مقلدین اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس چیز کو حدیث سے ثابت کرو کہ امام اللہ اکبر زور سے کہے جب کہ مقتدی آھستہ۔
اس چیز کی دلیل چاہیئے!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عن جابر، قال: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلينا وراءه وهو قاعد، وأبو بكر يسمع الناس تكبيره، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ » صحیح مسلم ،۴۱۳
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ہم (یعنی صحابہ )نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ان کی بیماری میں اس طرح نماز پڑھی کہ نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے امامت کروا رہے تھے ،اور جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کی تکبیر لوگوں کو سنا رہے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی سیدنا ابو بکر پیغمبر اکرم ﷺ سے تکبیر سن کر خود بھی بآواز بلند تکبیر کہہ رہے تھے ،اس حدیث میں امام کا بآواز بلند تکبیر کہنا تو ظاہر ہے
اور مقتدیوں کا جہری نہ کہنا یوں ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے علاوہ صرف ابو بکر کا بلند کہنا بیان کیا گیا ہے ،یعنی باقی لوگ جہراً تکبیر نہیں کہہ رہے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے :
عن انس بن مالك انه قال: خر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فرس فجحش فصلى لنا قاعدا فصلينا معه قعودا ثم انصرف فقال:"إنما الإمام او إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا")صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 733 )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو۔انتہی
اس حدیث شریف میں مقتدیوں کو حکم دیا ہے کہ نماز باجماعت میں تم تکبیر اس وقت کہو جب امام تکبیر کہے
اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد»کہو ،
اور اس حکم پر عمل کی ایک ہی صورت ہے
کہ امام جہراً تکبیر کہے ،