• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امانت رکھوانے والا اگر واپس نہ آئے

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک سوال یہ آیا ہے کہ

اگر ھمارے پاس کوئی امانت رکھوائے

اور جس نے امانت رکھوائی ھے وہ واپس نہ آئے ۔۔۔۔

ایک سال کے بعد وہ امانت ۔۔۔ امانت رکھنے والے کی ھو جائے گی ۔۔۔ ؟؟؟؟ کیا اس کی کوئی مدت ہے؟

اگر وہ سال بعد لینے آ جائے امانت کو
تو کیا اسے اسکی امانت دی جائے گی یا نھی ؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امانت کی ادائیگی کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے، امانت رکھوانے والے کو تلاش کرنا چاہیے۔
اگر رابطہ منقطع ہوجائے، اور تھوڑے یا زیادہ عرصہ کے بعد وہ امانت کا مطالبہ کرے، تو یہ اس کا حق ہے۔
سعودی فتوی کمیٹی وغیرہ علماء نے اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔
لنک
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک سال کے بعد وہ امانت ۔۔۔ امانت رکھنے والے کی ھو جائے گی ۔۔۔ ؟؟؟؟ کیا اس کی کوئی مدت ہے؟
میرے علم میں اس طرح کی کوئی بات نہیں۔
امانت جس کی ہو، اسی کی ہوتی ہے، چاہے جتنا مرضی عرصہ گزر جائے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امانت قرض کی طرح ہے ،مالک کو اس کی ادائیگی تک امانت کی حفاظت کرنا لازم ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح قرض کی واپسی تک قرض ،مقروض کے ذمہ باقی رہتا ہے ،
امانت کی ادائیگی اور حفاظت کب تک لازم و واجب ہے اس پر درج ذیل فتاوی دیکھئے :

السؤال الرابع من الفتوى رقم (9864)
السؤال: ادخر شخص عندي ماله ومات فجأة، ولا أعرف أهله ولا وارث له، ماذا أفعل بماله؟
الجواب: إذا لم تجد للمودع الذي توفي وارثا بعد البحث والسؤال والتقصي فتصدق بالمال على الفقراء عن الميت، ثم إن خرج وارث بعد ذلك فأخبره بما صنعت، فإن رضي وإلا دفعت مالا بدلا عنه إليه، ويكون الأجر لك وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ترجمہ :
سوال :ایک شخص نے میرے پاس اپنا مال جمع رکھا، اور اچانک فوت ہو گیا، میں اس کے گھر والوں یا ورثاء کو نہیں جانتا ہوں، تو اس کے مال کا میں کیا کروں؟
جواب : جب آپ کی امانت رکھنے والے کی وفات ہوجانے پر تلاش، دریافت اور چھان بین کے باوجود اس کے ورثاء تک رسائی نہ ہو سکے، تو اس مال کو میت کی طرف سے فقراء پر صدقہ کر دیں، پھر اگر کوئی وارث نکل آئے، تو جو تم نے کیا اس کی اس کو اطلاع کردو، اگر وہ راضی ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ اسے مال کے بدلے میں مال دیدو، اور اجر تمہارے لئے ہوگا۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ،15/ 413 )
شیخ عبد اللہ بن غدیان (رکن ) شیخ عبدالرزاق عفیفی( نائب صدر ) شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ (صدر )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السؤال السادس من الفتوى رقم (7946)
س6: رجل كان صاحب له يأتيه ببيع وشراء في بعض الحاجات كالذهب والحلي، ثم ترك عنده شيئا منها أمانة ثم ذهب عنه، وبعد فترة من الزمن سمع أنه توفي، والآن لا يعرف له ورثة، فماذا يفعل بهذه الحاجات التي عنده؟ فهل أسلمها إلى بيت المال، أو أتصدق بها له؟ وإذا كان يجوز له بيعها، فهل يجوز له أن يأخذها بالثمن الذي تقر عليه بعد سومها على الناس؟
ج6: إذا تحقق وفاة من له أمانة عنده فيبذل وسعه في السؤال عن ورثته ومعرفته ورد الأمانة التي لمورثهم إليهم، فإذا تعذرت معرفتهم تصدق بها على نية صاحبها، ومتى تمكن من معرفتهم أخبرهم بما عمل، فإن أجازوه وإلا سلمها لهم، وتكون الصدقة عنه، ولا ينبغي له الشراء من نفسه للأمانة التي عنده؛ لأنه مظنة للتهمة، لكن إذا قدرت بثمن عن طريق لجنة من المحكمة الشرعية، ورغب أن يأخذها بما تقدره اللجنة من الثمن جاز ذلك. وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ترجمہ :
امانت رکھنے والے کی موت ہوگئی اور اس کے کسی وارث کا پتہ نہیں ہے
فتوی نمبر:7946
سوال : ایک شخص کے پاس اس کا دوست بعض چیزوں مثلا سونا اور زیورات کی خرید و فروخت کے لئے آیا کرتا تھا، پھر ایک مرتبہ اس کے پاس کوئی چیز امانت رکھی اور اس کے پاس سے چلا گیا، کچھـ عرصہ کے بعد اس نے سنا کہ وہ فوت ہو گیا ہے، اب وہ اس کے ورثاء کو نہیں جانتا ہے، تو وہ ان چيزوں کے ساتھـ کیا کرے جو اس کے پاس ہیں، تو کیا بیت المال کے سپرد کرے یا اس کی جانب سے صدقہ کر دے؟ اگر ان چیزوں کا بیچنا جائز ہو تو کیا وہ لوگوں سے ان کی قیمت لگا کر خود خرید سکتا ہے؟

جواب: جب یہ ثابت ہو جائے کہ جس کی امانت تھی وہ فوت ہو گیا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ اس کے ورثاء کا پتہ لگایا جائے، اور یہ امانت ان کے سپرد کی جائے، اگر تم ان کو تلاش نہ کرسکو تو امانت کے مالک کی نیت سے اس کو صدقہ کردو، اور جب بھی ان کے بارے میں خبر مل جائے تو انہیں واقعہ بتادو، اگر وہ راضی ہوگئے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ امانت ان کے سپرد کردو، اور وہ صدقہ تمہاری طرف سے ہوجائیگا، اور امانت کو خود خرید لینا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں تہمت کا گمان ہو سکتا ہے، لیکن اگر تم نے شرعی عدالت سے اس کی قیمت لگوائی اور پھر اس کی طے کردہ قیمت میں تم لینا چاہو تو لے سکتے ہو۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ،15/ 412 )
شیخ عبد اللہ بن غدیان (رکن ) شیخ عبداللہ قعود( نائب صدر ) شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ (صدر )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
 
Top