Muhammad Waqas
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 12، 2011
- پیغامات
- 356
- ری ایکشن اسکور
- 1,597
- پوائنٹ
- 139
کسی آیت قرآن کے بطور قرآن ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے اور کسی حدیث کے بطور حدیث ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے۔ اسی طرح ائمہ کی طرف منسوب اقوال کو بھی اصول حدیث کے کامل معیار پر پرکھا جائے گا تو یہ میرے خیال میں سلف صالحین یا محدثین عظام سے ثابت نہیں ہے۔ ورنہ تو تاریخ میں کچح باقی ہی نہ رہے گا بلکہ اسلامی تاریخ کی کتابوں کو دریا برد کر دینا چاہیے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے تاریخ کے نام پر ہر رطب ویابس کو جمع کر لیا جائے۔ میرے خیال میں تاریخ،سیرت اور حدیث الگ الگ فن اور میدان ہیں اور ان کی تحقیق کے اصول اور معیارات بھی الگ الگ ہیں۔ ایک فن کے معیار تحقیق کی روشنی میں دوسرے فن کی روایات کو ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
تاریخ میں ائمہ کی تعریفات میں بھی مبالغہ ہوا ہے۔
١۔ کسی امام کے مناقب میں منقول اقوال کی اگر سند ہی موجود نہ ہو تواس صورت میں تو اس قول کی نسبت مشکوک ہے۔
٢۔ یا اگر کسی امام کی طرف منسوب قول میں کوئی کذاب راوی ہو تو ایسی صورت میں اس قول کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
٣۔ یا اگر سند موجود ہے اور درمیان میں انقطاع ہے تو پھر بھی روایت میں دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ اور کثرت اسناد سے یہ روایت قوی ہو جاتی ہے۔
٤۔ لیکن اگر سند موجود ہے اور ایک راوی کے حالات آپ کو معلوم نہیں ہیں تو صرف حالات نامعلوم ہونے کی وجہ سے میرے خیال میں اس روایت کو ضعیف قرار صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں محدثین عظام جیسا سخت معیار مقرر کیا جائے بلکہ یہ تاریخ کا مسئلہ ہے اور تاریخ ایسے ہی نقل ہوتی ہے۔ یعنی دین کے منتقل ہونے میں اس کے ماننے والے جس اہتمام کا لحاظ کرتے ہیں وہ تاریخ کے منتقل ہونے میں اس اہتمام کا لحاظ نہیں کرتے ہیں لہذا اس تاریخ میں اس اہتمام کو تلاش کرنا اس فن ہی کو پھینک دینے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
٥۔ اس میں اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ کسی مصنف نے وہ واقعہ بیان کیا ہے اور اس کا اس امام سے زمانہ کس قدر قریب ہے کیونکہ قریبی زمانہ میں عموما زیادہ جھوٹ پھیلنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
٦۔ اس طرح ان روایات کو متن کے اعتبار سے بھی پرکھا جائے مثلا اس میں کوئی مافوق الفطرت مبالغہ آرائی نہ ہو یا اس میں کوئی ایسی مدح نہ ہو جس کا امکان اس امام سے مشکل ہو یا وہ مدح وذم عقل عام کے خلاف ہو وغیرہ ذلک۔
میں یہ سوچتا ہوں کی فن سیرت اور فن تاریخ کی تحقیق کے اصول وضوابط پر مفصل روشنی ڈالی جائے اور انہیں اصول حدیث کی طرح مرتب کیا جائے جیسا کہ قراء نے قرآن کے ثبوت کے اصول مقرر کیے اور وضع کیے اور مرتب کیے اور اصول حدیث سے مختلف ہیں۔ اور اگر قرآن کے ثبوت کے اصول وضوابط پر احادیث کو پرکھا جائے گا تو شاید احادیث کے ذخیرہ میں چند احادیث ہی اس معیار پر پورا اتریں گی۔
جو باتیں ابو الحسن علوی بھائی اور انس نضر بھائی نے ذکر کی ہیں ،اس حوالہ سےابو الاسجد محمد صدیق رضا صاحب نے اپنی اس کتاب میں معروضات مترجم کے عنوان کے تحت کچھ دلائل ذکر کئے ہیں۔جس شے کی دین کی جتنی اہمیت ہو، اس کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہوگا، قرآن وسنت شریعت کی بنیاد ہیں، لہٰذا ان کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہے، اگرچہ دونوں کے ثبوت کیلئے معیار فرق ہے۔
اسی طرح صحابہ کرام کے اقوال (ذاتی اجتہاد یا اسرائیلیات کے علاوہ) مرفوع حکمی کا درجہ رکھتے ہیں ان کے ثبوت کا معیار بھی حدیث والا ہی ہے۔
جہاں تک صحابہ کرام کے اجتہادات اور اسرائیلیات سے ماخوذ اقوال وغیرہ کا تعلق ہے تو اگرچہ ان کی حیثیت حدیث مرفوع کی نہیں ہے لیکن پھر بھی دین میں ان کی اہمیت مسلمہ ہے، لہٰذا ان کے ثبوت کا معیار بہت کافی سخت ہوگا، البتہ حدیث کے معیار تحقیق سے کچھ فروتر ہی ہوگا۔
یہی معاملہ بعد کے سلف صالحین کے اقوال کا ہے۔
جہاں تک امام بخاری کے واقعے کا تعلق ہے تو اس سے نہ تو دین میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ کمی، البتہ امام بخاری کے قوتِ حافظہ کا علم ہوتا ہے، جو دیگر بکثرت دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس واقعے کے ثبوت کیلئے حدیث کے ثبوت والے معیارات مقرر کر لینا مناسب نہیں۔ اس طرح تو کوئی واقعہ ثابت ہی نہ ہو پائے گا۔
اگر ان واقعات کیلئے حدیث والے معیار ہی رکھنے ہیں تب پھر آج دُنیا میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کی تحقیق کا معیار بھی وہی ہونا چاہئے جو آج کسی صورت پورا ہو ہی نہیں سکتا، آج ہمیں کہاں ائمہ ابو زرعہ، دارمی، بخاری اور مسلم جیسے ثقہ اور حفاظِ دُنیا ملیں گے؟؟!!
واللہ تعالیٰ اعلم!
طرفین کا مؤقف سمجھنے میں کافی مفید ثابت ہوں گے ان شاءاللہ۔