• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ کی تابعیت اور مولانا سید نذیر حسین ونواب صدیق الحسن خان

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مولانا سید نذیرحسین صاحب اورنواب صدیق حسن خان

برصغیر کے یہ دوحضرات بھی امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکار میں پیش قدم ہیں۔ ان کےانکار کی بنیاد اوردلائل کا بھی جائزہ لیتے چلیں تاکہ بات مکمل ہوسکے۔میاں نذیرحسین صاحب نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار پر معیارالحق میں تفصیلی کلام کیاہے ان کاجائزہ لیتے چلیں۔
میاں سید نذیرحسین صاحب
انہوں نے اپنی دلیل میں چھ حضرات کے نقول پیش کئے ہیں۔
1:شیخ محمد طاہر حنفی صاحب مجمع البحار
2:ملاعلی قاری
3:علامہ محمد اکرم حنفی
4:علامہ سخاوی
5:علامہ ابن خلکان
6:امام نووی
لیکن افسوس کہ انہوں نے تحقیق میں سنجیدگی اورمتانت کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جس کی ان جیسے اہل علم سے امید تھی۔ انہوں نے اپنے مدعا کے موافق عبارتیں نقل کردیں لیکن اسی سے متصل وہ بات جوان کے مدعا کے خلاف ہوسکتی تھی اسے نقل نہیں کیا اورانتھی کہہ کرگزرگئے۔ ایک سنجیدہ محقق اوراہل علم کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے موضوع پر مالہ اورماعلیہ دونوں کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے خلاف پڑنے والی عبارتوں کا شافی جواب دیاکرتے ہیں۔اس کی بہترین مثال ہمیں علامہ زیلعی کی نصب الرایہ اورابن دقیق العید کی کتابوں میں ملتی ہے۔ یہ دونوں حضرات تعصب سے کوسوں دور ہیں۔ پوری سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ کلام کرتے ہیں خواہ بات اپنے مسلک کے موافق ہویاخلاف ۔
میاں صاحب فرماتے ہیں

یہ چاروں صحابی امام صاحب کے زمانہ میں موجود تھے لاکن ملاقات امام صاحب کی ان میں سے کسی سے یاروایت کرنی ان سے نزدیک اکثر ائمہ نقل کے ثابت نہیں ہوتی چنانچہ شیخ ابن طاہر حنفی صاحب مجمع البحار جن کی تحقیق سے فن حدیث واخبار میں علماء خوب واقف ہیں۔تذکرہ موضوعات میں فرماتے ہیں۔
وکان فی ایام ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل۔
بطریقہ اختصار کے چاروں صحابی امام صاحب کے زمانہ میں موجود تھے لیکن ملاقات امام کی ان میں سے ایک سےبھی ثابت نہیں نزدیک ائمہ نقل کے۔(معیارالحق ص31)
بے شک یہ عبارت تذکرہ الموضوعات میں جامع الاصول کے حوالہ سے موجود ہے لیکن اسی صفحہ پر چند سطرپہلے یہ بھی مرقوم ہے۔
قال الدارقطنی :لم یلق ابوحنیفۃ احدا من الصحابۃ ،انمارای انسابعینہ ولم یسمع منہ (تذکرۃ الموضوعات ص111)
دارقطنی نے کہاہے کہ ابوحنیفہ نے کسی صحابی سے ملاقات نہیں کی ہے البتہ حضرت انسؓ کی بچشم خود زیارت کی ہے لیکن ان سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
مزید لطف یہ ہے کہ خود جناب میاں نذیرحسین صاحب نے بھی معیارالحق میں آگے چل کر جہاں حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کی روایت کے ثبوت پر کلام کیاہے ۔تذکرۃ الموضوعات کی وہ ساری عبارت جوامام صاحب کی روایت کی نفی پر تھی وہ نقل کردی۔لیکن انہوں نے اخرجہ ابن الجوزی فی الواہیات کے بعد انتہی کہہ دیا۔(معیارالحق42) مگر معابعد جو عبارت دارقطنی کی تھی جس میں حضرت دارقطنی کو دیکھنے کی صراحت تھی اس کے ذکر سے گریز فرمایا۔(دیکھئے۔تذکرۃ الموضوعات ص111)
حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب نے اپنے مدعاکے اثبات میں شیخ طاہر کے مجمع البحار سے بھی یہی عبارت نقل کی ہے۔ اوروہاں بھی دارقطنی کی تصریح سے جو امام صاحب کی رویت پر ہے ،کے ذکر سے گریز کیاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ تذکرۃ الموضوعات مین اسی صفحہ پریہ عبارت موجود ہے جہاں سے میاں صاحب نے اپنی دلیل پکڑی ہے جب کہ مجمع البحار میں یہ دارقطنی کی عبارت دوسرے مقام پر ہے۔ دیکھئے مجمع البحار2/515،طبع نولکشور

تنبیہ :
دارقطنی کی عبارت جس میں امام صاحب کے حضرت انس کو دیکھنے کی صراحت ہے۔ وہ اولاحافظ سیوطی نے نقل کیاہے اورحافظ سیوطی سے ہی صاحب مجمع البحار نے نقل کیاہے۔
امام دارقطنی کی کتابوں کی جب تک اشاعت نہ ہوئی تھی تو علامہ کوثری کا خیال تھاکہ سیوطی نے جوعبارت نقل کی ہے اورتاریخ بغداد میں جو دارقطنی کا قول منقول ہے دونوں میں فرق ہے ۔خطیب بغدادی نے دارقطنی سے کسی بھی صحابی سے رویت اورروایت دونوں کی نفی کا قول نقل کیاہے۔ شیخ زاہد کوثری کا خیال تھاکہ صحیح عبارت سیوطی کی تبیض الصحیفہ کی ہے اورتاریخ بغداد کی رویت میں کسی نے تحریف وتبدل کردیاہے لاالارویتہ لاولارویتہ سے بدل دیاہے۔ یہ بات ایک حد تک قابل قبول ہوسکتی تھی لیکن اب جب کہ علم جرح وتعدیل پر دارقطنی سے متعلق کتابیں شائع ہوچکی ہیں جس میں سوالات السہمی وغیرہ قابل ذکر ہیں اوراس میں عبارت وہی ہے جو کہ خطیب بغدادی میں منقول ہے توصحیح بات یہی ہے کہ سیوطی سے یابعد کے کسی ناسخ سے غلطی ہوئی ہے۔
مولف لمحات نے تبییض الصحیفہ میں دارقطنی کی عبارت میں ردوبدل ہونے کا ٹھیکرا شیخ زاہد کوثری اوران کے معاونین کے سرپھوڑناچاہاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
تبییض الصحیفہ والی عبارت میں یقیناتخلیط وتصحیف اورتحریف ہوگئی ہے۔ خواہ یہ تخلیط اورتحریف وتصحیف سیوطی کے قلم سے ہوئی ہو یاکاتب وناقل کے قلم سے۔ ظن غالب یہ ہے کہ اس طرح کی کارستانی کوثری اوراراکین تحریک کوثری کے ہم مزاج لوگوں کی ہی کارفرمائی ہے۔(لمحات211)
حالانکہ یہی عبارت سیوطی کے واسطے سے علامہ طاہر پٹنی نے مجمع البحار اورتذکرۃ الموضوعات دونوں میں نقل کیاہے۔ اس سے یہ الزام بھی دفع ہوجاتاہے کہ اس تحریف کا الزام شیخ زاہد کوثری کے سر ڈالنا خواہ مخواہ کی بدگمانی اوردل میں چھپے مرض کی علامت ہے۔

میاں صاحب لکھتے ہیں۔
اورملاعلی قاری نے بیچ شرح شرح نخبۃ الفکر کے لکھاہے کہ علامہ سخاوی صاحب مقاصد الحسنہ سے کہ قول معتمد یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو کسی صحابی سے روایت کرنی ثابت نہیں اورایساہی ذک رکیاعلامہ محمد اکرم حنفی نے بیچ حاشیہ نخبۃ الفکر کے علامہ سخاوی سے(معیارالحق ص31)
اس پر علامہ عبدالشہید نعمانی لکھتے ہیں۔
بلاشبہ یہ دونوں حوالے صحیح ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ علامہ سخاوی کے نزدیک قول معتمد یہی ہے کہ امام صاحب کی روایت کسی صحابی سے ثابت نہیں لیکن اس سے میاں صاحب کا اصل مدعا جو امام صاحب کے تابعی ہونے کی نفی ہےکب ثابت ہوا۔ محدث سخاوی کی جس کتاب سے ملاعلی قاری اورعلامہ محمد اکرم حنفی سندھی نے قول مذکور نقل کیاہے۔ اس مین خود امام صاحب کے تابعی ہونے کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ ہم سابق میں ان کے یہ الفاظ نقل کرچکے ہیں کہ
وفی الخمیسن ومائۃ من السنین الامام المقلد احد عن من التابعین ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی (فتح المغیث4/341)
یعنی امام ابوحنیفہ بھی ان حضرات میں سے ہیں جن کا شمار تابعین میں کیاجاتاہے اورجب علامہ سخاوی نے امامصاحب کے تابعی ہونے کی صاف الفاظ میں تصریح کردی تو اب اس سے انکار کی کیاگنجائش رہی۔ پھرمیاں صاحب کا یہ طرز عمل بھی خوب ہے کہ عالی اورنازل کی بحث میں توانہوں نے ملاعلی قاری حنفی اورعلامہ محمد اکرم حنفی کی شرح شرح نخبہ کو ملاحظہ فرمالیا۔لیکن ان دونوں حضرات نے تابعی کی بحث میں جوکچھ ارقام فرمایاہے اس سے بالکل صرف نظرفرمایا۔(تابعیت امام ابوحنیفہ ص39)


میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات میں ملاعلی قاری کا حوالہ دیاہے لیکن میاں صاحب نے اس پیمانے کے علمی سنجیدگی اورمتانت کااظہار نہیں کیاجوان جیسے بزرگ شخصیت سے متوقع تھی ۔
انہوں نے ملاعلی قاری کی جس عبارت کاحوالہ دیاہے وہ دراصل امام صاحب کی حضرات صحابہ سے روایت کے بارے میں ہے۔ جہاں تک امام صاحب کے تابعی ہونے کی بات ہے توملاعلی قاری امام صاحب کوتابعی مانتے ہیں ۔ اگرمیاں صاحب اسی بحث کو عالی ونازل میں ملاحظہ کرنے کے بجائے تابعی کی بحث جو اصل مقام ہے امام صاحب کے تابعی ہونے اورنہ ہونے کا تووہاں ان کو یہ عبارت لکھی ہوئی صاف نظرآجاتی۔

التابعی ھومن لقی الصحابی ھذا ھوالمختار قال العراقی وعلیہ عمل الاکثرین وقد اشارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الصحابی والتابعی بقولہ "طوبی لمن راٰنی ولمن رای من راٰنی:فاکتفی بمجرد الرویۃ ۔قلت:وبہ یندرج الامام الاعظم فی سلک التابعین فانہ قدراٰی انسا وغیرہ من الصحابۃ علی ماذکرۃ الشیخ الجزری فی اسماء رجال القراء والتوربشتی فی تحفۃ المسترشد وصاحب کشف الکشاف فی سورۃ المومنین وصاحب مراۃ الجنان وغیرھم من العلماء المتبحرین فمن نفی انہ تابعی فامامن التتبع القاصر اوالتعصب الفاتر(اقامہ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ ص87)

تابعی وہ ہے جسے صحابی سے لقاء(رویت)حاصل ہو ۔یہی مختار قول ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ اسی پر اکثرکا عمل ہے اوراسی کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی اورتابعی کیلئے اشارہ کیاہے۔ بہتری ہو اس کیلئے جس نے مجھے دیکھااوراس کیلئے جس نے میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف رویت پراکتفاء فرمایا۔میں کہتاہوں کہ تابعین کی لڑی میں امام اعظم بھی مندرج ہوتےہیں کیونکہ انہوں نے حضرت انس اوردیگر صحابہ کرام کو دیکھاجیساکہ شیخ جزری نے اسماء رجال القراء اورتوربشتی نے تحفۃ المسترشد اورصاحب کشف الکشاف نے سورہ مومنین میں اورصاحب مراۃ الجنان اوردیگر علماء متبحرین میں ذکر کیاہے توجس نے بھی امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے کی نفی کی ہے تواس کی وجہ صرف یہی رہی ہے یاتواس نے تحقیق وتلاش میں کم ہمیتی سے کام لیایاتعصب کی زیادتی نے اس کو اس پر آمادہ کیا۔
میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات میں ابن خلکان کابھی حوالہ دیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔
اورقاضی علامہ شمس الدین ابن خلقان نے بھی ایساہی افادہ فرمایاہے ۔چنانچہ وفیات الاعیان میں فرماتے ہیں ۔
ادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل۔(معیار الحق ص31)


یہاں بھی میاں صاحب نے آگے کی عبارت جو ابن خلکان نے خطیب بغدادی کے واسطے سے نقل کی تھی۔
وذکر الخطیب فی تاریخ بغداد انہ رای انس بن مالکؓ(وفیات الاعیان 406/5)کے ذکر سے گریز فرمایاہے۔
میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات پر امام نووی کی عبارت کابھی حوالہ دیاہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ابواسحاق شیرازی کی عبارت جو روایت کی نفی میں ہے اسے بیان کردیا اورخطیب بغدادی کی روایت جو حضرت انس کی رویت کے اثبات میں ہے اس کے ذکر سے گریز فرمایا۔دیکھئے سید میاں نذیرحسین صاحب لکھتے ہیں۔
اورامام نووی شارح صحیح مسلم تہذیب الاسماء میں فرماتے ہیں"
قال: الشیخ ابواسحق فی الطبقات ھوالنعمان بن ثابت بن زوطی ابن ماہ مولی تیم اللہ بن ثعلبہ ،ولد سنۃ ثمانین من الھجرۃ،وتوفی ببغداد سنۃ خمسین ومائۃ وھوابن سبعین سنۃ ۔اخذ الفقہ من حماد بن ابی سلیمان فکان فی زمانہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالکؓ وعبداللہ بن ابی اوفی وسھل بن سعد وابوالطفیل ولم یاخذ عن احد منھم ۔انتھی(معیارالحق31)
اس کا حوالہ جیساکہ ماقبل میں بھی گزرچکاہے اس میں صرف روایت کی نفی ہے لیکن اس سے متصل امام نووی نے جو عبارت خطیب بغدادی کی ذکر کی ہے ۔میاں صاحب نے یہاں بھی اس کے ذکر سے گریز کیاہے۔
وذکر الخطیب بغدادی فی التاریخ ھوابوحنیفۃ التیمی امام اصحاب الرای وفقیہ اھل العراق رای انس بن مالک وسمع عطاء بن ابی رباح (تہذیب الاسماء2/217)
خطیب بغدادی نے تاریخ مین ذکر کیاہے کہ وہ ابوحنیفہ التیمی اصحاب الرای کے امام ہیں اورعراقیوں کے فقیہ ہیں انہوں نے انس بن مالک کودیکھاہے اورعطاء بن ابی رباح سے سناہے۔
تنبیہ:میاں صاحب نے اپنی کتاب میں رویت اورروایت دونوں کی نفی کی ہے۔اس لئے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اہل علم کے سنجیدہ اورمحتاط طریقہ کار کے مطابق مالہ اورماعلیہ دونوں کا ذکر کرتے لیکن افسوس انہوں نے انہوں نے ایسانہیں کیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
نواب صدیق حسن خان صاحب
نواب صاحب کے اسلوب اورتصانیف پر کچھ بیان کرناچاہتاتھالیکن چونکہ اس سے بات مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔اس لئے اس سے درکنار کرتے ہوئے صرف انہوں نے امام صاحب کی تابعیت کے تعلق سے جوکچھ لکھاہے اسے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
امام صاحب کی تابعیت پر نواب صاحب نے جوکچھ لکھاہے اسے دیکھ کر ایساگمان ہے کہ نواب صاحب ہفت قلم شخصیت ہیں۔ ایک کتاب میں جولکھتے ہیں دوسری کتاب میں اس کی تردید کرتے ہیں۔ کہیں وہ امام صاحب کی عدم تابعیت پر محدثین کرام کا اتفاق نقل کرتے ہیں۔ کہیں امام صاحب کی تابعیت پر پرزور دلادیتے ہیں اورکہیں وہ شک وشبہ کی کیفیت میں نظرآتے ہیں۔
الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ میں نواب صاحب نے امام ابوحنیفہ کو تبع تابعین مین داخل کیاہے ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
وتبع التابعی مسلم رای تابعیا وھذہ الطبقہ ثالثۃ بالنسبۃ الیہ صلی اللہ علیہ وسلم ومنہاالامام جعفرالصادق وابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الامام الاعظم
تبع تابعی وہ مسلمان ہے جس نے کسی تابعی کو دیکھاہو ۔یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تیسراطبقہ ہے۔ اسی طبقہ میں امام جعفر صادق اورامام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔(ص42،مطبع نظامی)

منہج الوصول الی اصطلاح احادیث الرسول میں جوعلم اصول حدیث میں نواب صاحب کی مشہور تصنیف ہے۔ موصوف نے ان علماء کی غلطی پر تنبیہ کی ہے امام صاحب کوتابعین میں داخل کرتے ہیں ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں
ترجمہ:حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ۔بعض نے تابعین کے زمرہ میں ان لوگوں کوبھی داخل کرلیاہے جو حقیقۃ تابعی نہیں جب کہ کچھ لوگوں نے ان حضرات کو جن کا شمار تابعین میں ہے تابعین کے زمرہ سے خارج کردیاہے۔اسی طرح صحابہ میں ان لوگوں کو ذکر کردیاہے جو صحابی نہیں ہیں۔ جب کہ دوسروں نے صحابہ کی ایک جماعت کو تابعی سمجھتے ہوءے انہیں تابعین میں شمار کرلیاہے اوریہ جس نے کیاہے اپنے مبلغ علم کے مطابق کیاہے۔انتہی۔
میں (صدیق حسن خان)کہتاہوں پہلی صورت کی مثال تو ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رضی اللہ عنہ کاتابعین میں داخل کرنا ہے کیونکہ ان کی کسی بھی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔(ص170،مطبع شاہجہانی ،بھوپال)
ابجدالعلوم میں نواب صاحب کو امام صاحب کے تابعی نہ ہونے کا ایسایقین آیاکہ اس پر محدثین کا اجماع ہی نقل کردیا ۔چنانچہ موصوف کے الفاظ ہیں۔
لم یراحدا من الصحابۃباتفاق اھل الحدیث وان کان عاصربعضھم علی رای الحنفیۃ (ص80،،،مطبع صدیقیہ بھوپال)
محدثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو نہیں دیکھاہے ۔اگرچہ احناف کی رائے کے مطابق صحابہ میں سے بعض حضرات سے ان کی معاصرت ثابت ہے۔
لطیفہ: نواب صاحب کایہ ارشاد بھی نہایت قابل قدر ہے کہ امام صاحب کی صحابہ کرام سے معاصرت کے صرف احناف قائل ہیں۔ورنہ امام صاحب کے ولادت سے قبل ہی صحابہ کرام کا عہد زریں ختم ہوچکاتھا۔اصل مسئلہ شاید ہے کہ موصوف کو ابن خلکان ،ابن الاثیراوریافعی وغیرہ کے ان بیانات سے دھوکہ ہواہے کہ احناف کہتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ کرام سے ملاقات اورروایت کی ہے ۔اس کو انہوں نے معاصر ت سے مخلوط کردیا۔
پھر مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ نواب صاحب امام صاحب کے حضرات صحابہ کرام کے معاصر ہونے کوحنیفہ کا قول اس وقت بتارہے ہیں جب کہ خود کو اس معاصرت کی کچھ"بو"محسوس ہونے لگی تھی۔
چنانچہ اتحاف النبلاء میں وہ محدثین سے حضرت انس کی روایت کا ثبوت نقل کرکے کہتے ہیں۔
وازیں جاتواں دریافت کہ وجود صحابہ درزمانہ او رائحہ از ثبوت دارد(صفحہ424)یہاں سے پتہ چلتاہے کہ اس بات میں توثبوت کی کچھ بو ہے کہ صحابہ کا وجود امام صاحب کے زمانہ میں تھا۔
ان کتب میں تونواب صاحب نے امام صاحب کی عدم تابعیت کے تعلق سے کوئی دلیل پیش نہیں کیا۔لیکن التاج المکلل اوراتحاف النبلاء میں انہوں نے امام صاحب کی عدم تابعیت کو دلیل سے مدلل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ التاج المکلل میں لکھتے ہیں۔
ترجمہ : خطیب نے اپنی تاریخ میں لکھاہے کہ (واللہ اعلم)امام ابوحنیفہ نے چارصحابہ کوپایاتھا۔ انس بن مالک کو بصرہ میں ،عبداللہ بن ابی اوفی کو کوفی میں اوسہل بن سعد ساعدی کو مدینہ میں اورابوطفیل عامر ابن واثلہ کومکہ میں مگر نہ توانہوں نے ان میں سے کسی صحابی سے ملاقات کی اورنہ ہی ان سے ان سے کوئی روایت کی۔ اصحاب ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ امام صاحب نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات بھی کی اوران سے روایت بھی کی لیکن یہ بات اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں۔(التاج المکلل ص136)
نواب صاحب نے بعینہ اسی عبارت کو جوالتاج المکلل میں عربی میں ذکر کیاتھا۔ اتحاف النبلاء المتفقین باحیاء مآثرالفقہاء والمھدثین میں فارسی میں لکھ دی ہے۔(اتحاف النبلاء422)

(نوٹ )خطیب کی یہ عبارت جو نواب صاحب نے نقل کی ہے درحقیقت ابن خلکان کی ہے۔ خطیب بغدادی کی اس طرح کی کوئی عبارت موجود نہیں ہے۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ ہم وفیات الاعیان اورالتاج المکلل دونوں کی عبارت سامنے رکھ دیتے جس سے پتہ چل جاتاکہ نواب صاحب سے اصل غلطی کہاں پر ہوئی ہے۔لیکن اب اتنی فرصت کسے ہے۔ اصل یہ ہے کہ نواب صاحب نے ابن خلکان کی عبارت نقل کرتے کرتے بین القوسین میں ابن خلکان نے بین القوسین میں جہاں خطیب کاحوالہ دیا۔وہاں نواب صاحب اس قوسین کاخیال نہیں رکھ سکے اوروہ سمجھے کہ یہ ساری عبارت خطیب کی ہی ہے چنانچہ خطیب کی عبارت سمجھ کر انہوں نے پوری بات نقل کردی ۔
نواب صاحب نے اتحاف النبلاء میں اپنی اس بات کی تردید دوسرے صفحہ پر ہی کردی ۔چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں۔
ابن حجر گوید ازابن ابی اوفی ایک حدیث روایت نمودہ است۔وخطیب گفت انس رادیدہ۔وذہبی گفتہ یعنی درصغرسن وابن حجر گفتہ ہمیں صحیح است(اتحاف النبلاء)
ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صاحب نے حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے۔خطیب کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت انس کو دیکھاہے اورذہبی کہتے یہں کہ بچین میں دیکھاہے ۔ابن حجر نے کہاہے کہ یہی بات صحیح ہے۔
نواب صاحب نے اصل کمال توحطہ میں کیاہے کہ امام صاحب کی تابعیت کے انکار کے بعددوسرے مقام پر امام صاحب کی تابعیت پر زوردار بحث کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وقال الجلال السيوطي وقفت على فتيا رفعت إلى الحافظ الولي العراقي صورتها هل روى أبو حنيفة عن أحد من أصحاب النبي {صلى الله عليه وسلم} وهل يعد في التابعين أم لا فأجاب بما نصه الإمام أبو حنيفة لم تصح روايته عن أحد من أصحاب النبي {صلى الله عليه وسلم} وقد رأى أنس بن مالك فمن يكتفي في التابعي بمجرد رؤية الصحابة يجعله تابعيا ومن لا يكتفي بذلك لا يعده تابعيا ورفع هذا السؤال إلى الحافظ ابن حجر العسقلاني فأجاب بما نصه أدرك الإمام أبو حنيفة جماعة من الصحابة لأنه ولد بالكوفة سنة ثمانين من الهجرة وبها يومئذ من الصحابة عبدالله بن أبي أوفى فإنه مات بعد ذلك بالاتفاق وبالبصرة يومئذ أنس بن مالك ومات سنة تسعين أو بعدها
وقد أورد ابن سعد بسند لا بأس به أن أبا حنيفة رأى أنسا وكان غير هذين من الصحابة أحياء في البلاد وقد جمع بعضهم جزءا فيما ورد من رواية أبي حنيفة عن الصحابة لكن لا يخلو إسناده من ضعف والمعتمد على إدراكه ما تقدم وعلى رؤيته لبعض الصحابة ما أورده ابن سعد في الطبقات فهو بهذا الاعتبار من طبقة التابعين ولم يثبت ذلك لأحد من أئمة الأمصار المعاصرين له كالأوزاعي بالشام والحمادين بالبصرة والثوري بالكوفة ومالك بالمدينة ومسلم بن خالد الزنجي بمكة والليث بن سعد بمصر انتهى
وقال السخاوي في شرحه لألفية العراقي المعتمد أنه لا رواية له عن أحد من الصحابة انتهى
وقال ابن حجر المكي في شرح المشكاة أدرك الإمام الأعظم ثمانية من الصحابة منهم أنس وعبدالله بن أبي أوفى وسهل بن سعد وأبو الطفيل انتهى
وقال الكردري جماعة من المحدثين أنكروا ملاقاته مع الصحابة وأصحابه أثبتوه بالأسانيد الصحاح الحسان وهم أعرف بأحواله منهم والمثبت العدل أولى من النافي وقد جمعوا مسنداته فبلغت خمسين حديثا يرويها الإمام عن الصحابة الكرام وإلى هذا أشار الإمام بقوله ما جاءنا عن رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فعلى الرأس والعين وما جاءنا عن التابعين فهم رجال ونحن رجال لأنه ممن زاحم التابعين في الفتوى اللهم إذا كان التابعي يزاحم في الفتوى الصحابي فإنه يقلد ذلك التابعي كما يقلد الصحابي وهذا سبب صالح لتقديم مذهبه على سائر المذاهب۔( الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ ص136 تا138)

تنبیہ : نواب صدیق حسن خان پر بحث کا بیشتر مواد اورعبارت "امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورصحابہ سے ان کی روایت " سے ماخوذ ہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ ویسے تویہ پوری بحث ہی اس کتاب سے استفادہ ہے لیکن بطور خاص نواب صاحب اورحضرت سید نذیر حسین صاحب پر بحث میں اس کتاب سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام عليكم ! جمشيد بھائی !
آپ ما شاء اللہ پندرہ بیس دن سے اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
کیا آپ نے ابھی تک کوئی ایک بھی دلیل بسند صحیح نقل کی ہے جس میں امام صاحب کا کسی صحابی سے رؤیت یا روایت کا ثبوت ہو ؟
اگر آپ کے نزدیک امام صاحب تابعین کی صف میں شامل ہیں اور یہی بات حق اور سچ ہے اور امام صاحب کے تابعی ہونے کا اعلان کرنا اتنا اہم اور ضروری ہے تو کیا امام صاحب کے معاصرین یا تلامذہ میں سے کوئی بھی اس کام کو سر انجام نہیں دے سکا ؟؟
آپ کا خطیب بغدادی ، عراقی ، ابن حجر ، وغیرہم رحمہم اللہ کا حوالے دینے کا مطلب تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ان سے پہلے اس بات کا ثبوت ہی نہیں ہے ۔ اور آپ حوالے دیں ضرور دیں لیکن حوالہ اس کا دیں جس نے دلیل کی بنیاد پر بات کی ہے ۔۔
اگر آپ بلا دلیل ان کے فتاوی کو نقل کر کے حجت پیش کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے نزدیک ان کی باتیں حجت ہیں ؟ کیا ایسا ہی ہے ؟؟؟

اور آپ یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی تابعیت کا انکار کرنے والوں کے دلائل کا جائزہ وغیرہ ۔۔۔
تو آپ سے گزارش ہے کہ پہلے اثبات کے دلائل تو پیش کردیں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جاسکے ، کیونکہ یہاں دلیل اثبات کی چاہیے اور اگر آپ دلیل نہ دے سکے تو پھر انکار کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ، جس کا آپ جائزہ لینے میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔

ویسے آپ کو یہ بھی گزارش کرنی ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ جب میرا ’’ لمحات ‘‘ والا تھریڈ مکمل ہو گا تو اس پر کیے گئے تمام اعتراضات کا قرض چکا دیا جائے گا ۔۔۔ لیکن آپ نے ایک نیا موضوع شروع کر لیا ہے لیکن اس کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پہلے موضوع کو مکمل کریں اور اس پر جو اعتراضات ہیں ان سے برئی الذمہ ہوں اور پھر آگے نیا کام شروع کریں ۔۔۔
ایک اور بات جو ملاحظہ کی گئی ہے کہ آپ اپنے پہلے تھریڈ میں بعض باتوں کا جواب تو اسی وقت ہی دے دیتے ہیں لیکن بعض کے بارے میں کہتے ہیں کہ موضوع مکمل ہو گا تو جواب دیا جائے گا ۔۔۔۔
اگر کوئی بات نا مناسب ہو تو پیشگی معذرت ۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ویسے آپ کو یہ بھی گزارش کرنی ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ جب میرا ’’ لمحات ‘‘ والا تھریڈ مکمل ہو گا تو اس پر کیے گئے تمام اعتراضات کا قرض چکا دیا جائے گا ۔۔۔ لیکن آپ نے ایک نیا موضوع شروع کر لیا ہے لیکن اس کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پہلے موضوع کو مکمل کریں اور اس پر جو اعتراضات ہیں ان سے برئی الذمہ ہوں اور پھر آگے نیا کام شروع کریں ۔۔۔
وعلیکم السلام
اپ تھریڈ پر بنے تیر کے نشان کو بغورنہیں دیکھا۔ورنہ یہ معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تھریڈ کسی دوسرے نے میرے نام سے بنایاہے ۔ میری بحث سابقہ تھریڈ میں ہی تھی۔ فورم کے کسی ناظم صاحب کی یہ چابکدستی ہے ۔ یہ میراکمال نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس وضاحت سے یہ اعتراض ختم ہوگیاہوگاکہ میں نے یہ نیاتھریڈ کیوں شروع کیا۔ والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ ۔۔۔ جمشید بھائی !
مجھے ویسے اس بات کا نہیں پتہ چل سکا کہ یہ تھریڈ آپ نے شروع نہیں کیا ۔۔۔ کیونکہ جب آپ کا نام لکھا ہوا ہے تو ہم تو اس کو آپ کا ہی سمجھیں گے ۔۔۔ عفوا ً
لیکن باقی تمام گزارشات سے:
خضر حیات;18134]السلام عليكم ! جمشيد بھائی !
آپ ما شاء اللہ پندرہ بیس دن سے اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
کیا آپ نے ابھی تک کوئی ایک بھی دلیل بسند صحیح نقل کی ہے جس میں امام صاحب کا کسی صحابی سے رؤیت یا روایت کا ثبوت ہو ؟
اگر آپ کے نزدیک امام صاحب تابعین کی صف میں شامل ہیں اور یہی بات حق اور سچ ہے اور امام صاحب کے تابعی ہونے کا اعلان کرنا اتنا اہم اور ضروری ہے تو کیا امام صاحب کے معاصرین یا تلامذہ میں سے کوئی بھی اس کام کو سر انجام نہیں دے سکا ؟؟
آپ کا خطیب بغدادی ، عراقی ، ابن حجر ، وغیرہم رحمہم اللہ کا حوالے دینے کا مطلب تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ان سے پہلے اس بات کا ثبوت ہی نہیں ہے ۔ اور آپ حوالے دیں ضرور دیں لیکن حوالہ اس کا دیں جس نے دلیل کی بنیاد پر بات کی ہے ۔۔
اگر آپ بلا دلیل ان کے فتاوی کو نقل کر کے حجت پیش کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے نزدیک ان کی باتیں حجت ہیں ؟ کیا ایسا ہی ہے ؟؟؟

اور آپ یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی تابعیت کا انکار کرنے والوں کے دلائل کا جائزہ وغیرہ ۔۔۔
تو آپ سے گزارش ہے کہ پہلے اثبات کے دلائل تو پیش کردیں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جاسکے ، کیونکہ یہاں دلیل اثبات کی چاہیے اور اگر آپ دلیل نہ دے سکے تو پھر انکار کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ، جس کا آپ جائزہ لینے میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بات جو ملاحظہ کی گئی ہے کہ آپ اپنے پہلے تھریڈ میں بعض باتوں کا جواب تو اسی وقت ہی دے دیتے ہیں لیکن بعض کے بارے میں کہتے ہیں کہ موضوع مکمل ہو گا تو جواب دیا جائے گا ۔۔۔۔
حسب عادت کوئی تعرض ہی نہیں کیا ۔۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
وعلیکم السلام
اپ تھریڈ پر بنے تیر کے نشان کو بغورنہیں دیکھا۔ورنہ یہ معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تھریڈ کسی دوسرے نے میرے نام سے بنایاہے ۔ میری بحث سابقہ تھریڈ میں ہی تھی۔ فورم کے کسی ناظم صاحب کی یہ چابکدستی ہے ۔ یہ میراکمال نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس وضاحت سے یہ اعتراض ختم ہوگیاہوگاکہ میں نے یہ نیاتھریڈ کیوں شروع کیا۔ والسلام
کیا اوپر موجود آپ کے نام سے دونوں پوسٹس (مولانا نذیر حسین اور صدیق حسن قنوجی رحمہما اللہ کے متعلق) بھی کسی اور نے آپ کے نام سے لکھ دی ہیں، یا آپ نے ہی لکھی ہیں؟!! حالانکہ تھریڈ صرف مولانا رئیس ندوی سے متعلق ہے

اگر آپ نے ہی لکھی ہیں تو پچھلے سوالوں کے جواب کی بجائے نیا موضوع تو شروع کر دیا ہے ...

لہٰذا خضر بھائی کا سوال اپنی جگہ قائم ہے ...
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کیا اوپر موجود آپ کے نام سے دونوں پوسٹس (مولانا نذیر حسین اور صدیق حسن قنوجی رحمہما اللہ کے متعلق) بھی کسی اور نے آپ کے نام سے لکھ دی ہیں، یا آپ نے ہی لکھی ہیں؟!! حالانکہ تھریڈ صرف مولانا رئیس ندوی سے متعلق ہے

اگر آپ نے ہی لکھی ہیں تو پچھلے سوالوں کے جواب کی بجائے نیا موضوع تو شروع کر دیا ہے ...

لہٰذا خضر بھائی کا سوال اپنی جگہ قائم ہے ...
یہ توبال کی کھال نکالنے والی بات ہوئی کہ ایک قدم بھی موضوع سے اگے پیچھے نہ ہو۔حالانکہ اسی فورم پر سینکڑوں کی تعداد میں ایسے تھریڈ بکھڑے پڑے ہیں جس میں موضوعیت کاخیال نہیں رکھاگیاہے۔میں نے شروع میں ہی ذکر کردیاہے کہ ان دونوں حضرات کے نام صرف اس لئے لئے گئے ہیں کہ بات مکمل ہوجائے۔
برصغیر کے یہ دوحضرات بھی امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکار میں پیش قدم ہیں۔ ان کےانکار کی بنیاد اوردلائل کا بھی جائزہ لیتے چلیں تاکہ بات مکمل ہوسکے۔
اگر آپ نے ہی لکھی ہیں تو پچھلے سوالوں کے جواب کی بجائے نیا موضوع تو شروع کر دیا ہے ...
اس گہرے نکتہ کی وجہ مجھے قطعاسمجھ میں نہیں آسکی کہ ایک شخص ایک تھریڈ شروع کرتاہے ۔ اس میں کسی کتاب کے کسی باب پر بحث کرتاہے اوراسی بحث سے تعلق رکھنے والی مزید چیزوں کاذکر کرتاہے توکیااس کو نیاتھریڈ شروع کرناکہاجائے گا۔ایسے نکتہ شناسوں اورنکتہ دانوں کے قربان جاناچاہئے لیکن کیاکیجئے گاکہ اب قدردانی کا زمانہ نہیں رہا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ ما شاء اللہ پندرہ بیس دن سے اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
کیا آپ نے ابھی تک کوئی ایک بھی دلیل بسند صحیح نقل کی ہے جس میں امام صاحب کا کسی صحابی سے رؤیت یا روایت کا ثبوت ہو ؟
اگر آپ کے نزدیک امام صاحب تابعین کی صف میں شامل ہیں اور یہی بات حق اور سچ ہے اور امام صاحب کے تابعی ہونے کا اعلان کرنا اتنا اہم اور ضروری ہے تو کیا امام صاحب کے معاصرین یا تلامذہ میں سے کوئی بھی اس کام کو سر انجام نہیں دے سکا ؟؟
آپ کا خطیب بغدادی ، عراقی ، ابن حجر ، وغیرہم رحمہم اللہ کا حوالے دینے کا مطلب تو یہی ثابت کرتا ہے کہ ان سے پہلے اس بات کا ثبوت ہی نہیں ہے ۔ اور آپ حوالے دیں ضرور دیں لیکن حوالہ اس کا دیں جس نے دلیل کی بنیاد پر بات کی ہے ۔۔
اگر آپ بلا دلیل ان کے فتاوی کو نقل کر کے حجت پیش کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے نزدیک ان کی باتیں حجت ہیں ؟ کیا ایسا ہی ہے ؟؟؟

اور آپ یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی تابعیت کا انکار کرنے والوں کے دلائل کا جائزہ وغیرہ ۔۔۔
تو آپ سے گزارش ہے کہ پہلے اثبات کے دلائل تو پیش کردیں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جاسکے ، کیونکہ یہاں دلیل اثبات کی چاہیے اور اگر آپ دلیل نہ دے سکے تو پھر انکار کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ، جس کا آپ جائزہ لینے میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بات جو ملاحظہ کی گئی ہے کہ آپ اپنے پہلے تھریڈ میں بعض باتوں کا جواب تو اسی وقت ہی دے دیتے ہیں لیکن بعض کے بارے میں کہتے ہیں کہ موضوع مکمل ہو گا تو جواب دیا جائے گا ۔۔۔۔
میں سابق میں تفصیلی طورپر عرض کرچکاہوں کہ میراطریقہ کار کیاہوگا۔
اولامنکرین کے دلائل کاجائزہ اوراس پر رد
پھرمثبتین کے اسماء گرامی
پھر دلائل کی باری آئے گی۔
اب اگرصاحب کتاب نے نفس طوالت سے کام لیاہے تو پھر اس کے رد میں بھی طوالت ہوگی۔
اپ فرماتے ہیں کہ چند باتوں کا جواب اسی وقت دے دیتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوغیرمتعلقہ باتیں ہوتی ہیں اس کاجواب اسی وقت دینے کی کوشش کرتاہوں۔ باذوق صاحب نے موضوع سے الگ ایک بات شروع کی ۔ ان کو پی ایم کے ذریعہ اپنی بات پہنچائی گئی۔ پھراس کے بعد رفیق طاہر صاحب نے "یاوہ گوئی" شروع کی تواس پر ایک تحریر لکھی گئی۔ شاکر صاحب نے غلط فہمی سے اس کو دوسروں کے حق میں سمجھ لیااورمراسلہ لکھ مارا۔وہ بھی چونکہ موضوع سے غیرمتعلق تھااس لئے اس کابھی جواب وہیں دے دیاگیا۔
اس کے ابوالحسن علوی صاحب نے اظہارخیال فرمایا اس کاجواب بھی پوسٹ کیاگیا لیکن انتظامیہ نے اسے حذف کرنا بہتر سمجھاحالانکہ اس میں ایسی ویسی کوئی بات نہیں تھی۔ اگراپ نے وہ مراسلہ ملاحظہ کیاہوگاتو۔۔۔۔۔۔۔
اب یہی دیکھئے کہ آپ نے بھی ایک غیرمتعلقہ بحث چھیڑ رکھی ہے تواس کاجواب دینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتاہوں۔ ورنہ موضوع تواسی طرح سے چلے گاجس طرح میں نے سوچ رکھاہے۔ چاہے اس فورم پر ہویاکسی دوسرے فورم پر۔۔۔
طوالت کاذکر کرنے والے وہ وقت بھول جاتے ہیں جب امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ کے مراسلے میں کفایت اللہ صاحب نے تقریبادس دن لگائے تھے۔ اس وقت فورم کے شاید تمام لوگ یاتوسوئے ہوئے تھے یاپھر کسی اورخواب وخیال میں تھے لیکن اب اچانک سبھی کو خیال ارہاہے ارے یہ مضمون توبہت طویل ہوگیا۔اسے جلد مکمل ہوناچاہئے ۔کوئی مشورہ دے رہاہے کہ پہلے ورڈ میں لکھ لیں پھر پوسٹ کریں۔
میراخیال ہے کہ اپ کے مراسلے کہ جواب میں اتناہی بہت ہے ورنہ کہیں انتظامیہ نقض امن کے تحت اسے بھی حذف نہ کردے۔ والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جمشید;18212]میں سابق میں تفصیلی طورپر عرض کرچکاہوں کہ میراطریقہ کار کیاہوگا۔
اولامنکرین کے دلائل کاجائزہ اوراس پر رد
پھرمثبتین کے اسماء گرامی
پھر دلائل کی باری آئے گی۔
اور پھر دلائل کی باری آئے گی ۔۔۔۔۔چلیں بھائی ہم آپ کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں ۔
ویسے آپ کی اس انوکھی ترتیب کے بارے میں إنما شفاء العی السؤال کے تحت آپ سے ہی پوچھ لیتے ہیں یہ کس کتاب سے اخذ کی گئی ہے ؟
حالانکہ عام طور پر تو یوں ہوتا ہے کہ پہلے دلائل پھر ان دلائل کے قائلین اور پھر منکرین کا رد ۔۔۔ لیکن آپ نے بالکل برعکس طریقہ اپنایا ہے ۔۔ اس کی کوئی خاص وجہ تو نہیں ہے ؟
وفقنا اللہ و إیاکم ۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یادش بخیر!
مولانااشرف علی تھانوی سے کسی نے کسی شرعی مسئلہ کی حکمت کے بارے میں دریافت کیا۔مولانانے جواب نماسوال کیاکہ آپ اس کے اس حکمت پوچھنے میں کیاحکمت ہے؟وہ محترم خاموش ہوگئے۔
آپ نے بھی بالکل اسی صنیع اورطرز میں پوچھاہے کہ
ویسے آپ کی اس انوکھی ترتیب کے بارے میں إنما شفاء العی السؤال کے تحت آپ سے ہی پوچھ لیتے ہیں یہ کس کتاب سے اخذ کی گئی ہے ؟
اس کے جواب میں ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح سے سوال کرنے کے بارے میں آپ نے کس کتاب میں پڑھاہے۔انسان کو سوال کرتے وقت سنجیدگی برتنی چاہئے۔
آپ کلمہ پڑھتے ہیں وہ اسی ترتیب سے شروع ہوتاہے ۔ لاالہ کوئی معبود نہیں الااللہ سوائے اللہ کے۔ نفی پہلے ہے۔ اثبات بعد میں ہے۔ اس کے علاوہ غوروفکر سے کام لیں گے توڈھیروں دلیلیں مل جائیں گی۔
ویسے کسی موضوع کوبذات خود شروع کرنا اورکسی دوسرے پر رد کرنا۔دونوں میں فرق ہے۔
پہلے موضوع میں انسان پہلے اپنی بات کہتاہے اوردلائل ذکر کرتاہے جب کہ کسی نقد اورتبصرہ میں پہلے جس پرنقد کیاجارہاہےاس کے خیالات اوردلائل ذکرکئے جاتے ہیں اس کے بعد اپنی بات رکھی جاتی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔
 
Top