعلان بن المغیرہ ،ثناعلی بن معبد بن شداد ،ثنا عبیداللہ بن عمرو ،قال:کنت فی مجلس الاعمش فجاءہ رجل فسالہ عن مسالۃ فلم یجبہ فیھا،ونظرفاذا ابوحنیفۃ فقال:یانعمن قل فیھا ،قال:القول فیہا کذا ،قال من این؟قال:من حدیث حدثتناہ ،قال فقال الاعمش:نحن الصیادلۃ وانتم الاطباء
جامع بیان العلم وفضلہ 130
عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں میں اعمش کی مجلس میں تھا توایک شخص نے ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا توانہوں نے جواب نہیں دیا اورنگاہ دوڑائی تو امام ابوحنیفہ کو مجلس میں موجود پایا توفرمایا اے نعمان اس مسئلہ کے متعلق جواب دیں توانہوں نے جواب دیا ۔اس پر اعمش نے مسئلہ کی دلیل دریافت کی توفرمایا اسی حدیث سے جوآپ نے بیان کیاتھا اس پر اعمش نے کہاکہ ہم پنساری ہیں اورتم اطباء ہو۔
اس کی سند کو دیکھیں۔
خلف بن قاسم
ثقہ ہیں۔اس کیلئے سیراعلام النبلاء اوربغیۃ الملتمس کی جانب رجوع کیاجائے۔
محمد بن القاسم بن شعبان
یہ مالکی فقیہ ہیں اوربڑےرتبہ کے فقیہہ ہیں۔ بقول ذہبی ابن حزم نے ان کو کمزور قراردیاہے ۔
حدثناابراہیم بن عثمان بن سعید
ابن یونس نے ان کو صالح الحدیث قراردیاہے۔
علان بن المغیرہ
کا ترجمہ مجھے نہیں ملا
علی بن معبد
ثقہ ہیں
عبیداللہ بن عمرو الرقی
یہ بھی ثقہ ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہواکہ
یہ روایت بھی ضعیف ہے لیکن شدید درجے کا ضعف نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہی روایت اسی سند سے کتاب الثقات میں ابن حبان نے بھی ذکر کیاہے۔ دیکھئے ۔
على بن معبد بن شَدَّاد الْعَبْدي من أهل مصر يروي عَن اللَّيْث بن سعد وَعبيد الله بْن عَمْرو رَوَى عَنْهُ المصريون مُسْتَقِيم الحَدِيث حَدثنِي عبد الْملك بن مُحَمَّد بن سميع بصيداء ثَنَا الْمُزنِيّ ثَنَا عَليّ بن معبد عَن عبيد الله بن عَمْرو قَالَ الْأَعْمَش لأبى حنيفَة يَا نعْمَان مَا تَقول فِي كَذَا كَذَا قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ من أَيْن قلت قَالَ أَنْت حَدَّثتنَا عَن فلَان بِكَذَا قَالَ الْأَعْمَش أَنْتُم يَا معشر الْفُقَهَاء الْأَطِبَّاء وَنحن الصيادلة
کتاب الثقات لابن حبان8/468
اس میں صرف ابن حبان کے استاد عبدالملک بن محمد بن سمیع الدمشقی کا ترجمہ نہیں ملا۔اس کے علاوہ امام مزنی ،علی بن معبد عبیداللہ بن عمرو یہ تینوں ثقہ ہیں۔ اس روایت سے جامع بیان العلم وفضلہ کی روایت کی ایک درجے میں تائید ہوتی ہے اوراتناواضح ہوتاہے کہ اس واقعہ کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور موجود ہے۔
لیکن یہی واقعہ الکامل فی ضعفاء الرجال میں سند صحیح سے مروی ہے۔ دیکھئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بن عبيدة، حَدَّثَنا المزني إسماعيل بن يَحْيى، حَدَّثَنا علي بْن معبد عن عُبَيد اللَّه بْن عَمْرو الجزري، قَال: قَال الأَعْمَش يَا نعمان يعني أَبَا حنيفة ما تقول فِي كذا قَالَ كذا قَال: مَا تقول فِي كذا قَالَ كذا قَالَ من أين قلت قَالَ أنت حدثتني عن فلان عَنْهُ فَقَالَ الأَعْمَش يَا مَعْشَر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة.
الکامل فی ضعفاء الرجال8/238
عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ امام اعمش نے کہااے نعمان (ابوحنیفہ)آپ فلاں فلاں مسئلہ میں کیاکہتے ہیں یعنی اپ کی رائے کیاہے توانہوں نے جواب دیا۔ اس پر امام اعمش نے سوال کیاآپ کی ان باتوں کی دلیل کیاہے توفرمایا وہی حدیث جوآپ نے فلاں کی سند سے بیان کی تھی اس پر امام اعمش نے کہا۔اے گروہ فقہاء تم طبیب ہو اورہم پنساری ہیں۔
اس کی سند پر نگاہ ڈالئے۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بن عبيدة
ابْنُ عُبَيْدَةَ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عُبَيْدَةَ النَّيْسَابُوْرِيُّ *
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الرَّحَّالُ، الثِّقَةُ، أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عُبَيْدَةَ بنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُوْرِيُّ الشَّعْرَانِيُّ، المُسْتَمْلِي.
سیراعلام النبلاء14/410
وكَانَ ثقة.(تاریخ بغداد5/259)
امام مزنی
المُزَنِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيْمَ إِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى بنِ إِسْمَاعِيْلَ **
الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَلَمُ الزُّهَّادِ، أَبُو إِبْرَاهِيْمَ، إِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى بنِ إِسْمَاعِيْلَ بنِ عَمْرِو بنِ مُسْلِمٍ، المُزَنِيُّ (3) ، المِصْرِيُّ، تِلْمِيْذُ الشَّافِعِيِّ.
قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: سَمِعْتُ مِنَ المُزَنِيِّ وَهُوَ صَدُوْقٌ (3) .
وَقَالَ أَبُو سَعِيْدٍ بنُ يُوْنُسَ: ثِقَةٌ، كَانَ يلزمُ الرِّبَاطَ.
سیر اعلام النبلاء12/495
علاوہ ازیں امام مزنی کی سند سے حدیث کو ابن کثیر نے طبقات الشافعیین میں صحیح قراردیاہے۔جس سے حافظ ابن کثیر کے نزدیک بھی امام مزنی کی ثقاہت واضح ہوتی ہے۔
علی بن معبد
عَلِيُّ بنُ مَعْبَدِ بنِ شَدَّادٍ العَبْدِيُّ الرَّقِّيُّ *
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الفَقِيْهُ، أَبُو الحَسَنِ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ العَبْدِيُّ الرَّقِّيُّ، نَزِيْلُ مِصْرَ، مِنْ كِبَارِ الأَئِمَّةِ.
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ
سیر اعلام النبلاء10/631
حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں ان کو ثقہ قراردیاہے۔
عبیداللہ بن عمرو
عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ الْأَسَدِيُّ مَوْلًى لَهُمْ، وَيُكْنَى أَبَا وَهْبٍ، وَكَانَ ثِقَةً، صَدُوقًا، كَثِيرَ الْحَدِيثِ، وَرُبَّمَا أَخْطَأَ، وَكَانَ أَحْفَظَ مَنْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ فِي الْفَتْوَى فِي دَهْرِهِ، وَمَاتَ بِالرَّقَّةِ سَنَةَ ثَمَانِينَ وَمِائَةٍ، فِي خِلَافَةِ هَارُونَ
طبقات ابن سعد7/484
عُبَيْدُ اللهِ بنُ عَمْرِو بنِ أَبِي الوَلِيْدِ الأَسَدِيُّ مَوْلاَهُم * (ع)
الرَّقِّيُّ، الحَافِظُ الكَبِيْرُ، أَبُو وَهْبٍ.
كَانَ ثِقَةً، حُجَّةً، صَاحِبَ حَدِيْثٍ.
وَثَّقَهُ: ابْنُ مَعِيْنٍ، وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ، لاَ أَعْرِفُ لَهُ حَدِيْثاً مُنْكَراً، وَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ زُهَيْرِ بنِ مُحَمَّدٍ.
سیراعلام النبلاء8/310
حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں
ثقة فقيه ربما وهم
اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں۔ سند متصل ہے۔ ہرایک نے سماعت کی وضاحت کی ہے۔اس کے بارے میں بلاکسی شک وشائبہ کے لکھاجاسکتاہے ۔
سندہ صحیح
ایک مزید سند ملاحظہ فرمائیں
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَوْهَرِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْخَزَّازُ نَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الْمُزَنِيَّ قَالَ أَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ نَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ كُنَّا عِنْدَ الْأَعْمَشِ وَهُوَ يَسْأَلُ أَبَا حَنِيفَةَ عَنْ مَسَائِلَ وَيُجِيبُهُ أَبُو حَنِيفَةَ فَيَقُولُ لَهُ الْأَعْمَشُ مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا فَيَقُولُ أَنْتَ حَدَّثْتَنَا عَنْ إِبْرَاهِيمَ بِكَذَا وَحَدَّثْتَنَا عَنِ الشَّعْبِيِّ بِكَذَا قَالَ فَكَانَ الْأَعْمَشُ عِنْدَ ذَلِكَ يَقُولُ:يَا مَعْشَرَ الْفُقَهَاءِ أَنْتُمُ الْأَطِبَّاءُ وَنَحْنُ الصَّيَادِلَةُ
نصیحۃ اھل الحدیث45
اس حدیث کی سند ملاحظہ کریں۔
حسن بن علی جوہری
خطیب کااس بارے میں کہناہے۔
كتبنا عنه، وكان ثقة أمينا كثير السماع(تاریخ بغداد8/397)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
الجَوْهَرِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ الحَسَنُ بنُ عَلِيِّ بنِ مُحَمَّدٍ *
الشَّيْخُ، الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الصَّدُوْقُ، مُسْنِدُ الآفَاقِ، أَبُو مُحَمَّدٍ الحَسَنُ بنُ عَلِيِّ بنِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ الشيرَازِيُّ ثُمَّ البَغْدَادِيُّ، الجَوْهَرِيُّ، المُقَنَّعِي.
سیر اعلام النبلاء18/68
مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْخَزَّازُ
محمد بن العباس بن محمد بن زكريا بن يحيى بن معاذ أبو عمر الخزاز المعروف بابن حيويه
سمع عبد الله بن إسحاق المدائني، ومحمد بن محمد بن سليمان الباغندي، ومحمد بن خلف بن المرزبان، وإبراهيم بن محمد الخنازيري، وأبا القاسم البغوي، وأبا بكر بن أبي داود، ويحيى بن محمد بن صاعد، وخلقا يطول ذكرهم.
وكان ثقة.
سمع الكثير وكتب طول عمره، وروى المصنفات الكبار مثل طبقات محمد بن سعد، ومغازي الواقدي، ومصنفات أبي بكر ابن الأنباري، ومغازي سعيد الأموي، وتاريخ ابن أبي خيثمة وغير ذلك.
تاریخ بغداد4/205
حَدَّثَنِي الأزهري قَالَ: كان أبو عمر بن حيويه مكثرا، وكان فيه تسامح، ربما أراد أن يقرأ شيئا ولا يقرب أصله منه فيقرأه من كتاب أبي الحسن بن الرزاز لثقته بذلك الكتاب وإن لم يكن فيه سماعه، وكان مع ذلك ثقة سمعت العتيقي ذكر ابن حيويه فأثنى عليه ثناء حسنا، وذكره ذكرا جميلا، وبالغ في ذلك، وَقَالَ: كان ثقة، صالحا، دينا، ذا مروءة
المصدرالسابق
واضح رہے کہ تاریخ بغداد کے ہی مطابق البرقانی نے بھی ان کو ثقہ متیقظ قراردیاہے اسی طرح حسن بن محمد بن خلال نے بھی اس کو ثقہ متیقظ قراردیاہے۔
تاریخ بغداد
أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ
عبد الله بن محمد بن زياد بن واصل بن ميمون، أبو بكر النيسابوري.
• قال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن أبي بكر النيسابوري، فقال: لم نر مثله في مشايخنا، لم نر أحفظ منه للأسانيد والمتون، وكان أفقه المشايخ، جالس المزني والربيع، وكان يعرف زيادات الألفاظ في المتون، ولما قعد للتحديث قالوا حدث، قال بل سلوا، فسئل عن أحاديث فأجاب فيها، وأملاها، ثم بعد ذلك ابتدأ يحدث. (325) .
• ووثقه الدَّارَقُطْنِيّ. «السنن» 1 305 و311.
قالَ الْحَاكِم كَانَ إِمَام عصره من الشَّافِعِيَّة بالعراق وَمن أحفظ النَّاس للفقهيات وَاخْتِلَاف الصَّحَابَة(طبقات الشافعیۃ الکبری3/313)
قال الخطیب كان حافظا متقنا عالما بالفقه والحديث موثقا في روايته
(تاریخ دمشق32/186)
اس سے آگے کی سند میں امام مزنی،علی بن معبد بن شداداورعبیداللہ بن عمرو ہیں جس کی ثقاہت کی وضاحت ماقبل میں کردی گئی ہے۔
اب کفایت اللہ صاحب یہ بتانے کی زحمت گوارہ فرمائیں کہ کیااب بھی وہ اسی رفتار بے ڈھنگی پر قائم رہیں گے کہ
ابوحنیفہ کی فقہ کی امام اعمش نے داد دی تو اس طرح کی بات مردود سند سے مروی ہے
یاپھر دلیل کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے یہ مان لیں گے کہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت کی داد امام اعمش کی زبانی سند صحیح سے مروی ہے۔
قارئین نے ملاحظہ کیاکہ کفایت اللہ صاحب کا دعوی ٰ جو بڑے دم خم کے ساتھ کیاگیاتھا وہ تحقیق کی میزان پر کتنا کمزور اوربوگس نکلا۔
ویسے یہ عجیب طرفہ تماشاہے کہ کفایت اللہ صاحب کو الکامل فی ضعفاء الرجال میں ایک کمزور سند کے ساتھ حما دبن سلمہ کا قول مل جاتاہے تواس کو اسنادہ صحیح لکھ دیتے ہیں ۔ اس کے بالمقابل اعمش کی امام ابوحنیفہ کی فقاہت کی تعریف صحیح سند سے اسی کتاب میں موجود رہتی ہے لیکن ان کو اس طرح کی تمام صحیح سندیں مردود سند نظرآنے لگتی ہے۔
حافظ ذہبی نے اوردیگر محدثین نے نقل کیاہے کہ ابونعیم فضل بن دکین محدثین کے پاس سے حدیث سن کر لوٹتے توجب اپنے گھر جاتے توراستے میں امام زفر چادر میں لپٹے ہوئے رہتے۔ (اپنے گھر کے باہر)وہ آواز لگاتے تعال یااحول ۔اے بھینگے یہاں آ ،تاکہ میں تمہارے لئے احادیث کو چھان دوں ۔پھرفرماتے کیاکیاحدیثیں سنی ہیں ۔ابونعیم بیان کرتے تو امام زفر فرماتے کہ یہ حدیث قابل عمل ہے یہ حدیث متروک یامنسوخ ہے۔کفایت اللہ صاحب کا نقطہ نظربھی اسی احولیت کی کارستانی تونہیں ہے کہ مطلب کی چیزیں دیکھ لیں اورجومطلب کی نہ تھیں تو وہ مردود سند سے نظرآنے لگیں۔
امام ابویوسف اورامام اعمش
امام اعمش کا یہ واقعہ آپ نے پڑھ لیا۔
اسی طرح کاایک واقعہ امام اعمش اورامام ابویوسف کےدر میان پیش آیاتھا۔ اس واقعہ کوخطیب بغدادی،ابن عبدالبر، صیمری نے نقل کیاہے چنانچہ خطیب اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
اُخْبُرْنَا القَاضِي ابو مُحَمَّد قَالَ ثَنَا ابو بكر الدَّامغَانِي قَالَ ثَنَا ابو جَعْفَر الطَّحَاوِيّ قَالَ ثَنَا ابْن ابي عمرَان قَالَ ثَنَا بشر بن الْوَلِيد قَالَ سَمِعت ابا يُوسُف يَقُول سَأَلَني الْأَعْمَش عَن مَسْأَلَة فأجبته فِيهَا فَقَالَ لي من أَيْن قلت هَذَا فَقلت لحديثك الَّذِي حدثتناه انت ثمَّ ذكرت لَهُ الحَدِيث فَقَالَ لي يَا يَعْقُوب اني لأحفظ هَذَا الحَدِيث قبل ان يجْتَمع ابواك فَمَا عرفت تَأْوِيله حَتَّى الْآن
تاریخ بغداد14/249
بشربن الولید ابویوسف سے نقل کرتے ہیں کہ مجھ سے اعمش نے کسی مسئلہ کے تعلق سے پوچھاتومیں نے جواب دیا توانہوں نے مجھ سے کہااس کی دلیل کیاہے تومیں نے کہاکہ اس مسئلہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو آپ نے ہم سے بیان کیاتھا پھر میں نے حدیث ذکر کی توفرمایا اے یعقوب ۔یہ حدیث مجھ کو تب سے یاد ہے جب تمہارے والدین کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن اس کی تفسیر آج معلوم ہوئی ہے۔
اس حدیث کی سند لاباس بہ ہے۔ کیونکہ اس میں قاضی ابومحمد اورابوبکر الدامغانی کی توثیق کسی نے واضح طورپر نہیں کی لیکن ان کے علم وفضل کی عمومی طورپر تعریف کی گئی ہے۔
اسی واقعہ کو اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں صیمری نے بھی روایت کیاہے ۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔
اُخْبُرْنَا القَاضِي ابو مُحَمَّد قَالَ ثَنَا ابو بكر الدَّامغَانِي قَالَ ثَنَا ابو جَعْفَر الطَّحَاوِيّ قَالَ ثَنَا ابْن ابي عمرَان قَالَ ثَنَا بشر بن الْوَلِيد قَالَ سَمِعت ابا يُوسُف يَقُول سَأَلَني الْأَعْمَش عَن مَسْأَلَة فأجبته فِيهَا فَقَالَ لي من أَيْن قلت هَذَا فَقلت لحديثك الَّذِي حدثتناه انت ثمَّ ذكرت لَهُ الحَدِيث فَقَالَ لي يَا يَعْقُوب اني لأحفظ هَذَا الحَدِيث قبل ان يجْتَمع ابواك فَمَا عرفت تَأْوِيله حَتَّى الْآن
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ102
اس کی بھی سند لاباس بہ ہے۔
ابن عبدالبر جامع بیان العلم وفضلہ میں لکھتے ہیں۔
بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: سَأَلَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ مَسْأَلَةٍ، وَأَنَا وَهُوَ لَا غَيْرَ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ لِي: مِنْ أَيْنَ قُلْتَ هَذَا يَا يَعْقُوبُ؟ فَقُلْتُ: بِالْحَدِيثِ الَّذِي حَدَّثْتَنِي أَنْتَ، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ، فَقَالَ لِي: «يَا يَعْقُوبُ إِنِّي لَأَحْفَظُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَجْتَمِعَ أَبَوَاكَ مَا عَرَفْتُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا الْآنَ» .
جامع بیان العلم وفضلہ2/1029
اس کو بعد کے مورخین مثلاحافظ ذہبی، ابن خلکان اورصفدی وغیرہ نے بھی بیان کیاہے۔
ایک نکتہ کی بات
بعض حضرات کو پتہ نہیں کیوں جہاں محدثین کو صیادلہ (پنساری کہاجاتاہے)توانہیں تائوآنے لگتاہے اورتیوریاں چڑھنے لگتے ہیں اورچہرے کا زاویہ بننے بگڑنے لگتاہے۔ یہ حیرت اس وقت مزید ہوجاتی ہے جب پتہ چلتاہے کہ محدثین کرام کو خود اس بات سے کوئی گرانی نہیں تھی بلکہ وہ اس کو بخوشی تسلیم کیاکرتے تھے۔ ماقبل میں آپ نے دیکھاکہ امام اعمش خود ہی کہہ رہے ہیں کہ گروہ فقہاء تم طبیب ہو اورہم پنساری (کیمسٹ )ہیں۔اب اس سلسلے میں کچھ مزید نقول ذکر کئے جاتے ہیں۔
امام شافعی کا مقام ومرتبہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امام شافعی کا علم فقہ میں بطور خاص جومقام تھا وہ بہت بلند تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اہل حدیثوں سے مخاطب ہوکر کہاکہ تم لوگ پنساری ہو اورہم ڈاکٹر ہیں۔
قَالَ الرَّبِيْعُ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ لِبَعْضِ أَصْحَابِ الحَدِيْثِ:
أَنْتُم الصَّيَادِلَةُ، وَنَحْنُ الأَطِبَّاءُ
(3) .ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے سناکہ وہ بعض اہل حدیث سے کہہ رہے تھے ۔تم پنساری ہو اورہم اطباء ہیں۔
یہی بات بعد میں ایک مشہور محدث سلیمان بن زبر سے امام طحاوی نے فرمایاتھا
قال أبو سليمان بن زبر: كان الطحاوي قد نظر في أشياء كثيرة من تصنيفي، وباتت عنده، وتصفحها، فأعجبته، وقال لي: يا أبا سليمان، أنتم الصيادلة ونحن الأطباء.
تاریخ دمشق22/260،تذکرۃ الحفاظ3/135،سیر اعلام النبلاء16/441
سلیمان بن زبر کہتے ہیں کہ طحاوی نے میری تصنیف کا بغورمطالعہ کیا توان کو میری تصنیف پسند آئی اورپھر مجھ سے کہااے ابوسلیمان تم پنساری ہو اورہم ڈاکٹر ہیں۔
یہ نقول اس بات کو ثابت کررہے ہیں کہ محدثین کرام کو اس بات سے گرانی نہیں تھی کہ ان کو پنساری اورفقہاء کو ڈاکٹر کہاجارہاہے بلکہ اس کو وہ خود بھی تسلیم کرتے تھے لیکن دور حاضر کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو پنساریوں کو ہی ڈاکٹر ثابت کرنے کے چکر میں دن رات ایک کئے دے رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کواپنی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت کرے۔