• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو بکر البیھقی رحمة اللہ کے قول کی وضاحت اور شیعہ ناصبیوں کے شبھات کا ازالہ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
پچھلے دنوں ایک شیعہ ناصبی نے امام ابو بکر البھقی کی طرف منسوب قول کنجی شافعی (الشیعی) اور تاریخ دمشق کے حوالے سے نقل کر کے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام ابو بکر البیھقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فضائل اور مناقب میں سب سے افضل مانتے ہیں۔

سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ قسور عباس ناصبی اور کنجی شافیع (الشیعی) نے اس قول کو مکمل نقل نہیں کیا بلکہ شیخ ابو بکر البیھقی کی پچھلی بات اڑا دی۔ اس طرح دونوں حضرات نے بددیانتی کا ثبوت دیا۔ شیخ ابو بکر البیھقی کی پوری بات اس طرح ہے


قَالَ الشيخ أَبُو بَكْر البيهقي : وهذا لأن أمير المؤمنين عليا عاش بعد سائر الخلفاء حَتَّى ظهر له مخالفون ، وخرج عليه خارجون ، فاحتاج من بقي من الصحابة إلى رواية ما سمعوه فِي فضائله ، ومراتبه ، ومناقبه ، ومحاسنه ليردوا بذلك عنه مالا يليق به من القول ، والفعل ، وهو أهل كل فضيلة ومنقبة ، ومستحق لكل سابقة ومرتبة ، ولم يكن أحد فِي وقته أحق بالخلافة منه ، وكان فِي قعوده عَنِ الطلب قبله محقا ، وفي طلبه فِي وقته مستحقا


http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=798&pid=387079&hid=44757


ترجمہ: امام ابو بکر فرماتے ہیں کاور یہ کہ امیر المومنین علی تمام خلفاء کے بعد رہ گئے تھے اور ان کے مخالفین ان پر ظاہر ہوئے۔ جب خارجیوں نے ان پر خروج کیا تو ان کو ضرورت پڑی ان اصحاب کی جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل، مراتب، مناقب، اور محاسن سنے تھے (یعنی رسول اللہ ﷺ سے) تاکہ وہ ان کا رد کر سکیں۔ اور وہ تمام فضائل اور مناقب کے اھل تھے اور وہ ہر مرتبہ کے مستحق تھے اور ان کے وقت میں (یعنی ان کی خلافت کے وقت میں) کوئی بھی ان کے علاوہ خلافت کا حق دار نہ تھا۔

قسور نے تاریخ دمشق میں امام ابو بکر کے پچھلے قول کا حصہ اڑا دیا تاکہ بات سمجھ نہ آ سکے اور یہی لگے کہ امام بیھقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ سیدنا ابو بکر الصدیق سے افضل مانتے ہیں حالانکہ امام بیھقی کی مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اپنی خلافت کا دور ہے جس کی دلیل پچھلی عبارت میں وهذا لأن أمير المؤمنين عليا عاش بعد سائر الخلفاء کے الفاظ ہیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

سیدنا ابو بکر صدیق کی خلافت کی طرف اشارات


رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف کئی دفعہ صریحا اشارہ فرمایا۔۔۔

پہلا اشارہ۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ (صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 678)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-1225


اس بات کا اقرار شیعہ ناصبی ابراھیم بن حسین الدنبلی نے بھی اپنی نہج البلاغہ کی شرح الدرة النجفیہ میں کیا


1.jpg


یہاں پر شیعہ ناصبی ایک شبہ پیدا کرتے ہیں کہ نماز پڑھانے سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی ۔ ناصبی یہ دلیل پیش کرتے ہیں۔۔


عمرو بن سلمہ سے مروی ہے ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا کہ تو عمرو بن سلمہ سے مل کر کیوں نہیں پوچھتا وہ کہتے ہیں کہ میں ان سے ملا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک چشمہ پر جہاں لوگوں کی گزرگاہ تھی رہتے تھے ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان قافلوں سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ اور (مدعی نبوت) آدمی کی کیا حالت ہے؟ تو وہ جواب دیتے کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ جس کی طرف وحی ہوتی ہے یا یہ کہا کہ اللہ اسے یہ وحی بھیجتا ہے، میں وہ کلام یاد کرلیا کرتا، گویا وہ میرے سینہ میں محفوظ ہے اور اہل عرب اپنے اسلام لانے میں فتح مکہ کا انتظار کرتے تھے اور یہ کہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی قوم (قریش) کو مٹنے دو اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غالب آ گئے تو آپ سچے نبی ہیں چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ ہوا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں سبقت کی اور میرے والد بھی اپنی قوم کے مسلمان ہونے میں جلدی کرنے لگے اور مسلمانوں سے جب واپس آئے تو کہا اللہ کی قسم! میں تمہارے پاس نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے آیا ہوں انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں فلاں وقت ایسے ایسے نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آ جائے تو ایک آدمی اذان کہے اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امام بنے چونکہ میں قافلہ والوں سے قرآن سیکھ کر یاد کرلیتا تھا اس لئے ان میں کسی کو بھی مجھ سے زیادہ قرآن یاد نہ تھا، میں 6 یا7 سال کا تھا کہ انہوں نے مجھے (امامت کے لئے) آگے بڑھا دیا اور میرے جسم پر ایک چادر تھی جب میں سجدہ کرتا تو وہ اوپر چڑھ جاتی (اور جسم ظاہر ہوجاتا) تو قبیلہ کی ایک عورت نے کہا تم اپنے قاری (امام) کی سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ تو انہوں نے کپڑا خرید کر میرے لئے ایک قمیص بنا دی تو میں اتنا کسی چیز سے خوش نہیں ہوا جتنا اس قمیص سے۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 4302)۔



http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8916



تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے قرآن زیادہ یاد ہونے کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو نماز پڑھائی۔ لیکن سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے خود حکم دیا کہ میری جگہ نماز پڑھائیں۔ ایک قبیلہ کو قرآن زیادہ یاد ہونے کی وجہ سے نماز پڑھانا اور رسول اللہ ﷺ کی جگہ پر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے نماز پڑھانا دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی جگہ پر صرف اور صرف ان کا خلیفہ نماز پڑھا سکتا تھا اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پر انہیں حکم دیا کہ میری جگہ نماز پڑھائیں تاکہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے جانشین ہیں۔ لہذا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھانا اور سیدنا ابو ابکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ ﷺ کے جائے نماز اور امامت کی جگہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھانا ایک جیسا نہیں اور یہ واضح طورسیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نص ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
دوسرااشارہ۔۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ۔۔

ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، آپ نے اسے دوبارہ آنے کا حکم دیا۔ وہ کہنے لگی اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو۔ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ نے فرمایا اگر مجھے نہ پائے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 3659)۔

http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8150


تیسرا شارہ۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض میں حکم دیا:ابوبکر او ر اپنے بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھوا دوں، میں ڈرتا ہوں کہ کوئی آرزو کرنے والا،آرزو کرنے لگے اور کہنے والا کہنے لگے کہ میں زیادہ حق دار ہوں۔ جبکہ اللہ اور مومنین ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سواء کسی کو نہیں چاہتے۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 5666)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-11460



چوتھا اشارہ۔۔

عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا۔۔ میرےبعد ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہم) کی اقتداء کرنا۔ (سنن الترمذی۔ رقم الحدیث 3805)۔ اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔


http://shamela.ws/browse.php/book-782/page-500#page-3805


پانچواں اشارہ۔۔

عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا۔۔ میں کنویں سے پانی نکال رہاتھاکہ ابوبکراورعمررضی اللہ تعالی عنہماآئےتو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نےڈول پکڑکرایک یادوڈول پانی نکالااوراس نکالنےمیں کمزوری تھی اللہ تعالی اسےبخشے پھراس کےبعدعمررضی اللہ تعالی نےابوبکررضی اللہ تعالی کےہاتھ سےڈول پکڑاتوان کےہاتھ میں وہ ایک بڑےڈول میں بدل گياتومیں نےلوگوں میں اس سےبڑاکوئی عبقری دیومالائي قوت والا نہیں دیکھاجوکہ کام کوپوری طرح کرنےوالاہوحتی کہ لوگوں نےکھال میں مارا۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 3676)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-782/page-500#page-3805


چھٹا اشارہ۔۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ وہ دنیا اور اس کی تروتازگی کو اختیار کر لے یا اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں انہیں اختیار کرلے تو اس بندہ نے اللہ کے پاس والی نعمتوں کو اختیار کر لیا (یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اپنے ماں باپ کو قربان کرتے ہیں (راوی کہتا ہے) کہ ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تعجب ہوا اور لوگوں نے کہا اس بڈھے کو تو دیکھو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندہ کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ نے اس کو دنیا کی تروتازگی اور اپنے پاس کے انعامات کے درمیان اختیار دیا اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کو آپ پر فدا کرتے ہیں اور رو رہا ہے لیکن چند روز کے بعد جب آپ کا وصال ہوگیا تو ہم یہ راز سمجھ گئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں روئے تھے حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا گویا آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا جسے ابوبکر سمجھ گئے تھے اور حضرت ابوبکر ہم میں سب سے بڑے عالم تھے اور آپ نے فرمایا کہ اپنی رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل (دوست حقیقی) بناتا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بناتا لیکن اسلامی دوستی (کافی) ہے (دیکھو) مسجد میں سوائے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریچہ کے اور کوئی دریچہ (کھلا ہوا) باقی نہ رہے۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 3904)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8476


ساتواں اشارہ۔۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا (اپنے سردرد پر) ہائے سر پھٹا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروں گا اور تمہارے لیے دعا کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کر لیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں (ابوبکر کو) خلیفہ بنا دوں تاکہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اس کی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود (کسی دوسرے کو خلیفہ) نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔ یا (آپ نے اس طرح فرمایا کہ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے۔

(صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 7217)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-13949


آٹھواں اشارہ۔۔

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا، لیکن آپ تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔

(صحیح بخاری، رقم الحدیث 2690)۔


http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-6674
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ سے افضل تھے اور اس بات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا۔

پہلی روایت۔۔

محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ میں نےاپنےوالد( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ) کوکہارسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدلوگوں میں سےسب سےبہتر اورافضل کون ہےتوانہوں نےفرمایا : ابوبکرمیں نےکہاان کےبعدپھرکون توانہوں نےفرمایا: عمرمیں ڈرگیاکہ آپ یہ نہ کہہ دیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہم میں نےکہاپھران کےبعد آپ ہیں توانہوں نےفرمایامیں تومسلمانوں میں سےایک عام آدمی ہوں (صحیح بخاری۔ رقم الحدیث 3671)۔

http://shamela.ws/browse.php/book-1681#page-8159

دوسری روایت۔۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا اور ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اگر اپنی حیات طیبہ) میں کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو بناتے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد کس کو؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کس کو بناتے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھر اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش ہو گئیں۔ (صحیح مسلم۔ رقم الحدیث 6178)۔

http://shamela.ws/browse.php/book-1727#page-9928
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
دوسرا سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تسلیم کرتھے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی بیعت کو مثل سیدنا ابو بکر اور عمر قرار دیا۔ مثلا نھج البلاغہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔۔

بقول سیدنا علی۔۔ سیدنا ابو بکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت برحق تھی۔۔۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط میں فرمایا: دیکھ میری بیعت اس قوم نے کی ہے جس نے ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت تھی کہ نہ کسی حاظر کو نظرثانی کا حق تھا اور نہ کسی غائب کو رد کرنے کا اختیار تھا۔ شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین اور انصار کو ہوتا ہے لہذا وہ کسی شخص پر اتفاق کر لیں اور اسے امام نامزد کر دیں تو گویا کہ اسی میں رضائے الہیٰ ہے اور اگر کوئی شخص تنقید کر کے یا بدعت کی بنیادپر اس امر سے باہر نکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں اور اگر انکار کر دے تو اس سے جنگ کریں کہ اس نے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی اور اللہ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا۔ معاویہ! میری جان کی قسم۔ اگر تو خواہشات کو چھوڑ کر عقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے زیادہ خون ؑعثمان پاکدامن پائے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ میں اس مسئلہ میں بالکل الگ تھلگ تھا۔ مگر یہ حقائق کی پردہ پوشی کر کے الزام ہی لگانا چاہتا ہے تو تجھے مکمل اختیار ہے۔

(نہج البلاغ اردو۔ حضرت علی کے مکتوبات۔ مکتوب نمبر 6۔ صفحہ 489)۔


2.jpg



بقول سیدنا علی۔۔ سیدنا ابو بکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت برحق تھی۔۔۔
 
Top