یاسر اسعد
رکن
- شمولیت
- اپریل 24، 2014
- پیغامات
- 158
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 77
--حسن خاتمہ--
امام بخاری
امام بخاری کے علمی کمالات وخصوصیات محتاج تعارف نہیں ہیں، بہت سی زبانوں میں ان کے حالات وخدمات پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، یہاں پر ان کی زندگی کے آخری ایام وحالات اور حسن خاتمہ کا مختصر ذکر مقصود ہے، جو اس حقیر رسالہ کا ذیلی موضوع ہے۔
حسن خاتمہ کے بیان میں اب تک جن برگزیدہ اہل اللہ اور اصحاب علم وفضل کے جو حالات ذکر کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کو من جانب اللہ دنیاوی مصائب وآلام کی آزمائش سے گذرنا ناگزیر ہوتا ہے، ان کے اسلام، ایمان اور حق پر ثابت قدمی کا امتحان لیا جاتا ہے، پس امام بخاری اس سے کیسے مستثنیٰ رہ پاتے۔
امام بخاری کے امتحان وآزمائش کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ جب امام بخاری کے درس حدیث کی شہرت ومقبولیت ہر چار جانب پھیلتی گئی، یہاں تک کہ بقول امام ابو حاتم ’’شہر بغدادمیں امام بخاری کا حلقۂ درس تقریباً چالیس ہزار حاضرین پر مشتمل تھا، شہر بخارا کا گورنر ’’خالد بن احمد ذہلی‘‘ نے یہ غیر معمولی شہرت دیکھ کر قاصد کے ذریعہ امام بخاری سے درخواست کی کہ شاہی محل میں تشریف لاکر مجھے اور شاہ زادوں کو صحیح بخاری اور تاریخ کا درس دیں، لیکن امام صاحب نے انکار کرتے ہوئے قاصد سے کہا ’’میں علم کو شاہی دربار میں لے جاکر ذلیل نہیں کروں گا، یہ تو سراسر علم کی بے قدری ہے‘‘اس جواب کے بعد خالد ذہلی نے دوبارہ امام صاحب سے درخواست کی کہ اگر آپ شاہی محل میں آنا پسند نہیں کرتے تو شاہ زادوں کے لیے درس کا ایک خاص وقت مقرر کردیں جس میں اور لوگ شریک نہ ہوں‘‘ اس پر امام بخاری نے فرمایا: علم نبی ﷺ کی میراث ہے، اس میں ہر خاص وعام کا حق برابر ہے ، اگر تمہیں علم کا شوق ہے تو میری درس گاہ یا مسجد میں آکر مستفید ہو، اگر یہ طریقۂ تعلیم تمہیں ناپسند ہو تو تم حاکم ہو، مجھے درس سے روک دو، تاکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے دربار میں مجھے عذر ہو کہ میں نے کتمان علم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔
یہ جواب سن کر حاکم بخارا سخت غضب ناک ہوا، اور امام صاحب کو شہر بدر کرنے کے چکر میں پڑ گیا، لیکن ان کی مقبولیت ومحبوبیت تمام مسلمانوں کے دلوں میں اس قدر جمی ہوئی تھی کہ وہ بزور حکومت بھی کچھ نہیں کرسکا، مایوس ہوکر اس نے یہ تدبیر کی کہ امام صاحب کے بعض حاسدین ومعاندین نامور فقہاء کو اس بات پر آمادہ کیا کہ امام صاحب پر ایسا الزام عائد کیا جائے جس سے تمام مسلمان ان سے بددل ہوکر نفرت کرنے لگیں۔
ان فقہاء نے امام صاحب کے علمی فضائل وکمالات اور ان کی مقبولیت عامہ کی شان وشوکت کو پامال کرنے کے لیے ان پر یہ تہمت لگائی کہ ’’وہ قرآنی الفاظ کو مخلوق کہتے ہیں‘‘ اس گھڑنت تہمت کو اس قدر شہرت دی گئی کہ شہر میں ایک طوفان برپا ہوگیا، اور امام صاحب کو شہر بدر ہونے کا شاہی حکم دیا گیا، اس کے بموجب امام صاحب نے شہر بخارا سے نکلتے وقت اللہ سے فریاد کی:
’’اللھم أرھم ما قصدوني بہ في أنفسھم وأولادھم وأھالیھم‘‘
(اے اللہ! جس چیز کا مجھ پر ان لوگوں نے ارادہ کیا ہے تو وہی چیز ان کی ذات اور اہل وعیال میں دکھا)
اس کے چند دن کے بعد ہی اس دعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ مرکزی حکومت خراسان کے حکمرانوں کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ ’’حاکم بخارا خالد بن احمد ذہلی‘‘ کو گدھے پر تکلیف دہ پالان رکھ کر بیٹھایا جائے ،اور شہر میں گھمایا جائے‘‘ اس ذلت ورسوائی کے بعد اس کو جیل خانہ میں ڈال دیا گیا، اوراسی میں اس کی موت ہوئی۔
اسی طرح اس کے تمام شریک کار مفسدین میں سے ہر ایک کسی نہ کسی آفت ومصیبت میں مبتلا ہوا، کسی کو اپنی جان میں اور کسی کو اپنی اولاد میں روز بد دیکھنا پڑا، ان مفسدین کا سرغنہ ’’حریث بن ورقاء‘‘ جو مشہور فقہاء حنفیہ میں شمار کیا جاتا تھا، اس کو اپنے گھر والوں میں ناقابل بیان ذلت اٹھانی پڑی۔
شاہی حکم سے امام بخاری شہر ’’بخارا‘‘ چھوڑ کر ’’بیکند‘‘ نامی بستی میں پہنچے، چونکہ معاندین ومفسدین نے مذکورہ تہمت کی تشہیر اور پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، اس تہمت کی خبر ’’بیکند‘‘ میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی، وہاں کے لوگ دو فریق ہوگئے تھے، ایک فریق امام بخاری کو اس الزام سے بری سمجھتا تھا، دوسرا مفسدین کا ہم نوا تھا، اس اختلاف کی وجہ سے امام بخاری نے ’’بیکند‘‘ میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا، اور ’’سمر قند‘‘ کی جانب روانہ ہوگئے، اور ’’سمر قند‘‘ کے قریب موضع ’’خرتنک‘‘ میں اپنے ایک رشتہ دار ’’غالب بن جبریل‘‘ کے مکان پر فروکش ہوئے۔
عبد القدوس بن عبد الجبار سمرقندی کا بیان ہے کہ ایک رات میں نے امام صاحب کو نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے سنا ’’اللھم قد ضاقت علي الأرض بما رحبت فاقبضي‘‘ (اے اللہ ! تیری زمین کشادہ ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے، مجھے اپنے پاس بلا لے) یہ دعاء قبول ہوئی، ابھی ایک مہینہ بھی گذر نہیں پایا تھا کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
خرتنک کے ’’غالب بن جبریل‘‘ جن کے یہاں امام بخاری مقیم تھے، کہتے ہیں کہ ’’امام صاحب چند روز تک صحیح وسلامت رہے، پھر بیمار ہوگئے، اسی اثناء میں اہل سمرقند کے اصرار پر جب سمر قند جانے کے لیے تیار ہوئے تو یہ خبر معلوم ہوئی کہ بخارا کا فتنہ سمر قند بھی پہنچ گیا ہے، اور وہاں بھی لوگ دو گروہ ہوگئے ہیں، ایک موافق، دوسرا مخالف، اسی کش مکش کی صورت حال سے آزردہ خاطر ہوکر امام صاحب نے دعاء فرمائی ’’اے اللہ! تیری زمین کشادہ ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے، تو مجھ کو اپنے پاس بلالے‘‘ اس کے بعد لیٹ گئے، روح پرواز کرگئی، جسم سے پسینہ جاری ہوا جو غسل دیئے جانے اور کفنانے تک قائم رہا۔
دفن کے بعد قبر سے تیز خوشبو
امام بخاری رحمہ اللہ کے مدفون ہونے کے بعد ان کی قبر سے ایسی عمدہ تیز خوشبو پھیلی جسے مؤرخین نے مشک وغیرہ سے تشبیہ دیا ہے، اس بہترین خوشبو کی ہمہ گیریت کا حال یہ بیان کیا ہے کہ دور دراز مقامات سے لوگ اس خبر کی تصدیق کے لیے آتے اور قبر کی مٹی اپنے ساتھ لے جاتے، بستی والوں کو خوف ہوا کہ قبر کی مٹی باقی نہیں رہ سکتی، مجبور ہوکر قبر گھیر دی گئی، اور مٹی کی حفاظت کی گئی۔
(مذکورہ احوال کی تفصیل مقدمۃ الفتح: ۴۹۳ وغیرہ میں ملاحظہ ہو۔)