• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری اور امام مسلم کی ”تصانیف“ ؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک فورم میں جب صحیحین (مسلم و بخاری) کو “دو انسانوں کی تصانیف” قرار دیتے ہوئے انہیں “غیر مستند” ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو میں نے حس ذیل نوٹ لکھا۔ مراسلہ اور جوابی مراسلہ پیش ہے۔ کیا میں درست وضاحت پیش کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔ اہل علم ضرور بتلائیں

میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو آپ یہ فرمارہیں ہے کہ " کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں " اور پھر خود ہی امام بخاری اور امام مسلم کی لکھی ہوئی تصانیف کے حوالے بھی دے رہیں تو امام بخاری اور امام مسلم کو آپ خطاء سے مبراء مانتے ہیں ان کی تصانیف میں اغلاط نہیں ہوسکتی ؟؟؟؟
آپ کے "اعتراض برائے اعتراض" کے صرف دو معنی ہیں
  1. آپ کا تعلق ان "فرقوں" سے ہے، جو "اجماع امت" پر اور قرآن کے بعد "صحیح بخاری اور صحیح مسلم" سمیت صحاح ستہ پر "ایمان" نہیں رکھتے بلکہ اجماع امت سے علیحدہ "مخصوص احادیث کے مجموعوں" پر یقین رکھتے ہیں
  2. یا پھر آپ علم حدیث کی الف بے سے واقف نہیں ہیں، جبھی آپ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو امام بخاری اور امام مسلم کی "لکھی ہوئی تصانیف" قرار دے رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی آج دنیا میں موجود "آن ریکارڈ" قرآن مجید کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کی "لکھی ہوئی" یا "پھیلائی ہوئی کتاب" قرار دے۔ کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں "مصحف عثمانی" ہی کی "نقول" موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا "لکھا ہوا قرآن مجید" تو کہیں بھی "موجود" نہین ہے۔ اور نہ ہی "آسمان سے اترا ہوا کوئی صحیفہ قرآن" کا کوئی "وجود" ہے۔
اگر پہلی بات درست ہے تو "لکم دینکم ولی دین" کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور آپ قرآن کے نزول و ترتیب کی تاریخ کے ساتھ ساتھ احادیث کی جمع و تدوین اور تالیف کی تاریخ سے بھی سرے سے ناواقف ہیں تو آپ کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ ان سے ضرور واقفیت حاصل کیجئے کہ یہ جاننا بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے، تاکہ اس کا "قرآن و حدیث" پر درست ایمان قائم ہو۔ صحیح حدیث کے بغیر قرآن اور قرآن کے بغیر احادیث ۔۔۔ ان دونوں صورتوں میں اسلام "نامکمل" بلکہ "ناقص " رہتا ہے۔ اسلام "قرآن و حدیث" کے مجموعہ کا نام ہے، کسی ایک کا نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا "لکھا ہوا قرآن مجید" تو کہیں بھی "موجود" نہین ہے
یہی بات مجھے بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آیت کو کسی نہ کسی کاتب وحی سے صحیح املا سے لکھوا لیا کرتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لکھوایا ہوا قرآن کا نسخہ کہاں گیا
جب کہ صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث بیان ہوئی جس کا مفہوم یہ کہ
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ بن اکوع ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 502
یعنی مسجد نبوی کا ایک ستون خاص قرآن مجید رکھا ہونے کی وجہ سے مشہور تھا قرآن کو جمع دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا تھا اور اس ستون کے پاس رکھا گیا تھا صحیح بخاری میں بیان ہوا جس کا مفہوم یہ کہ
قتادہ نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا، انہوں نے بتلایا کہ چار صحابیوں نے، یہ چاروں قبیلہ انصار سے ہیں۔ ابی بن کعب، معاذبن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔


صحیح بخاری ، حدیث نمبر:5003
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید کو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع کرکے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا تو پھر دور عثمانی میں قرآن کو دوبارہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟؟؟
یہ سوال ہے جس کا جواب اہل علم حضرات سے مطلوب ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
قرآن کی تدوین کیسے ہوئی
یہ بھی صحیح حدیث سے پتا چلے گا
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے جنگ یمامہ (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) کے زمانہ میں بلا بھیجا، میں حاضر ہوا تو وہا ں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے آ کر کہا جنگ یمامہ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قراء شہید ہو گئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ مختلف علاقوں میں اگر قرآن کے حفاظ و قراء اسی طر ح شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا میرے خیال میں آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا یہ اچھا کام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اپنی بات دہراتے رہے یہاں تک اللہ پاک نے میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا اور میری رائے وہی ہوگئی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا تم عقلمند نوجوان ہو، تمہا ری دیانت و امانت پر ہم الزام نہیں لگا سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتے تھے، قرآن کریم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو۔ زید کہتے ہیں خدا کی قسم مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے نقل کر نیکی تکلیف دیتے تو جمع قرآن کے کام سے زیادہ میرے لئے بوجھل نہ ہو تا۔ کہتے ہیں میں نے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا آپ کیوں کرتے ہیں؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم یہ کام اچھا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلسل مجھے سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے میرا سینہ بھی اس حقیقت کے لئے کھول دیا جس کے لئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا، تو میں نے قرآن کریم کی تلاش شروع کر دی۔ میں نے کھجور کی چھال، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کیا یہا ں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ مجھے خزیمہ انصا ری رضی اللہ عنہ کے پاس ملا، کسی اور کے پا س نہ ملا یعنی لقد جاء کم ر سول من انفسکم... آخر تک یہ نسخے ابو بکر صدیق کے پاس تھے یہا ں تک کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، پھر زندگی بھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے پاس اور پھر وہ نسخے حضر ت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پا س ر ہے۔
بخاری، الصحيح، 4 : 1720، رقم : 4402
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
بخاری، الصحيح، 4 : 1720، رقم : 4402
یعنی حضرت ابو بکر کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے جمع کرلیا تھا اور ایسے مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا ایسی لئے انھوں نے کہا کہ​
جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
یہی تو سوال ہے کہ جب قرآن عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے جمع کرلیا تھا اور ایسے مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا پھر عہد ابو بکر میں دوبارہ قرآن جمع کرنے کی حاجت کیوں پیش آئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے قرآن کا جو نسخہ جمع کیا گیا تھا وہ کہیں گم ہوگیا تھا لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا جمع کیا گیا قرآن کا نسخہ گم ہوگیا تھا اگر آپ کے علم میں ہو تو ارشاد فرمائیں شکریہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک فورم میں جب صحیحین (مسلم و بخاری) کو “دو انسانوں کی تصانیف” قرار دیتے ہوئے انہیں “غیر مستند” ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو میں نے حس ذیل نوٹ لکھا۔ مراسلہ اور جوابی مراسلہ پیش ہے۔ کیا میں درست وضاحت پیش کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔ اہل علم ضرور بتلائیں



آپ کے "اعتراض برائے اعتراض" کے صرف دو معنی ہیں
  1. آپ کا تعلق ان "فرقوں" سے ہے، جو "اجماع امت" پر اور قرآن کے بعد "صحیح بخاری اور صحیح مسلم" سمیت صحاح ستہ پر "ایمان" نہیں رکھتے بلکہ اجماع امت سے علیحدہ "مخصوص احادیث کے مجموعوں" پر یقین رکھتے ہیں
  2. یا پھر آپ علم حدیث کی الف بے سے واقف نہیں ہیں، جبھی آپ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو امام بخاری اور امام مسلم کی "لکھی ہوئی تصانیف" قرار دے رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی آج دنیا میں موجود "آن ریکارڈ" قرآن مجید کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کی "لکھی ہوئی" یا "پھیلائی ہوئی کتاب" قرار دے۔ کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں "مصحف عثمانی" ہی کی "نقول" موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا "لکھا ہوا قرآن مجید" تو کہیں بھی "موجود" نہین ہے۔ اور نہ ہی "آسمان سے اترا ہوا کوئی صحیفہ قرآن" کا کوئی "وجود" ہے۔
اگر پہلی بات درست ہے تو "لکم دینکم ولی دین" کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور آپ قرآن کے نزول و ترتیب کی تاریخ کے ساتھ ساتھ احادیث کی جمع و تدوین اور تالیف کی تاریخ سے بھی سرے سے ناواقف ہیں تو آپ کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ ان سے ضرور واقفیت حاصل کیجئے کہ یہ جاننا بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہے، تاکہ اس کا "قرآن و حدیث" پر درست ایمان قائم ہو۔ صحیح حدیث کے بغیر قرآن اور قرآن کے بغیر احادیث ۔۔۔ ان دونوں صورتوں میں اسلام "نامکمل" بلکہ "ناقص " رہتا ہے۔ اسلام "قرآن و حدیث" کے مجموعہ کا نام ہے، کسی ایک کا نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
امام بخاری کی تصانیف

امام بخاری کی تصانیف بیس سے زیادہ ہیں۔ چنانچہ ان تصانیف سے مشہور اور مقبول ترین کتاب الجامع الصحیح ہے۔
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=32197
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یعنی حضرت ابو بکر کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے جمع کرلیا تھا اور ایسے مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا ایسی لئے انھوں نے کہا کہ​
جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
یہی تو سوال ہے کہ جب قرآن عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے جمع کرلیا تھا اور ایسے مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا پھر عہد ابو بکر میں دوبارہ قرآن جمع کرنے کی حاجت کیوں پیش آئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے قرآن کا جو نسخہ جمع کیا گیا تھا وہ کہیں گم ہوگیا تھا لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا جمع کیا گیا قرآن کا نسخہ گم ہوگیا تھا اگر آپ کے علم میں ہو تو ارشاد فرمائیں شکریہ


ھو سکتا ہے کہ آپ کو یہاں سے جواب مل جا ے







۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
  1. قرآن مجید “تحریری صحیفہ” کی صورت میں نازل نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے زبانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، یاد کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر “تصدیق” کی کہ اللہ کا پیغام لفظ بہ لفظ درست صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوگیا ہے۔
  2. پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی قرآن مجید متعدد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو زبانی سنائی، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قرآن کو سن کر یاد کیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانی سنا کر اس بات کی “تصدیق” کرلی کہ انہوں نے قرآن مجید کو لفظ بہ لفظ درست یاد کرلیا ہے۔
  3. “حفظ قرآن” یہ سلسلہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہوتا ہوا، تسلسل کے ساتھ، بلا کسی تعطل کے آج تک کے حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتا چلا گیا۔ یہی “اصل قرآن مجید” ہے۔ جو “فرقے” دنیا میں “موجود” قرآن مجید کو مکمل اور درست نہیں مانتے بلکہ اصول کافی کے بیان کے مطابق اسے محض ایک تہائی قرآن مانتے اور سمجھتے ہیں، لیکن “تقیہ” پر عمل کرتے ہوئے، بوجوہ اس کا “اعلان” نہیں کرتے۔ اس بات کا سب سے بڑا “ثبوت” یہ ہے کہ ایسے فرقوں میں “حفاظ قرآن” نہیں پائے جاتے۔
  4. زبانی نازل شدہ قرآن کے تحریری صورت میں آنے کی “کہانی” الگ ہے۔ یہ ایک “متبادل طریقہ” اختیار کیا گیا، قرآن مجید کو محفوظ کرنے کے لئے۔ لیکن ہر “تحریر شدہ قرآن” یا اس کے کسی “جز” کو حفاظ کے سینوں میں محفوظ قرآن ہی سے “چیک” کیا گیا، جو اصل تھا اور ہے۔ لہٰذا “تحریری قرآنی نسخوں” کی روئیداد میں اگر کہیں کوئی “اختلاف” پایا بھی جاتا ہے تو اس کی کوئی “اہمیت” نہیں ہے۔
  5. “مختلف رسم الخط” میں لکھے گئے قرآن کی “تحریری ہیئت” میں بھی بڑا “فرق” تھا۔ اور اسی “فرق” کو ختم کرنے کے لئے صرف اور صرف “صحیفہ عثمانی” کو برقرار رکھا گیا اور باقی کو تلف کردیا گیا۔
  6. آج دنیا بھر میں انگریزی ایک “بین الاقوامی زبان” بنتی جارہی ہے۔ اس کی “مقبولیت” کا یہ عالم ہے کہ “اردو اور ہندی زبانوں” (جس کے “بولنے اور سمجھنے” والے افراد دو ارب کے لگ بھگ ہیں)، یہ بھی اپنی زبانوں کو انگریزی حروف میں بصورت “رومن اردو” اور “رومن” ہندی لکھنے لگے ہیں، بالخصوص الیکٹرانک کمیونی کیشن میں، کیونکہ انگریزی میڈیم میں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اردو اور ہندی اسپیکنگ نوجوانوں اور بچوں کو اردو یا ہندی رسم الخط سے اچھی واقفیت نہیں ہے، یا بالکل نہیں ہے۔ ایسے ہی بچوں کو قرآن مجید عربی رسم الخط میں “ریڈنگ” کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ چنانچہ اب عربی قرآن مجید کو “رومن عربی” میں بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔ انگریزی حروف میں لکھی گئی “رومن قرآن مجید” یورپ اور امریکہ کے دیسی مسلمانوں مین بہت “مقبول” ہے اور عین ممکن ہے کہ سو دو سو سال بعد وہاں عربی قرآن سے زیادہ رومن قرآن “پڑھا” جائے۔ اب ان دونوں کی تحریری ہیئت میں تو زمین آسمان کا فرق ہے اور رہے گا۔ لیکن رومن قرآن کو پڑھنے والا اپنی قرات کو کسی نہ کسی قاری سے تصدیق کرواکے ہی پڑھے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ “رومن قرآن” کو کوئی انگریزی دان، اپنے معمول کے انگریزی تلفظ کے ساتھ پڑھنے لگے۔ “اصل قرآن” عربی متن والا ہی ہوگا نہ کہ رومن والا۔
  7. اسی طرح آج بھی اصل قرآن وہی ہے جو زبانی سینہ بہ سینہ، حفاظ قرآن کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، نہ کہ تحریری ہیئت والا۔ ویسے بھی “تحریری قرآن مجید” میں کہیں نہ کہیں کتابت، کمپوزنگ اور پرنٹنگ کی غلطیوں والا نسخہ بھی مل سکتا ہے اور سنا ہے کہ بعض مقامات پر لوگوں نے جہاد وغیرہ سے متعلق آیات کے بغیر بھی قرآن مجید کے نسخے شائع کئے ہیں۔ ایک ایرانی ویب سائٹ پر “سورۃ علی” اور اس کا فارسی ترجمہ اس احقر نے خود دیکھا تھا۔ تاہم ایسے دانستہ یا نادانستہ “تحریفی نسخے” دنیا کے لاکھوں “حفاظ قرآن” ہر وقت مسترد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لہٰذا جب کبھی بھی “اصول کافی والا قرآن مجید” شائع ہوکر امت کے سامنے آیا تو اسے بھی اسی وقت مسترد کردیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
پس نوشت: علمائے کرام سے خصوصی درخواست ہے کہ اس تحریر میں اگر کوئی “خامی یا کمی” نظر آئے تو اس کی نشاندہی ضرور کریں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
  1. قرآن مجید “تحریری صحیفہ” کی صورت میں نازل نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے زبانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، یاد کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر “تصدیق” کی کہ اللہ کا پیغام لفظ بہ لفظ درست صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوگیا ہے۔
  2. پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی قرآن مجید متعدد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو زبانی سنائی، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قرآن کو سن کر یاد کیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانی سنا کر اس بات کی “تصدیق” کرلی کہ انہوں نے قرآن مجید کو لفظ بہ لفظ درست یاد کرلیا ہے۔
  3. “حفظ قرآن” یہ سلسلہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہوتا ہوا، تسلسل کے ساتھ، بلا کسی تعطل کے آج تک کے حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتا چلا گیا۔ یہی “اصل قرآن مجید” ہے۔ جو “فرقے” دنیا میں “موجود” قرآن مجید کو مکمل اور درست نہیں مانتے بلکہ اصول کافی کے بیان کے مطابق اسے محض ایک تہائی قرآن مانتے اور سمجھتے ہیں، لیکن “تقیہ” پر عمل کرتے ہوئے، بوجوہ اس کا “اعلان” نہیں کرتے۔ اس بات کا سب سے بڑا “ثبوت” یہ ہے کہ ایسے فرقوں میں “حفاظ قرآن” نہیں پائے جاتے۔
  4. زبانی نازل شدہ قرآن کے تحریری صورت میں آنے کی “کہانی” الگ ہے۔ یہ ایک “متبادل طریقہ” اختیار کیا گیا، قرآن مجید کو محفوظ کرنے کے لئے۔ لیکن ہر “تحریر شدہ قرآن” یا اس کے کسی “جز” کو حفاظ کے سینوں میں محفوظ قرآن ہی سے “چیک” کیا گیا، جو اصل تھا اور ہے۔ لہٰذا “تحریری قرآنی نسخوں” کی روئیداد میں اگر کہیں کوئی “اختلاف” پایا بھی جاتا ہے تو اس کی کوئی “اہمیت” نہیں ہے۔
  5. “مختلف رسم الخط” میں لکھے گئے قرآن کی “تحریری ہیئت” میں بھی بڑا “فرق” تھا۔ اور اسی “فرق” کو ختم کرنے کے لئے صرف اور صرف “صحیفہ عثمانی” کو برقرار رکھا گیا اور باقی کو تلف کردیا گیا۔
  6. آج دنیا بھر میں انگریزی ایک “بین الاقوامی زبان” بنتی جارہی ہے۔ اس کی “مقبولیت” کا یہ عالم ہے کہ “اردو اور ہندی زبانوں” (جس کے “بولنے اور سمجھنے” والے افراد دو ارب کے لگ بھگ ہیں)، یہ بھی اپنی زبانوں کو انگریزی حروف میں بصورت “رومن اردو” اور “رومن” ہندی لکھنے لگے ہیں، بالخصوص الیکٹرانک کمیونی کیشن میں، کیونکہ انگریزی میڈیم میں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اردو اور ہندی اسپیکنگ نوجوانوں اور بچوں کو اردو یا ہندی رسم الخط سے اچھی واقفیت نہیں ہے، یا بالکل نہیں ہے۔ ایسے ہی بچوں کو قرآن مجید عربی رسم الخط میں “ریڈنگ” کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ چنانچہ اب عربی قرآن مجید کو “رومن عربی” میں بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔ انگریزی حروف میں لکھی گئی “رومن قرآن مجید” یورپ اور امریکہ کے دیسی مسلمانوں مین بہت “مقبول” ہے اور عین ممکن ہے کہ سو دو سو سال بعد وہاں عربی قرآن سے زیادہ رومن قرآن “پڑھا” جائے۔ اب ان دونوں کی تحریری ہیئت میں تو زمین آسمان کا فرق ہے اور رہے گا۔ لیکن رومن قرآن کو پڑھنے والا اپنی قرات کو کسی نہ کسی قاری سے تصدیق کرواکے ہی پڑھے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ “رومن قرآن” کو کوئی انگریزی دان، اپنے معمول کے انگریزی تلفظ کے ساتھ پڑھنے لگے۔ “اصل قرآن” عربی متن والا ہی ہوگا نہ کہ رومن والا۔
  7. اسی طرح آج بھی اصل قرآن وہی ہے جو زبانی سینہ بہ سینہ، حفاظ قرآن کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، نہ کہ تحریری ہیئت والا۔ ویسے بھی “تحریری قرآن مجید” میں کہیں نہ کہیں کتابت، کمپوزنگ اور پرنٹنگ کی غلطیوں والا نسخہ بھی مل سکتا ہے اور سنا ہے کہ بعض مقامات پر لوگوں نے جہاد وغیرہ سے متعلق آیات کے بغیر بھی قرآن مجید کے نسخے شائع کئے ہیں۔ ایک ایرانی ویب سائٹ پر “سورۃ علی” اور اس کا فارسی ترجمہ اس احقر نے خود دیکھا تھا۔ تاہم ایسے دانستہ یا نادانستہ “تحریفی نسخے” دنیا کے لاکھوں “حفاظ قرآن” ہر وقت مسترد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لہٰذا جب کبھی بھی “اصول کافی والا قرآن مجید” شائع ہوکر امت کے سامنے آیا تو اسے بھی اسی وقت مسترد کردیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
پس نوشت: علمائے کرام سے خصوصی درخواست ہے کہ اس تحریر میں اگر کوئی “خامی یا کمی” نظر آئے تو اس کی نشاندہی ضرور کریں۔
اللہم اہدنا لما اختلف فیہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
زبانی نازل شدہ قرآن کے تحریری صورت میں آنے کی “کہانی” الگ ہے۔ یہ ایک “متبادل طریقہ” اختیار کیا گیا، قرآن مجید کو محفوظ کرنے کے لئے۔ لیکن ہر “تحریر شدہ قرآن” یا اس کے کسی “جز” کو حفاظ کے سینوں میں محفوظ قرآن ہی سے “چیک” کیا گیا، جو اصل تھا اور ہے۔ لہٰذا “تحریری قرآنی نسخوں” کی روئیداد میں اگر کہیں کوئی “اختلاف” پایا بھی جاتا ہے تو اس کی کوئی “اہمیت” نہیں ہے۔
باقی مکمل تحریر بہت مناسب ہے ، مذکورہ بالا اقتباس ذرا کھٹک رہا ہے ، استاد محترم @انس نضر صاحب اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ مل کر رسم قرآن کے حوالے ایک عرصہ سے تحقیقی کام میں مشغول ہیں ، میری گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔
 
Top