وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
امام بخاری نے ابواب میں اور تبصروں میں اس صیغہ کو استعمال کیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے دور میں یہ صیغہ صرف ضعیف کے لئے نہیں بولا جاتا تھا جیسا کہ متاخرین النووی وغیرہ کا قول ہے
بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں
والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح
اور حق یہ ہے کہ یہ صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استعمال ہوتا ہے
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع
باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے
اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے
امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى
باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها
لیکن یہ روایت صحیح ہی میں ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے بیان بھی ہے
فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا
قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .
اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے
اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا
باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے
یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے
ان امثال سے ظاہر ہے کہ امام بخاری صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استعمال کرتے تھے
امام بخاری جب صيغة تمريض استعمال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا
امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 ) کہا
ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح
اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں
صحیح میں امام بخاری نے کہا
ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح
ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں
یہاں امام بخاری نے صيغة تمريض استعمال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے
النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق
قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ
قول اس صیغہ کا استعمال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استعمال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے یذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے
کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق
كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه
اسی طرح نزاع کیا ہے مغلطاي نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استعمال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے
یعنی امام بخاری تو صیغہ جزم تک سے ضعیف روایت بیان کرتے تھے جس کے لئے النووی اور سیوطی کا دعوی ہے کہ یہ صرف صحیح روایت پر استعمال ہوتا ہے-
حوالہ
بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں
والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح
اور حق یہ ہے کہ یہ صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استعمال ہوتا ہے
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع
باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے
اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے
امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى
باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها
لیکن یہ روایت صحیح ہی میں ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے بیان بھی ہے
فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا
قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .
اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے
اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا
باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے
یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے
ان امثال سے ظاہر ہے کہ امام بخاری صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استعمال کرتے تھے
امام بخاری جب صيغة تمريض استعمال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا
امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 ) کہا
ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح
اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں
صحیح میں امام بخاری نے کہا
ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح
ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں
یہاں امام بخاری نے صيغة تمريض استعمال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے
النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق
قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ
قول اس صیغہ کا استعمال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استعمال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے یذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے
کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق
كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه
اسی طرح نزاع کیا ہے مغلطاي نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استعمال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے
یعنی امام بخاری تو صیغہ جزم تک سے ضعیف روایت بیان کرتے تھے جس کے لئے النووی اور سیوطی کا دعوی ہے کہ یہ صرف صحیح روایت پر استعمال ہوتا ہے-
حوالہ