کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کا علمی وتحقيقی جائزه
ازقلم......أبو عبد الرحمان محمد رفيق الطاهر
بسم الرحمن الرحیم
مقتدی امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا یا نہیں یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں اکثر لوگ الجھتے ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو حق بات کا علم نہیں اور وہ اپنے باطل نظریہ کو ہی بزعم خود حق سمجھے بیٹھے ہیں، کل حزب بما لديهم فرحون
تو ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں سبب اختلاف کو سمجھا جائے اور حق بات کا تعین کیا جائے تاکہ ''صلوا کما رأيتمونی أصلی''(ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو)(بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم۶۰۰۸) کے اصول کے مطابق ہم بھی اقامۃ صلاۃ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
اختلاف کا سبب:۔
سبب اختلاف انس بن مالک ؓ والی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے کتاب الآذان باب انما جعل الامام لئوتم بہ (۷۸۹)اور امام مسلم نے کتاب الصلاۃ، باب ائتمام المأموم بالامام (۴۱۱)میں نقل فرمایا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:
" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا ، فصرع عنه فجحش شقه الأيمن ، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد ، فصلينا وراءه قعودا ، فلما انصرف قال : " إنما جعل الإمام ليؤتم به ، فإذا صلى قائما ، فصلوا قياما ، فإذا ركع ، فاركعوا وإذا رفع ، فارفعوا ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، فقولوا : ربنا ولك الحمد………الحدیث
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس گر گئے جس کے نتیجے میں آپ ﷺ کا دائیاں حصہ زخمی ہوگیا۔ تو آپ ﷺ نے نمازوں میں کوئی ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی تو ہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یقیناً امام صرف اقتداء کیے جانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ لہٰذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اُٹھالے تو تم رکوع سے سر کو اُٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو…الخ
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں مقتدی کو تسمیع ( یعنی سمع اللہ لمن حمدہ) سے روکنے والی کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تو مقتدی کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے امام کی اقتداء کرے اور امام سے سبقت نہ لے جائے اور یہ کہ وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہہ لینے کے بعد ربنا لک الحمد کہے اور مقتدی کو تسمیع سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا ذکر تک بھی نہیں فرمایا اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر ، عدم ثبوت کو مستلزم نہیں-
محمدبن عمر بن حسین الرزای المحصول فی علم الاصول ۲۳۱/۶ میں فرماتے ہیں:
"دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے عدم ِدلیل ِثبوت کو دلیل ِ عدم بنالیا ہے تو کیا آپ عدم ِدلیل ِعدم کو دلیل ِثبوت بنائیں گے یا نہیں؟ اگر وہ انکار کردے تو اس نے اپنی ہی کلام میں تناقض پیدا کرلیا ہے ۔ کیونکہ دلیلِ ثبوت کی ثبوت کی طرف نسبت دلیلِ عدم کی عدم کی طرف نسبت کی طرح ہے۔ تواگر عدم ِ دلیلِ ثبوت سے عدم ثبوت لازم آئے تو عدم دلیل عدم سے عدم عدم لازم آئے گا(اور عدم العدم وجود ہوتا ہے)اور اگر یہاں یہ لازم نہیں تو وہاں بھی لازم نہیں کیونکہ عقل میں ان دونوں کے مابین کوئی فرق نہیں۔اور اگر وہ اعتراف کرلے تو دو وجہوں سے محذور لازم آئے گا۔
1۔عدم دلیل عدم ، عدم عدم پر دلیل ہے اور عدم عدم، وجود ہے۔ تو یوں تو نص، قیاس اور اجماع کے علاوہ وجود پر ایک دلیل قائم ہوگئی لہٰذاحصر ٹوٹ گیا۔
2۔یہ کہ جب عدم دلیل عدم وجود کی دلیل ہے تو عدم عدم دلیل عدم کے بیان کے بغیر انتفاء وجود ہرگز لازم نہیں آتا اور عدم عدم وجود ہوتا ہے۔ تو اس وقت انتفائے وجود لازم نہیں آئے گا مگر وجود دلیل عدم سے۔ لیکن اگر آپ دلیل عدم ذکر کردیں تو آپ کا باقی مذکورہ بالا تمام دلائل سے چھٹکارہ ہو جائےگا۔ " انتھی
البتہ تسمیع کے مقتدی کے لیے مشروع ہونے کے کئی ایک دلائل موجود ہیں ان میں سے ایک حدیث عبداللہ بن عمر ؓ والی ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے وہ یوں ہے:
" أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، قال : " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم افتتح التكبير في الصلاة ، فرفع يديه حين يكبر حتى يجعلهما حذو منكبيه ، وإذا كبر للركوع فعل مثله ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، فعل مثله ، وقال : ربنا ولك الحمد ، ولا يفعل ذلك حين يسجد ، ولا حين يرفع رأسه من السجود " (بخاری، کتاب الاذان، باب الی این یر فع یدیہ۷۸۳)
عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے تکبیر کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا اور جب تکبیر کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اُٹھایا اور جب رکوع کیا تو پھر اسی طرح (ہاتھوں کوبلند)کیا اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو اسی طرح کیا اور ربنا ولک الحمد کہا اور یہ (ہاتھوں کو بلند کرنا) آپ ﷺ نے سجدوں میں جاتے اور اُٹھتے ہوئے نہ کرتے تھے۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ تسمیع و تحمید دونوں ہی کہا کرتے تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر تو امام ہوتے تھے اور آپﷺنے جبریل (۱)اور عبدالرحمن بن عوف ؓ(۲) کی اقتداء میں بھی نماز اداکی ہے۔ اور یہ حدیث مطلق ہونے کی وجہ سے امام، منفرد اور مقتدی تینوں کے لیے تسمیع و تحمید کہنے پر دلالت کرتی ہے۔
امام شوکانی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں: "جو اس بات کے قائل ہیں کہ تسمیع و تحمید کو ہر نمازی کہے گا وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ دعویٰ سے زیادہ خاص ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی امامت والی نماز کا بیان ہے جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ: "ایسے نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو" اس اختصاص کی نفی کرتا ہے کہ یہ امام کےلیے ہی خاص ہے (یعنی تسمیع و تحمید کو جمع کرنا) اور وہ اس بات سے بھی دلیل پکڑتے ہیں جس کوطحاوی اور ابن عبدالبر نے نقل کیا ہے کہ منفرد (تسمیع و تحمید کو) جمع کرےگا، اور طحاوی نے اسی بات کو امام کے تسبیح و تحمید کو جمع کرنے کےلیے بھی حجت بنایا ہے تو مقتدی بھی اس میں شامل ہوجائے گا، کیونکہ اصول یہ ہےکہ نماز میں جو کام مشروع ہے وہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) کےلیے برابر طور پر مشروع ہے،ہاں مگر شریعت جس کو مستثنیٰ کردے۔"(نیل الأوطار للشوکانی ، ۲۷۸/۲)
اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی رکوع سے سر اُٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور جب کہنے والا تسمیع سے فارغ ہوگاتو ساتھ ہی ربنا لک الحمد بھی کہے گا۔(کتاب الأم للشافعی، ۱۱۰/۱)
مذکورہ بالا دلیل میں یہ بات معلوم ہوئی کہ تسمیع و تحمید، امام، مأموم اور منفرد کےلیے مشروع ہیں ۔ رہا یہ سوال کہ اگر مقتدی تسمیع و تحمید (سمع اللہ لمن حمدہ)نہ کہے تو کیا حرج ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) میں سے جو کوئی بھی تسمیع کو ترک کرے گا اس کی نماز میں نقص (کمی) واقع ہوگا۔ جیسا کہ مسئی الصلاۃ والی حدیث میں ہے:
"فقال النبي صلى الله عليه وسلم : " إنه لا تتم صلاة لأحد من الناس حتى يتوضأ ، فيضع الوضوء - يعني مواضعه - ثم يكبر ، ويحمد الله جل وعز ، ويثني عليه ، ويقرأ بما تيسر من القرآن ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يركع حتى تطمئن مفاصله ، ثم يقول : سمع الله لمن حمده حتى يستوي قائما ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يسجد حتى تطمئن مفاصله ، ثم يقول : الله أكبر ، ويرفع رأسه حتى يستوي قاعدا ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يسجد حتى تطمئن مفاصله ، ثم يرفع رأسه فيكبر ، فإذا فعل ذلك فقد تمت صلاته "(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود ۸۵۶)
وفی روایۃ لہ:
فاذا فعلت فقد تمت صلاتک وما انتقص من هذا شيئا فانما انتقصته من صلاتک (حوالۃ سابقۃ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرلے اور پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے اور قرآن سے جو میسر آئے پڑھے ، پھر وہ اللہ اکبر کہے پھر رکوع کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آجائیں پھر وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے حتی کہ برابر طور پر (سیدھا ) کھڑا ہو جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آجائیں، پھراللہ اکبر کہے اور اپنے سر کو اٹھائے حتی کہ برابر ہو کر بیٹھ جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ مطمئن ہوجائیں پھر اپنے سر کو اٹھائے اور تکبیر کہے تو پس جب وہ یہ کام کرلے گا ، تب اس کی نماز مکمل ہوگی۔ ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا) پس جب تو یہ کرلے گا تو تیری نماز مکمل ہو گی اور ان میں سے تو جس کو بھی چھوڑے گا تو تیری نماز میں نقص رہ جائے گا۔"
امام ابن حزم الظاہری نے اسی حدیث کی روشنی میں ہی فرمایا ہے:
" رکوع کے بعد کا قیام قدرت پانے والے پر فرض ہے حتی کہ وہ اعتدال کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہنا رکوع سے اٹھتے ہوئے ہر نمازی پر فرض ہے خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، نماز کی تکمیل اس کے بغیر نہیں ہے۔(محلی ابن حزم ۲۵۵/۳)
اور ابن حزم کی بات بالکل درست ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہیں: "لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز مکمل نہیں" خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد ، مطلق طور پر نماز کی نفی فرمائی ہے۔ لہٰذا جب تک کوئی بھ سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہےگا اس کی نماز مکمل نہیں ہوگی اور پھر آخر میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا:
"وما انتقص من هذا شيئا فانما انتقصته من صلاتک"نماز کے ترک تسمیع کی بنا پر ناقص ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ جن چیزوں کو رسول اللہ ﷺ نے شمار کیا ہے تسمیع بھی ان میں شامل ہے۔
فقولوا ربنا ولک الحمد کا معنیٰ:۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اذا قال الامام سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لک الحمد" "جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو"
لہٰذا امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے کیونکہ یہ عبارت تقسیم کا تقاضا کرتی ہےکہ ایک عمل امام کےلیے ہے اور دوسرا مقتدی کےلیے۔
لیکن یہ قول باطل ہے کیونکہ اس حدیث میں امام کےلیے تحمید اور مقتدی کے لیے تسمیع کا ذکر ہی نہیں کہ امام تحمید اور مقتدی تسمیع نہ کہے اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
" ولا حجة لهم فيه لانه امر بان يقول اللهم ربنا لک الحمد ونحن نقوله فاما اذا قال معه غيره فليس بمذکور فی هذا الخبر" (مختصر خلافیات للبیہقی ۳۹۳/۱)
"ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں دلیل نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ربنا لک الحمد کہنے کا حکم دیا اور ہم یہ کہتے ہیں کہ لیکن جب امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمد ہ کوئی اور کہے ، یہ اس حدیث میں مذکور ہی نہیں ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس حدیث ( فقولوا ربنا لک الحمد) سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اما م ربنا لک الحمد نہ کہے اور مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے کیونکہ اس کا روایت میں ذکر ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ بات طحاوی نے نقل کی ہے اور امام مالکؒ اور ابو حنیفہؒ کا یہی مؤقف ہے ۔ لیکن یہ مؤقف محل نظر ہے کیونکہ اس روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نفی پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس حدیث میں تو یہ بات ہے کہ مقتدی کا ربنا لک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ہو۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ امام رکوع سے اُٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے اور مقتدی اُٹھنے کے بعد حالت اعتدال میں ربنا لک الحمد کہتا ہے۔ تو مقتدی کی تحمید امام کی تسمیع کے بعد ہی آتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں حکم ہے۔
اور یہ مسألہ بھی آمین والے مسألہ سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ : "اذاقال الامام ولاالضالين فقولوا آمين" (جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو) سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولاالضالین کے بعد آمین نہ کہے گا اور اس حدیث میں یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ امام آمین کہے ۔ جیسا کہ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ امام ربنا لک الحمد کہے۔ لیکن یہ دونوں باتیں (امام کا آمین وتحمیدکہنا ) دوسری صریح ،صحیح دلیلوں سے ثابت ہے……الخ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الاذان ، باب فضل ربنا لک الحمد ، ۲۸۳/۲)
تومعلوم ہو اکہ اس حدیث کا معنی یہی ہے کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد دونوں ہی کہے گا اسی طرح مقتدی و منفرد بھی ۔ تسمیع و تحمید کا کسی ایک فریق کے ساتھ مختص ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔
احناف میں بھی امام محمد ، قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کا یہ مؤقف ہے کہ امام تسمیع و تحمید دونوں کہے۔(عقود الجواہر المنیفۃ فی ادلۃ مذھب الامام ابی حنیفہ ، صفحہ ۶۳)
اسی طرح ملا علی قاریؒ نے شرح مسند ابی حنیفہ میں ذکر کیا ہے کہ : "شرح الاقطع میں ابو حنیفہؒ سے یہ بات مروی ہے کہ امام ومقتدی دونوں تسمیع و تحمید کہیں گے اور یہی شافعی کا مسلک ہے اور اسی کو ابو یوسف اور محمد نے اختیار کیا ہے جیسا کہ ابن مالک نے شرح المشارق میں ذکر کیا ہے۔"
اور حدیث مسئی الصلاۃ آپ پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے تسمیع کا ذکر فرمایا اور اس کے آغاز میں اتمام صلوٰۃ کو ان مذکورہ امور پر مقصود فرمایا اور بعد میں کسی ایک کے معدوم ہونے کو نماز کے ناقص ہونے کا سبب گردانا ہے۔ جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ترک تسمیع ہر ہر بندے کی نماز میں نقص کا سبب ہے خواہ وہ امام ہو ، مأموم ہو یامنفرد۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جن بڑی بڑی باتوں سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ فرمائیں کہ تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی حتی کہ وہ اس اس طرح کر لے یا یہ فرمائیں کہ اس اس طرھ کرو، تو کوئی کہنے والا یہ سب سننے کے بعد یہ کہتا پھر کہ نماز اس کے بغیر بھی مکمل ہوجاتی ہے ۔ ایسے بندے کی تقلید میں (یہ بات کہہ دے) جو کہ خطا پر ہے کیونکہ اس کوحدیث نہیں پہنچی یا پہنچی تو ہے مگر وہ رسول اللہﷺ کی مخالفت کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور اسی طرح باطل اور سنت سے کھیلنے والی بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ چند مذکورہ امور کے بارہ میں فرمائیں کہ نماز اس کے بغیر مکمل نہیں ہے تو کوئی کہنے والا اپنی طرف سے یہ کہتا پھرے کہ ان میں سے بعض امور تو ایسے ہیں کہ (جن کے بغیر نمازمکمل نہیں) اور بعض ایسے نہیں ہیں، اور اگر کوئی جھوٹا ان باتوں میں سے کسی پر اجماع کا دعوی کرے تو وہ ساری امت پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس نے ایسی بات کا دعوی کیا ہے جس کا اسے علم نہیں۔(المحلی بالآثار، ۲۵۸/۳)
حاصل بحث
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تسمیع و تحمید امام و مأموم و منفرد تینوں کے لیے لازمی و ضروری ہے اور دونوں میں سے کسی بھی چیز کا ترک تینوں کی نماز میں کمی پیدا کردیتا ہے۔اوار جو مقتدی کو تسمیع نہ کہنے کا فتویٰ دیتا ہے اس نے پاس فقولوا ربنا لک الحمد والی حدیث کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ دلیل بھی ان کے دعویٰ کو ثابت نہیں کرتی ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقتدی کو "تحمید" کا حکم تو دیا ہے لیکن " تسمیع " سے منع نہیں فرمایا۔ اور اصول کی دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے مقتدی کےلیے ترک تسمیع پر استدلال کرنا باطل ہے۔ جبکہ دیگر روایات سے مقتدی کےلیے تحمید و تسمیع کہنا ثابت ہے۔