جناب نے تو اپنی پوسٹوں میں پہلے اسے حدیث رسول ظاہر کیا تھا اب اسے حضرت ابوہریرہ کا قول ک رہے ہیں آپ یہ باتئیں کہ واجب کس دلیل سے ثابت ہوتا ہے؟کیا حضرت ابو ہریرہ راضی الله کا یہ قول احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے -
جناب نے تو اپنی پوسٹوں میں پہلے اسے حدیث رسول ظاہر کیا تھا اب اسے حضرت ابوہریرہ کا قول ک رہے ہیں آپ یہ باتئیں کہ واجب کس دلیل سے ثابت ہوتا ہے؟کیا حضرت ابو ہریرہ راضی الله کا یہ قول احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے -
الحمد للہ:سورہ فاتحہ لازمی ہے ہر رکت میں اس کے بنا نماز نی ہوتی ہے یہ بات سہی ہے میں اس کو منتا ہوں ۔۔۔۔میرا سوال ہے کے جب امام قرات کرتا ہے تب تو ہم پڑه نی سکتے کیوں کے قرآن کو خاموشی سے سننا ہے یہ بهی لازمی عمل ہے ۔۔۔تو سورہ فاتحہ کا کون سا وقت ہے وہ کب ادا کی جاے امام کے پیچهے۔۔۔۔
نا تم ہمیں صدمے دیتے نا ہم یو فریاد کرتے نا کھلتے راز سربستہ نا یہ رسوایاں ہوتی.۔۔یہ شعر مد نظر رکھیں یہ جناب کی حالت کی عکاسی کر رہا ہے اور ائندہ قلم کو احتیاط سے چلائیں اگر میں کچھ لکھنے پر آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا پختہ شعور سے بھرے بیٹھے ہو
اک ذہنی فتور سے بھرے بیٹھے ہو
خالی ہیں کمالِ علم وفن سے حضرت
جہل کے غرور سے بھرے بیٹھے ہو
یہ حدیث شریف ترجمہ کے ساتھ :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ
یہ حدیث شریف ترجمہ کے ساتھ :
’’
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } قَالَ اللَّهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ { الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ { مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ { إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ } قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ{ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ. ‘‘
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے نماز میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ الفاتحہ پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا یہ قول فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی ہے اور میرا بندہ جو سوال کرتا ہے وہ پورا کیا جاتا ہے۔ جب بندہ الحمدللہ ربّ العالمین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور (نمازی) جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی اور (نمازی) جب مالک یوم الدّین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور یوں بھی کہتا ہے کہ میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے ہیں اور (نمازی) جب ایّاک نعبد وایّاک نستعین پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کا درمیانی معاملہ ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا وہ اس کو ملے گا۔ پھر جب (نمازی) اپنی نماز میں اھدنا الصّراط المستقیم () صراط الّذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضّآلّین پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندے کے لئے ہے اور یہ جو کچھ طلب کر رہا ہے وہ اسے دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم الصلاۃ )