• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام طبرانی کے حالات اور ان کی کتب حدیث کا منہج (مفصل مضمون)

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محدث رسالہ میں اس مضمون کا خلاصہ شایع کیا گیا اور اس میں کچھ غلطیاں بھی تھیں بعض بھائیوں کے کہنے پر اصل مضمون شایع کیا جا رہاہے بارک اللہ فیکم
بسم اللہ ا لرحمن الرحیم
امام طبرا نی اور ان کی کتب حدیث کا منھج
تالیف:
ابن بشیر الحسینو ی
رئیس :جامعہ امام احمد بن حنبل اہل حدیث سٹی قصور

اللہ تعالی نے اپنے برگزیدہ بندوں سے اپنے دین حنیف کی خدمت کا کام لیا اور بعض کو تو اپنے دین کے لئے خاص کر لیا جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو عام کرنا تھا انھیں چنیدہ افراد میں سے ایک ہمارے ممدوح امام طبرانی رحمہ اللہ بھی ہیں ان کے حالات اور ان کی کتب حدیث کا منھج پیش خدمت ہے ۔

امام طبرانی کیے حالات رحمہ اللہ تاریخ اصبھان ،جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ،سیر اعلام النبلاء ،تذکرۃ الحفاط ،المعجم الصغیر وغیرہ سے لئے ہیں ۔
مکمل نام :ابوالقا سم سلیمان بناحمد بن ایوب بن مطیر ۔
تاریخ پیدائش : صفر ۲۶۰ھ
(تذکرۃالحفا ظ :ج۲ص۱۲۶)
جائے پیدائش:
آپ شام کے قصبہ عکاء میں پیدا ہوئے( امام طبرانی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں :حد ثنا احمد بن عبداللہ اللحیانی العکاوی ،بمدینۃ عکاء سنۃ خمس و سبعین ومئتین (ح:۸۳۹)اس سے ثابت ہوا کہ امام طبرانی پندرہ سال کی عمر میں سماع حدیث کر چکے تھے کیونکہ امام صاحب کی تاریخ وفات ۳۶۰ ہے اس سے ۲۷۵ کو نفی کریں تو جواب ۸۵ آتا ہے اور کل عمر امام صاحب کی ۱۰۰ سال تھی سو سے ۸۵ نفی کریں تو جواب ۱۵ آتا ہے ۔نیز اس سے حافظ ذہبی کی بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے اور عموما ۱۵ سا ل تک انسان اپنے شہر کے ہی شیوخ سے علم حاصل کرتا ہے ۔۔یہ بھی ثابت ہوا کہ عکاء بستی نہیں بلکہ شہر ہے ۔الحسینوی) عکاء سے طبریہ کی مسافت دو دن میں طے ہوتی تھی ،یہ اردن کے قریب واقع ہے عمر کا اکثر حصہ یہاں ہی رہے لیکن آخر عمر میں آپ نے اصبھان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ (طبرانی "طبر یہ" کی طر ف منسوب ہے، طبرستان کی طر ف نہیں، مشہور مؤرخ ابن جریر طبری طبرستان سے نسبت رکھتے
ہیں۔ )
(تذکر ۃ الحفاظ:ج۳ص۱۲۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اولاد:آپ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا اور اس کی کنیت ابوذر تھی اور ایک بیٹی تھی جس کا نام فاطمہ تھا (جزء ص:۲)

اساتذہ و تلامذہ:
آپ نے ایک ہزار سے زیادہ شیوخ سے استفادہ اٹھایا جن میں چند کے نام یہ ہیں امام نسائی،امام ابو زرعہ دمشقی اور احمد بن معلی وغیرہ اور آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی خاصی طویل ہے چند کے نام یہ ہیں ابن عمید ،صاحب بن عباد یہ دونوں اپنے دور کے وزیر بھی تھے ۔ان کے علاوہ محمد بن حسین بسطامی،ابن عقدہ،اور محمد بن احمد جارودی وغیرہ (تذکرۃ الحفاظ :ج۳ص۱۲۷)
ابوالعباس احمد بن منصور کہتے ہیں میں نے طبرانی سے تین لاکھ حدیثیں سنی ہیں، اس سے ان کی وسعتِ نظر کا اندازہ ہوتا ہے
المعجم الصغیر میں تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے بغداد کے ۶۲ شیوخ سے فائدہ اٹھایا

علمی سفر:
امام طبرانی13 کے تھے کہ تحصیل علم میں میں مشغول ہو ئے پہلے آپ نے اپنے آبائی وطن طبریہ میں اصحاب علم و فضل سے استفادہ کیا ،۲۷۴ھ میں بیت المقدس کی طرف سفر کیا وہاں کے محدثین سے فائدہ اٹھایاپھر۲۷۵ھ میں قیساریہ تشریف لے گئے اس کے بعد انھوں نے حمس ،جبلہ،مدائن،شام،مکہ ،مدینہ،یمن ،مصر ،بغداد،کوفہ بصرہ ،جزیرہ ،فارس اور اصبہان وغیرہ کی طرف سفر کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔(تذکرۃ الحفاظ:ج۳ص۱۲۷)
المعجم الصغیر سے امام طبر انی کے علمی سفر کی ضروری تفصیل،شروع میں المعجم الصغیر کے حدیث نمبر ہیں
5 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْمَقْدِسِيُّ الْخَيَّاطُ، بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ سَنَة274َ أَرْبَعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
209 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُفْيَانَ الْقَيْسَرَانِيُّ، بِمَدِينَةِ قَيْسَارِيَةَ سَنَةَ 275 خَمْسٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
98 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ اللِّحْيَانِيُّ الْعَكَّاوِيُّ بِمَدِينَةِ عَكَّاءَ سَنَةَ 275 خَمْسٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
659 - حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي بِمَدِينَةِ طَبَرِيَّةَ سَنَة277َ سَبْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ

18 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْحَلَبِيُّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، بِحَلَبَ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
7 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِرْقٍ الْحِمْصِيُّ الْيَحْصِبِيُّ بِحِمْصَ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
1101 - حَدَّثَنَا مُوَرِّعُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو ذُهْلٍ الْمِصِّيصِيُّ، بِالْمِصِّيصَةِ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
10 - أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْقَا هِرِ بْنِ الْعَنْبَرِيِّ اللَّخْمِيُّ الدِّمَشْقِيُّ نَزِيلٌ بِدِمَشْقَ سَنَةَ 279تِسْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
8 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْإِيَادِيُّ الْأَعْرَجُ، بِجَبَلَةَ سَنَة279َ تِسْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ

4 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِ بْرَاهِيمَ أَبُو عَبْدِ الْمَلِكِ الْقُرَشِيُّ الْبُسْرِيُّ الدِّمَشْقِيُّ بِدِمَشْقَ سَنَةَ279 تِسْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
2 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَ بْدِ الرَّحِيمِ أَبُو زَيْدٍ الْحَوْطِيُّ، بِجَبَلَةَ سَنَة279َ تِسْعٍ وَ سَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
-1 حَ دَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْد ِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بِمَدِينَةِ جَبَلَةَ سَنَةَ 279تِسْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْ
ح َدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِيسَى بْنِ الْمُنْذِرِ الْحِمْصِيُّ، بِحِمْصَ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ ,

975 - حَدَّ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّازِيُّ، بِطَرَسُوسَ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
680 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُثَنَّى بْنِ مُطَاعِ بْنِ عِيسَى بْنِ مُطَاعِ بْنِ زِيَادِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ مَسْعُودِ بْنِ الضَّحَّاكِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَ دِيِّ بْنِ أَرَاشَ بْنِ جَدِيلَةَ بْنِ لَخْمٍ أَبُو مَسْعُودٍ اللَّخْمِيُّ، بِدِمَشْقَ سَنَةَ 278 ثَمَانٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
952 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الصُّوفِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، بِمِصْرَ سَنَة280َ ثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
213 - ح َدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُوَيْدٍ الشِّبَامِيُّ، بِمَدِينَةِ شِبَامَ بِالْيَمَنِ سَنَةَ 282 اثْنَتَيْنِ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
652 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، بِمَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَ لَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، سَنَةَ283 ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
222 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ صَالِحٍ الشِّيرَازِيُّ، بِمَكَّةَ سَنَة283َ ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
1100 - حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ بِمَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سَنَةَ 283 ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ ,

216 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْكَجِّيُّ، بِمَكَّةَ سَنَةَ 283 ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
101 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْهَرَوِيُّ، بِمَكَّةَ سَنَةَ 283 ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
211 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَعْمَر ٍ الصَّنْعَانِيُّ، بِصَنْعَاءَ سَنَةَ 284 أَرْبَعٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْن
1014 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدَانَ الْكُوفِيُّ، بِمِصْرَ سَنَة285َ خَمْسٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
763 - حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ الْبُخَارِيُّ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ 287 سَبْعٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ

61 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي الْعَبَّاسِ الْخُوَارِزْمِيُّ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ 287 سَبْع ٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
655 - حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، بِمَكَّةَ سَنَة287َ سَبْعٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ

245 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ 287 سَبْعٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ
ِ
697 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو نُعَيْمٍ الْجُرْجَانِيُّ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ 288 ثَمَانٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ

911 - حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسَدِ بْنِ يَزِيدَ الْأَصْبَهَانِيُّ بِمَدِينَةِ أَصْبَهَانَ سَنَةَ 295 خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَتَيْنِ
امام طبرانی کے رحلات علمیہ کی مختصر داستان اس طرح ہے
۲۷۳ھ کو سماع حدیث شروع کیا اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی
۲۷۴ھ کو بیت المقدس کی طرف سفرکیا اسی سال رملہ گئے اور واپس عکا آئے
۲۷۷ھ میں طبریہ میں ٹھہرے
۲۷۸ھ میں مدائن کی طرف متوجہ ہوئے اورحمس ،طرطوس ،سنجار ،مصیصہ پہنچے
۲۷۹ھ میں جبلہ پہنچے اور اسی سال دمشق گئے
۲۸۰ ھ میں آپ مصر گئے
۲۸۲ھ میں آپ نے سمندری سفر کیااور یمن کے علاقے شبام پہنچے
۲۸۳ھ کو آپ نے حج کیا مکہ اور مدینہ کے محدثین سے فائدہ اٹھایا
۲۸۴ھ کو آپ یمن کے علاقے صنعاء پہنچے
۲۸۵ھ کو آپ مصر پہنچے ۲۸۸ھ تک وہاں کے محدثین سے علم حاصل کیا
آپ کی عمر ۳۳ سال ہو گئی اور ۲۹۰ھ کو آپ اصفہان پہنچے
پھر فارس کا سفر کیا
۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو پھر آپ واپس اصفہان آئے اور اسی کو اپنا مسکن بنالیا اور۳۶۰ھ فوت ہونے تک یہاں ٹھہرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محدثین کے ہاں مقام و مرتبہ :
امام موصوف اپنے دور کے عظیم محدثین کی آنکھوں کا تارہ تھے اورمعاصرین اور متاخرین ان کی تعریف میں رطب اللسان نظرآتے ہیں ۔چند ایک کی گواہیاں پیش خدمت ہیں ۔ابراہیم بن محمد بن حمزہ نے کہا :میں نے ان سے بڑا کوئی حافظ نہیں دیکھا ۔
حافظ ذھبی فرماتے ہیں کہ وہ :ضبط و ثقاہت اور صدق وامانت کے ساتھ بڑے عظیم رتبہ پر فائز اور عالی شان کے محدث تھے ۔اور ذھبی نے ہی انھیں الامام العلامہ ،اور مسند الدنیا کہا ہے ابن عماد نے انھیں مسند العصر کہا
(تذکرۃ الحفاظ :ج۳ص۱۲۶۔۱۳۰،لسا ن المیزان:ج۳ص۷۳)
امام طبرانی رحمہ اللہ حافظ ذھبی کی نظر میں
سیر اعلام النبلا ء :ج۱۶ص۱۱۹ سے یہ بحث نقل کی جا رہی ہے حافظ ذھبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :ھو الامام ،الحافظ الثقۃ الرحال الجوال محدث الاسلام علم المعمرین ۔
حافظ ذھبی کی تحقیق میںامام طبرانی رحمہ اللہ نے عالم اسلام کے محدثین سے سولہ سال میں علم حاصل کیا ،جبکہ راقم نے جب تتبع کیا تو المعجم الصغیر سے جو امام طبرانی رحمہ اللہ نے مختلف محدثین سے روایت بیان کرتے وقت خود تاریخ لکھی ہیں ان میں سے آخری تاریخ ۲۹۵ھ ہے اصبھان میں اپنے شیخ محمد بن اسد اصبھانی سے روایت اخذ کی (المعجم الصغیر ح:۹۱۱)اور حافظ ذھبی کے مطابق انھوں نے سماع حدیث کی ابتدا۲۷۳ھ کو کی اور باقاعدہ سفر ۲۷۵ھ کو شروع کیا یہ بھی درست نہیں حالانکہ صحیح ۲۷۴ھ کو انھوں نے بیت المقدس میں سماع حدیث کیا ۔(الصغیر:۵)اگر ۲۷۵سے ابتدا اور ۲۹۵ھ رحلۃ علمیہ کا اختتام لیں تو بیس سال بنتے ہیں نہ کہ سولہ ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے ۲۷۴ھ میں بیت المقدس سے احادیث لی تھیں اور بیت المقدس میں تین شیوخ سے روایات لیں احمد بن مسعودالخیاط(الصغیر:۵)احمد بن عبیدبن اسماعیل الفریابی (الصغیر:۹۹)عبداللہ بن محمد بن مسلم الفریابی (الصغیر:۶۰۰)

ا مام ابن مندہ اور حافظ ذھبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے اپنا وطن اصبھان کو بنایا اور ساٹھ سال وہاں ٹھہرے (سیر:ج۱۶ص جزئ:ص۳) واللہ اعلم۔۲۹۰ ھ میں پہلی دفعہ اصبھان آئے(پھر فارس کاسفر کیا ) پھر ۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو دوبارہ اصبھان آئے (جزئ:ص۳)
ا مام ابن مندہ کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی ایک دفعہ اصبھان آئے تھے پھر چلے گئے اور چودہ سال بعد پھر اصبھان آئے(جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ص:۲)

ا ما م ابن مندہ نے امام طبرانی رحمہ اللہ کے حالات باسند ایک جز لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل اصبھان پر فضل اور احسان کیا ان میں امام طبرانی جیسے عظیم محدث کو رہنے کی توفیق عطافرمائی ۔(جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ص:۱)


تصنیفات :

1 كتاب المعجم الْكَبِير
2 كتاب مُعْجم الْأَوْسَط
3 - كتاب مُعْجم الصَّغِير
4 مُسْند الْعشْرَة
5 مُسْند الشامين 6 كتاب النَّوَادر 7 كتاب معرفَة الصَّحَابَة 8 الْفَوَائِد 9 مُسْند أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ 1 0مُسْند عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا 11 مُسْند أبي ذَر الْغِفَارِيّ 12 كتاب التَّفْسِير 13 كتاب مسانيد تَفْسِير بكر بن سهل 14 كتاب دَلَائِل النُّبُوَّة 15 كتاب الدُّعَاء
16 - كتاب السّنة عشرَةَ 17 كتاب الطوالات 18 كتاب الْعلم 19 كتاب الرُّؤْيَا 02 كتاب الْجُود والسخاء 21 كتاب الالوية جُزْء 22 كتاب الْأَوَائِل 23 كتاب الْأَبْوَاب 24 كتاب فَضَائِل شهر رَمَضَان 25 كتاب الْفَرَائِض من السّنَن المسندة 26 كتاب فَضَائِل الْعَرَب 27 كتاب فَضَائِل عَليّ رَضِي الله عَنهُ 28 كتاب بَيَان كفر من قَالَ بِخلق الْقُرْآن 29 كتاب الرَّد على الْمُعْتَزلَة 3 كتاب الرَّد على الْجَهْمِية 31 كتاب مَكَارِم الْأَخْلَاق جُزْء

32 - كتاب الْعَزْل جُزْء 33 كتاب الصَّلَاة على النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جُزْء 34 كتاب الْمَنَاسِك 35 كتاب كتب النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جُزْء 36 كتاب الْقِرَاءَة خلف الإِمَام جُزْء 37 كتاب الْغسْل جُزْء 38 كتاب فَضَائِل الْعلم وَاتِّبَاع الْأَثر وذم الرَّأْي وَأَهله 39 مقتل الْحُسَيْن بن عَليّ رَضِي الله عَنهُ جُزْء 4 حَدِيث شُعْبَة بن الْحجَّاج 41 حَدِيث الثَّوْري 42 مُسْند الْأَعْمَش 43 مُسْند الْأَوْزَاعِيّ 44 من روى عَن الزُّهْرِيّ عَن أنس جُزْء 45 حَدِيث مُحَمَّد بن الْمُنْكَدر عَن جَابر جُزْء 46 حَدِيث أَيُّوب السّخْتِيَانِيّ 47 مُسْند أبي إِسْحَاق السبيعِي الْهَمدَانِي 48 مُسْند يحيى بن أبي كثير 49 مُسْند مَالك بن دِينَار 50 مُسْند الْحسن بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ عَن أنس 51 مُسْند حَمْزَة الزيات 52 مُسْند مسعر بن كدام 53 مُسْند أبي سعد الْبَقَّال 54 طرق حَدِيث من كذب عَليّ جُزْء
55 - أَحَادِيث بَيَان بن بشر جُزْء 56 أَحَادِيث من اسْمه عباد جُزْء 57 أَحَادِيث النَّهْي عَن النوح جُزْء 58 مُسْند عبد الْعَزِيز بن رفيع جُزْء 59 أَحَادِيث مُحَمَّد بن جحادة جُزْء 6 مساني د عمر بن عبد الْعَزِيز جُزْء 61 فضل الإِمَام أَحْمد بن حَنْبَل جُزْء 62 أَحَادِيث إِدْرِيس الأودي جُزْء 63 أَحَادِيث من اسْمه عَطاء جُزْء 64 أَحَادِيث أبي غياث روح بن الْقَاسِم جُزْء
65 - أَحَادِيث فِي فَضَائِل عِكْرِمَة جُزْء 66 أَحَادِيث أُمَّهَات رَسُول الله جُزْء 67 مُسْند عمَارَة بن غزيَّة جُزْء 68 أَحَادِيث طَلْحَة بن مص رف جُزْء 69 غرائب حَدِيث مَالك بن أنس جُزْء 7 أَحَادِيث ضَمْضَم بن زرْعَة جُزْء 71 أَحَادِيث أبان بن تغلب جُ زْء 72 أَحَادِيث حُرَيْث بن أبي مطر جُزْء 73 وَصِيَّة النَّبِي لأبي هُرَيْرَة جُزْء 74 كتاب ذكر الْخلَافَة لأبي بكر وَعمر 75 كتاب فَضَائِل الْعَرَب وَعُثْمَان وَعلي رَضِي الله عَنْهُم 76 كتاب جَامع صِفَات النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم 77 كتاب نسب النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصفَة الْخُلَفَاء 78 كتاب انسابهم واسمائهم وَكُنَاهُمْ 79 كتاب وَصِيَّة النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم 8 كتاب لأبي هُرَيْرَة 81 غزل الْخُلَفَاء والامراء 82 مُسْند طَلْحَة بن مصرف الايامي 83 وَأَبُو حُصَيْن عُثْمَان بن عَاصِم الْأَسدي 84 وعمار بن أبي مُعَاوِيَة البَجلِيّ الدهني 85 وَسَعِيد بن أَشوع القَاضِي 86 وَعبد الله بن شبْرمَة
87 - عَاصِم بن أبي بَهْدَلَة 88 مُسْند مُحَمَّد بن عجلَان 89 مُسْند حَمْزَة بن جُنْدُب بن الزيات 9 مُسْند أبي سعيد الْحسن بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ عَن أنس 9 1 عمرَان بن مُوسَى القبي 92 والْحَارث بن يزِيد العكلي 93 مُسْند مسعر بن كدام 94 مُسْند العبادلة من أَصْحَاب النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم 95 مُسْند عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده 96 مُسْند أبي أَيُّوب عبد الله بن عَليّ الإفْرِيقِي وزافر بن سُلَيْمَان وَغَيرهمَا 97 مسانيد أبي يحيى مَالك بن دِينَار الزَّاهِد 98 أَحَادِيث الْأَوْزَاعِيّ وَأبي عَمْرو بن الْعَلَاء 99 مُسْند زِيَاد بن أبي زِيَاد الْجَصَّاص 1 وَالْحجاج بن الفرافصة 101 وَهَارُون بن مُوسَى النَّحْوِيّ 102 مُسْند يُونُس بن عبيد 103 مُسْند مُغيرَة بن مقسم الضَّبِّيّ الْكُوفِي 104 كتاب الْأَشْرِبَة 105 كتاب الطَّهَارَة 106 كتاب الامارة
امام طبرانی مرجع خلائق تھے
اپنی زندگی میں مرجع خلائق تھے اور وفات کے بعد ان کی کتب مرجع خلائق ثابت ہوئیںامام طبرانی کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک جو بھی کام حدیث او رعلوم حدیث پر ہو رہے ہیں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں امام الدنیا امام طبرانی کا ذکر خیر نہ ہو آپ کتب رجال ،کتب حدیث ،کتب علل ،کتب علوم حدیث ، کتب تخریج ،کتب شروحات اورکتب تفسیر اٹھائیں الحمدللہ تمام کتب میں امام طبرانی کا ذکر خیر ضرور ہے ۔
وفات کا سبب:
آپ بڑے غیرت مند انسان تھے دین پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ دوٹوک انداز میں قرآن وحدیث کی ترجمانی کرنتے تھے
یہی دینی سختی بعض فرق باطلہ کو اچھی نہ لگی اور انھوں نے آپ پر جادو کروا دیا جس سے آپ کی آنکھوں کی بصارت جا تی رہی اور آپ نے بروز شنبہ ۲۸ ذوالحجہ ۳۶۰ھ کو سوسال کی عمر میں وفات پائی آپ کی نماز جنازہ امام ابونعیم اصبھانی رحمہ اللہ نے پڑھائی اور صحابی رسول حممہ بن حممہ رضی اللہ کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئے ۔


(تذکرۃ الحفاظ:ج۳ص۱۳۰)( سير أعلام النبلاء (16/119-130), )
..........................................................................
ا مام طبرانی ۲۶۰ ھ کو پیدا ہوئے اور ۳۶۰ھ بروز ہفتہ فوت ہوئے اور اتوار کو جی شہر کے دروازے المعروف بتیرہ دفن ہوئے (جزء :ص ۲)
تاریخ اصبھان ص:۱۷۰
کتب حدیث کا منھج

محدثین کی اصطلاح میں معجم ان کتابوں کو کہا جا تا ہے جن میں شیوخ کی تر تیب پر حدیثیں درج کی گئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معجم کبیر : اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی تر تیب پر ان کی مرویات شامل کی گئی ہیں ۔اور اس میں مشہور صحابی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (م57ھ) جن کی مرویات کی تعداد 5364ہے اس میں شامل نہیں ہیں یہ کتاب 12جلدوں میں ہے اور اس میں 60ہزار احادیث جمع کی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معجم اوسط :
اس کتاب کو بھی امام طبرانیؒ نے شیوخ کے ناموں پر مرتب کیا ہے اس کی تر تیب و تالیف میں امام صاحب نے بڑی کا وش اور محنت کی آپ کو یہ کتاب بہت عزیز تھی اس کتاب سے امام صاحب کی حدیث میں فضیلت و کمال اور حدیث سے کثرت واقفیت کا پتہ چلتا ہے یہ کتاب 6ضخیم جلدوں میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المعجم الاوسط چھ ضخیم جلدوں میں ہے یہ معجم شیوخ کے اعتبار سے ہے ہر شیخ سے امام طبرانی رحمہ اللہ عجیب وغریب روایات لائے ہیںیہ دارقطنی کی افراد کی مثل ہے ،امام طبرانی اس کتاب کے متعلق کہا کرتے تھے کہ اس میں میری روح ہے یعنی یہ کتاب انھیں بہت ہی پسندیدہ تھی ۔
یہ کتاب مفقود کتب میں سے تھی لیکن اللہ تعالی نے اس کا مکمل قلمی نسخہ ترکی سے میسر فرما دیا اس عظیم کتاب کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ اللہ تعالی کی توفیق و نصرت کے بعد پھر السید صبحی البدری السامرائی کو جاتا ہے فجزاہ اللہ خیرا۔اس کی سب سے پہلے تحقیق دکتور محمود طحان حنفی نے تحقیق کی اور تین جلدیں شایع کیں اورباقی کا وعدہ کیا لیکن وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالی کو منظور ہو باقی اجزاء کی وہ تحقیق نہ کر سکے اور جن تین اجزاء کی تحقیق کی تھی اس کو بھی محققین اور باحثین نے پسند نہ کیا کیو نکہ اس میں بہت زیادہ تحریف ،تصحیف اور سقط رہ گیا تھا حالانکہ اس طرح کی کمزوریوں سے کتاب کو منزہ ہو نا چاہئے اور ہر ذی شعور اہل علم جانتا ہے کہ ان مذکورہ خامیوں کا کتنا عمل دخل ہے کتاب کے نقائص میں۔پھر اللہ تعالی جزائے خیر عطافرمائے محدث العصر ابواسحاق الحوینی حفظہ اللہ کو کہ انھوں نے فضیلۃ الشیخ المحقق طارق بن عو ض اللہ المصری حفظہ اللہ کو توجہ دلائی کہ آپ المعجم الاوسط پر کام کریں پھر طارق بن عوض اللہ کی نگرانی میں ایک ٹیم نے اس کتاب پر محنت کی اور حق ادا کردیا ۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے علم کے حصول میں مسلسل بیس سال محنت کی اور علم کی شاہراہ پر چل کر غرائب ،افراد اور فوائد جمع کئے
المعجم الاوسط للطبرانی کا مقام و مرتبہ بجا ہے ،شیخ ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ نے اس پر کچھ تعاقب
عوذ الجانی بتسدید الاوھام الواقعۃ فی اوسط الطبرانی اس نام سے کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے

طبرانی اوسط کا منھج
امام طبرانی رحمہ اللہ کی یہ بھی ایک عظیم الشان فوائد پر مشتمل کتاب ہے اس میں انھوں نے اپنے شیوخ کی وہ تمام مرویات جمع کر دی ہیں جو خود سنی ہیں ۔
شیوخ کی ترتیب حروف تہ جی والی قائم کی ہے ۔اس کتاب میں درج ذیل منھج اختیار کیا گیا ہے ۔
۱:عجیب و غریب معلومات :
امام طبرانی اپنی اس کتاب میں عجیب وغریب معلومات لکھتے ہیں ایک راوی کے بارے میں ابومروان عثمانی کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث سنی اس وقت ان کی عمر ایک سو بارہ سال تھی (ح:۱۰۳۶)
ابوعمرو زیاد بن طارق کے متعلق لکھا ہے کہ کہ جب ان سے عبیداللہ بن رماحس نے بیان کیا اس وقت ان کی عمرایک سو بیس سال تھی ۔(ح:۴۶۳۰)
کثیر النوا اپنے شیخ ابومریم الانصاری کے بارے میں کہتے ہیں جب میں نے ان سے حدیث بیان کی اس وقت ان کی عمرایک سو پچاس سال تھی (ح:۵۰۸۱)

۲:نسبت کی وجہ تسمیہ بھی لکھتے ہیں :مثلا ایک راوی ہیں ابومالک الصفی ان کو الصفی کیوں کہا گیا اس کی وجہ تسمیہ لکھتے ہیں کہ ابوبکر بن صدقہ نے کہا کہ کہ انھوں نے بصرہ مسجد میں پہلی صف کو پچاس سال تک لازم پکڑا اس لئے انھیں الصفی کہا گیا ۔(ح:۱۳۷۴)
:اپنے استاد کے نام کو بیان کرنے کا طریقہ:
امام طبرانی رحمہ اللہ جب بھی کسی شیخ کی احادیث کو شروع کرتے ہیں تو اس کا مفصل نام لکھتے ہیں پھر اس کے نام اور والد اور نسبت کو بیان کرتے ہیں(ح:۳)،اور بعض دفعہ صرف شیخ کے نام پر ہی اکتفا کرتے ہیں (ح:۳۱)۔مثلا پہلی روایت اس طرح ذکر کرتے ہیں حدثنا احمد بن عبدالوہاب بن نجدہ الحوطی ۔۔۔۔پھر بعد میں صرف احمد بن عبدالوہاب پر اکتفا کرتے ہیں اور پھر صرف احمد کو کافی سمجھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔


اس کی ترتیب بھی شیوخ کے ناموں پر ہے اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث جمع کی ہے یہ 1311ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی
تفرد بہ فلان کی وضاحت:
اما م طبرانی رحمہ اللہ ہر روایت کے آخر میں تفرد کی وضاحت ضرور کرتے ہیں مثلا تفرد بہ معلی بن عبدالرحمن اور تمام احادیث کے آخر میں اس طرح کی وضاحتیں موجود ہیں صرف بعض احادیث کے آخر میں تفرد کی وضاحت نہیں مثلا دیکھئے (ح:۷۱۲،۱۴۴)
بطور فائدہ عرض ہے امام طبرانی کے اس انداز پر محدث العصر ابواسحاق الحوینی حفظہ اللہ کی تنقید کی ہے اور اپنی ۱۹ جلدوں کی لاجواب کتاب( تنبیہ الھاجد الی ماوقع من النظر فی کتب الاماجد میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تفرد کے وہم کو زائل کرتے ہوئے مزید اس کے توابع لکھے ہیں ۔اس کتاب کے مطالعہ سے قاری کو شیخ الحوینی حفظہ اللہ کے سند حدیث پر دقیق النظر ہونے کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا اگرچہ بعض عرب علماء شیخ الحوینی حفظہ اللہ کے اس نقطہ نظر سے کلی اتفاق نہیں کرتے ۔
احادیث پر حکم لگانا:
امام طبرانی رحمہ اللہ بعض احادیث پر صحت و ضعف کے لحاظ سے حکم لگاتے ہیں مثلا ایک حدیث کی دو سندیں بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں :(وھما صحیحان)(بعدح:۱۷۵)
کنیت سے معروف راویوں کا اصل نام کی وضاحت کرنا :
امام طبرانی رحمہ اللہ کبھی کبھی کنیت سے معروف راویوں کے اصل نام بھی لکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس کے اصل نام کے ثبوت کے لئے اس کو با سند پیش کرتے ہیں مثلا مشہور صحابی ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کے اصل نام کی وضاحت کے لئے سند لکھتے ہیں حدثنا ابو زرعۃ عبدالرحمن بن عمرو الدمشقی ،حدثنا حیوۃ بن شریح ،قال سمعت بقیۃ بن الولید یقول اسم ابی ثعلبۃ الخشنی :لاشومۃ بن جرثومۃ۔(بعدح:۱۷۰)
محدث نے جس شہر میں روایت بیان کی اس کی وضاحت:
امام طبرانی رحمہ اللہ بسا اوقات اپنے شیخ سے جس شہر میں روایت سنتے ہیں اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں مثلا لکھتے ہیں :حدثنا یحیی بن محمد الجبانی البصری ،ببغداد (ح:۱۷۴)ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا ابر اہیم بن موسی النوری ،ببغداد(ح:۳۴۰)ایک جگہ لکھتے ہیں :حدثنا زکریا بن حفص بن یحیی بن سلیمان المعدل الاھوازی ،بِتَستُرَ(ح:۳۴۶)ایک جگہ لکھتے ہیں :حدثناعبدالرحمن بن زیاد ابومسعود الکنانی الابلی ،بالأُبُلَّۃ(ح:۵۳۶)ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا احمد بن محمد بن زیاد ابوسعید بن الاعرابی بمکۃ(ح:۹۹)ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا عبد اللہ بن محمد بن مسلم الفریابی ،ببیت المقدس (۴۰۹)ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا عبداللہ بن ابراہیم السوسی ،بحلب(ح۴۱۰)
کس محدث سے کس سال حدیث سنی اس کی وضاحت:
امام طبرانی رحمہ اللہ بسا اوقات یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے شیخ سے کس سال سنی ۔۔۔اس سے امام طبرانی کے حالات زندگی واضح شکل میں سامنے آجاتے ہیں کہ کس سال وہ کہاں تھے ۔۔۔اس مثال پر غور کریں کتنی اہم بات ثابت ہوتی ہیں امام طبرانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :حدثنا احمد بن عبداللہ اللحیانی العکاوی ،بمدینۃ عکاء سنۃ خمس و سبعین ومئتین (ح:۸۳۹)اس سے ثابت ہوا کہ امام طبرانی پندرہ سال کی عمر میں سماع حد یث کر چکے تھے کیونکہ امام صاحب کی تاریخ وفات ۳ ۶۰ ہے اس سے ۲۷۵ کو نفی کریں تو جواب ۸۵ آتا ہے اور کل عمر امام صاحب کی ۱۰۰ سال تھی سو سے ۸۵ نفی کریں تو جواب ۱۵ آتا ہے نیز یہ کہ امام صاحب نے کتنے اہتمام کے ساتھ احادیث کو لکھا کہ پندرہ سال کی عمر میں لکھی احادیث کو بھی محفوظ رکھا ہے ۔نیز اس سے حافظ ذہبی کی بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے اور عموما ۱۵ سال تک انسان اپنے شہر کے ہی شیوخ سے علم حاصل کرتا ہے ۔۔یہ بھی ثابت ہوا کہ عکاء بستی نہیں بلکہ شہر ہے ۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا أحمد بن عبدالقاہر بن العنبری اللخمی الدمشقی ،نزیل دمشق سنۃ ت سع و سبعین ومئتین (ح:۱)اس سے ثابت ہوا کہ امام صاحب ۱۹ سال کی عمر م یں طلب علم کی خاط ر دمشق پہنچ چکے تھے ۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا عبدان بن محمد المروزی ،بمکۃ سنۃ سبع و ثمانین ومئتین(ح:۴۱۱)معلوم ہوا کہ وہ ۲۷ سال کی عمر میں مکہ مکرمہ تحصیل علم ک ی خاطر پہنچ چکے تھے ۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:حدثنا ہارون بن ملول المصری ،سنۃ خمس وثمانین ومئتین (ح:۶۲۰)اس سے معلوم ہوا کہ آپ۲۵ سال کی عمر میں مصر میں علم حاصل کر رہے تھے نیز دیکھیں(ح:۶۶۲)
اپنے شیوخ کا مکمل مفصل نام لکھنا :
امام طبرانی اپنے شیوخ کا مکمل نام لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ محقق اور قاری کسی وہم میں مبتلا نہ ہو جائے اس سے امام طبرانی کی سوچ و فکر کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جس بھی شیخ سے حدیث لیتے اس کا مکمل نام تفصیل کے ساتھ ضرور لکھتے ،لکھنے کے بعد اس کو محفوظ رکھتے ۔بالفاظ دیگر اپنے شیوخ کے مقام کا اس قدر احترام کیاکہ ان کے نسب کو بھی محفوظ کر دیا ۔سبحان اللہ ۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :حدثنا محمد بن عبدالر حیم بن بحیر بن عبداللہ بن معاویۃ بن بحیر بن ریشان الحمیری (ح:۹۷۳)
ایک شیخ کا نام اس طرح لکھت ے ہیں :حدثنا زکریا بن حفص بن یحیی بن سلیمان المعدل الاھوازی ،بتستر(ح:۳۴۶) ایک شیخ کا نام اس طرح لکھتے ہیں :حدثنا الحسن بن علی بن شہر یار الرقی المصری (ح:۳۴۵)
فی کتابہ کی وضاحت:
ٓ اگر امام طبرانی رحمہ اللہ کو کوئی حدیث کسی محدث کی کتاب سے ملی ہے تو اس کی وضاحت کی ہے فی کتابہ کہ کر مثلا لکھتے ہیں :حدثنا ابراہیم بن اسحاق الحربی فی کتابہ (ح:۹۲۰)یعنی یہ حدیث استاد سے بالمشافہ نہیں لی بلکہ ان کی کتاب سے لی ہے ۔اس سے محدثین کی امانت داری کا پتا چلتا ہے کہ وہ نقل روایت میں کس قدر اہتمام کرتے تھے ۔
مختلف فیہ مسائل میں منھج:
امام رحمہ اللہ بسا اوقات مختلف فیہ مسائل میں بھی اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں مثلا ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اے بنی عبدمناف ،اے بنی عبدمطلب !اگر تم اس معاملہ کے ذمہ دار بنو تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کسی بھی شخص کو رات اور دن کے کسی بھی حصے میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرنا۔
امام طبرانی اس حدیث میں بیان کئے گئے فقہی مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں :یعنی الرکعتین بعد الطواف السبع ان یصلی بعد صلاۃالصبح قبل طلوع الشمس وبعد صلاۃ العصر قبل غروب الشمس وفی کل النھار۔‘‘آپ ﷺ کی مراد سات چکر طواف کے بعد کی دو رکعتوں سے ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد غروب سے پہلے اور اسی طرح دن کے ہر حصہ میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔(ح:۱۸۴)
بعض دفعہ شبہات کا ازالہ کرتے ہیں :
ایک حدیث کے بعد لوگوں کا شبہ ذکر کرتے ہیں کہ :ہم لوگ دعائیں کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔‘‘پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :گویا یہ اعتراض اللہ تعالی پر ہے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے اور یقینا اس کی بات برحق ہے ،کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:(ادعونی استجب لکم )مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا (المؤمن :۶۰)نیز فرمایا:(واذ ا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذ ادعان)اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔(البقرۃ:۱۸۶)۔۔۔۔پھر اس شبہ کے جواب میں ایک حدیث بھی لے کر آئے ہیں ۔(ا لمعجم الصغیر ص۲۱۶:)
اپنی دیگر کتب سے روایت کرنا:
امام طبرانی رحمہ اللہ بعض احادیث کو اپنی دیگر کتب مثلا المعجم الکبیر یا المعجم الاوسط سے بیان کر دیتے ہیں مثلا دیکھئے المعجم الکبیر کی احادیث(الکبیر:ج۲۳ص۴۳۳،الصغیر:۵۹۳)(الکبیر:ج۲۳ص۳۹۳ ،الصغیر:۵۷۳)(الکبیر:ج۲۵ص۱۰۲،الصغیر:۴۹۸)
المعجم الاوسط:۱۳۴۲،الصغیر:۷۵۵)(الاوسط:۴۴۸ الصغیر:۷۴۹)
معاجم ثلاثہ کے منھج میں موازنہ
معجم کبیر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ترتیب سے ان سے مروی احادیث جمع کی ہیں لیکن اس میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند نہیں ہے (کیونکہ وہ ان کی الگ مسند لکھنا چاہتے تھے )اسی طرح مکثرین صحابہ کی تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا،صحابی کی روایات ذکر کرنے سے پہلے اس کے حالات باسند ذکر کئے ہیں سیرت صحابہ ﷺ کی مستند باسند کتاب المعجم الکبیر الطبرانی سے الگ کی جا سکتی ہے( اگر اللہ کو منظور ہوا تو راقم یہ کام کرے گا ان شا ء اللہ) ۔پھر ان سے مروی احادیث بیان کی ہیں
معجم اوسط میں شیوخ سے جتنی بھی مرویات ملیں وہ تمام بیان کر دی گئی ہیں
معجم صغیر میں صرف ایک شیخ سے ایک ہی حد یث بیان کی ہے دیکھیں(سیر:ج۱۶ص)
معجم اوسط میں اور معجم صغیر بعض رواۃ پر حکم بھی لگایا ہے لیکن کبیر میں کسی راوی پر حکم نہیں لگایا ۔
معجم کبیر میں تفرد کا ذکر نہیں کیا جبکہ صغیر اور اوسط دونوں میں تفرد کا ذکر کیا ہے۔
کچھ باتیں تینوں میں مشترک ہیں مثلا
ہر بات با سند پیش کی ہے مرفوع ،مو قوف اور مقطوع تینوں طرح کی روایات بیان کی ہیں ان میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسند الشامیین
اس کتاب میں صر ف ان صحابہ سے روایات بیان کی ہیں جو شام میں مقیم تھے اور شام کے بعض روایوں کے جر ح تعدیل کے لحاط سے حالات بھی باسند بیان ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب الدعاء
اس میں مختلف اوقات کی دعاؤں کو جمع کیا گیا ہے اور ہر دعا باسند ذکر کی ہے
...................................

اس میں ۶۳ صحابہ رضی اللہ عنھم سے ایک ہی روایت من کذب علی متعمدا کو مختلف ۱۷۸ سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے
کتاب الاوائل
اس کتاب میں امام طبرانی رحمہ اللہ نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں پہلے کا ذکر ہے مثلا اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم پید اکیا ۔وغیرہ

الاحادیث الطوال
امام طبرانی نے اس کتاب میں ان ۶۲احادیث کو جمع کیا ہے جو متن کے لحاظ سے مفصل اور لمبی ہیں ۔




۳:راویوں پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے حکم لگانا:
حروف تہجی کے اعتبار سے ان کی فہرست پیش خدمت ہے۔
امام طبرانی بسا اوقات اپنی کتب میں بعض راویوں پر حکم بھی لگاتے ہیں کبھی اپنا اور کبھی کسی معتبر محدث سے باسند نقل کرتے ہیں

ابراہیم بن حیویہ ثقۃ مامون (ح:۱۳۲۸)
ابراھیم بن ابی عبلۃ ثقۃ ( مسند الشامیین :۷
ثور بن یزید الکلاعی ثقۃ( مسند الشامیین:۵۰۰)
ربیعہ مشہور وخطاب مشہو ر ( الصغیربعدح:۵۳۱)
شعیب بن ابی حمزۃ ثقۃ ثبت (مسند الشامیین :۲۹۲۹)
داود بن ابی القصاف شیخ ثقۃ (الاوسط ح:۳۵۰۴)
سیف بن عبیداللہ کان ثقۃ (‎الاوسط ح:۱۶۹۳)
عبداللہ بن عبداللہ الھدادی ثقۃ (الاوسط ح:۷۵۴۴)
عبدالسلام بن ھاشم ما اعلم الا خیرا(الاوسط ح:۸۱۶۳)
عتبہ بن ابی حکیم ثقۃ من اہل الاردن (مسند الشامیین :۷۲۷)
عبداللہ بن علاء بن زبر ثقۃ (مسند الشامیین:۷۶۹)
عطاء الخراسانی ثقۃ (مسند الشامیین :۲۲۹۶)
علاء بن ھارون :وھو ثقۃ ( الصغیر بعد ح:۱۱۵)
عمرو بن شراحیل العنسی ثقۃ (مسند الشامیین قبل ح:۲۵۵۸)
محمد بن زیاد الالھانی ثقۃ مامون (مسند الشامیین :۸۱۴۔۸۱۵)
محمد بن ولید الزبیدی ثقۃ ثبت (مسند الشامیین:۱۶۸۷)
محمد بن راشد ثقۃ (مسند الشامیین :۲۵۶۹)
مھند القیسی ثقۃ (الاوسط ح:۶۵۸۱)
نعیم بن یحیی السعیدی ثقہ عزیز الحدیث (الاوسط ح:۵۸۳۱)
ھارون بن اشعث ثقۃ (ا لکبیر:ج۱۰ص۳)
ٓ ابوحذیفہ بصری ثقۃ (الاوسط ح:۵۹۴۱)
وضین بن عطاء ثقۃ (مسند ا لشامیین :۶۴۷)
ا بوخراسان البغدادی کان ثقۃ (الاوسط ح:۲۰۳۷)
ابو شیبہ یحیی بن عبدالرحمن الکندی ثقۃ (مسند الشامیین قبل ح:۲۵۵۶)
ا بومحمد الثقفی ثقۃ (الاوسط ح:۱۳۲۷)
ابن جوصا :وکان من ثقات المسلمین و جلتھم۔( الصغیربعد ح:۱۷۶)
ابن زید ثقۃ (الاوسط ح:۲۰۳۶)
بنت عثمان بن ابی العاص ثقۃ (الکبیر:ج۹ص۴۳)
 
Top