عدیل سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 21، 2014
- پیغامات
- 1,717
- ری ایکشن اسکور
- 430
- پوائنٹ
- 197
[الإلزامات والتتبع]
امام دراقطنیؒ فرماتے ہیں:
بخاریؒ و مسلمؒ نے کسی تابعی کی حدیث کو ذکر کیا ہے اور اسی کی دوسری حدیث کو، جو مذکورہ حدیث کے مشابہ ہے، چھوڑ بھی دیا ہے اور اسے درج نہیں کیا، یا بخاری و مسلم کی احادیث کے مشابہ دیگر ثقہ تابعین سے کوئی حدیث مروی ہے، جسے بخاریؒ و مسلمؒ کو اپنی شرط اور مذہب کے مطابق ہونے کی بنا پر اپنی کتب میں درج کرنا لازم تھا، ہم انھیں حدیث کو ذکر کریں گے۔
[الإلزامات والتتبع ص ۶۴]
امام دارقطنیؒ کے نزدیک امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کو اپنی شرائط کے مطابق ہر صحیح حدیث کو اپنے مجموعات میں لازما ذکرنا چاہیے تھا، امام دارقطنیؒ کی کتاب "الإلزامات" کا صحیحین کی احادیث کی صحت و ثبوت سے کوئی تعلق ہے نہ اس کتاب میں صحیح بخاری و مسلم میں مندرجہ احادیث ہی محل بحث ہے۔
[الإلزامات]
اس میں امام دارقطنیؒ نے وہ احادیث ذکر کی ہیں، جو شیخین کی شرط پر ہیں، لہذا بقول امام دارقطنیؒ، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کو انہیں اپنی کتاب میں لازما ذکر کرنا چاہیے تھا، کیونکہ وہ ان کی شرائط پر پوری اترتی ہیں۔
امام دارقطنیؒ نے اپنی کتاب "الإلزامات" میں دو قسم کی احادیث ذکر کی ہیں:
۱) امام بخاریؒ اور اما مسلمؒ نے کسی ایک تابعی کی کوئی ایک حدیث اپنی کتاب میں درج کی اور اس کی دیگر احادیث بوجوہ اپنی کتاب میں نہیں لکھیں، تو ا ب امام دارقطنیؒ کے نزدیک چونکہ شیخین نے اس کی ایک حدیث کو معتبر سمجھا اور اس کی ثقاہت پر اعتماد کیا ہے ، لہذا انھیں اس تابعی کی دیگر احادیث کو بھی اپنی کتب میں درج کرنا لازم تھا۔
۲) امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے کسی ثقہ تابعی سے روایت لی، لیکن ثقاہت و عدالت میں اس کے مساوی کسی دوسرے تابعی س روایت نہ لی، تو امام دارقطنیؒ کے نزدیک چونکہ وہ دوسرا تابعی بھی ثقہ اور شیخین کی شرط کے مطابق ہے، لہذا اس کی حدیث بھی امام بخاریؒ و مسلمؒ کو اپنی اپنی صحیح میں ذکر کرنا لازم تھا۔
امام دارقطنیؒ کے کلام کے جواب میں اتنی وضاحت ہی کافی ہےکہ امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے تمام صحیح احادیث کو درج کرنے کا التزام نہیں کیا اور نہ ان کا یہ منہج تھا کہ ہر صحیح حدیث اپنی کتب میں شامل کریں، جیسا کے اصول حدیث کی بیشتر کتب میں اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ خود امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے اقوال بالتصریح اس کی بابت موجود ہیں کہ ہم نے کئی صحیح احادیث کو طوالت و تکرار کے خوف سے چھوڑ دیا ہے۔
علامہ الکتانیؒ فرماتے ہیں:
کتاب "الإلزامات" میں انھوں نے ایسی روایات کو جمع کیا ہے جو صحیح بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں لیکن صحیحین میں وہ مذکور نہیں۔
[الرسالة المستطرفة ص ٢١]
ان حادیث کی تعداد ستر ۷۰ ہے لیکن یہ الزامات و استدراکات اس لیے محل غور نہیں کہ شیخین نے تمام صحیح احادیث کا استیعاب نہیں کیا۔
[التتبع]
اس حصے میں امام دارقطنیؒ نے صحیحین میں موجود بعض احادیث پر نقد کیا ہے لیکن، اس نقد سے نفس حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، "التتبع" میں ان کا اسلوب یوں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس میں ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جن میں فی الجملہ کوئی علت ہوتی ہے لیکن ضرور ی نہیں کہ وہ علت قادحہ بھی ہو، امام دارقطنیؒ کے اکثر اعتراضات فنی نقطہ نظر سے احادیث کی اسانید پر ہیں، اگر مذکورہ کتاب کی جانچ پڑتا ل کی جائے تو متون صحیحین پر اعتراضات کی تعداد دس سے بھی کم تعداد میں نظر آئے گی، اسی لیے امام دارقطنیؒ بسا اوقات سند حدیث پر کلام کرنے کے بعد واشگاف الفاظ میں متن حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں جو بلاشبہ ان کے عدل و انصاف اور ورع پر دلالت کرتا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
ان اعتراضات سے صحیح بخاری کے اصل موضوع و مقصود پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے نہ ان کی منتقد احادیث پر، کیونکہ ان کی دوسری اسانید موجود ہیں، جو اعتراضات سے مبرا ہیں۔
[ھدی الساری ص ۳۵۶]
حافظ خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒو مسلمؒ نے جن لوگوں سے اپنی کتابوں میں بطور استدلال روایتیں لی ہیں اگر ان میں سے کسی پر دوسروں نے جرح کی ہے تو وہ "جرح مبہم اور غیر موثر" ہے۔
[قواعد التحدیث ص ۱۹۰]
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
جب انصاف پسند شخص میرے تحریر کردہ جوابات پر تامل کرے گا، تو امام بخاریؒ اور صحیح بخاری کی عظمت و جلالت اس کی نظر میں اور زیادہ بڑھ جائے گی اور وہ صحیح بخاری کی بابت علمائے امت کا تلقی بالقبول اور اسے تمام کتب پر ترجیح دینا درست طور پر سمجھ لے گا۔
[ھدی الساری ۵۴۷]
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
امام دارقطنیؒ کی منجملہ بہت سی تصانیف کے ایک الاستدراک علی الصحیحین ہے، لیکن یہ استدراک بعض محدثین کے ان قواعد پر مبنی ہے جو بہت کمزور اور جمہور اہل اصول کے مخالف ہیں، پس تم اس سے دھوکا نہ کھانا۔
[التعليق المغني ۱۔۷]
امام دار قطنیؒ کی کتاب "الإلزامات والتتبع" علامہ مقبل ہادیؒ کی تحقیق سے مطبوع ہے جس میں انھوں نے تمام انقتادات کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے، حافظ ابن حجرؒ کے علاوہ امام نوویؒ ، قاضی عیاض اور دیگر شارحین حدیث نے امام دارقطنیؒ کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب لکھا ہے، امام دارقطنیؒ کے شاگرد ابو مسعود دمشقی نے بھی اپنے استاد کے رد میں ایک رسالہ تحریر کیا۔
علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:
امام دارقطنیؒ نے سو ۱۰۰ سے زائد احادیث پر تعاقب کیا ہے ، مگر بجز ایک کے سب کا تعلق اسناد سے ہے وہ حدیث یہ ہے (اذا جاء احدکم والامام یخطب) اس کی وجہ یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ محدثین کے قواعد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلام کرتے ہیں، مگر بخاریؒ کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ اپنی بصیرت و اجتہاد کو دلیل راہ بناتے ہیں، قواعد تو عوام کی خاطر غیر محدود کو محدود کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور بخاریؒ و مسلمؒ کا مرتبہ ان سے کہیں اونچا ہے، اگرچہ دونوں میں بھی تھوڑا سا اختلاف ہے۔
[مقدمة فیض الباری ص ٧٥]
دراسات البیب میں ہے :
جن لوگوں نے بخاری پر جرح کی ہے، محدثین نے ان کے ایسے جوابات دیے ہیں کہ ان کو اڑتا ہوا پراگندہ غبار کے مانند کردیا ہے۔
[دراسات البیب ص ۲۷۶]
حافظ ابن حجرؒ امام نوویؒ سے ناقل ہیں کہ فرمایا:
امام دارقطنیؒ نے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی احادیث پر استدراک کیا ہے اور ان میں سے بعض احادیث پر طعن کیا ہے لیکن یہ طعن بعض محدثین کے انتہائی "ضعیف قواعد" پر مبنی ہے، بلکہ جمہور فقہاء اور علمائے اصول وغیرہم کے متفقہ "اصول کے خلاف" بھی ہے، لہذا ناقابل قبول ہے۔
[ھدی الساری ص ۳۴۶]
علامہ عینی حنفیؒ لکھتے ہیں:
بعض متقدمین نے صحیح بخاری کے رواة کی ایک جماعت پرجرح کی ہے، وہ جرح "امام بخاریؒ کی شرط کے مخالف" ہے، اس لیے کہ جمہور کے نزدیک جرح اس وقت ثابت ہوتی ہے کہ وہ مفسر ہو اور اس کے کل اسباب بیان کردیے گئے ہوں۔
[عمدة القاری ۱۔۸]
امام داقطنیؒ اور وہ علماء جنہوں نے صحیحین پر تنقید کی ہے ان کا مرتبہ معرفت علل وغیرہ میں شیخین کے بمقابلہ انتہائی پست ہے، مزید یہ کہ ایسے علماء کی تعداد بھی احادیث صحیحین کی صحت پر مجمعین کی تعداد کی بہ نسبت بہت قلیل ہے اور یہ مخالفت جمہوراصولین کے نزدیک لائق قدح نہیں ہے۔
امام دراقطنیؒ فرماتے ہیں:
بخاریؒ و مسلمؒ نے کسی تابعی کی حدیث کو ذکر کیا ہے اور اسی کی دوسری حدیث کو، جو مذکورہ حدیث کے مشابہ ہے، چھوڑ بھی دیا ہے اور اسے درج نہیں کیا، یا بخاری و مسلم کی احادیث کے مشابہ دیگر ثقہ تابعین سے کوئی حدیث مروی ہے، جسے بخاریؒ و مسلمؒ کو اپنی شرط اور مذہب کے مطابق ہونے کی بنا پر اپنی کتب میں درج کرنا لازم تھا، ہم انھیں حدیث کو ذکر کریں گے۔
[الإلزامات والتتبع ص ۶۴]
امام دارقطنیؒ کے نزدیک امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کو اپنی شرائط کے مطابق ہر صحیح حدیث کو اپنے مجموعات میں لازما ذکرنا چاہیے تھا، امام دارقطنیؒ کی کتاب "الإلزامات" کا صحیحین کی احادیث کی صحت و ثبوت سے کوئی تعلق ہے نہ اس کتاب میں صحیح بخاری و مسلم میں مندرجہ احادیث ہی محل بحث ہے۔
[الإلزامات]
اس میں امام دارقطنیؒ نے وہ احادیث ذکر کی ہیں، جو شیخین کی شرط پر ہیں، لہذا بقول امام دارقطنیؒ، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کو انہیں اپنی کتاب میں لازما ذکر کرنا چاہیے تھا، کیونکہ وہ ان کی شرائط پر پوری اترتی ہیں۔
امام دارقطنیؒ نے اپنی کتاب "الإلزامات" میں دو قسم کی احادیث ذکر کی ہیں:
۱) امام بخاریؒ اور اما مسلمؒ نے کسی ایک تابعی کی کوئی ایک حدیث اپنی کتاب میں درج کی اور اس کی دیگر احادیث بوجوہ اپنی کتاب میں نہیں لکھیں، تو ا ب امام دارقطنیؒ کے نزدیک چونکہ شیخین نے اس کی ایک حدیث کو معتبر سمجھا اور اس کی ثقاہت پر اعتماد کیا ہے ، لہذا انھیں اس تابعی کی دیگر احادیث کو بھی اپنی کتب میں درج کرنا لازم تھا۔
۲) امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے کسی ثقہ تابعی سے روایت لی، لیکن ثقاہت و عدالت میں اس کے مساوی کسی دوسرے تابعی س روایت نہ لی، تو امام دارقطنیؒ کے نزدیک چونکہ وہ دوسرا تابعی بھی ثقہ اور شیخین کی شرط کے مطابق ہے، لہذا اس کی حدیث بھی امام بخاریؒ و مسلمؒ کو اپنی اپنی صحیح میں ذکر کرنا لازم تھا۔
امام دارقطنیؒ کے کلام کے جواب میں اتنی وضاحت ہی کافی ہےکہ امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے تمام صحیح احادیث کو درج کرنے کا التزام نہیں کیا اور نہ ان کا یہ منہج تھا کہ ہر صحیح حدیث اپنی کتب میں شامل کریں، جیسا کے اصول حدیث کی بیشتر کتب میں اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ خود امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے اقوال بالتصریح اس کی بابت موجود ہیں کہ ہم نے کئی صحیح احادیث کو طوالت و تکرار کے خوف سے چھوڑ دیا ہے۔
علامہ الکتانیؒ فرماتے ہیں:
کتاب "الإلزامات" میں انھوں نے ایسی روایات کو جمع کیا ہے جو صحیح بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں لیکن صحیحین میں وہ مذکور نہیں۔
[الرسالة المستطرفة ص ٢١]
ان حادیث کی تعداد ستر ۷۰ ہے لیکن یہ الزامات و استدراکات اس لیے محل غور نہیں کہ شیخین نے تمام صحیح احادیث کا استیعاب نہیں کیا۔
[التتبع]
اس حصے میں امام دارقطنیؒ نے صحیحین میں موجود بعض احادیث پر نقد کیا ہے لیکن، اس نقد سے نفس حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، "التتبع" میں ان کا اسلوب یوں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس میں ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جن میں فی الجملہ کوئی علت ہوتی ہے لیکن ضرور ی نہیں کہ وہ علت قادحہ بھی ہو، امام دارقطنیؒ کے اکثر اعتراضات فنی نقطہ نظر سے احادیث کی اسانید پر ہیں، اگر مذکورہ کتاب کی جانچ پڑتا ل کی جائے تو متون صحیحین پر اعتراضات کی تعداد دس سے بھی کم تعداد میں نظر آئے گی، اسی لیے امام دارقطنیؒ بسا اوقات سند حدیث پر کلام کرنے کے بعد واشگاف الفاظ میں متن حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں جو بلاشبہ ان کے عدل و انصاف اور ورع پر دلالت کرتا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
ان اعتراضات سے صحیح بخاری کے اصل موضوع و مقصود پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے نہ ان کی منتقد احادیث پر، کیونکہ ان کی دوسری اسانید موجود ہیں، جو اعتراضات سے مبرا ہیں۔
[ھدی الساری ص ۳۵۶]
حافظ خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒو مسلمؒ نے جن لوگوں سے اپنی کتابوں میں بطور استدلال روایتیں لی ہیں اگر ان میں سے کسی پر دوسروں نے جرح کی ہے تو وہ "جرح مبہم اور غیر موثر" ہے۔
[قواعد التحدیث ص ۱۹۰]
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
جب انصاف پسند شخص میرے تحریر کردہ جوابات پر تامل کرے گا، تو امام بخاریؒ اور صحیح بخاری کی عظمت و جلالت اس کی نظر میں اور زیادہ بڑھ جائے گی اور وہ صحیح بخاری کی بابت علمائے امت کا تلقی بالقبول اور اسے تمام کتب پر ترجیح دینا درست طور پر سمجھ لے گا۔
[ھدی الساری ۵۴۷]
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
امام دارقطنیؒ کی منجملہ بہت سی تصانیف کے ایک الاستدراک علی الصحیحین ہے، لیکن یہ استدراک بعض محدثین کے ان قواعد پر مبنی ہے جو بہت کمزور اور جمہور اہل اصول کے مخالف ہیں، پس تم اس سے دھوکا نہ کھانا۔
[التعليق المغني ۱۔۷]
امام دار قطنیؒ کی کتاب "الإلزامات والتتبع" علامہ مقبل ہادیؒ کی تحقیق سے مطبوع ہے جس میں انھوں نے تمام انقتادات کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے، حافظ ابن حجرؒ کے علاوہ امام نوویؒ ، قاضی عیاض اور دیگر شارحین حدیث نے امام دارقطنیؒ کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب لکھا ہے، امام دارقطنیؒ کے شاگرد ابو مسعود دمشقی نے بھی اپنے استاد کے رد میں ایک رسالہ تحریر کیا۔
علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:
امام دارقطنیؒ نے سو ۱۰۰ سے زائد احادیث پر تعاقب کیا ہے ، مگر بجز ایک کے سب کا تعلق اسناد سے ہے وہ حدیث یہ ہے (اذا جاء احدکم والامام یخطب) اس کی وجہ یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ محدثین کے قواعد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلام کرتے ہیں، مگر بخاریؒ کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ اپنی بصیرت و اجتہاد کو دلیل راہ بناتے ہیں، قواعد تو عوام کی خاطر غیر محدود کو محدود کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور بخاریؒ و مسلمؒ کا مرتبہ ان سے کہیں اونچا ہے، اگرچہ دونوں میں بھی تھوڑا سا اختلاف ہے۔
[مقدمة فیض الباری ص ٧٥]
دراسات البیب میں ہے :
جن لوگوں نے بخاری پر جرح کی ہے، محدثین نے ان کے ایسے جوابات دیے ہیں کہ ان کو اڑتا ہوا پراگندہ غبار کے مانند کردیا ہے۔
[دراسات البیب ص ۲۷۶]
حافظ ابن حجرؒ امام نوویؒ سے ناقل ہیں کہ فرمایا:
امام دارقطنیؒ نے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی احادیث پر استدراک کیا ہے اور ان میں سے بعض احادیث پر طعن کیا ہے لیکن یہ طعن بعض محدثین کے انتہائی "ضعیف قواعد" پر مبنی ہے، بلکہ جمہور فقہاء اور علمائے اصول وغیرہم کے متفقہ "اصول کے خلاف" بھی ہے، لہذا ناقابل قبول ہے۔
[ھدی الساری ص ۳۴۶]
علامہ عینی حنفیؒ لکھتے ہیں:
بعض متقدمین نے صحیح بخاری کے رواة کی ایک جماعت پرجرح کی ہے، وہ جرح "امام بخاریؒ کی شرط کے مخالف" ہے، اس لیے کہ جمہور کے نزدیک جرح اس وقت ثابت ہوتی ہے کہ وہ مفسر ہو اور اس کے کل اسباب بیان کردیے گئے ہوں۔
[عمدة القاری ۱۔۸]
امام داقطنیؒ اور وہ علماء جنہوں نے صحیحین پر تنقید کی ہے ان کا مرتبہ معرفت علل وغیرہ میں شیخین کے بمقابلہ انتہائی پست ہے، مزید یہ کہ ایسے علماء کی تعداد بھی احادیث صحیحین کی صحت پر مجمعین کی تعداد کی بہ نسبت بہت قلیل ہے اور یہ مخالفت جمہوراصولین کے نزدیک لائق قدح نہیں ہے۔