• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ کا عقیدہ اور دیوبندی

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
امام ابو حنیفہ کا عقیدہ اور دیوبندی
یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ موجودہ نام نہاد حنفی چاہے بریلوی ہوں یا دیوبندی، عقیدے میں امام ابو حنیفہ کی پیروی نہیں کرتے اور نہ عقائد میں انہیں اپنا امام و مقتدا مانتے ہیں۔ اس کی صاف وجہ تو یہی نظر آتی ہے کہ موجودہ نام نہاد حنفی امام ابو حنیفہ کے عقائد کو صحیح نہیں سمجھتے ورنہ جس امام کی تقلید اور فقاہت کے نام پر ان حضرات کی دنیا آباد ہے اس کو چھوڑ کرعقائد میں ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کو کیوں اپنا امام اور پیشوا بناتے۔۔۔؟
درحقیقت جس طرح موجودہ حنفی، عقائد میں امام ابو حنیفہ کو اپنا امام تسلیم نہیں کرتے اسی طرح امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی یہ موجودہ نام نہاد حنفی گمراہ ہیں۔ معاملہ یہاں تک سنگین ہے کہ جس چیز کو امام ابو حنیفہ ناجائز کہتے ہیں یہ اسی کو جائز تسلیم کرتے ہیں اور جس عقیدے کو امام ابو حنیفہ گمراہوں کا عقیدہ و مذہب بتاتے ہیں یہ اسی عقیدے کو اپناتے ہیں۔ملاحظہ ہو:
اللہ تعالیٰ کی صفات کے ضمن میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
’’اور اس کے لیے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔‘‘ [البیان الازہرترجمہ الفقہ الاکبر :ص ۳۲]
اس کتاب الفقہ الاکبر کا حوالہ اس لیئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی دیوبندی حضرات کے شیخ الحدیث سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
’’غرضیکہ فقہ اکبر حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے لا ریب فیہ‘‘ [مقدمہ ،البیان الازہرترجمہ الفقہ الاکبر :ص ۲۳]
دیوبندیوں کی نزدیک امام ابو حنیفہ کی تسلیم شدہ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ:
۱) اللہ کی صفات ہاتھ ، منہ اور نفس ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں مگر ان کی کیفیت معلوم نہیں۔
۲) ان صفات کی تاویل کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے اللہ کی صفات کا باطل ہونا لازم آتا ہے ۔ اس کی بجائے یہی کہنا چاہیئے کہ اللہ کی یہ صفات ہاتھ وغیرہ ہیں مگر ہمیں ان کی کیفیت معلوم نہیں۔
۳) اب جو اللہ کی صفت ید یعنی ہاتھ کی تاویل قدرت یا نعمت سے کرے تو اس نے اس صفت کو باطل کر دیا اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ جیسے گمراہوں کا مذہب ہے۔
اب اس کے مقابلے میں دیوبندی حضرات کا عقیدہ ملاحظہ ہو ۔
صفات باری تعالیٰ سے متعلق دیوبندیوںکا عقیدہ بیان کرتے خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں:
’’ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تا کہ کم فہم سمجھ لیں مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت ، تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔‘‘ [المہند علی المفند:ص۳۹]
گویا ان دیوبندی حضرات کے نزدیک صفات باری تعالیٰ کی تاویل جائز ہے اور جو اللہ کی صفت (ید) ہاتھ سے مراد قدرت کہے تو یہ بھی ان کے نزدیک حق ہے۔
دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’اور جہمیہ جو ایک فرقہ اسلامیہ ہے وہ ان سب امور میں تاویل کرتے ہیں۔ مثلاً ید اللہ فوق ایدیھم میں ید سے مراد قوت کہتے ہیں۔‘‘ [تقریر ترمذی:ص۱۸۹]
معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک جہمیہ جیسے گمراہ فرقہ کا مسلک بھی اس مسئلہ میں حق ہے ۔ نیز موجودہ نام نہاد حنفی، بریلوی و دیوبندی صفاتِ باری تعالیٰ میں اسی مسلک کواپنا نے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک منکرین تقدیر اور معتزلہ کے مذہب پر ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو امام ان کو گمراہ فرقوں کے مذہب پر سمجھتا ہے اسی کے نام پر ان حضرات نے فرقے بنا رکھے ہیں۔
ایک حدیث جس میں اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ کا ذکر ہے، کے تحت امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
’’بہت سے اہل علم نے اس اور اس مفہوم کی دوسری احادیث ِ صفاتِ الٰہی و نزول باری تعالیٰ کے بارے میں کہا ہے کہ اس بارے میں روایات ثابت ہو گئی ہیں، ان پر ایمان لایا جایا گا، ان میں تاویل نہیں کی جائے گی، نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ یہ صفات الٰہی کیسی ہیں؟ اما م مالک، امام سفیان بن عینیہ اور امام عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے اسی طرح منقول ہے۔۔۔۔اہل سنت و الجماعت کے اہل علم کا یہی قول ہے۔ رہے جہمی لوگ تو انہوں نے ان روایات کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تشبیہ ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر صفت ید،سمع اور بصر کا ذکر کیا ہے،لیکن جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور اہل علم کے خلاف ان کی تفسیر کی ہے۔ جہمیوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، بلکہ یہاں ید (ہاتھ )سے مراد قوت ہے۔۔۔۔‘‘ [سنن ترمذی:تحت حدیث ۶۶۲]
اللہ ہمیں ایسی تمام گمراہیوں سے محفوظ رکھے اورسلف صالحین کی طرح قرآن و سنت کے مطابق ہی اپنا عقیدہ اور منہج رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
[/JUSTIFY]






 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
متكلمين اشاعره اور ماتريديہ سرے سے عقيدہ كے باب ميں تقليد كا انكار كرتے ہيں- گويا وه اس ميں غير مقلد ہيں- يہ كہنا غلط ہے كہ وه امام ابو حنيفہ كي تقليد ترك كر كے ابو منصور الماتريدي اور ابو الحسن الاشعري كي تقليد كرتے ہيں- وہ بس انكے اصولوں سے متفق ہیں باقي عقائد كے فروعات میں ان ميں آپسي اختلاف بهت ہے-
مثال كے طور پر آپ استواء كا ہی مسئلہ لے ليجے- ابو الحسن الاشعري نے ابنی مئلفات ميں اس كا اثبات كيا اور اس كي تأويل استيلاء سے كرنے كا رد كيا- اسي طرح ابو منصو البغدادي نے استواء كی تأويل كا رد كيا- ليكن متأخرين نے اس كو قبول نہيں كيا-

جہاں تک امام ابو حنيفہ كہ عبارت كا تعلق ہے تو متكلمين اسے تفويض سے تعبير كرتے ہيں- تو بہر حال ان كے نزديك يہاں كوئ تضاد نہيں- اصل بحث يہ ہے كہ وہ عبارت تفويض المعني ہے كہ نہيں-

مع السلام عليكم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
متكلمين اشاعره اور ماتريديہ سرے سے عقيدہ كے باب ميں تقليد كا انكار كرتے ہيں- گويا وه اس ميں غير مقلد ہيں- يہ كہنا غلط ہے كہ وه امام ابو حنيفہ كي تقليد ترك كر كے ابو منصور الماتريدي اور ابو الحسن الاشعري كي تقليد كرتے ہيں- وہ بس انكے اصولوں سے متفق ہیں باقي عقائد كے فروعات میں ان ميں آپسي اختلاف بهت ہے-
مثال كے طور پر آپ استواء كا ہی مسئلہ لے ليجے- ابو الحسن الاشعري نے ابنی مئلفات ميں اس كا اثبات كيا اور اس كي تأويل استيلاء سے كرنے كا رد كيا- اسي طرح ابو منصو البغدادي نے استواء كی تأويل كا رد كيا- ليكن متأخرين نے اس كو قبول نہيں كيا-

جہاں تک امام ابو حنيفہ كہ عبارت كا تعلق ہے تو متكلمين اسے تفويض سے تعبير كرتے ہيں- تو بہر حال ان كے نزديك يہاں كوئ تضاد نہيں- اصل بحث يہ ہے كہ وہ عبارت تفويض المعني ہے كہ نہيں-

مع السلام عليكم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سلسلے میں اسی فورم پر یہ قیمتی مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں!
 

محمد عصام

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 06، 2011
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
0
بھائی ہمارا اس بارے میں کیا مسلک اور عقیدہ ہے وہ لوگ ہم پر تجسیم کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں آپ تو ان صفات کو معانی حقیقیہ کے ساتھ ثابت کرتے ہوں حالانکہ معنی حقیقی ید،عین ، وجہ ، قدم ، اصبع کا العضو الجارح ہے اور استواء کا معنی حقیقی استقرار و مماسۃ ہے اب اس کے بعد کیفیت کو جو ہم لوگ مجھول قرار دیتے ہیں یہ ویسے تجسیم کے الزام سے بچنے کیلئے ہے ، اور ہاں معنی حقیقی کا اثبات تب من کل الوجوہ ہوتا ہے جب کیفیت کا اثبات بھی ہو، اگر کیفیت ثابت نہیں تو وہ بھی تاویل بن جاتا ہے اور اگر اس کو مجہول قرار دیں تو وہ بھی تفویض بن جاتا ہے
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
السلام علیکم ورحمت اللہ طالب صاحب زبردست لکھا آپ کاش ھمارے دیوبندی بھای امام ابوحنیفہ کی اس قول کو مان لیں کہ اذاصح الحدیث فھو مذھبی تو سارا مسءلہ حل
 
Top