جمشید صاحب! کب تک لوگوں کو مغالطہ دیتے رہیں گے کہ کسی کا قول ذکر کرنا ہی تقلید ہوتا ہے؟
حنفیوں کی معتبر کتاب 'مسلم الثبوت' میں ہے:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإيجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد، قال الإمام (أي إمام الحرمين من الشافعية) وعليه معظم الأصوليين ... مسلم الثبوت ص289
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ عامی کا عالم سے فقط کوئی مسئلہ لے لینا تقلید ہرگز نہیں ہے، کیونکہ یہ ﴿ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ کے عین مطابق ہے۔ اور قرآن کریم کے حکم پر عمل کرنا تقلید نہیں ہوتا۔
محترم! یہ تقلید تب بنے گا کہ جب آپ فریق مخالف کے موقف کے خلاف اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کریں اور پھر آپ کی مدلل بات کو امام غزالی (کی تقلید شخصی کرتے ہوئے، ان) کے پیچھے لگ کر نہ مانا جائے۔
جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے، یہاں صورتحال یہ ہے کہ آپ نے اس قول کا ردّ تو فرما دیا ہے:
جمشید نے کہا ہے:
↑
بالکل انکار ہے؟
لیکن اب مزید سوال وجواب کا سلسلہ شروع مت کردیجئے گا۔ جن صاحب سے میں نے کچھ سوال پوچھے ہیں ان کو جواب دینے دیجئے ۔
اب بجائے اس کے کہ آپ اپنے موقف کو ثابت کرتے، پیش بندی کے طور پر آپ نے فرما دیا:
جمشید نے کہا ہے:
↑
لیکن اب مزید سوال وجواب کا سلسلہ شروع مت کردیجئے گا۔ جن صاحب سے میں نے کچھ سوال پوچھے ہیں ان کو جواب دینے دیجئے ۔
کیوں صاحب؟ کیا آپ کا فرمانا ہی کافی ہے؟ ایک بندہ اپنی بات حوالے کے ساتھ پیش کرتا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ امام غزالی کی بات غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن تب جب آپ اسے دلائل کے ساتھ ردّ کریں!
لیکن آپ نے اچھا طریقہ اختیار فرمایا کہ غزالی کی بات کو تو ردّ فرما دیا، لیکن، مستند ہے میرا فرمایا ہوا، کے مصداق اپنے موقف کو ثابت تک کرنے کی کوئی کوشش نہ کی، بلکہ اگلے بندے پر ہی چڑھائی کرتے ہوئے اسے مقلد بنا دیا۔ ما لكم كيف تحكمون
جمشید صاحب! کب تک لوگوں کو مغالطہ دیتے رہیں گے کہ کسی کا قول ذکر کرنا ہی تقلید ہوتا ہے؟
مغالطہ میرے مراسلہ میں نہیں ہے آپ کے مراسلہ میں ہے ۔ یہ سوال ہے ہی نہیں کہ عامی کی کون سی بات تقلید ہے اورکون سی بات تقلید نہیں ہے ۔ بلکہ تقلید کیاہے وہ بات تھی۔
آپ حضرات کا ابھی تک یہی قول مختار اورپسندیدہ تھاکہ ایساقول جس پر دلیل نہ ہو اس کو اختیارکرناتقلید کہلاتاہے۔ اس تعریف سے آپ کے مسلکی بھائیون کی تقلید پر لکھی گئی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔
اگرکوئی قول جوبغیر دلیل کے ہواسے اختیار کرنا تقلید کہلاتاہے تو صرف امام غزالی کا قول بغیر دلیل کے اختیار کرلیناتقلید کیوں نہیں کہلائے گا۔
یہ تھابنیادی سوال جس کے جواب کی توفیق توآپ کو ہوئی نہیں اورنہ ہی ہوگی لیکن بات بدل کر دوسری بحث شروع کردی کہ عامی کی کون سی بات تقلید کہلاتی ہے اورکون سی بات تقلید نہیں کہلاتی ہے۔
حنفیوں کی معتبر کتاب 'مسلم الثبوت' میں ہے:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإيجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد، قال الإمام (أي إمام الحرمين من الشافعية) وعليه معظم الأصوليين ... مسلم الثبوت ص289
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ عامی کا عالم سے فقط کوئی مسئلہ لے لینا تقلید ہرگز نہیں ہے، کیونکہ یہ ﴿ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ کے عین مطابق ہے۔ اور قرآن کریم کے حکم پر عمل کرنا تقلید نہیں ہوتا۔
محترم! یہ تقلید تب بنے گا کہ جب آپ فریق مخالف کے موقف کے خلاف اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کریں اور پھر آپ کی مدلل بات کو امام غزالی (کی تقلید شخصی کرتے ہوئے، ان) کے پیچھے لگ کر نہ مانا جائے۔
مسلم الثبوت کا حوالہ ہی اگردیناتھاتوپوراحوالہ دے دیتے ۔یہ عبارت میں آدھاذکرکرنااورآدھاچھوڑناتوزبیر علی زئی صاحب کی خصوصیات میں سے ہے آپ نے کب سے ان کی عادتیں اپنالیں۔
زبیر علی زئی صاحب پر"عقائد میں تقلید"کے تعلق سے میں نے لکھاہے۔ اس کو ایک نگاہ دیکھ لیں
http://forum.mohaddis.com/threads/عقائد-میں-تقلید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا-یک-جائزہ.9522/
علاوہ ازیں زیر بحث بات کہ کس کو تقلید کہیں گے اورکس کو نہیں ۔ذراغور سے پڑھیں۔ تاکہ تقلید کے تعلق سے کچھ بصیرت حاصل ہو۔
بیشتر فقہاء اوراصولیین نے ا سکی تشریح کی ہے کہ تقلید اس امر میں ہوتی ہے جہاں پر نص نہ ہو،اجماع نہ ہو ۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں
فلیس الرجوع الی النبی والاجماع منہ
تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرنا(احادیث پر عمل کرنا)تقلید اوراسی طرح اجماع کو تسلیم کرنا تقلید نہیں ہے۔
ابن ہمام کی التحریر کی شرح ان کے شاگرد ابن امیرالحاج نے بھی لکھی ہے۔ چنانچہ اپنے استاد محترم کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
فلیس الرجوع الی النبی ﷺ والاجماع منہ ای من التقلید علی ھذالان کلامنہاحجۃ شرعیۃ من الحجج الاربع وکذالیس منہ علی ھذا عمل العامی بقول المفتی وعمل القاضی بقول العدول لان کلامنہا وان لم یکن احدی الحجج فلیس العمل بہ بلاحجۃ شرعیۃ لایجاب النص اخذ العامی بقول العدول
التقریر والتحبیرفی علم الاصول
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث اوراجماع کو تسلیم کرنا تقلید اس لئے نہیں ہے کہ یہ حجج اربعہ شرعیہ میں سے ہے۔اورعامی کاعالم سے پوچھ کرعمل کرنا اورقاضی کاعادل گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنابھی تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کوقرآن وحدیث نے واجب کیاہے۔
یہاں تک ابن امیرالحاج کی یہ عبارت تو زبیر علی زئی نے بھی نقل کی ہے لیکن اس سے آگے کا حصہ انہوں نے حذف کردیاحذف کا مقصد اورمنشاء بہت واضح ہے ۔
تنبیہ
علامہ ابن امیرالحاج یہاں ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگرعامی کامفتی اورعالم سے سوال کرناتقلید نہیں ہے توپھر دنیا میں تقلید کاکہیں وجود ہی نہیں ہے۔
کیونکہ مکلفین کی دوہی قسمیں ہیں۔مجتہد مقلد
ایک مجتہد ہے تودلائل شرعیہ سے معلوم کرلے گایہ شق تقلید کے دائرہ سے ہی خارج ہے اوراگر مقلد ہے تومفتی سے معلوم کرے گامفتی اگرخود مجتہد ہے تو اجتہاد کرکے بتادے گا اس صورت میں بھی یہ تقلید نہ ہوئی اوراگرمفتی خود مجتہد نہیں ہے تومجتہدین کاقول نقل کردے گا یہ شق بھی تقلید کے دائرہ سے باہر ہے تودنیا میں کہیں تقلید کا ظہور اوروجود رہاکہاں؟
بَلْ عَلَى هَذَا لَا يُتَصَوَّرُ تَقْلِيدٌ فِي الشَّرْعِ لَا فِي الْأُصُولِ وَلَا فِي الْفُرُوعِ فَإِنَّ حَاصِلَهُ اتِّبَاعُ مَنْ لَمْ يَقُمْ حُجَّةً بِاعْتِبَارِهِ، وَهَذَا لَا يُوجَدُ فِي الشَّرْعِ فَإِنَّ الْمُكَلَّفَ إمَّا مُجْتَهِدٌ فَمُتَّبِعٌ لِمَا قَامَ عِنْدَهُ بِحُجَّةٍ شَرْعِيَّةٍ، وَإِمَّا مُقَلِّدٌ فَقَوْلُ الْمُجْتَهِدِ حُجَّةٌ فِي حَقِّهِ فَإِنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - أَوْجَبَ الْعَمَلَ عَلَيْهِ بِهِ كَمَا أَوْجَبَ عَلَى الْمُجْتَهِدِ بِالِاجْتِهَادِ فَلَوْ جَازَ تَسْمِيَةُ الْعَامِّيِّ مُقَلِّدًا جَازَ تَسْمِيَةُ الْمُجْتَهِدِ مُقَلِّدًا
التقریر والتحبیر علی تحریالکمال ابن الھمام3/340
مسلم الثبوت فقہ حنفی کی ایک قابل قدر کتاب ہے اس میں تقلید پر گفتگوکرتے ہوئے کہاگیاہے کہ حدیث رسول کوتسلیم کرناتقلید نہیں ہے۔
فالرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوالی الاجماع فلیس منہ
مسلم الثبوت ص289
مسلم الثبوت کی شرح علامہ عبدالعلی جوبحرالعلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے فواتح الرحموت کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ مسلم الثبوت کی مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فانہ رجوع الی الدلیل
یعنی کتاب وسنت اوراجماع کی جانب رجوع کرناتقلید اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہ دلیل کی جانب رجوع ہے کیونکہ کتاب وسنت اوراجماع حجت شرعیہ ہیں۔
زبیر علی زئی کی خیانت
ان کی ایک علمی خیانت ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہے۔ایک اورذکر کی جارہی ہے۔
بحرالعلوم یہ لکھنے کے بعد کہ اسی طرح عامی کا مفتی اورقاضی کا عادل گواہوں کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کو" نص "نے واجب کیاہے۔اس کو لکھنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہاں تک تو نص کا اقتضاء ہے کہ عامی اہل علم سے مسئلہ دریافت کرے لیکن اہل علم سے مسئلہ دریافت کرنے کے بعد عامی جوعمل کرے گااسی کوتقلید کہیں گے۔ عامی کوکوئی مسئلہ درپیش ہوا وہ کسی مفتی کے پاس گیا اورمسئلہ دریافت کیا۔ یہاں تک نص پرعمل ہےلیکن مسئلہ دریافت کرنے کے بعد وہ دلیل کی پرکھ کئے بغیر اس پرعمل کررہاہے یہی تقلید ہے۔
بحرالعلوم لکھتے ہیں۔
لیس ھذاالرجوع نفسہ تقلیداوان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنابذاتہ تقلید نہیں ہے لیکن رجوع کے بعد اس کے بتائے ہوئے پر عمل کرنا تقلید ہے۔
زبیرعلی زئی نے
وان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
کا ترجمہ یہ کیاہے۔
اگرچہ بعدوالوں نے اس عمل کو تقلیدقراردیاہے۔
حالانکہ ترجمہ وہ صحیح ہے جو راقم الحروف نے ماقبل میں کیاہے یہ محض زبیر علی زئی کی دفع الوقتی ہے کیونکہ اس عبارت سے ان کی لکھی گئی کتاب"دین میں تقلید کا مسئلہ"کی بنیاد منہدم ہورہی ہے اس لئے انہوں نے ترجمہ ہی غلط کردیا۔جیسے بریلوی آیت کریمہ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَکاترجمہ یہ کرتے ہیں ۔تاکہ اللہ آپ کے اگلوں اورپچھلوں کے گناہ معاف کردے ،حالانہ صحیح ترجمہ آپ کے اگلے اورپچھلے گناہ ہیں۔
میراخیال ہے کہ آپ نے بھی اصل کتاب کی جانب رجوع نہیں کیاہوگا۔ اگررجوع کرتے توملابحرالعلوم کی عبارت ضرور نگاہوں سے گزرتی لیکن زبیر علی زئی یاایسے ہی کسی دوسرے کی کتاب دیکھ کر عبارت لکھ ماری ہے تواس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ جوکچھ اس نے لکھاہے اس سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھیں گے۔
اس سب کے باوجود شوق فراواں دوسروں کو مقلد اورجاہل کہنے اورخود کو محقق اورعالم کہنے کا ہے۔
محترم! یہ تقلید تب بنے گا کہ جب آپ فریق مخالف کے موقف کے خلاف اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کریں اور پھر آپ کی مدلل بات کو امام غزالی (کی تقلید شخصی کرتے ہوئے، ان) کے پیچھے لگ کر نہ مانا جائے
یہ تعریف کس اصول فقہ کی کتاب میں پڑھی ہے۔
ہم نے توآپ کی اب تک جتنی تقلید پر لکھی گئی کتابیں پڑھی ہیں سب میں یہی لکھادیکھاہے کہ بغیر دلیل کے قول کو ماننے کا نام تقلید ہے توامام غزالی کا بغیر دلیل کے قول کو مانناتقلید ہوگایانہیں ہوگا
حیرت ہے غیرمقلدین پر ۔جب پھنستے ہیں توجھٹ سے ایک نئی اورخودساختہ تعریف پیش کردیتے ہیں۔مجھے خوشی ہوگی کہ آپ میری اس بات کو غلط ثابت کردیں اورتقلید کی اس نئی تعریف کو حوالہ اوردلیل کے ساتھ بیان فرمائیں کہ ماضی میں کتنے علماء کرام نے اس کو اختیار کیاہےاوراگرآپ کے بھی استاد محترم زبیر علی زئی ہیں توپھر یاد رکھیں کہ وہ ہروقت جمہور جمہور کرتے رہتے ہیں لہذایہ بھی نگاہ میں رہے کہ جمہور اصولی فقہاء نے تقلید کی کیاتعریف کی ہے؟
کیوں صاحب؟ کیا آپ کا فرمانا ہی کافی ہے؟ ایک بندہ اپنی بات حوالے کے ساتھ پیش کرتا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ امام غزالی کی بات غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن تب جب آپ اسے دلائل کے ساتھ ردّ کریں!
کیوں صاحب!کسی کا قول بغیر دلیل کے لے لینا کیایہ نفس تقلید نہیں ہے۔
آپ نے جھٹ سے دعوی کردیاکہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے۔ تواس کی دلیل دیناآپ کی ذمہ داری بنتی ہے یاکسی اور کی ذمہ داری بنتی ہے۔
مجھے یاد آرہاہے کہ تقلید پر اجماع کےسلسلے میں عابدصاحب نے ابن ہمام ،ابن امیرالحاج اورحضرت شاہ ولی اللہ کے اقوال پیش کئے تھے کہ مذاہب اربعہ پر اجماع ہوچکاہے تواس پر آپ کے ہم مسلکوں نےا عتراضات کھڑے کردیئے تھے کہ کس دور میں ہوا۔کہاں ہوا ۔اورکیسے ہوا اوراسی طرح کے کچھ دیگر اعتراضات
توآپ کا ایک ہم مسلک بھائی ایک دعویٰ کررہاہےکہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے توہم یہ پوچھنے کا حق تورکھتے ہیں ناکہ پہلے تویہ دلیل سے بتایاجائے کہ امام ابوحنیفہ سے منقول مسائل کی تعداد کیاہے پھریہ ثابت کیاجائے کہ صاحبین سے منقول مسائل کی تعداد کیاہےاورپھردوتہائی مخالفت ثابت کی جائے ۔
یاپھر آپ حضرات جو بیان کردیں ہم اسے بعینہ اسی طرح مان لیں جیساکہ تقلید پر واویلا مچانے والے اپنے علماء کی الٹی سیدھی باتیں صم بکم عمی کی طرح مان لیتے ہیں!
آپ خود کو اہل حدیث کہتے ہیں اوردعویٰ ہے کہ حدیث کو ہم سب سے زیادہ مانتے ہیں توپھر حدیث کہتے ہیں کہ
دعوی کا ثبوت مدعی کے ذمہ ہے نہ کہ دعوی کا رد کرنے والے کے ذمہ ہے
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر
پھر کس حدیث کی رو سے آپ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم انکار کے دلائل پیش کریں۔ اگراہل حدیث ہیں توکم ازکم حدیث کا ظاہری طورپر ہی توادب کرلیں۔یاپھر صرف میٹھا میٹھاہپ ہپ اورکڑواکڑواتھوتھو پرعمل ہے؟
لیکن آپ نے اچھا طریقہ اختیار فرمایا کہ غزالی کی بات کو تو ردّ فرما دیا، لیکن، مستند ہے میرا فرمایا ہوا، کے مصداق اپنے موقف کو ثابت تک کرنے کی کوئی کوشش نہ کی، بلکہ اگلے بندے پر ہی چڑھائی کرتے ہوئے اسے مقلد بنا دیا۔ ما لكم كيف تحكمون
امام غزالی کی بات دلیل کے ساتھ ہوتی توہم بھی دلیل بیان کرتے امام غزالی کی بات بغیر دلیل کے ہے لہذا جو لوگ رات دن دلیل دلیل کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں وہ لوگ کیوں دلیل سے دور بھاگتے ہیں اگر دلیل ہے توپیش کیجئے نہیں تو اقرار کیجئے میں نے جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے ایک دعویٰ کردیاتھا؟کم سے اعتراف کاتوحوصلہ ہوناچاہئے۔ لیکن وہ بھی نہیں ہے اورغیرمتعلقہ بحث کی جارہی ہے۔
دوسری بات ہم تقلید کے قائل ہیں اوراسے ایک ضرورت اورفطرت ضرورت سمجھتے ہیں لہذا اگرہم نے کہیں کسی کے بغیر دلیل کے قول کو بیان کردیاتویہ کوئی بری بات نہیں ہوگی لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ کسی قول کو بغیر دلیل کے مانناتقلید ہے اوروہ کسی قول کو بغیر دلیل کے مان لیں تواس کو صرف دوہری روش اوردوہرے کردار کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے اگرکچھ کہنے کیلئے آپ کی لغت میں نئے الفاظ ہوں توبتاکر ہمیں ممنون فرمائیں۔
ایک مرتبہ پھر سے گزارش ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے اس کو دلیل سے واضح کیاجائے اقوال سے گرانبار نہ کیاجائے ۔خواہ وہ اقوال کسی حنفی فقیہہ کا ہی کیوں نہ ہو!والسلام