میں نے کہا تھا
اگر کوئی مفسر یا محدث امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ذکر کرے لیکن وہ موقف کتاب الام میں بیان کردہ قول سے متصادم ھو تو کیا کریں گے ۔ کیا کتاب الام جدید کتاب ھونے کی وجہ سے کتاب الام میں بیان موقف کو ہی امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف قرار دیا جائے گا ؟؟؟
یا اس میں کچھ تفصیل ھے ؟؟؟
مثال
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مقتدی سری و جھری نماز میں الفاتحہ پڑھے گا لیکن کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ امام اور منفرد ہر رکعت میں الفاتحہ تلاوت کرے گا ۔ مذید کہا کہ مقتدی کا معاملہ آگے ذکر کیا جائے گا ان شاء اللہ
جب انہوں نے مقتدی کی بات کی تو کہا
نحن نقول کل صلاۃ صلیت خلف الامام والامام یقراء قراءۃ لا یسمع فیھا قراء فیھا۔
اور ہم کہتے ہیں کہ ہر وہ نماز جو امام کے پیچھے پڑھی جارہی ہو اور امام ایسی قراءت کر رہا ہو جو سنی نہ جاتی ھوتو مقتدی ایسی نماز میں قراءت کرلے۔
یعنی مقتدی سری نماز میں قراءت کرے گا
اب یہاں امام بیہقی رحمہ اللہ نے جو امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ذکر کیا کھ وہ سری و جھری نماز میں مقتدی کے لئیے الفاتحہ پڑھنے کے قائل تھے لیکن یہ موقف کتاب الام میں بیان کردہ موقف سے متصادم ہے تو اب امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف کیا قرار پائے گا
دوسرے سوال کی مثال جلد ان شاء اللہ
جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ، الأم میں بیان کردہ اقوال ہی امام شافعی کے آخری اقوال سمجھے جائیں گے ، اگر بعض مسائل میں اس سے مختلف ہوگا ، تو مسئلہ میں موجود مرجحات و قرائن کی بنا پر ہوگا ۔
الام کی عبارت جو آپ نے نقل کی ، غیر واضح سے معلوم ہوتی ہے ( یا ممکن ہے ہماری سمجھ میں کوئی کوتاہی ہو ) البتہ مختصر المزنی میں ہے :
وَيَفْعَلُونَ مِثْلَ فِعْلِهِ إلَّا أَنَّهُ إذَا أَسَرَّ قَرَأَ مَنْ خَلْفَهُ وَإِذَا جَهَرَ لَمْ يَقْرَأْ مَنْ خَلْفَهُ (قَالَ الْمُزَنِيّ) : - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَدْ رَوَى أَصْحَابُنَا عَنْ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: يَقْرَأُ مَنْ خَلْفَهُ وَإِنْ جَهَرَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ (قَالَ) : مُحَمَّدُ بْنُ عَاصِمٍ وَإِبْرَاهِيمُ يَقُولَانِ سَمِعْنَا الرُّبَيِّعَ يَقُولُ: (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ جَهَرَ، أَوْ لَمْ يَجْهَرْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
(مختصر المزني (8/ 108)
یہاں دو قول بیان کیے گئے ہیں :
1۔ جب امام جہر کرے تو مقتدی خاموش رہے گا ، جب خاموش ہو تو متقدی قراءت کرے گا ۔
2۔ سرا و جہرا دونوں میں مقتدی قراءت کرے گا ۔ یہی قول ربیع مرادی نے بھی بیان کیا ہے ۔
اور جیساکہ اوپر گزرا ربیع المرادی ہی الأم کے جامع ہیں ۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہی قول امام شافعی کا قول اخیر ہے ۔
جبکہ جہری نماز کی تخصیص والے قول کو امام نووی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
قِرَاءَةُ الْفَاتِحَةِ لِلْقَادِرِ عَلَيْهَا فَرْضٌ مِنْ فُرُوضِ الصَّلَاةِ وَرُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِهَا وَمُتَعَيِّنَةٌ لَا يَقُومُ مَقَامَهَا تَرْجَمَتُهَا بِغَيْرِ الْعَرَبِيَّةِ وَلَا قِرَاءَةُ غَيْرِهَا مِنْ الْقُرْآنِ وَيَسْتَوِي فِي تَعَيُّنِهَا جَمِيعُ الصَّلَوَاتِ فَرْضُهَا وَنَفْلُهَا جَهْرُهَا وَسِرُّهَا وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالْمُسَافِرُ وَالصَّبِيُّ وَالْقَائِمُ وَالْقَاعِدُ وَالْمُضْطَجِعُ وَفِي حَالِ شِدَّةِ الْخَوْفِ وَغَيْرِهَا سَوَاءٌ فِي تَعَيُّنِهَا الْإِمَامُ وَالْمَأْمُومُ وَالْمُنْفَرِدُ وَفِي الْمَأْمُومِ قَوْلٌ ضَعِيفٌ أَنَّهَا لَا تَجِبُ عَلَيْهِ فِي الصَّلَاةِ الْجَهْرِيَّةِ ۔
(المجموع شرح المهذب (3/ 326)
فقہ شافعی کی دیگر کچھ کتب میں بھی اسی قول کو بیان کیا گیا ہے ۔ واللہ أعلم ۔