• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو الحسن عثمان بن ابی شیبہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
امام ابو الحسن عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ

ائمہ ومحدثین کے ہاں’ابن ابی شیبہ‘ نسبت معروف ہے ، اصل میں اس خاندان کے جد امجد ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان(169ھ) ہیں، ان کے بیٹے کا نام محمد بن ابی شیبہ(182ھ) تھا، پھر اس محمد کے تین بیٹے تھے، عثمان، عبد اللہ، قاسم، ان میں سب سے زیادہ مشہور عبد اللہ ہوئے، جن کی کنیت ابو بکر ہے، سب سے بڑے عثمان تھے، جن کی کنیت ابوالحسن ہے، اور قاسم سے کچھ روایات مروی ہیں، لیکن یہ اپنے بھائیوں کی طرح قابل اعتماد راویان حدیث اور محدثین میں جگہ نہیں پاسکے۔ پھر ابو بکر و عثمان کی اولاد میں آگے پھر محدثین اور اہل علم موجود ہیں۔
اس لاحقے ( ابن ابی شیبہ) کے ساتھ سب سے زیادہ معروف ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ (235ھ) ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور تفسیر ابن ابی شیبہ کے نام سے جو کتابیں مشہور ہیں، وہ انہیں جلیل القدر محدث و مفسر اور فقیہ کی ہیں۔ ان کے برادر اکبر عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، ابو الحسن(239ھ) یہ بھی جلیل القدر محدث ہیں، البتہ ان کی مستقل کوئی تصنیف دستیاب نہیں۔ ناموں کے تشابہ کی وجہ سے یہ شخصیات ہمارے جیسے کم علموں کے لیے بعض دفعہ خلط مبحث کا باعث ہوجاتی ہیں۔ اس لیے قدرے تفصیل بیان کی گئی ہے۔
عثمان بن محمد بن ابی شیبہ کے بارے میں قاری حنیف ڈار صاحب نے زبان درازی کی ہے، انہیں دین کا دشمن قرار دیاہے، اور ان کی عدالت کے مطابق ان پر حد بھی جاری ہونی چاہیے تھی وغیرہ وغیرہ۔
یہ الگ بات ہے کہ قاری صاحب لا علمی کی بنا پر ’ ابو بکر ‘ اور ’ عثمان‘ میں فرق ملحوظ نہیں رکھ سکے، ابوبکر ابن ابی شیبہ کی کتابیں عثمان ابن ابی شیبہ کی طرف منسوب کر گئے ہیں ۔
امام عثمان بن ابی شیبہ پر تنقید کی وجہ
امام صاحب پر تنقید کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات غلط پڑھ جایا کرتے تھے ، اور جب تنبیہ بھی کی جاتی ، تو غلطی تسلیم نہیں کرتے تھے ، بلکہ از راہ تفنن بات ادھر ادھر کردیتے تھے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ عمل غلط ہے، علماء و محققین نے ان کی اس غلطی کی دو توجیہات کی ہیں:
1۔ انہیں قرآن کریم اور اس کی قراءات پر دسترس نہیں تھی ۔
2۔ غلطیوں کے دفاع میں ان کا رویہ از راہ مزاح ہوتا تھا۔
بہر صورت غلطی دسترس نہ ہونے کے سبب تھی ، یا پھر از راہ مزاح دونوں رویے غلط ہیں، اسی لیے حافظ ذہبی وغیرہ علما نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ شاید وہ اس رویے سے توبہ تائب ہوچکے ہوں۔
اس فعل کو ایک تیسرا رنگ حنیف ڈار صاحب نے دیا ہے کہ یہ قرآن کریم کے ساتھ استہزاء ہے، اور یہ قرآن کریم میں تحریف و تصحیف کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ بات قطعا درست نہیں، کیونکہ اگر واقعتا حقیقت میں وہ ایسا کام کرنے میں مصروف ہوتے، تو خود ان کے بھائی ابوبکر ابن ابی شیبہ جلیل القدر محدث اور عالم دین تھے ، ارد گرد علما کرام کا جم غفیر تھا، اس وقت صورت حال یہ تھی کہ بیرونی طاقتوں کا بھی کوئی خدشہ یا زور نہیں تھا ، کہ علماء قرآن کریم کے خلاف اتنی بڑی سازش کے خلاف منہ باندھ کر بیٹھے رہنے پر مجبور ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بہت سارے ائمہ قراءات فن حدیث میں غلطیوں اور اوہام کا شکار ہوئے، اور ان سے احادیث نہیں لی گئیں، اسی طرح کئی ایسے رواۃ اور محدثین بھی تھے، جن کا تخصص فن حدیث ہی تھا، وہ قراءات وغیرہ میں کمزور تھے، لہذا ان سے ان کے فن کے متعلق یعنی روایت حدیث میں تو خوب استفادہ کیا گیا ہے، البتہ قراءات میں نہ صرف یہ کہ ان سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا، بلکہ ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو بھی بیان کردیا گیا، تاکہ لوگ ان کی شخصیت کے اس کمزور پہلو سے واقف رہیں ، اور کسی قسم کا دھوکا نہ کھائیں ۔
بہت حیرانی کی بات ہے کہ قاری حنیف ڈار صاحب نے عثمان بن ابی شیبہ کی غلطیاں اچھالنے اور ان پر حکم لگانے میں ’ روایت‘ اور ’ راویوں‘ پر اعتماد کرلیا ہے ، لیکن راویوں کی یہی لڑی جب کوئی حدیث ، یا محدثین کے حق میں بات نقل کرتی ہے، تو قاری صاحب جیسے لوگ اسے ’ روایت پرستی‘ کہہ کر رد کردیتے ہیں ۔ خود غرضی دیکھیے، ایک طرف وہ احادیث اور روایات جو تحقیق و تفتیش کے اعلی معیار پر ثابت شدہ ہیں، انہیں رد کردیا جاتاہے، اور دوسری طرف جب خود اعتراض سیدھا کرنا ہو، تو تحقیق کرنا تو دور کی بات، سند تک دیکھنا گوارہ نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ احادیث کو رد کرنے کے لیے دماغ میں درجنوں احتمالات پالنے والوں کے ذہن میں یہ احتمال بھی آنا چاہیے کہ ممکن ہے، حدیث اور محدثین سے متنفر کرنے کے لیے ، کسی نے محدثین کے خلاف اس طرح کی باتیں مشہور کردی ہوں۔
قاری صاحب کے عدالتی فیصلے کو ایک دفعہ سائیڈ پر رکھ دیں، اور آئیے اس عدالت میں جہاں یہ عثمان خود موجود تھے، اور وہ ججز جن کے سامنے ان کے جرم کی تفصیل مکمل موجودتھی، وہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
امام عثمان ابن ابی شیبہ کا مقام و مرتبہ
وه ائمہ و محدثین جنہوں نے اس جلیل القدر محدث کو قابل اعتماد قرار دیاہے۔
امام احمد بن حنبل اور احمد بن صالح عجلی نے ان کی تعریف کی، اور ثقہ قرار دیا۔
امام یحیی بن معین کے نزدیک آپ کی امانت و دیانتداری اور ثقاہت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
أبو حاتم رازی فرماتے ہیں، کہ آپ زبان کےسچے اور بلند پایہ شخصیت تھے۔
درجنوں مشہور محدثین نے آپ کی مجلس حدیث میں شرکت کی اور آپ کی روایات اپنی کتابوں میں درج کیں۔
( حوالہ جات کے لیے دیکھیے ، تہذیب الکمال 19/ 478 )
احمد بن حنبل، یحیی بن معین، أبو حاتم، بخاری و مسلم، أبو داود جیسے کبار ائمہ و محدثین جس شخص کو دین کا خدمتگار اور خیر خواہ سمجھتے ہوں، اسے دین دشمن کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔
یہاں میں نے صرف معاصر علما کے اقوال نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے، بعد کےادوار میں بھی مورخین ومحققین نے ان کی مدح و توصیف کی ہے، اور آج تک ایسا کوئی محقق یا مؤرخ یا قرآن کا ہمدرد دیکھنے کو نہیں ملا، جس نے ان پر اس طرح کی کوئی تنقید کی ہو، جس طرح کا سخت سست بلکہ جاہلانہ رویہ منکرین حدیث اپنا لیتے ہیں ۔
ڈار صاحب لکھتے ہیں:
’’اب آپ کوئی بھی بری سے بری روایت بھی اس بندے سے مروی ھو چاھے اس کی زد قرآن پہ آتی ھو یا اللہ پر آتی ھو یا رسول اللہ ﷺ پر آتی ھو ، آپ اعتراض کریں گے تو لوگ یہی جگہ نکال کر اس کی مقام بیان کر دیں گے کہ جب اتنے لوگ ان کو ثقہ کہہ رھے ھیں تو ان کی روایت سچی ھے اور تم منکرِ حدیث ھو۔‘‘
ہماری گزارش ہے کہ یہ ہی درست رویہ ہے ، جب کوئی ثقہ اور قابل اعتماد ہے ، تو اسے اسی طرح ہی بیان کرناہے۔ آپ لوگوں کو جواب دے دیں کہ آخر ایک گستاخی اور قرآن کی تحریف پر سیکڑوں محدثین و فقہا، ائمہ اربعہ اور لاکھوں کروڑوں لوگ کیوں خاموش رہتے ہیں؟! روایت حدیث کا وہ سارا سیٹ اپ جس کا شروع سے لیکر اب تک بے شمار لوگ حصہ ہیں، کیا وہ سب دین کا بیڑا غرق کرنے پر متفق ہوسکتے ہیں؟ اپنی عقل سے یہ بات ثابت کردیں کہ اتنا بڑا بلنڈر ہونا ممکن ہے۔
اس طبقے کےسطحی انداز فکر کا نتیجہ ہے کہ یہ توثیق، تضعیف، جرح و تعدیل پورے فن کو اس طرح لیتے ہیں کہ شاید یہ فن تحقیقی بنیادوں پر نہیں پروان چڑھا، بلکہ کسی سازش کے تحت دو چار لوگوں نے اسے گھڑ لیا ہے۔
حالانکہ آپ اندازہ کیجیے ، ایک ہی باپ کے تین بیٹے ہیں، أبو بکر ، عثمان ، قاسم، جن ائمہ نے پہلے دو کی توثیق و تبجیل کی، انہیں سے تیسرے بھائی قاسم کی تضعیف مروی ہے۔ کہیں باپ بیٹے کو ضعیف قرار دے رہا ہے ، کہیں بیٹا روایت حدیث میں باپ کی کمزوری کو بیان کردیتاہے۔ یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ فن پختہ بنیادوں پر کھڑا ہے، یہاں خواہشات اور ہوائے نفس کی ترویج نہیں ہوسکتی ، اس فن میں علما ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن اس فن کی گہرائی کو سمجھنے کے بعد۔راہ جاتے ہوئے اس میں جھانکنے والا تماشے کےسوا کچھ نہیں کر پاتا۔
اب آئیے ذرا امام عثمان بن ابی شیبہ کی عظمت شان ایک اور انداز سے ملاحظہ کرتے ہیں۔
امام عثمان بن ابی شیبہ کا ’ خدمت اسلام‘ میں حصہ
ایک اندازے کے مطابق حدیث کی مشہور 22 کتابوں میں ان سے تقریبا دو ہزار روایات موجود ہیں، جن میں سے دو سو روایات صحیحین میں موجود ہیں۔
ان کی روایات کا موضوع کیاہے؟ اس میں وہ کیا روایت کرتے ہیں؟
بخاری سے دیکھتے ہیں، پہلی روایت تعلیم و تبلیغ کی فضیلت میں، دوسری روایت جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق، تیسری مشہور روایت، پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کے متعلق، جس میں عذاب قبر کا بھی ذکر ہے۔ چوتھی روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قضائے حاجت سے متعلق سنت ہے، حضور رات بیدا ر ہوتے تو مسواک کرتے، سجدہ سہو سے متعلق، نماز تہجد اور سترہ سے متعلق حضور کی سنت، عید کے دن قربانی کرنے کا وقت، نماز استسقا اور کافروں کے خلاف دعا، دفن کے بعد دوبارہ پھر جنازہ پڑھنا، اس قسم کے روز مرہ کے مسائل مثلا ،میت ووفات کے احکام، زکاۃ، حج ، شکار، روزے، تجارت کے مسائل، قرض، گواہی کے مسائل، انبیاء و صحابہ کے فضائل، نکاح و طلاق کے مسائل، کھانے اور لباس کے مسائل، رہن سہن کے عمومی آداب، دعا کے مسائل، زہد و ورع کی احادیث، حدود و قضا کے مسائل سے متعلق ان کی روایات امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں۔ بخاری میں تفسیر سے متعلق ان کی روایات کچھ اس طرح ہیں:فلا تجعلوا للہ اندادا کی تفسیر میں ان تجعل للہ ندا و ھو خلقک والی حدیث۔
فأما من اعطی و اتقی و صدق بالحسنی۔۔۔ کی تفسیر میں تقدیر سے متعلق حدیث
فسبح بحمد ربک و استغفرہ کے متعلق رکوع و سجدہ کی مشہور دعا سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی
فضائل قرآن میں ایک حدیث کہ اسے پڑھتے رہنا چاہیے، ورنہ یہ بہت جلد بھول جاتاہے۔
یہ ایک کتاب میں ان سے مروی روایات کا مختصر سا خاکہ پیش کیا گیاہے، ان روایات اور احادیث کو دیکھ کر ایک مسلمان اس امام کی خدمت اسلام کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنہوں نے دین اسلام کے ان تفصیلی احکامات کو نقل کیاہے، اگر یہ محدثین اور راویان ہی دین کے دشمن تھے، تو بتائیے، آپ کون سا دین چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے دین میں نماز روزہ ، حج زکاۃ، تجارت جیسے مسائل نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آپ جنہیں ’ دین دشمن‘ کہتے ہیں، ان سے یہ احکامات کس منہ سے لیتے ہیں؟!
واقعتا قرآن کا ہمدرد کوئی بھی نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈار صاحب نے تحریر کا عنوان قائم کیا ہے ’ قرآن سے کسی کو ہمدردی نہیں ؟‘ اور پھر نیچے تحقیق اور اس کا نتیجہ وہ نکالاہے ، جس سے واقعتا کوئی بھی متفق نہیں، تو کیا ڈار صاحب کے نزدیک واقعتا صدیوں میں کوئی بھی قرآن کا ہمدرد نہیں رہا؟ منکرین حدیث کی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں، جن میں عقل استعمال کرنےکی دعوت پورے زور شور سے دی جارہی ہوتی ہے، لیکن افسوس اس قسم کے دعوے اور نتائجِ تحقیق پیش کرتے ہوئے ان کی عقل خود پتہ نہیں کہاں گئی ہوتی ہے، کہ وہ قرآن کریم جو کافروں پر بھی اثر انداز ہوتا تھا ، اس کے ہمدرد مسلمانوں میں ہی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہے۔
دیکھیے ، قرآن کی طرف دعوت دینا ، یہ بہترین دعوت ہے، اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں، جتنا قرآن کے ساتھ تعلق مضبوط ہوگا، اسی قدر انسان باسعادت اور راہ راست پر ہوگا، لیکن قرآن کے ساتھ ہمدردی کو ایک ٹول بنالینا، یہ رویہ درست نہیں، جس طرح مثبت رویے کےمتعلق اللہ نے ’ یہدی بہ کثیرا‘ فرمایا، وہیں اس سے پہلے منفی رویے کے متعلق ’ یضل بہ کثیرا‘ بھی فرمایا ہے۔
لوگوں کو قرآن و حدیث کی طرف دعوت دینا تو مثبت رویہ ہے، لیکن قرآن اور حدیث کا آپس میں اکھاڑا قائم کرنا، بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ مکی مدنی آیتوں کا آپس میں اختلاف ہے، قرآن کی مختلف سورتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، قرآن انبیاءکے قصص صحیح بیان نہیں کرپایا، طلاق کے متعلق ایک جگہ پر کچھ دوسری جگہ پر کچھ اور ۔ قیامت کے دن کی مقدار ایک جگہ ہزار سال ، دوسری جگہ پچاس ہزار سال، وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ جس طرح قرآن کی آیات اور سورتیں، اور مختلف مقامات آپس میں متناقض نہیں، اسی طرح حدیث اور قرآن سے مل کر دین مکمل ہوتاہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کو ماننا أفتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کا مصداق ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عہد نبوی سے لیکر اب تک قرآن اور حدیث دونوں موجود ہیں ، قرآن کی خدمت بھی انہیں لوگوں نے کی ہے ، جو احادیث کو ماننے والے تھے ، احکام القرآن کے نام پر کتابیں کس نے لکھی ہیں ؟ اسی طرح تاریخ قرآن ، تدوین قرآن ، تجوید قرآن ، رجال قرآن ، امثال قرآن وغیرہ سب علوم القرآن انہیں لوگوں کی کاوشیں جو قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث کو بھی ماننے والے ہیں ، منکرین حدیث نے قرآن مجید کی کیا خدمت کی ہے ؟ قرآن کا نام لیکر احادیث سے متنفر کرنا ، یہ حدیث سے تنفیر کی تحریک تو ہوسکتی ہے ، اسے قرآن کی خدمت کیونکر کہا جاسکتا ہے ۔ رہی قرآن کریم کی تلاوت ، اس سے محبت اور لگاؤ ، تو احادیث ماننے والے اور ان کےمنکروں پر تحقیق کروالیں ، اس حوالے سے بھی منکر سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ثابت نہیں ہوں گے ۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر حدیث کی خدمت کو قرآن سے دوری کہنا ، سراسر جہالت ، ناانصافی اور خیانت ہے ۔ قرآن کریم پڑھنے کے فضائل بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں ، قرآن کریم پر غور و فکر اور تدبر کرنے کے حوالے سےجو باتیں قرآن کریم میں اجمالا ہیں ، احادیث میں انہیں باتوں کو کھول کر اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ، قرآن و حدیث ایک دوسرے کے نزدیک کرتے ہیں ، نہ کہ دور ۔ اگر کوئی قرآن کو حدیث سے دوری ، یا حدیث کو قرآن سے بُعد کی وجہ سمجھتا ہے، تو اسے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت کی نعمت سے نوازے ، اور قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے میں ہمارے اندر جو کوتاہیاں ہیں، اسے دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آج کسی نے یہ تحریر طلب کی، یوں اس تھریڈ کو تازہ ہونے کا موقعہ مل گیا۔
 
Top